وحشتوں کا مارا معاشرہ
پولیس مقابلے ہوں، یا سیاسی کارکنوں کا غائب کیا جانا، یہ سب غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات ہیں۔
کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ بات کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں۔ مسئلہ ایک ہو تو بات کرنا آسان ہوتا ہے۔ مسائل زیادہ ہوں تو ترجیحات کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جب مسائل کا انبار لگا ہو اور جو ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہوں، تو پھر ترجیحات بھی بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔
ایک ایسا معاشرہ جو حکمران اشرافیہ کی بے بصیرتی اور بے اعتنائی، علما اور اہل دانش کی کوتاہ بینی اور انتظامی اداروں کی نااہلی، کرپشن اور بدعنوانی کے باعث ذہنی تشنج، اخلاقی گراوٹ اور سماجی انتشار کا شکار ہوکر زوال آمادگی کی آخری حدود کو چھو رہا ہو، اس میں بہتری کے امکانات وقت گزرنے کے ساتھ محدود ہوتے چلے جاتے ہیں۔
ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ اگر جنم لینے والے کسی مسئلہ کو فوری طور پر سیاسی عزم کے ساتھ حل نہ کیا جائے تو یہ بحرانی شکل اختیار کرکے نئے مسائل کو جنم دینے کا باعث بن جاتا ہے۔ پاکستان میں روزاول سے یہی کچھ ہوتا رہا ہے کہ جنم لینے والے مسائل کو مسلسل ٹالنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ جس کی وجہ سے مسائل الجھتے چلے گئے ہیں۔ نتیجتاً وطن عزیز ایک ایسے جنگل میں تبدیل ہوتا چلا گیا، جس میں کمزور کے لیے جینے کی گنجائش مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔ کیونکہ یہ ملک ایک ایسے معاشرے میں تبدیل ہوچکا ہے، جہاں نہ قانون کی بالادستی ہے، نہ ہی اس پر عمل درآمد کا کوئی واضح میکنزم۔
آج ملک میں جو کچھ یہاں ہورہا ہے، وہ حکمران اشرافیہ کی ستر برس سے جاری غلط حکمت عملیوں کا شاخسانہ ہے۔ ویسے تو سبھی انتظامی ادارے، نااہلی اور بدعنوانی کے باعث ناقص کارکردگی کی مثال بن چکے ہیں۔ لیکن پولیس کا حال بد سے بدتر کردیا گیا ہے۔ جسے طاقتور سیاسی وانتظامی حلقوں نے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر شتر بے مہار بنادیا ہے۔
اسے اس حد تک سیاسی (Politicise) کردیا گیا ہے کہ اپنی ادارہ جاتی حدود سے تجاوز کرنا معمولی بات بن کررہ گیا ہے۔ وہ فیوڈل سیاستدان جو کل تک اپنے انتخابی حلقوں میں پولیس کو مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے، اب بڑے شہروں میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے پولیس کو استعمال کررہے ہیں جب ان کے اس اقدام کی آئینی بنیادوں پر مخالفت کی جائے تو نسلی ولسانی عصبیتیں پھیلا کر عوام کے ایک مخصوص حلقے کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جب پولیس ذاتی مفادات کے لیے استعمال ہوتی ہے، تو نہ صرف جرائم پیشہ افراد کو بھی گل کھلانے کی کھلی چھٹی مل جاتی ہے، بلکہ اس میں جرائم پیشہ افراد کو گھس آنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ اس لیے پولیس مقابلوں کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہوگیا ہے۔
آئین پاکستان پولیس مقابلوں کی اجازت نہیں دیتا۔ پولیس کی ذمے داری ہے کہ وہ چھوٹے یا بڑے جرم میں ملوث فرد کو حراست میں لے کر 24 گھنٹوں کے اندر عدالت میں پیش کرکے ریمانڈ حاصل کرے۔ ریمانڈ کا مقصد جرم کے بارے میں مفصل تفتیش ہے۔ ریمانڈ 7 روز کے لیے ہوتا ہے، جس میں عدالت مزید 7 روز کا اضافہ کرسکتی ہے۔ پولیس کو ملزمان پر صرف اسی وقت گولی چلانے کا اختیار ہے، جب خود اس پر حملہ کیا جائے۔
پاکستان میں پولیس مقابلے کا کلچر سابقہ مغربی پاکستان کے گورنر ملک امیر محمد خان مرحوم نے متعارف کرایا۔ انھوں نے پنجاب میں طاقتور مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائی کے لیے پولیس مقابلوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ان پولیس مقابلوں کی وجہ سے ملک صاحب مرحوم کی پورے ملک میں دھاک بیٹھ گئی۔ جب ان کے ایوب خان سے اختلافات ہوئے اور انھیں گورنری سے سبکدوش کرکے ان کی جگہ جنرل (ر) موسیٰ خان کو گورنر مقرر کیا گیا، تو انھوں نے ملک صاحب مرحوم کے پروردہ بدنام عناصر سے معاشرے کو پاک کرنے کے نام پر نئے پولیس مقابلے شروع کرادیے۔ یوں پولیس مقابلے انتظامی کلچر کی شکل اختیار کرگئے۔
سندھ میں پولیس مقابلے جنرل ضیا کے دور میں شروع ہوئے۔ جب اندرون صوبہ ڈاکوؤں کو ختم کرنے کے لیے پولیس کے اختیارات میں بے پناہ اضافہ کیا گیا۔ کچے کے علاقوں میں پولیس کارروائیوں سے پولیس مقابلوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان پولیس مقابلوں کے بارے میں چند مہینوں کے اندر ہی شکوک و شبہات پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ کیونکہ بعض پولیس مقابلے سیاسی مقاصد کی شکل اختیار کرگئے تھے۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ بیشتر ڈکیت بااثر زمینداروں کے پروردہ ہیں، جنھیں وہ اپنے حریفوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں، جب کہ پولیس ایک بااثر زمیندار کی خواہش پر دوسرے زمیندار کے لوگوں کو مارتی ہے۔
اربن سندھ میں پولیس مقابلوں کا سلسلہ 1993ء میں اس وقت کے وزیر داخلہ نصیراﷲ بابر مرحوم نے شروع کرایا۔ 1993ء سے 1997ء کے دوران دو طرح کے واقعات زیادہ سرعت کے ساتھ سامنے آئے۔ ایک نام نہاد پولیس مقابلہ، جس میں کسی علاقے کو گھیر کر سیاسی کارکنوں کو قتل کرکے اسے پولیس مقابلے کا نام دینا۔
دوسرے کارکنوں کو پہلے اٹھا کر انھیں قتل کرنے کے بعد لاش کا کسی ویرانے میں پھینک دیا جانا۔ لیکن ایسے شواہد سامنے نہیں آئے کہ ان کارکنوں نے کسی بھی موقع پر پولیس کے ساتھ اسلحہ کے زور پر مقابلہ کیا ہو۔ اس کا ثبوت وہ دستاویز یا فرد جرم ہے، جس کو بنیاد بناکر نومبر 1996ء میں اس وقت کے صدر مملکت فاروق لغاری نے محترمہ کی دوسری حکومت کو 58(2)B کے تحت برطرف کیا تھا۔ اس دستاویز میں دیگر الزامات کے ساتھ سیاسی کارکنوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں مارے جانے کا الزام بھی شامل تھا۔
ستمبر 2013ء سے اس جماعت کے خلاف تیسرا آپریشن شروع ہوا۔ اس مرتبہ ایک بار پھر سیاسی کارکنوں کو اٹھائے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہزاروں کارکنوں کو مختلف الزامات کے تحت اٹھایا گیا۔ جن پر زیر حراست تشدد کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ اس دوران جو کارکنان جاں بحق ہوئے، ان کی لاشیں ایک بار پھر ویرانوں اور سڑک کنارے ملنا شروع ہوگئیں۔ بیشتر نوجوان کئی برس گزر جانے کے باوجود ہنوز غائب ہیں۔ اس دوران ہزاروں کی تعداد میں جو سیاسی کارکنان گرفتار کیے گئے، ان میں سے ایک فیصد پر بھی کسی سنگین جرم میں ملوث ہونے کے شواہد نہیں مل سکے۔ مگر اس کے باوجود انھیں رہا نہیں کیا جارہا۔
یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ منشیات فروشوں اور مذہبی شدت پسند عناصر نے تو کئی مواقع پر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی ٹیموں پر حملہ کیا۔ لیکن ان ساڑھے چار برسوں کے دوران سیاسی کارکنوں کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کسی ٹیم پر حملہ کرنے کے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے۔ جب کہ شہری سندھ کی مقبول جماعت کے خلاف میڈیا ٹرائل کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ خاص طور پر لاہور اور اسلام آباد کے اینکرز آج بھی اربن سندھ کی نمایندہ سیاسی جماعت کے بارے میں جب بھی موقع ملتا ہے، منفی پروپیگنڈا کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
عرض یہ ہے کہ پولیس مقابلے ہوں، یا سیاسی کارکنوں کا غائب کیا جانا، یہ سب غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات ہیں۔ مختلف جرائم میں ملوث افراد کو کسی شکایت یا اطلاع پر گرفتار کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اولین ذمے داری ہے۔ لیکن انھیں کسی ماورائے عدالت اقدامات کی اجازت نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر کسی شخص پر ملک دشمن قوتوں سے رابطے یا ملک کے راز دشمن ممالک کو مہیا کرنے کا الزام ہو، تب بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ازخود کوئی کارروائی کرنے کا حق نہیں۔ بلکہ ملنے والے تمام ثبوت اور شواہد عدالت میں پیش کیے جانے چاہئیں۔
عدلیہ ہی یہ فیصلہ کرنے کی مجاز ہے کہ اس شخص سے ملک دشمنی سرزد ہوئی ہے یا نہیں۔ یاد رکھیے ماورائے عدالت اقدامات اور میڈیا ٹرائل ملک اور عوام کی خدمت نہیں بلکہ شہریوں کے مختلف حلقوں اور طبقات کے درمیان نفرتوں کو پروان چڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔ اس عمل سے جس قدر گریز کیا جاتا ہے، ملک کے وسیع تر مفاد میں اتنا ہی بہتر ہوتا ہے۔
ایک ایسا معاشرہ جو حکمران اشرافیہ کی بے بصیرتی اور بے اعتنائی، علما اور اہل دانش کی کوتاہ بینی اور انتظامی اداروں کی نااہلی، کرپشن اور بدعنوانی کے باعث ذہنی تشنج، اخلاقی گراوٹ اور سماجی انتشار کا شکار ہوکر زوال آمادگی کی آخری حدود کو چھو رہا ہو، اس میں بہتری کے امکانات وقت گزرنے کے ساتھ محدود ہوتے چلے جاتے ہیں۔
ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ اگر جنم لینے والے کسی مسئلہ کو فوری طور پر سیاسی عزم کے ساتھ حل نہ کیا جائے تو یہ بحرانی شکل اختیار کرکے نئے مسائل کو جنم دینے کا باعث بن جاتا ہے۔ پاکستان میں روزاول سے یہی کچھ ہوتا رہا ہے کہ جنم لینے والے مسائل کو مسلسل ٹالنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ جس کی وجہ سے مسائل الجھتے چلے گئے ہیں۔ نتیجتاً وطن عزیز ایک ایسے جنگل میں تبدیل ہوتا چلا گیا، جس میں کمزور کے لیے جینے کی گنجائش مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔ کیونکہ یہ ملک ایک ایسے معاشرے میں تبدیل ہوچکا ہے، جہاں نہ قانون کی بالادستی ہے، نہ ہی اس پر عمل درآمد کا کوئی واضح میکنزم۔
آج ملک میں جو کچھ یہاں ہورہا ہے، وہ حکمران اشرافیہ کی ستر برس سے جاری غلط حکمت عملیوں کا شاخسانہ ہے۔ ویسے تو سبھی انتظامی ادارے، نااہلی اور بدعنوانی کے باعث ناقص کارکردگی کی مثال بن چکے ہیں۔ لیکن پولیس کا حال بد سے بدتر کردیا گیا ہے۔ جسے طاقتور سیاسی وانتظامی حلقوں نے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر شتر بے مہار بنادیا ہے۔
اسے اس حد تک سیاسی (Politicise) کردیا گیا ہے کہ اپنی ادارہ جاتی حدود سے تجاوز کرنا معمولی بات بن کررہ گیا ہے۔ وہ فیوڈل سیاستدان جو کل تک اپنے انتخابی حلقوں میں پولیس کو مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے، اب بڑے شہروں میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے پولیس کو استعمال کررہے ہیں جب ان کے اس اقدام کی آئینی بنیادوں پر مخالفت کی جائے تو نسلی ولسانی عصبیتیں پھیلا کر عوام کے ایک مخصوص حلقے کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جب پولیس ذاتی مفادات کے لیے استعمال ہوتی ہے، تو نہ صرف جرائم پیشہ افراد کو بھی گل کھلانے کی کھلی چھٹی مل جاتی ہے، بلکہ اس میں جرائم پیشہ افراد کو گھس آنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ اس لیے پولیس مقابلوں کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہوگیا ہے۔
آئین پاکستان پولیس مقابلوں کی اجازت نہیں دیتا۔ پولیس کی ذمے داری ہے کہ وہ چھوٹے یا بڑے جرم میں ملوث فرد کو حراست میں لے کر 24 گھنٹوں کے اندر عدالت میں پیش کرکے ریمانڈ حاصل کرے۔ ریمانڈ کا مقصد جرم کے بارے میں مفصل تفتیش ہے۔ ریمانڈ 7 روز کے لیے ہوتا ہے، جس میں عدالت مزید 7 روز کا اضافہ کرسکتی ہے۔ پولیس کو ملزمان پر صرف اسی وقت گولی چلانے کا اختیار ہے، جب خود اس پر حملہ کیا جائے۔
پاکستان میں پولیس مقابلے کا کلچر سابقہ مغربی پاکستان کے گورنر ملک امیر محمد خان مرحوم نے متعارف کرایا۔ انھوں نے پنجاب میں طاقتور مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائی کے لیے پولیس مقابلوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ان پولیس مقابلوں کی وجہ سے ملک صاحب مرحوم کی پورے ملک میں دھاک بیٹھ گئی۔ جب ان کے ایوب خان سے اختلافات ہوئے اور انھیں گورنری سے سبکدوش کرکے ان کی جگہ جنرل (ر) موسیٰ خان کو گورنر مقرر کیا گیا، تو انھوں نے ملک صاحب مرحوم کے پروردہ بدنام عناصر سے معاشرے کو پاک کرنے کے نام پر نئے پولیس مقابلے شروع کرادیے۔ یوں پولیس مقابلے انتظامی کلچر کی شکل اختیار کرگئے۔
سندھ میں پولیس مقابلے جنرل ضیا کے دور میں شروع ہوئے۔ جب اندرون صوبہ ڈاکوؤں کو ختم کرنے کے لیے پولیس کے اختیارات میں بے پناہ اضافہ کیا گیا۔ کچے کے علاقوں میں پولیس کارروائیوں سے پولیس مقابلوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان پولیس مقابلوں کے بارے میں چند مہینوں کے اندر ہی شکوک و شبہات پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ کیونکہ بعض پولیس مقابلے سیاسی مقاصد کی شکل اختیار کرگئے تھے۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ بیشتر ڈکیت بااثر زمینداروں کے پروردہ ہیں، جنھیں وہ اپنے حریفوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں، جب کہ پولیس ایک بااثر زمیندار کی خواہش پر دوسرے زمیندار کے لوگوں کو مارتی ہے۔
اربن سندھ میں پولیس مقابلوں کا سلسلہ 1993ء میں اس وقت کے وزیر داخلہ نصیراﷲ بابر مرحوم نے شروع کرایا۔ 1993ء سے 1997ء کے دوران دو طرح کے واقعات زیادہ سرعت کے ساتھ سامنے آئے۔ ایک نام نہاد پولیس مقابلہ، جس میں کسی علاقے کو گھیر کر سیاسی کارکنوں کو قتل کرکے اسے پولیس مقابلے کا نام دینا۔
دوسرے کارکنوں کو پہلے اٹھا کر انھیں قتل کرنے کے بعد لاش کا کسی ویرانے میں پھینک دیا جانا۔ لیکن ایسے شواہد سامنے نہیں آئے کہ ان کارکنوں نے کسی بھی موقع پر پولیس کے ساتھ اسلحہ کے زور پر مقابلہ کیا ہو۔ اس کا ثبوت وہ دستاویز یا فرد جرم ہے، جس کو بنیاد بناکر نومبر 1996ء میں اس وقت کے صدر مملکت فاروق لغاری نے محترمہ کی دوسری حکومت کو 58(2)B کے تحت برطرف کیا تھا۔ اس دستاویز میں دیگر الزامات کے ساتھ سیاسی کارکنوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں مارے جانے کا الزام بھی شامل تھا۔
ستمبر 2013ء سے اس جماعت کے خلاف تیسرا آپریشن شروع ہوا۔ اس مرتبہ ایک بار پھر سیاسی کارکنوں کو اٹھائے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہزاروں کارکنوں کو مختلف الزامات کے تحت اٹھایا گیا۔ جن پر زیر حراست تشدد کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ اس دوران جو کارکنان جاں بحق ہوئے، ان کی لاشیں ایک بار پھر ویرانوں اور سڑک کنارے ملنا شروع ہوگئیں۔ بیشتر نوجوان کئی برس گزر جانے کے باوجود ہنوز غائب ہیں۔ اس دوران ہزاروں کی تعداد میں جو سیاسی کارکنان گرفتار کیے گئے، ان میں سے ایک فیصد پر بھی کسی سنگین جرم میں ملوث ہونے کے شواہد نہیں مل سکے۔ مگر اس کے باوجود انھیں رہا نہیں کیا جارہا۔
یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ منشیات فروشوں اور مذہبی شدت پسند عناصر نے تو کئی مواقع پر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی ٹیموں پر حملہ کیا۔ لیکن ان ساڑھے چار برسوں کے دوران سیاسی کارکنوں کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کسی ٹیم پر حملہ کرنے کے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے۔ جب کہ شہری سندھ کی مقبول جماعت کے خلاف میڈیا ٹرائل کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ خاص طور پر لاہور اور اسلام آباد کے اینکرز آج بھی اربن سندھ کی نمایندہ سیاسی جماعت کے بارے میں جب بھی موقع ملتا ہے، منفی پروپیگنڈا کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
عرض یہ ہے کہ پولیس مقابلے ہوں، یا سیاسی کارکنوں کا غائب کیا جانا، یہ سب غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات ہیں۔ مختلف جرائم میں ملوث افراد کو کسی شکایت یا اطلاع پر گرفتار کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اولین ذمے داری ہے۔ لیکن انھیں کسی ماورائے عدالت اقدامات کی اجازت نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر کسی شخص پر ملک دشمن قوتوں سے رابطے یا ملک کے راز دشمن ممالک کو مہیا کرنے کا الزام ہو، تب بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ازخود کوئی کارروائی کرنے کا حق نہیں۔ بلکہ ملنے والے تمام ثبوت اور شواہد عدالت میں پیش کیے جانے چاہئیں۔
عدلیہ ہی یہ فیصلہ کرنے کی مجاز ہے کہ اس شخص سے ملک دشمنی سرزد ہوئی ہے یا نہیں۔ یاد رکھیے ماورائے عدالت اقدامات اور میڈیا ٹرائل ملک اور عوام کی خدمت نہیں بلکہ شہریوں کے مختلف حلقوں اور طبقات کے درمیان نفرتوں کو پروان چڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔ اس عمل سے جس قدر گریز کیا جاتا ہے، ملک کے وسیع تر مفاد میں اتنا ہی بہتر ہوتا ہے۔