حکومت 35 ارب ڈالر کے برآمدی ہدف کے حصول میں ناکام
ایکسپورٹ کے لیے مختص فنڈ سے صرف 50 کروڑروپے جاری،برآمدات گھٹ کر 20.44ارب،درآمدات بڑھ کر53 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں
KARACHI:
وفاقی حکومت کی جانب سے 3 سالہ تجارتی پالیسی کے تحت برآمدات کے 35 ارب ڈالر کے ہدف کا حصول ممکن نہ ہو سکا۔
موجودہ حکومت کی جانب سے موجودہ 3سالہ تجارتی پالیسی 2015-18کے تحت برآمدات کے فروغ کے لیے اقدمات تجویز کیے گئے تھے اور اس پالیسی کے تحت برآمدات کو 2018 تک 35 ارب ڈالر تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا گیا مگر گزشتہ ساڑھے 4 سال کے دوران برآمدات میں کمی کا سلسلہ جاری ہے اور ملکی برآمدات بڑھنے کے بجائے کم ہوکر 20 ارب 44 کروڑ ڈالر تک آچکی ہیں جبکہ درآمدات 53 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔
تمام تراقدامات کے باوجود ملک کا تجارتی خسارہ 32 ارب 57 کروڑ ڈالر ہے موجودہ 3 سالہ پالیسی کے جی ایس پی پلس کے تحت تحت اقوام متحدہ کے 27 کنونشنوں سے مطابقت اور ان کی نگرانی اور وفود اور نمائشوں کے ذریعے برآمدات کو فروغ دیا جانا تھا تاہم اقوام متحدہ کے 27 کنونشنوں پر عمل درآمد کے حوالے سے صورتحال زیادہ بہتر نہیں ہے۔
پالیسی کے تحت تھائی لینڈ کوریا اور ترکی کے ساتھ نئی دوطرفہ ترجیحی رسائی کے لیے اقدامات اور چین ملائیشیا ایران اور انڈونیشیا کے ساتھ تجارتی معاہدوں کے حوالے سے صرف انڈونیشیا نے پاکستان کو مراعات دی ہیں جبکہ چین کے ساتھ ایف ٹی اے پر نظر ثانی کے حوالے سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ 3 سال تجارتی پالیسی کے تحت افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کے حوالے سے دیرینہ مسائل حل نہ ہوسکے اور ابھی اس حوالے سے معاملات ڈیڈ لاک کا شکار ہیں۔
3 سالہ تجارتی پالیسی کے تحت ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن، پراڈکٹ ڈیولپمنٹ، برانڈنگ، جی ایس پی پلس، قلیل المدتی اقدامات، پلانٹ اینڈ اینگرو پلانٹس، اداروں کی مضبوطی اور نئے اداروں کی تخلیق کیلیے مجموعی طور پر 18 ارب روپے مختص کیے گئے مگر انڈومنٹ فنڈ کی مد میں صرف 50 کروڑ روپے جاری کیے گئے۔ 3سالہ تجارتی پالیسی 2015-18 میں نان ٹیکسٹائل سیکٹر کو مجموعی برآمدات میں باصلاحیت شعبہ گردانا گیا تھا۔ نان ٹیکسٹائل سیکٹر کا کل برآمدات میں حصہ 40 فیصد سے زائد ہے جبکہ برآمدی شعبے کے لیے پیکج میں سے نان ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے صرف 10 فیصد مختص کیا گیا۔
نان ٹیکسٹائل سیکٹرکی ایسی تمام مصنوعات جن کا برآمدات میں حصہ 66 فیصد ہے۔ ان کو مکمل نظر انداز کیا گیا۔ اسٹرٹیجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک 2015-18میں پوٹینشل سیکٹر کو وزیرا عظم کے برآمدی پیکج سے خارج کرنا سمجھ سے بالاتر اقدام ہے۔
اگر حکومت کی جانب سے ان شعبہ جات کو مراعات دی جاتیں تو یہ شعبے بھی عالمی مارکیٹ مین بہتر مسابقت کرتے اور برآمدات میں اضافے کا باعث بنتے موجودہ 3 سالہ تجارتی پالیسی کے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرنے کے بعد وزارت تجارت کی جانب سے نئی 5 سالہ 2018-23تجارتی پالیسی پر کام شروع کردیا گیا ہے اور حکام کا دعوی ہے کہ نئی 5 سالہ تجارتی پالیسی 2 ماہ سے 3 ماہ میں تیار کرلی جائے گی۔
اس حوالے جب سیکریٹری تجارت محمد یونس ڈھاگا سے موقف لینے کے لیے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے موبائل کالزاور میسجزکا کوئی جواب نہیں دیا جبکہ وزارت تجارت گزشتہ کئی ماہ سے اپنے ترجمان سے محروم ہے اور وزارت تجارت کا کوئی ترجمان بھی نامزد نہیں کیا جا سکا جو وزارت تجارت کے حوالے سے معاملات پر اپنا موقف دے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے 3 سالہ تجارتی پالیسی کے تحت برآمدات کے 35 ارب ڈالر کے ہدف کا حصول ممکن نہ ہو سکا۔
موجودہ حکومت کی جانب سے موجودہ 3سالہ تجارتی پالیسی 2015-18کے تحت برآمدات کے فروغ کے لیے اقدمات تجویز کیے گئے تھے اور اس پالیسی کے تحت برآمدات کو 2018 تک 35 ارب ڈالر تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا گیا مگر گزشتہ ساڑھے 4 سال کے دوران برآمدات میں کمی کا سلسلہ جاری ہے اور ملکی برآمدات بڑھنے کے بجائے کم ہوکر 20 ارب 44 کروڑ ڈالر تک آچکی ہیں جبکہ درآمدات 53 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔
تمام تراقدامات کے باوجود ملک کا تجارتی خسارہ 32 ارب 57 کروڑ ڈالر ہے موجودہ 3 سالہ پالیسی کے جی ایس پی پلس کے تحت تحت اقوام متحدہ کے 27 کنونشنوں سے مطابقت اور ان کی نگرانی اور وفود اور نمائشوں کے ذریعے برآمدات کو فروغ دیا جانا تھا تاہم اقوام متحدہ کے 27 کنونشنوں پر عمل درآمد کے حوالے سے صورتحال زیادہ بہتر نہیں ہے۔
پالیسی کے تحت تھائی لینڈ کوریا اور ترکی کے ساتھ نئی دوطرفہ ترجیحی رسائی کے لیے اقدامات اور چین ملائیشیا ایران اور انڈونیشیا کے ساتھ تجارتی معاہدوں کے حوالے سے صرف انڈونیشیا نے پاکستان کو مراعات دی ہیں جبکہ چین کے ساتھ ایف ٹی اے پر نظر ثانی کے حوالے سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ 3 سال تجارتی پالیسی کے تحت افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کے حوالے سے دیرینہ مسائل حل نہ ہوسکے اور ابھی اس حوالے سے معاملات ڈیڈ لاک کا شکار ہیں۔
3 سالہ تجارتی پالیسی کے تحت ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن، پراڈکٹ ڈیولپمنٹ، برانڈنگ، جی ایس پی پلس، قلیل المدتی اقدامات، پلانٹ اینڈ اینگرو پلانٹس، اداروں کی مضبوطی اور نئے اداروں کی تخلیق کیلیے مجموعی طور پر 18 ارب روپے مختص کیے گئے مگر انڈومنٹ فنڈ کی مد میں صرف 50 کروڑ روپے جاری کیے گئے۔ 3سالہ تجارتی پالیسی 2015-18 میں نان ٹیکسٹائل سیکٹر کو مجموعی برآمدات میں باصلاحیت شعبہ گردانا گیا تھا۔ نان ٹیکسٹائل سیکٹر کا کل برآمدات میں حصہ 40 فیصد سے زائد ہے جبکہ برآمدی شعبے کے لیے پیکج میں سے نان ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے صرف 10 فیصد مختص کیا گیا۔
نان ٹیکسٹائل سیکٹرکی ایسی تمام مصنوعات جن کا برآمدات میں حصہ 66 فیصد ہے۔ ان کو مکمل نظر انداز کیا گیا۔ اسٹرٹیجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک 2015-18میں پوٹینشل سیکٹر کو وزیرا عظم کے برآمدی پیکج سے خارج کرنا سمجھ سے بالاتر اقدام ہے۔
اگر حکومت کی جانب سے ان شعبہ جات کو مراعات دی جاتیں تو یہ شعبے بھی عالمی مارکیٹ مین بہتر مسابقت کرتے اور برآمدات میں اضافے کا باعث بنتے موجودہ 3 سالہ تجارتی پالیسی کے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرنے کے بعد وزارت تجارت کی جانب سے نئی 5 سالہ 2018-23تجارتی پالیسی پر کام شروع کردیا گیا ہے اور حکام کا دعوی ہے کہ نئی 5 سالہ تجارتی پالیسی 2 ماہ سے 3 ماہ میں تیار کرلی جائے گی۔
اس حوالے جب سیکریٹری تجارت محمد یونس ڈھاگا سے موقف لینے کے لیے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے موبائل کالزاور میسجزکا کوئی جواب نہیں دیا جبکہ وزارت تجارت گزشتہ کئی ماہ سے اپنے ترجمان سے محروم ہے اور وزارت تجارت کا کوئی ترجمان بھی نامزد نہیں کیا جا سکا جو وزارت تجارت کے حوالے سے معاملات پر اپنا موقف دے۔