نرسریوں میں خوشنما اور رنگ برنگے پھولوں کی بہار

نرسریوں میں موسم کے لحاظ سے پھول دار اور سجاوٹی پودے تیار کیے جاتے ہیں۔


Kashif Hussain January 29, 2018
شاہراہوں پردہائیوں سے قائم نرسریاں پودوں سے شہریوں کی محبت اور روزگار کا بھی ذریعہ ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

شہر کی فٹ پاتھوں اورگرین بیلٹ پر پودوں کی نرسریوں میں خوشنما اور رنگ برنگے پھول دار پودے موسم سرما کے اختتام اور بہار کی آمد کی نوید سنارہے ہیں۔

کراچی میں بلند عمارتوں کی تعمیر اور فلیٹ کلچر کے فروغ سے پودوں کی فروخت متاثر ہورہی ہے شہر میں ترقیاتی کاموں کی وجہ سے فٹ پاتھوں پر قائم نرسریاں بھی تیزی سے کم ہورہی ہیں اور زیادہ تر نرسریوںکو شہر سے باہر منتقل کیا جارہا ہے پودوں کی فروخت کے کاروبار سے وابستہ افراد کے مطابق کراچی کی فٹ پاتھوں پر قائم نرسریاں شہر کی خوبصورتی کا باعث ہیں نرسریوں کی شہر سے باہر منتقلی نہ روکی گئی تو ہرے بھرے پودوں اور پھولوں سے مزین فٹ پاتھ اور گرین بیلٹس بھی کچرے اور ملبے کا ڈھیر بن جائیں گی۔

کراچی کی مختلف شاہراہوں پر کئی دہائیوں سے پودوں کی نرسریاں قائم ہیں جو شہریوں کی فطرت سے محبت کے ذوق کی تسکین کے ساتھ ساتھ روزگار کا بھی ذریعہ بنی ہوئی ہیں تاہم شہر میں زمین کی کمی اور فلیٹ کلچر کی وجہ سے پودوں کی فروخت کا کام بھی متاثر ہورہا ہے کراچی کی فٹ پاتھوں پر قائم نرسریوں میں موسم بہار کے استقبال کی تیاریاں جاری ہیں زیادہ تر نرسریوں میں گل داؤدی، گلاب اور گیندے کے پھول کھل رہے ہیں جو شہریوں کی توجہ حاصل کررہے ہیں۔

گرومندر کے قریب گزشتہ 25 سال سے نرسری چلانے والے سلطان علی عرف بابو بھائی نے ایکسپریس کو بتایا کہ پودوں کی نرسریوں میں موسم کے لحاظ سے پھول دار اور سجاوٹی پودے تیار ہیں کراچی میں زیادہ تر گیندا، رات کی رانی، گلاب، موتیا وغیرہ فروخت ہوتا ہے اس کے علاوہ منی پلانٹ اور فائکس وغیرہ زیادہ فروخت ہوتے ہیں انھوں نے بتایا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمت بڑھنے سے بھالو مٹی کی قیمت بڑھ گئی ہے جو ٹرک پہلے 6 ہزار روپے کا آتا تھا اب ساڑھے 6 ہزار سے 7 ہزار روپے میں مل رہا ہے اور مسافت کے لحاظ سے قیمت وصول کی جارہی ہے۔

کھاد کی سوزوکی کی600 سے ایک ہزار روپے تک ملتی ہے کھاد بھینس کالونی سے آتی ہے سردی کے پودوں کی فروخت اکتوبر سے شروع ہوکر فروری مارچ تک جاری رہتی ہے جس کے بعد گرمی کے پودے تیار کیے جاتے ہیں ایک پودا تیار کرنے میں 40 دن لگتے ہیں جس کے بعد چھوٹا پودا نرسری میں20 روپے میں فروخت کیا جاتا ہے 40 دن تک پودوں کی نوزائیدہ کی طرح نگہداشت کی جاتی ہے پودوں کے لیے دھوپ اور پانی ضروری ہیں سائے والے پودوں کو بھی دھوپ میں رکھنا ضروری ہے، کراچی سے پودے پنجاب، اسلام آباد، کوئٹہ اور گوادر بھی بھیجے جا رہے ہیں۔

شہرمیں پانی کی قلت پودوںکی فروخت پراثراندازہونے لگی

نرسری کے مالکان اور مالیوں کا کہنا ہے کہ شہر میں پانی کی قلت بھی پودوں کی فروخت پر اثر انداز ہورہی ہے کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی کی قلت شدت اختیار کرگئی ہے بالخصوص بلند عمارتوں اور فلیٹوں میں پینے کے لیے منرل واٹر استعمال کیا جاتا ہے نرسریوں میں زیادہ تر سیوریج کا پانی یا بورنگ کا پانی استعمال کیا جارہا ہے جن نرسریوں میں پانی کا کنکشن نہیں ہوتا وہ ٹینکر خریدنے پر مجبور ہیں لیکن گھروں میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے پودوں کا شوق متاثر ہورہا ہے دو دہائی قبل تک ہر گھر میں صحن اور آنگن ہوتا تھا جس میں پھول دار پودوں کے ساتھ مختلف سبزیوں کے پودے اور بیلیں بھی لگائی جاتی تھیں لیکن اب طرز رہائش تبدیل ہونے کی وجہ سے سبزی کے پودوں کی فروخت محدود ہو گئی ہے۔

گملوں میں صرف ٹماٹر، مرچ وغیرہ کے پودے پھل دیتے ہیں لیکن توری، بھنڈی، لوکی، کریلے اور دیگر بیل دار پودوں کے لیے کچی زمین اور کیاری درکار ہوتی ہے مالیوں کے مطابق چین سے درآمد شدہ مصنوعی پودوں سے اصل پودوں کی فروخت کسی حد تک متاثر ہو رہی ہے لیکن جن لوگوں کو اصل پودوں کی افادیت کا احساس ہے وہ ہمیشہ اصل پودوں کو ترجیح دیتے ہیں جو گھروں میں تازہ آکسیجن فراہم کرنے کے علاوہ آنکھوں کو تراوٹ فراہم کرتے ہیں اور انسانی اعصاب اور مزاج پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔

درختوں کو کاٹ کر نمائشی کھجور کے درخت لگانا حماقت ہے

نرسری مالکان کے مطابق شہر میں ترقیاتی کاموں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر درخت کاٹے جارہے ہیں لیکن ان کی جگہ سایہ دار اور گھنے درخت لگانے کے بجائے نمائشی طور پر کھجورکے درخت لگانے کا فیصلہ درست نہیں ہے درخت کو اس کی اصل جگہ سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کیے گئے 100 میں سے صرف 20 درخت ہی پروان چڑھتے ہیں کیونکہ ان کی 20 سال پرانی جڑیں کاٹ دی جاتی ہیں اور چھوٹی جڑیں اس درخت کی شہری زمین پر پانی اور افزائش کی طلب پوری نہیں کرپاتیں اور یہ درخت مرجھاکر ختم ہوجاتے ہیں کھجور کے درخت کی کم سے کم قیمت 10ہزار روپے ہے یہ درخت زیادہ تر میرپور خاص اور سکھر سے لاکر کراچی کی سڑکوں پر لگائے جارہے ہیں۔

حال ہی میں یونیورسٹی روڈ پر سیکڑوں کھجور کے درخت لگاکر پیسہ ضایع کیا گیا ہے یونیورسٹی روڈ پر لگائے گئے درختوں میں سے بیشتر جڑ نہیں پکڑرہے مالیوں کا کہنا ہے کہ شہر میں نیم اور سفیدے کے درخت لگائے جائیں نیم کا درخت گھنا اور سایہ دار ہونے کے ساتھ طبی لحاظ سے بھی فائدہ مند ہے اور اس کی لکڑی بھی کارآمد ہوتی ہے اس کے برعکس سفیدے کے درخت سایہ دار اور جلد بڑے ہوتے ہیں لیکن تنا نرم ہونے کی وجہ سے لکڑی زیادہ کارآمد نہیں ہوتی شہر کے ساحلی علاقوں اور بڑے رقبے پر قائم گھروں اور بنگلوں میں ناریل کے درخت شوق سے لگائے جاتے ہیں ناریل کے درخت کی قیمت اس کی عمر اور اونچائی کے لحاظ سے وصول کی جاتی ہے ناریل کا چھوٹا پودا 400 سے 500 روپے میں فروخت ہوتا ہے، 6 سے 8 فٹ کا ناریل کا پودا 1500 سے 2000 روپے میں فروخت کیا جاتا ہے۔

نرسریوں سے مالیوں اور پودے بیچنے والوں کا روزگار چلتا ہے

پودوں کی نرسریوں سے مالیوں کے علاوہ گلی گلی گھوم کر ٹھیلوںپر پودے فروخت کرنے والوں کا بھی روزگار وابستہ ہے اس کے علاوہ مٹی کے گملے بنانے والوں کا روزگار بھی ان نرسریوں کے دم سے قائم ہے ٹھیلوں پر پودے بیچنے والے نرسری سے سستے پودے خرید کر 4گنا زائد قیمت پر فروخت کرتے ہیں لیکن اس کام میں بہت محنت ہوتی ہے بھاری بھرکم ٹھیلے کو گلیوں میں گھسیٹنا اور پودوں کا خیال رکھنا محنت طلب کام ہے شہر میں قائم نرسریاں مالیوں کی خدمات بھی فراہم کرتی ہیں زیادہ تر بڑے گھروں میں پائیں باغ (لان) کی تزئین و آرائش اور کیاریوں کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے ماہانہ اجرت پر مالیوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔

اوسطاً ایک گھر سے تین سے چار ہزار روپے مہینہ اجرت ملتی ہے، زیادہ تر مالی ایک علاقے میں 4 سے 5 گھروں میں روزانہ 2 سے 3 گھنٹے کا وقت صرف کرتے ہیں اس طرح ماہانہ 15سے 20 ہزار روپے تک کماتے ہیں بڑے گھروں میں دیواروں پر بھی کیاریاں بنوائی جا رہی ہیں۔

اس کے علاوہ چھتوں پر ڈھاکا اور امریکن گراس لگوائی جاتی ہے جس سے گھروں میں ٹھنڈک رہتی ہے لیکن دیواروں اور چھتوں میں سیلن پھیلنے سے دیواریں خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے امیر طبقہ دیسی گھاس کے مقابلے میں امریکن گھاس کو ترجیح دیتا ہے جو 40 سے45 روپے اسکوائر فٹ لگائی جاتی ہے امریکن گراس کارپٹ کی طرح ہموار ہوتی ہے اور گھنی ہونے کے ساتھ بہت سست روی سے بڑی ہوتی ہے اور چار سے 6 مہینے میں ایک بار کاٹنی پڑتی ہے اس کے برعکس دیسی گھاس سستی ہونے کے ساتھ تیزی سے بڑی ہوتی ہے اور ہر 15روز میں کاٹنی پڑتی ہے۔

کراچی میں ترقیاتی کاموں کیلیے55 ہزار گھنے اور تناور درخت کاٹے گئے

کراچی میں ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر لگے پرانے درخت تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں نیشنل فارم فار انوائرمنٹ اینڈ ہیلتھ کے اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ 5 سال کے دوران شہر میں 40 سے 50 سال پرانے55 ہزار سے زائد پرانے اور گھنے درخت کاٹے گئے ہیں اس لحاظ سے کراچی میں ہر گھنٹے میں ایک تناور درخت کاٹا جارہا ہے این ای ایف ایچ کے صدر نعیم قریشی کے مطابق کراچی جیسے گنجان شہر میں 25 فیصد رقبے پر ہریالی اور سبزا ہونا ضروری ہے تاکہ شہر میں ماحولیاتی توازن برقرار رہ سکے اور بارشوں کا سلسلہ جاری رہے۔

شہر میں لاکھوں گاڑیوں، فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والا دھواں شہر کی فضا کو آلودہ کررہا ہے جس کے خاتمے کے لیے درخت ایک بڑی نعمت ہیں لیکن اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی جو ایک خطرے کی علامت ہے انھوں نے بتایا کہ کراچی میں ہریالی اور سبزا صرف 3 فیصد رقبے تک محدود ہوچکا ہے اس حوالے سے این ای ایف ایچ نے ایک جامع رپورٹ حکام کو پیش کی ہے اور شہر بھر میں شجر کاری اور پرانے درختوں کو محفوظ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں