زرد صحافت کی اور ایک بدترین مثال

شاہد مسعود اکیلے ہی پروپیگنڈا پھیلانے کے فن میں ماہر نہیں، اس قبیلے میں لاتعداد پیراشوٹ اینکر و تجزیہ کار شامل ہیں


عماد ظفر January 29, 2018
زینب قتل کیس میں ڈاکٹر شاہد مسعود کے انکشافات نے نیا بھونچال پیدا کر دیا ہے۔ تصویر: انٹرنیٹ

سنسنی خیزی، ہیجان انگیزی اور مرچ مصالحے کے ساتھ خبریں اور کہانیاں ڈھونڈنے والے معاشرے میں ایک من گھڑت کہانی، ایک عقل و فہم کے منافی بات یا نظریہ بیچنا کس قدر آسان ہے؟ اس کا اندازہ آپ ڈاکٹر شاہد مسعود کے تازہ ترین بھونڈے اور مضحکہ خیز قسم کے خود ساختہ انکشافات سے اچھی طرح لگا سکتے ہیں۔ موصوف نے نہ صرف ٹی وی ٹاک شو کے دوران زینب کے مجرم عمران کو بین الاقوامی مافیا کا ممبر بنا ڈالا، بلکہ حکومت پنجاب کے ذمہ داروں کو بھی اس مافیا کا حصہ قرار دے ڈالا۔ نادرا کے بینک تصدیقی دستاویزات (ویری فیکیشن ڈاکیومنٹس) کے لاگز کو ڈاکٹر صاحب نے مجرم کے بینک اکاونٹ قرار دیتے ہوئے اس کے بینک اکاونٹ میں کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشنز کا بھی ڈھنڈورا پیٹ ڈالا۔

بات یہیں نہیں رکی، سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ معزز اعلیٰ عدلیہ نے اس بھونڈی زرد صحافت کو اہمیت دیتے ہوئے شاہد مسعود کو عدالت بھی طلب کر ڈالا اور ان سے اس ضمن میں ثبوت بھی مانگے اور ان افراد کے نام بھی جو ڈاکٹر صاحب کی خودساختہ گھڑی گئی کہانی کے مطابق بین الاقوامی مافیا کا حصہ اور مجرم عمران کے سرپرست اعلی تھے۔ اس کے بعد رہی سہی کسر بین الاقوامی میڈیا کی چند ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر سنسنی پھیلانے کے شوقین حضرات نے اس خبر کو جنگل میں آگ کی مانند پھیلا کر پوری کر دی۔

اس تمام صورتحال کے بعد سمجھ نہیں آرہی کہ اس پر ہنسا جائے یا رویا جائے۔ وطن عزیز میں کوئی بھی چورن فروش اٹھتا ہے اور اپنی مرضی کی ایک تخیلاتی کہانی پیش کرتا ہے اور عوام سمیت اعلی ادارے اس کے پروپیگنڈے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب نے کسی زمانے میں 35 پنکچرز کی ٹیپ والا مشہور شوشہ چھوڑا تھا لیکن عدالت میں وہ جھوٹ ثابت ہوا۔ ڈاکٹر صاحب گزشتہ ایک دہائی سے قیامت کی پیش گوئیوں کے ساتھ ساتھ حکومتوں کے جانے کی تاریخیں بھی دیتے ہیں اور ہر بار ان پیش گوئیوں کے غلط ثابت ہونے کے بعد کمال ڈھٹائی سے اگلی پیش گوئی یا اگلے جھوٹ کو پھیلانے کےلیے بھرپور مہارت و توانائی کے ساتھ سرگرم عمل ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اس معاملے میں اکیلے فرد نہیں جنہیں پروپیگنڈہ پھیلانے کے فن میں مہارت حاصل ہے۔ ان کے قبیلے میں لاتعداد جوتے چمکانے کے ماہر پیراشوٹ ٹی وی اینکرز اور تجزیہ نگار شامل ہیں۔ ان تمام افراد نے صحافت کے لبادے میں ٹی وی اسکرینوں کا سہارا لیتے ہوئے گزشتہ کئی برس سے افواہوں، بہتان تراشی اور جھوٹ کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ یہ حضرات اس نکتے کو سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں جذباتی باتوں، سنسنی خیزی اور چٹ پٹی کہانیوں کو بیچنا انتہائی آسان ہے، اس لیے ان کے جھوٹ اور پروپیگنڈے کا کاروبار دن دونی اور رات چوگنی ترقی کرتا ہے۔

زینب کے قتل کو ان زرد صجافت کے استعاروں نے جس بے دردی سے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور میڈیا ریٹنگ کےلیے استعمال کیا ہے، اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان حضرات کا واحد مقصد محض اپنے سیاسی و پس پشت آقاؤں کو کسی بھی قیمت پر خوش کرتے ہوئے روپے پیسے اور آسائشات کا حصول ہے۔ ان حضرات کے ناظرین بھی کمال ہیں جو محض سیاسی مخالفت اور چٹ پٹی کہانیوں کے شوق میں نہ صرف بچگانہ و غیر دانشمندانہ نظریات و کہانیوں پر ایمان کامل رکھتے ہیں بلکہ صدق دل سے پروپیگنڈے اور جھوٹ کو ہر ممکن طریقے سے آگے تک پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

زینب کے قتل کا مجرم ایک ذہنی مریض ہے جو کبھی مزدوری اور کبھی چوری چکاری کرکے اپنی معاشی ضروریات پوری کرتا تھا۔ اسپلٹ پرسنالٹی ڈس آرڈر (دوہری شخصیت کی نفسیاتی بیماری) کا شکار یہ شخص اگر بین الاقوامی مافیا کا کارندہ تھا اور اس کے زیراستعمال لاتعداد بینک اکاؤنٹس تھے تو پھر اسے کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ وہ چوری چکاری کرتا۔ یاد رہے کہ اس کی چوری چکاریوں کی گواہی اس کے اہل محلہ اور اہل علاقہ دے چکے ہیں۔ لیکن کمال ہےان خواتین و حضرات پر جو ڈاکٹر شاہد مسعود کی خود ساختہ تھیوری پر اس حقیقت کو جاننے کے باوجود بھی ایمان لے آئے۔

بغیر کسی تحقیق کے یہ بھی فرض کرلیا گیا کہ مجرم وڈیوز بنانے کےلیے کوڑے کے ڈھیر اور زیر تعمیر مکانات کو استعمال کرتا تھا جبکہ ایک طرف اس کی پشت پر بین الاقوامی طاقتور مافیا موجود تھا جو مفروضوں کے مطابق اربوں ڈالر اس مکروہ دھندے سے کما رہا تھا لیکن مجرم عمران کو اس قدر وسائل ہونے کے باوجود کوئی گھر یا کمرہ اس مذموم مقصد کی تکمیل کےلیے نہیں دلوا سکتا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ ایک ایسا ٹی وی چینل جس کا بنیادی دھندہ کسی زمانے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کمپنی کی آڑ میں خود پورنوگرافی کی ویب سائٹس چلانا ہوا کرتا تھا، وہ بھی ڈاکٹر شاہد مسعود کی اس من گھڑت تھیوری کو پھیلانے میں پیش پیش تھا۔

اپنی مرضی اور سوچ کے عین مطابق حقائق کے منافی جھوٹ کو سچ سمجھنا ایک لت کی مانند ہوتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کی بہتات ہے جو سچ صرف اسے سمجھتے ہیں جو ان کے نظریات و خیالات یا عقائد کے عین مطابق ہو۔ جب تک معاشرے میں یہ لت موجود رہے گی، اس کی تسکین کی خاطر مفروضوں، جھوٹی کہانیوں اور پروپیگنڈے کے دم پر معاشرے میں لاشوں تک کو تماشا بنا کر سیاسی مفادات اور ٹی وی ریٹنگ بڑھا کر منافع اور آسائشات حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔

بہرحال، اس جھوٹ اور فریب کے دھندے کے پروان چڑھنے کی بنیادی وجہ معاشرے کے وہ افراد ہیں جو اس کی طلب اور لت کا شکار ہیں۔ قصور شہر میں جب 2014 میں بچوں کے ساتھ جنسی اسکینڈل کا واقع پیش آیا تھا، راقم اس دن سے وہاں کے اہل علاقہ، مقامی قیادت اور اعلیٰ افسران کے ساتھ رابطے میں ہے۔

ڈاکٹر شاہد مسعود کے سنسنی پھیلانے والے انکشافات کے بعد راقم نے کچھ وفاقی وزرا اور دیگر اعلی سرکاری و غیر سرکاری شخصیات سے بھی رجوع کیا اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ ریٹنگ کی لالچ اور ذاتی بغض کی آڑ میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے صحافت کے پیشے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہوئے زینب کے کیس سے بھی توجہ ہٹا دی ہے۔ اب چند ہی دنوں میں سچ سامنے آنے پر نہ صرف تمام صحافی برادری اور اچھے میڈیا ہاؤسز پر بھی لعن طعن کا سلسلہ شروع ہوجائے گا بلکہ ''اسپن وزرڈز'' آرام سے زینب کے قتل میں حکومتی اداروں کی لاپرواہی کو پس پشت ڈالتے ہوئے زرد صحافت اور میڈیا پر پروپیگنڈے کی روک تھام کی بحث شروع کرتے ہوئے بہ آسانی اس اہم اور سنگین مسئلے کو پس پشت ڈال دیں گے۔

ڈارک ویب یا چائلڈ پورنو گرافی کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں، اور اس سے جڑے کئی مکروہ افراد پاکستان میں بھی موجود ہوسکتے ہیں۔ لیکن معلومات اور ٹھوس شواہد کی بنا پر یہ بہ آسانی کہا جاسکتا ہے کہ زینب اور دیگر بچیوں کے کیس کا اس مافیا سے کوئی تعلق نہیں۔ گو کہ کسی کا نام لے کر تنقید کرنا ایک مناسب عمل نہہں لیکن حقائق تک رسائی کے بعد ڈاکٹر شاہد مسعود اور اس قبیل کے دیگر افراد کو جھوٹ پھیلانے سے روکنا بھی صحافتی و اخلاقی ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے۔

صحافت کو اپنے فائدے کےلیے استعمال کرنے والے حضرات صحافت کی بنیادی اقدار کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں انتشار پھیلانے کا بھی جرم سرزد کر رہے ہیں جس کا تدارک لازم ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں