ہماری عدالتی تاریخ کا یادگار دن
بعض سینئر اینکر ڈاکٹر صاحب کو معافی مانگنے پر آمادہ کرتے رہے مگر ڈاکٹر صاحب عدالت کے باہر بھی ثابت قدم رہے۔
پاکستان کا یبوست زدہ،کرپٹ اور بیمار معاشرہ نہایت تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہا ہے اور تبدیلی کے اس عظیم الشان عمل کو تیز تر کرنے میں یہاں کی سپریم کورٹ کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پاناما کیس میں جے آئی ٹی کی تشکیل سے لیکر نوازشریف کی رخصتی تک کے واقعات نے عدالت عظمیٰ کو ملک کا سب سے باوقار ادارہ بنا دیا ہے۔ چنانچہ اب عوام کا اعتماد سپریم کورٹ پر فوج سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں رہا۔ اس کارخیر میں ویسے تو پاناما والے پانچوں ججوں نے خوب حصہ ڈالا مگر اس حوالے سے ہماری قومی تاریخ چیف جسٹس ثاقب نثار کو شاید کبھی فراموش نہ کر سکے۔
ڈاکٹر شاہد مسعود کا معروف ٹی وی شو ہوتا تو دلچسپ ہے مگر ڈاکٹر صاحب گزشتہ ڈیڑھ دو سو سال کی عرق ریزی کے باوجود صحافی نہیں بن سکے۔ آصف زرداری اور نواز لیگی کرپشن پر موصوف نے سیکڑوں پروگرام کرکے لاتعداد اہم انکشافات کیے گو کہ اس کا سہرا ان کے مخبر کے ہی سر ہے جس کا تعلق ایک اہم ادارے سے ہے مگر لوگ پچھلے 2 سالوں سے ڈاکٹر صاحب کو سچ مچ کا صحافی سمجھنے لگ گئے ہیں اور تو اور ڈاکٹر صاحب خود بھی اب اپنے آپ کو نہ صرف ایک دانشور بلکہ سچ مچ کا صحافی سمجھنے لگ گئے تھے مگر پھر اچانک پچھلے ہفتے ان کے اندر کا بچہ جاگ اٹھا جس کے ہاتھ میں کسی احمق نے اُسترا تھما رکھا ہے۔ یہ معصوم بچہ اس اُسترے کے ساتھ ہر آتے جاتے کی حجامت فی سبیل اللہ کرنے لگا اور پھر بدقسمتی سے اپنی بھی کر بیٹھا!
زینب قتل کیس کے ملزم عمران بارے ڈاکٹر صاحب نے جو لرزہ خیز انکشافات کیے ان میں سنسنی تو بہت تھی مگر صداقت کا فقدان رہا۔ الزامات نما انکشافات کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب شومئی قیمت سے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی توجہ خواہ مخواہ طلب کر بیٹھے۔ جسٹس صاحب نے فوراً توجہ دی اور فریقین کو بلا لیا۔ پہلے روز ڈاکٹر صاحب نے کافی آئیں بائیں شائیں کی مگر عدالت کو متاثر نہ کرسکے۔ نہ صرف یہ بلکہ اُلٹا پورے کا پورا میڈیا موصوف پر پل پڑا۔ پرانے ٹی وی اینکر تو ویسے ہی عام طور پر ڈاکٹر صاحب کے لتّے لیتے رہتے ہیں، نو آموز اینکروں نے بھی حسبِ توفیق ان پر ہاتھ سیدھا کرنا شروع کردیا۔
معاملے کی سنگینی کے سبب چیف جسٹس صاحب نے اتوار کی چھٹی کے باوجود یہاں لاہور رجسٹری میں عدالت لگالی۔ ان کی سربراہی میں دیگر دو جج صاحبان جسٹس اعجازالاحسن اورجسٹس منظور احمد ملک نے نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ ڈاکٹر شاہد مسعود کا قدرے طفلانہ نکتۂ نظر سنا۔موصوف ہمارے نہایت پیارے دوست ہونے کے باوجود ایک فقرہ بھی ایسا ادا نہ کرپائے کہ جس پر ہم داد دیتے ۔بلکہ ہم بار بار گھوریاں ڈال کر تنبیہ کرتے رہے کہ آپ کے غیر سنجیدہ روئیے سے عدالت کے بظاہر دوستانہ تیور بدلنے لگے ہیں۔
چیف جسٹس صاحب نے اپنی معاونت کے لیے تقریباً درجن بھر سینئر صحافی اور اینکر بھی عدالت میں مدعو کررکھے تھے۔ ہر ایک نے باری باری ڈائس پر آکر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ انتہائی دلچسپ اور صحتمند سلسلہ تھا۔ جج صاحبان کا عمومی موڈ نہایت عمدہ رہا مگر آخر میں زنیب کے والد کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل نے دو ایک تلخ باتیں کرکے پورے ماحول کو پریشان کن حد تک سنجیدہ کر ڈالا۔
ایک موقع پر عدالتِ عظمیٰ نے ڈاکٹر شاہد مسعود کو معافی کا موقع فراہم کرتے ہوئے دریافت کیا کہ کیا موصوف صدق دل سے معافی کے طلبگار ہیں؟ مگر یہ سن کر کھچا کھچ بھرا کمرئہ عدالت حیران رہ گیا جب ڈاکٹر شاہد مسعود نے بارِ دیگر اپنی بات کی بھرپور ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مقدمہ لڑنے کا اعلان فرمادیا۔ ڈاکٹر صاحب کا کیس کمزور ہے مگر ہم دعا گو ہیں کہ موصوف کہیں نہ کہیں سے تھوڑا بہت مسالہ ضرور حاصل کرلیں بصورتِ دیگر انہیں بیحد خوار ہونا پڑے گا۔
تاہم آج کی واحد بات جو ڈاکٹر شاہد مسعود کے حق میں جاتی محسوس ہوئی، وہ اس کیس میں جی آئی ٹی کی تشکیل نو تھی۔ چیف جسٹس صاحب نے ایف آئی اے والے بشیر میمن صاحب کو اس کا سربراہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ دیگر 2 ممبران کا انتخاب کرنے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔ اس لیے ڈاکٹر صاحب بے فکر رہیں کیونکہ اس معاملے میں حکومت پنجاب کو کُھل کھیلنے کی اجازت نہیں ملے گی۔
اس موقع پر آئی جی پنجاب بھی موجود تھے اور انہیں بھی سختی سے تنبیہ کی گئی کہ اگر ملزم عمران کو کچھ ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری اُن پر عائد ہو گی۔ بعض سینئر اینکر ڈاکٹر صاحب کو معافی مانگنے پر آمادہ کرتے رہے مگر انتہائی حیرت انگیزطور پر ڈاکٹر صاحب عدالت کے باہر بھی ثابت قدم رہے۔ اب اس ثابت قدمی کی وجہ کیا ہے، یہ تو ڈاکٹر صاحب ہی جانتے ہیں۔البتہ یہ بات طے ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے آج کے دن کو ہماری عدالتی تاریخ کا یادگار دن بنا ڈالا ہے!!
ڈاکٹر شاہد مسعود کا معروف ٹی وی شو ہوتا تو دلچسپ ہے مگر ڈاکٹر صاحب گزشتہ ڈیڑھ دو سو سال کی عرق ریزی کے باوجود صحافی نہیں بن سکے۔ آصف زرداری اور نواز لیگی کرپشن پر موصوف نے سیکڑوں پروگرام کرکے لاتعداد اہم انکشافات کیے گو کہ اس کا سہرا ان کے مخبر کے ہی سر ہے جس کا تعلق ایک اہم ادارے سے ہے مگر لوگ پچھلے 2 سالوں سے ڈاکٹر صاحب کو سچ مچ کا صحافی سمجھنے لگ گئے ہیں اور تو اور ڈاکٹر صاحب خود بھی اب اپنے آپ کو نہ صرف ایک دانشور بلکہ سچ مچ کا صحافی سمجھنے لگ گئے تھے مگر پھر اچانک پچھلے ہفتے ان کے اندر کا بچہ جاگ اٹھا جس کے ہاتھ میں کسی احمق نے اُسترا تھما رکھا ہے۔ یہ معصوم بچہ اس اُسترے کے ساتھ ہر آتے جاتے کی حجامت فی سبیل اللہ کرنے لگا اور پھر بدقسمتی سے اپنی بھی کر بیٹھا!
زینب قتل کیس کے ملزم عمران بارے ڈاکٹر صاحب نے جو لرزہ خیز انکشافات کیے ان میں سنسنی تو بہت تھی مگر صداقت کا فقدان رہا۔ الزامات نما انکشافات کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب شومئی قیمت سے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی توجہ خواہ مخواہ طلب کر بیٹھے۔ جسٹس صاحب نے فوراً توجہ دی اور فریقین کو بلا لیا۔ پہلے روز ڈاکٹر صاحب نے کافی آئیں بائیں شائیں کی مگر عدالت کو متاثر نہ کرسکے۔ نہ صرف یہ بلکہ اُلٹا پورے کا پورا میڈیا موصوف پر پل پڑا۔ پرانے ٹی وی اینکر تو ویسے ہی عام طور پر ڈاکٹر صاحب کے لتّے لیتے رہتے ہیں، نو آموز اینکروں نے بھی حسبِ توفیق ان پر ہاتھ سیدھا کرنا شروع کردیا۔
معاملے کی سنگینی کے سبب چیف جسٹس صاحب نے اتوار کی چھٹی کے باوجود یہاں لاہور رجسٹری میں عدالت لگالی۔ ان کی سربراہی میں دیگر دو جج صاحبان جسٹس اعجازالاحسن اورجسٹس منظور احمد ملک نے نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ ڈاکٹر شاہد مسعود کا قدرے طفلانہ نکتۂ نظر سنا۔موصوف ہمارے نہایت پیارے دوست ہونے کے باوجود ایک فقرہ بھی ایسا ادا نہ کرپائے کہ جس پر ہم داد دیتے ۔بلکہ ہم بار بار گھوریاں ڈال کر تنبیہ کرتے رہے کہ آپ کے غیر سنجیدہ روئیے سے عدالت کے بظاہر دوستانہ تیور بدلنے لگے ہیں۔
چیف جسٹس صاحب نے اپنی معاونت کے لیے تقریباً درجن بھر سینئر صحافی اور اینکر بھی عدالت میں مدعو کررکھے تھے۔ ہر ایک نے باری باری ڈائس پر آکر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ انتہائی دلچسپ اور صحتمند سلسلہ تھا۔ جج صاحبان کا عمومی موڈ نہایت عمدہ رہا مگر آخر میں زنیب کے والد کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل نے دو ایک تلخ باتیں کرکے پورے ماحول کو پریشان کن حد تک سنجیدہ کر ڈالا۔
ایک موقع پر عدالتِ عظمیٰ نے ڈاکٹر شاہد مسعود کو معافی کا موقع فراہم کرتے ہوئے دریافت کیا کہ کیا موصوف صدق دل سے معافی کے طلبگار ہیں؟ مگر یہ سن کر کھچا کھچ بھرا کمرئہ عدالت حیران رہ گیا جب ڈاکٹر شاہد مسعود نے بارِ دیگر اپنی بات کی بھرپور ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مقدمہ لڑنے کا اعلان فرمادیا۔ ڈاکٹر صاحب کا کیس کمزور ہے مگر ہم دعا گو ہیں کہ موصوف کہیں نہ کہیں سے تھوڑا بہت مسالہ ضرور حاصل کرلیں بصورتِ دیگر انہیں بیحد خوار ہونا پڑے گا۔
تاہم آج کی واحد بات جو ڈاکٹر شاہد مسعود کے حق میں جاتی محسوس ہوئی، وہ اس کیس میں جی آئی ٹی کی تشکیل نو تھی۔ چیف جسٹس صاحب نے ایف آئی اے والے بشیر میمن صاحب کو اس کا سربراہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ دیگر 2 ممبران کا انتخاب کرنے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔ اس لیے ڈاکٹر صاحب بے فکر رہیں کیونکہ اس معاملے میں حکومت پنجاب کو کُھل کھیلنے کی اجازت نہیں ملے گی۔
اس موقع پر آئی جی پنجاب بھی موجود تھے اور انہیں بھی سختی سے تنبیہ کی گئی کہ اگر ملزم عمران کو کچھ ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری اُن پر عائد ہو گی۔ بعض سینئر اینکر ڈاکٹر صاحب کو معافی مانگنے پر آمادہ کرتے رہے مگر انتہائی حیرت انگیزطور پر ڈاکٹر صاحب عدالت کے باہر بھی ثابت قدم رہے۔ اب اس ثابت قدمی کی وجہ کیا ہے، یہ تو ڈاکٹر صاحب ہی جانتے ہیں۔البتہ یہ بات طے ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے آج کے دن کو ہماری عدالتی تاریخ کا یادگار دن بنا ڈالا ہے!!