کراچی میں نئی حلقہ بندیاں سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج متحدہ کی درخواست پر الیکشن کمیشن و دیگر سے کل جواب طلب
، فیصلے سے سوال اٹھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کس طرح شفاف الیکشن کرائیگا، فاروق ستار
متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے سندھ ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے صرف کراچی کے متعدد حلقوںمیں حلقہ بندی کے خلاف پٹیشن دائر کردی ہے جس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے غیر آئینی اور غیر قانونی فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔
یہ پٹیشن ڈاکٹر فاروق ستار نے پیر کی صبح دائر کی، اس موقع پر بیرسٹر فروغ نسیم بھی ان کے ہمراہ تھے جو کراچی کے متعدد حلقوںمیں حلقہ بندیوں کے خلاف ڈاکٹر فاروق ستار کی دائر کی گئی پٹیشن کی پیروی بھی کررہے ہیں ۔ دوسری جانب سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کراچی میں انتخابی حلقوں کی حد بندی میں متحدہ قومی موومنٹ کی آئینی درخواست پر کمشنر مردم شماری کے علاوہ دیگر مدعاعلیہان اور اٹارنی جنرل پاکستان کو 27 مارچ کے لیے نوٹس جاری کردیے۔
بعدازاں سندھ ہائیکورٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہاکہ انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے صرف کراچی کے متعدد حلقوں میں حلقہ بندی کے فیصلے کے خلاف ہم نے انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ پٹیشن میں آئینی و قانونی نکات اٹھائے ہیں ، قواعد اور ضوابط کو بھی چیلنج کیا ہے اور عدالت سے استدعا کی ہے کہ اس فیصلے کے عملدرآمد کو فی الفور روکاجائے اور الیکشن کمیشن کو یہ فیصلہ واپس لینے کا پابند کیا جائے۔
انھوں نے کہاکہ انتخابات سے محض چند روز پہلے الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ اقدام الیکشن کمیشن کی ایمانداری، غیرجانبداری پر بھی بہت سارے سوالات اٹھاتا ہے کہ الیکشن کمیشن سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ آزادانہ منصفانہ اور صاف و شفاف انتخابات کرائے گا۔ حلقہ بندی کا فیصلہ کرکے اہالیان کراچی کو مسلسل ایم کیوایم کا ساتھ دینے کی سزا دی گئی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایم کیوایم کے لاکھوں کارکنان اور حامی اپنے حق پر ڈاکہ ڈالنے کی سازش کو ناکام بنائیں گے۔
جو ووٹر غیر قانونی اور غیر آئینی حلقہ بندیوں سے متاثر ہوئے ہیں، احتجاج کرنا ان کا آئینی ، قانونی اور جمہوری حق ہے۔ڈاکٹر فاروق ستار نے کہاکہ انتخابی شیڈول کا اعلان ہوجانے کے بعد کسی قسم کی حلقہ بندیاں نہیں ہوسکتی اور سب سے بڑا نکتہ یہی ہے کہ اگر سیکشن 10-Aکے تحت بھی یہ عمل کیاجارہا ہے تو اسٹیک ہولڈر سے تجاویز لی جاتیں ۔ انتخابی حلقہ بندی ایم کیوایم کے ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کی سازش ہے ، ووٹر لسٹ کو آویزاں کرنے میں بھی تاخیر ہورہی ہے، یہ بھی اسی فیصلے سے جڑا ہوا ہے کہ اگر گھر گھر ووٹر کی تصدیق ہوگی ہوگی، اگر کراچی کی ووٹر لسٹ میں کہیں پر کوئی کمی بیشی تھی تو پورے پاکستان کی ووٹر لسٹ میں ہر اضلاع میں اسی طرح کی کمی بیشی ہوگی لیکن گھر گھر تصدیق صرف کراچی میں، وہ بھی فوج کی نگرانی میں ہی ہونی ہے۔
اس موقع پر ایک سوال کے جواب میں بیرسٹر فروغ نسیم نے کہاکہ عام تاثر یہی ہے کہ سپریم کورٹ نے کراچی میں حلقہ بندیوں کا آرڈر کردیا ہے تو ہم ہائیکورٹ میں کیا کررہے ہیں ۔ سپریم کورٹ کا آرڈر اگرغور سے پڑھاجائے تو اس میں لکھا ہے کہ حلقہ بندیاں ہوں لیکن قانون کے حساب سے ہوں اور قانون یہ کہتا ہے کہ سپریم کورٹ کے آرڈر پر عملدرآمد کیلیے ہائی کورٹ آنا پڑتا ہے اور ہم سپریم کورٹ کے آرڈر پر عملدرآمدکیلیے آئے ہیں، حلقہ بندیوں کا عمل قانون اور سپریم کورٹ کے آرڈر کے بھی خلاف ہے ۔
پیر کو آئینی درخواست جمع کرانے کے موقع پرمتحدہ کی جانب سے ایک متفرق درخواست بھی دائر کی گئی کہ یہ معاملہ فوری نوعیت کا ہے، اس لیے درخواست کی سماعت فوری طور پر پیر کو ہی کی جائے۔ سینیٹر بیرسٹر فروغ نسیم نے موقف اختیارکیا کہ نئی مردم شماری کے بغیر نئی حلقہ بندیاں نہیں ہوسکتیں کیونکہ مردم شماری کے بغیر کسی حلقے کی آبادی ہی انتخابی حلقے کی تشکیل کیلیے بنیادی جوہر ہے۔
درخواست میں موقف اختیارکیاگیا ہے کہ سپریم کورٹ نے بھی جمہوری وطن پارٹی کیس میں کہا تھا کہ حلقہ بندیاں تشکیل دینے کیلیے سختی سے قانون کی پابندی کی جائے ، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل بھی دائر کی تھی لیکن سپریم کورٹ نے نظرثانی کی اپیل 27فروری کو مسترد کردی تھی۔ اس کے بعد 20 مارچ کو الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک بھر میں عام انتخابات کا شیڈول جاری کردیاگیا۔ انتخابی شیڈول کے اجرا کے بعد 22مارچ کو کراچی کے قومی اسمبلی کے 3اور صوبائی اسمبلی کے 8حلقوں کی حدود میں تبدیلی کا نوٹیفکیشن جاری ہوگیا جبکہ اس کے لیے ضروری قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
یہ پٹیشن ڈاکٹر فاروق ستار نے پیر کی صبح دائر کی، اس موقع پر بیرسٹر فروغ نسیم بھی ان کے ہمراہ تھے جو کراچی کے متعدد حلقوںمیں حلقہ بندیوں کے خلاف ڈاکٹر فاروق ستار کی دائر کی گئی پٹیشن کی پیروی بھی کررہے ہیں ۔ دوسری جانب سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کراچی میں انتخابی حلقوں کی حد بندی میں متحدہ قومی موومنٹ کی آئینی درخواست پر کمشنر مردم شماری کے علاوہ دیگر مدعاعلیہان اور اٹارنی جنرل پاکستان کو 27 مارچ کے لیے نوٹس جاری کردیے۔
بعدازاں سندھ ہائیکورٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہاکہ انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے صرف کراچی کے متعدد حلقوں میں حلقہ بندی کے فیصلے کے خلاف ہم نے انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ پٹیشن میں آئینی و قانونی نکات اٹھائے ہیں ، قواعد اور ضوابط کو بھی چیلنج کیا ہے اور عدالت سے استدعا کی ہے کہ اس فیصلے کے عملدرآمد کو فی الفور روکاجائے اور الیکشن کمیشن کو یہ فیصلہ واپس لینے کا پابند کیا جائے۔
انھوں نے کہاکہ انتخابات سے محض چند روز پہلے الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ اقدام الیکشن کمیشن کی ایمانداری، غیرجانبداری پر بھی بہت سارے سوالات اٹھاتا ہے کہ الیکشن کمیشن سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ آزادانہ منصفانہ اور صاف و شفاف انتخابات کرائے گا۔ حلقہ بندی کا فیصلہ کرکے اہالیان کراچی کو مسلسل ایم کیوایم کا ساتھ دینے کی سزا دی گئی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایم کیوایم کے لاکھوں کارکنان اور حامی اپنے حق پر ڈاکہ ڈالنے کی سازش کو ناکام بنائیں گے۔
جو ووٹر غیر قانونی اور غیر آئینی حلقہ بندیوں سے متاثر ہوئے ہیں، احتجاج کرنا ان کا آئینی ، قانونی اور جمہوری حق ہے۔ڈاکٹر فاروق ستار نے کہاکہ انتخابی شیڈول کا اعلان ہوجانے کے بعد کسی قسم کی حلقہ بندیاں نہیں ہوسکتی اور سب سے بڑا نکتہ یہی ہے کہ اگر سیکشن 10-Aکے تحت بھی یہ عمل کیاجارہا ہے تو اسٹیک ہولڈر سے تجاویز لی جاتیں ۔ انتخابی حلقہ بندی ایم کیوایم کے ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کی سازش ہے ، ووٹر لسٹ کو آویزاں کرنے میں بھی تاخیر ہورہی ہے، یہ بھی اسی فیصلے سے جڑا ہوا ہے کہ اگر گھر گھر ووٹر کی تصدیق ہوگی ہوگی، اگر کراچی کی ووٹر لسٹ میں کہیں پر کوئی کمی بیشی تھی تو پورے پاکستان کی ووٹر لسٹ میں ہر اضلاع میں اسی طرح کی کمی بیشی ہوگی لیکن گھر گھر تصدیق صرف کراچی میں، وہ بھی فوج کی نگرانی میں ہی ہونی ہے۔
اس موقع پر ایک سوال کے جواب میں بیرسٹر فروغ نسیم نے کہاکہ عام تاثر یہی ہے کہ سپریم کورٹ نے کراچی میں حلقہ بندیوں کا آرڈر کردیا ہے تو ہم ہائیکورٹ میں کیا کررہے ہیں ۔ سپریم کورٹ کا آرڈر اگرغور سے پڑھاجائے تو اس میں لکھا ہے کہ حلقہ بندیاں ہوں لیکن قانون کے حساب سے ہوں اور قانون یہ کہتا ہے کہ سپریم کورٹ کے آرڈر پر عملدرآمد کیلیے ہائی کورٹ آنا پڑتا ہے اور ہم سپریم کورٹ کے آرڈر پر عملدرآمدکیلیے آئے ہیں، حلقہ بندیوں کا عمل قانون اور سپریم کورٹ کے آرڈر کے بھی خلاف ہے ۔
پیر کو آئینی درخواست جمع کرانے کے موقع پرمتحدہ کی جانب سے ایک متفرق درخواست بھی دائر کی گئی کہ یہ معاملہ فوری نوعیت کا ہے، اس لیے درخواست کی سماعت فوری طور پر پیر کو ہی کی جائے۔ سینیٹر بیرسٹر فروغ نسیم نے موقف اختیارکیا کہ نئی مردم شماری کے بغیر نئی حلقہ بندیاں نہیں ہوسکتیں کیونکہ مردم شماری کے بغیر کسی حلقے کی آبادی ہی انتخابی حلقے کی تشکیل کیلیے بنیادی جوہر ہے۔
درخواست میں موقف اختیارکیاگیا ہے کہ سپریم کورٹ نے بھی جمہوری وطن پارٹی کیس میں کہا تھا کہ حلقہ بندیاں تشکیل دینے کیلیے سختی سے قانون کی پابندی کی جائے ، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل بھی دائر کی تھی لیکن سپریم کورٹ نے نظرثانی کی اپیل 27فروری کو مسترد کردی تھی۔ اس کے بعد 20 مارچ کو الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک بھر میں عام انتخابات کا شیڈول جاری کردیاگیا۔ انتخابی شیڈول کے اجرا کے بعد 22مارچ کو کراچی کے قومی اسمبلی کے 3اور صوبائی اسمبلی کے 8حلقوں کی حدود میں تبدیلی کا نوٹیفکیشن جاری ہوگیا جبکہ اس کے لیے ضروری قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔