اقتدار… مگر کس قیمت پر
وہ جو جمہوریت کا خاتمہ چاہتا ہے، شعور صرف آپ تک ہی نہیں پہنچا اس نے کچھ سفر ہماری سمت بھی کیاِ ہے
کوئی برسرِ اقتدار آنا چاہتا ہے ، بصد شوق آئے، لیکن اگر ملک ، معیشت ، تجارت،ادب ،اخلاق ، معاشرتی اکائیاں، قوم ... اور زینب جیسے اندوہناک حادثات قیمت ہوں تو یہ کسی طورگوارا نہ ہوگا۔اس کی اجازت ہرگز نہ دی جائے گی مسترد کیا جائے گا۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ سیاسی رہنماء اسی خبط کا شکار ہیں ،انھیں ہرحال میں ہرقیمت پر وزیرِاعظم بننا ہے،خواہ کچھ بھی ہوجائے ،حتی کہ وہ الیکشن میں بھی ہارجائیں لیکن انھیں وزیرِاعظم بنانا ہوگا، اقتدار میں لانا ہوگا ورنہ ... اس ورنہ کی بھی عجیب داستان ہے، لکھنے بیٹھیں تو الفاظ کم پڑجائیں لیکن کم سے کم الفاظ میں دھرنے،نا مہذب الفاظ، دھمکیاں ،الزامات، حکومت کرپٹ ،انتظامیہ کرپٹ ، عوام کرپٹ ، پارلیمنٹ پر لعنت اور لعنت بھی بقول ان کے چھوٹا لفظ ہے... ورنہ یہ سب کچھ ہوگا اور ساتھ ہی ہر پانچ سال میں ایک عدد شادی کے ساتھ ہوگا۔
میری دانست میں اس رویے نے ان کی سیاست کو بڑا نقصان پہنچایا ، بڑا دھچکا لگا انھیں جس سے شاید وہ ابھی پوری طرح واقف نہیں اور اسی جوشِ جنون میں مبتلا ہیں کہ میں وہ ہر دل عزیزلیڈر ہوں جس کی ہرخطا عوام وخواص کی طرف سے معاف ہے، اداروں کا لاڈلا ہوں، ستاروں کا سلسلہ ، منجم کی پیشنگوئی، روحانیت کا پیشوا ، لہٰذا مجھے کیِا ہونا ہے؟
پکڑا جائے گا نواز شریف ،زرداری، میں تو میں ہُوں ، مجھ جیسا نا کوئی کبھی پیدا ہُوا نہ ہوگا۔ غالبًا انھیں یہ خوش گمانی ایک تو اپنے احباب سے لگی دوسرے ان کے چاہنے والے اُن نوجوانوں سے جو ابھی کم عمر اورجذباتی ہیں، نہیں جانتے کہ بھلا کیا برا کیا۔
اُدھر علامہ صاحب بھی میدانِ عمل میں پھر سے موجود بلکہ کُود پڑے اورصبح شام ان کے فرامین عام جام۔آپ ٹی وی کھولیے اور بھرپور لطف اٹھایے ، تیسری سمت میں زرداری ہیں عمومی طور پر جن کا دعویٰ ہے کہ وہ جسے چاہیں جب چاہیں اس کے گھر ،آفس ، بنگلے گیراج سے باہر نکال سکتے ہیں ۔ حالانکہ ان دونوں حضرات کی صوبائی حکومتوں کا اتنا برا حال ہے کہ چیف جسٹس کو بھی کہنا پڑا کہ انھیں صرف پنجاب میں ترقی نظر آئی ، ورنہ سندھ کا تو جو حال ہے سو ہے۔
جب کہ تینوں منہ بولے بھائیوں کا مشترکہ دھرنا بھی سب نے دیکھ لیِا، اب اگلے لائحہ عمل کا انتظار ہے جو شاید باکس آفس سے بھی آگے نہ بڑھ سکے،کیونکہ یہ اقتدارکی جنگ ہے عوام کی نہیں۔ مارچ میں سینیٹ کے الیکشن جس میں اغلبًا مسلم لیگ نون کی حکومت کے جیتنے کے امکانات ہیں اُسے روکنے لیے ، پنجاب حکومت توڑنے کے لیے، جمہوریت کا بیڑا غرق کرنے کے لیے نظام کی بھینٹ بھی چڑھا دو ، بلوچستان جہاں تقریبًا ساری دنیا سازشوں میں مصروف ہے وہاں بھی پروا نہیں کام جاری رہنا چاہیے کیونکہ ہم ساری دنیا کی جانی مانی ہوئی اسٹبلشمنٹ ہیں ہمارا نیٹ ورک ،الامان ،یہ ڈرٹی حکومت کیِا بیچتی ہے۔ یہ وہ سوچ ہے جس کی اصلاح ممکن نہیں؟
جب کسی ملک کے رہنماء اُسے سنبھالنے والے ہاتھ ہی اس کی سلامتی، حفاظت سے بے بہرہ ہوجائیں تو دعاء کے علاوہ کیِا باقی رہ جاتا ہے؟ جیسے کراچی کا نقیب اللہ ! دیکھا جائے تو یہاں بھی وہی اقتدار کا مسئلہ ، راؤ انوار ہر قیمت پر ترقی چاہتے ہیں، لہٰذا انھوں نے ایک بیگناہ نوجوان کو اس کے گھر سے محض شک کی بنیاد پر اُٹھالیا اور اس کا encounterکردیا ، جیسے وہ ہمیشہ کرتے رہے اور پیٹھ پر تھپکی لیتے رہے،کس حکومت میں وہ ssp نہیں رہے؟
کس حکومت کی آنکھ کا تارا نہیں تھے ؟ تب آج اعتراض کیوں ہوگیا ، لیکن آج سوشل میڈیا کا خوف ہے ، حکومت کی بدنامی کا ڈر، لہٰذا فوراً انکوائری کا آرڈر جاری ہوگیا ،جب کہ اس سے قبل راؤ انوارکو پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ اس کے عہدے سے ہٹانے کا آرڈرکرچکی تھی اس قسم کے معاملات پر لیکن ڈھٹائی دیکھیے وہ اپنے عہدے پر کام کرتے رہے اور مسلسل ٹارگٹ کلنگ کرتے رہے ،اپنے IG تک کے آرڈر کو نہ ماننا البتہ ہر موجودہ حکومت کی مدد سے اپنے عہدے کو برقرار رکھنا انکا مشغلہ رہا۔
حضورﷺ کی محبت میں سے ایک تو ان کی امت تھی ،اُن کی زُبانِ مبارک پر تو ہر وقت امت کے لیے دعائیں رہا کرتی تھیں ،یہ کیسی قوم ہے اور کیسے اس کے رہنماء ؟ جنھیں اقتدار درکار ہو تو ہر قیمت پر ،طاقت چاہیے ہر صورت ، ہزاروں مسائل میں گھرا ملک آج ایک مسیحا کی تلاش میں سرگرداں ہے ۔اُسے تلاش ہے کہ اس کی قسمت کا فیصلہ کوئی عامل ،عاملہ ، نجومی نہ کرے ایک دانا ، مدبر، دانشورکی سوچ اس کی سمت متعین کرے ۔
پاکستان عوامی جماعت کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری جو یقینًا اپنے مصاحبین کے ہمراہ حکومتِ پنجاب کا خاتمہ کرنے نکلے ہیں ،دو دن بعد ایک نئے لائحہ عمل کا اعلان کرنے والے تھے غالبًا آج تک تو ایسی کوئی خبر سننے کو نہیں ملی لیکن ان سے اس وقت تک یہ امید ہے جب تک انھیں کہیں سے اشارے ہیں کہ وہ پھر کچھ نہ کچھ کرنے کا عندیہ دیں گے ۔قارئینِ کرام ایمانداری سے اس معاملے کا جائزہ لیا جائے تو ایک بوکسنگ میچ کی طرح 9,10,11 راؤنڈ میں PML-Nکو بڑے پنچ کھانے پڑے اور وہ اس حد تک نڈھال ہوگئی کہ میاں صاحب کو بھی میچ سے جبراً یا قدراً نکال دیا گیا۔
12, 13 راؤنڈ میں بھی معاملہ 50,50 رہا ،زیادہ سے زیادہ میاں صاحب مخالف اداروں کو بکتے جھکتے رہے لیکن 14ویں راؤنڈ میں صرف مسلم لیگ ہی مسلم لیگ ہے، ماننا ہوگا اسنے اپنے منہ پر پڑنے والے ہر پنچ کا نا صرف یہ کہ جواب دیا بلکہ بھرپور دیا ۔انتہائی نا مساعد حالات میں چکوال کا ضمنی الیکشن بہت کچھ بتا گیا ، جنرل الیکشن کا اشارہ دے گیا،کیونکہ وہاں جو سب سے بڑا خطرہ پی ایم ایل این کے لیے پیدا ہوتا نظر آرہا تھا وہ تحریک '' لبیک یارسول اللہ '' سے تھا ،خیال تھا کہ ماضی میں یہ ووٹ مسلم لیگ نون کا پکا ووٹ شمارکیا جاتا رہا ہے ،اب انھوں نے اپنی ایک جماعت بنالی ہے اور وہ زورشور سے اُس کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں تو پنجاب کی ہر سیٹ پر لبیک ان کے ووٹ تقسیم کرے گی جس کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہوگا۔
ہوا بھی کچھ ایسا ہی چکوال کے ضمنی الیکشن میں انھوں نے پندرہ ہزارکے لگ بھگ ووٹ لیے ، جب کہ مسلم لیگ نون نے اپنا ماضی کے ووٹوں کا ریکارڈ نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اس میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو تینوں منہ بولے بھائیوں کی پریشانی کچھ ایسی غلط بھی نہیں اور ان کی پنجاب حکومت گرانے کی حکمتِ عملی ان کے نقطہ نظر سے درست بھی دکھائی دیتی ہے۔ میرا موضوع انھیں صرف یہ مشورہ دینا ہے کہ آپ کو حق ہے کہ آپ اقتدارکے حصول کے لیے جدوجہد کریں لیکن آپ کی ہرکوشش اپنی ایک حدکا تعین ضرور رکھے۔
سینیٹ کا ادارہ ایوانِ بالا ہے، ملک کا آئین، قانون ، وہیں سے تشکیل پاتا ہے، یہ کیا احمقانہ ضد ہے کہ مسلم لیگ نون کیونکہ یہ الیکشن جیت رہی ہے لہٰذا اُسے ہونے ہی نا دیا جائے ،دھرنے پے دھرنا ،احتجاج پر احتجاج ، اسمبلیاں توڑ کر الیکٹرول کالج کا خاتمہ،گویا ملک داؤ پر لگ جائے، آئین کا بیڑہ غرق ہوتا ہو، ایک ایسی رِیت پڑجائے کہ پھر جو الیکشن جیت رہا ہو اُسے روکوکسی بھی طرح ،کیا آپ جانتے ہیں کہ جو لعنت آپ پارلیمنٹ کو دے رہے ہیں اس کا حقیقی مستحق کون ہے؟
وہ جو جمہوریت کا خاتمہ چاہتا ہے ، شعور صرف آپ تک ہی نہیں پہنچا اس نے کچھ سفر ہماری سمت بھی کیاِ ہے اور زرداری صاحب پر یا علامہ صاحب پر تو تبصرہ ہی کیاِ؟ بات سیدھی سادھی سی ہے،کام کی بھی ہے کہ الیکشن لڑیے، پوری ایمانداری کے ساتھ ،کسی تیسری انگلی یا چوتھی انگلی کے اشارے کے بغیر اور ماشاء ماللہ حکومت بنایے اگرکامیاب ہوتے ہوں تو ، ورنہ یہ جن گھن چکروں میں آپ خود پڑگئے ہیں یا کسی کے کہنے پر تو یہ بالکل فضول سلسلہ ہے جو میری پیشنگوئی کے مطابق آپ کے کسی کام نہیں آنے والا، بلکہپریشان کن ثابت ہوگا ۔ ہم آپ سے بصیرت آموز، بصارت افروز فیصلوں کی توقع کرتے ہیں۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ سیاسی رہنماء اسی خبط کا شکار ہیں ،انھیں ہرحال میں ہرقیمت پر وزیرِاعظم بننا ہے،خواہ کچھ بھی ہوجائے ،حتی کہ وہ الیکشن میں بھی ہارجائیں لیکن انھیں وزیرِاعظم بنانا ہوگا، اقتدار میں لانا ہوگا ورنہ ... اس ورنہ کی بھی عجیب داستان ہے، لکھنے بیٹھیں تو الفاظ کم پڑجائیں لیکن کم سے کم الفاظ میں دھرنے،نا مہذب الفاظ، دھمکیاں ،الزامات، حکومت کرپٹ ،انتظامیہ کرپٹ ، عوام کرپٹ ، پارلیمنٹ پر لعنت اور لعنت بھی بقول ان کے چھوٹا لفظ ہے... ورنہ یہ سب کچھ ہوگا اور ساتھ ہی ہر پانچ سال میں ایک عدد شادی کے ساتھ ہوگا۔
میری دانست میں اس رویے نے ان کی سیاست کو بڑا نقصان پہنچایا ، بڑا دھچکا لگا انھیں جس سے شاید وہ ابھی پوری طرح واقف نہیں اور اسی جوشِ جنون میں مبتلا ہیں کہ میں وہ ہر دل عزیزلیڈر ہوں جس کی ہرخطا عوام وخواص کی طرف سے معاف ہے، اداروں کا لاڈلا ہوں، ستاروں کا سلسلہ ، منجم کی پیشنگوئی، روحانیت کا پیشوا ، لہٰذا مجھے کیِا ہونا ہے؟
پکڑا جائے گا نواز شریف ،زرداری، میں تو میں ہُوں ، مجھ جیسا نا کوئی کبھی پیدا ہُوا نہ ہوگا۔ غالبًا انھیں یہ خوش گمانی ایک تو اپنے احباب سے لگی دوسرے ان کے چاہنے والے اُن نوجوانوں سے جو ابھی کم عمر اورجذباتی ہیں، نہیں جانتے کہ بھلا کیا برا کیا۔
اُدھر علامہ صاحب بھی میدانِ عمل میں پھر سے موجود بلکہ کُود پڑے اورصبح شام ان کے فرامین عام جام۔آپ ٹی وی کھولیے اور بھرپور لطف اٹھایے ، تیسری سمت میں زرداری ہیں عمومی طور پر جن کا دعویٰ ہے کہ وہ جسے چاہیں جب چاہیں اس کے گھر ،آفس ، بنگلے گیراج سے باہر نکال سکتے ہیں ۔ حالانکہ ان دونوں حضرات کی صوبائی حکومتوں کا اتنا برا حال ہے کہ چیف جسٹس کو بھی کہنا پڑا کہ انھیں صرف پنجاب میں ترقی نظر آئی ، ورنہ سندھ کا تو جو حال ہے سو ہے۔
جب کہ تینوں منہ بولے بھائیوں کا مشترکہ دھرنا بھی سب نے دیکھ لیِا، اب اگلے لائحہ عمل کا انتظار ہے جو شاید باکس آفس سے بھی آگے نہ بڑھ سکے،کیونکہ یہ اقتدارکی جنگ ہے عوام کی نہیں۔ مارچ میں سینیٹ کے الیکشن جس میں اغلبًا مسلم لیگ نون کی حکومت کے جیتنے کے امکانات ہیں اُسے روکنے لیے ، پنجاب حکومت توڑنے کے لیے، جمہوریت کا بیڑا غرق کرنے کے لیے نظام کی بھینٹ بھی چڑھا دو ، بلوچستان جہاں تقریبًا ساری دنیا سازشوں میں مصروف ہے وہاں بھی پروا نہیں کام جاری رہنا چاہیے کیونکہ ہم ساری دنیا کی جانی مانی ہوئی اسٹبلشمنٹ ہیں ہمارا نیٹ ورک ،الامان ،یہ ڈرٹی حکومت کیِا بیچتی ہے۔ یہ وہ سوچ ہے جس کی اصلاح ممکن نہیں؟
جب کسی ملک کے رہنماء اُسے سنبھالنے والے ہاتھ ہی اس کی سلامتی، حفاظت سے بے بہرہ ہوجائیں تو دعاء کے علاوہ کیِا باقی رہ جاتا ہے؟ جیسے کراچی کا نقیب اللہ ! دیکھا جائے تو یہاں بھی وہی اقتدار کا مسئلہ ، راؤ انوار ہر قیمت پر ترقی چاہتے ہیں، لہٰذا انھوں نے ایک بیگناہ نوجوان کو اس کے گھر سے محض شک کی بنیاد پر اُٹھالیا اور اس کا encounterکردیا ، جیسے وہ ہمیشہ کرتے رہے اور پیٹھ پر تھپکی لیتے رہے،کس حکومت میں وہ ssp نہیں رہے؟
کس حکومت کی آنکھ کا تارا نہیں تھے ؟ تب آج اعتراض کیوں ہوگیا ، لیکن آج سوشل میڈیا کا خوف ہے ، حکومت کی بدنامی کا ڈر، لہٰذا فوراً انکوائری کا آرڈر جاری ہوگیا ،جب کہ اس سے قبل راؤ انوارکو پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ اس کے عہدے سے ہٹانے کا آرڈرکرچکی تھی اس قسم کے معاملات پر لیکن ڈھٹائی دیکھیے وہ اپنے عہدے پر کام کرتے رہے اور مسلسل ٹارگٹ کلنگ کرتے رہے ،اپنے IG تک کے آرڈر کو نہ ماننا البتہ ہر موجودہ حکومت کی مدد سے اپنے عہدے کو برقرار رکھنا انکا مشغلہ رہا۔
حضورﷺ کی محبت میں سے ایک تو ان کی امت تھی ،اُن کی زُبانِ مبارک پر تو ہر وقت امت کے لیے دعائیں رہا کرتی تھیں ،یہ کیسی قوم ہے اور کیسے اس کے رہنماء ؟ جنھیں اقتدار درکار ہو تو ہر قیمت پر ،طاقت چاہیے ہر صورت ، ہزاروں مسائل میں گھرا ملک آج ایک مسیحا کی تلاش میں سرگرداں ہے ۔اُسے تلاش ہے کہ اس کی قسمت کا فیصلہ کوئی عامل ،عاملہ ، نجومی نہ کرے ایک دانا ، مدبر، دانشورکی سوچ اس کی سمت متعین کرے ۔
پاکستان عوامی جماعت کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری جو یقینًا اپنے مصاحبین کے ہمراہ حکومتِ پنجاب کا خاتمہ کرنے نکلے ہیں ،دو دن بعد ایک نئے لائحہ عمل کا اعلان کرنے والے تھے غالبًا آج تک تو ایسی کوئی خبر سننے کو نہیں ملی لیکن ان سے اس وقت تک یہ امید ہے جب تک انھیں کہیں سے اشارے ہیں کہ وہ پھر کچھ نہ کچھ کرنے کا عندیہ دیں گے ۔قارئینِ کرام ایمانداری سے اس معاملے کا جائزہ لیا جائے تو ایک بوکسنگ میچ کی طرح 9,10,11 راؤنڈ میں PML-Nکو بڑے پنچ کھانے پڑے اور وہ اس حد تک نڈھال ہوگئی کہ میاں صاحب کو بھی میچ سے جبراً یا قدراً نکال دیا گیا۔
12, 13 راؤنڈ میں بھی معاملہ 50,50 رہا ،زیادہ سے زیادہ میاں صاحب مخالف اداروں کو بکتے جھکتے رہے لیکن 14ویں راؤنڈ میں صرف مسلم لیگ ہی مسلم لیگ ہے، ماننا ہوگا اسنے اپنے منہ پر پڑنے والے ہر پنچ کا نا صرف یہ کہ جواب دیا بلکہ بھرپور دیا ۔انتہائی نا مساعد حالات میں چکوال کا ضمنی الیکشن بہت کچھ بتا گیا ، جنرل الیکشن کا اشارہ دے گیا،کیونکہ وہاں جو سب سے بڑا خطرہ پی ایم ایل این کے لیے پیدا ہوتا نظر آرہا تھا وہ تحریک '' لبیک یارسول اللہ '' سے تھا ،خیال تھا کہ ماضی میں یہ ووٹ مسلم لیگ نون کا پکا ووٹ شمارکیا جاتا رہا ہے ،اب انھوں نے اپنی ایک جماعت بنالی ہے اور وہ زورشور سے اُس کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں تو پنجاب کی ہر سیٹ پر لبیک ان کے ووٹ تقسیم کرے گی جس کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہوگا۔
ہوا بھی کچھ ایسا ہی چکوال کے ضمنی الیکشن میں انھوں نے پندرہ ہزارکے لگ بھگ ووٹ لیے ، جب کہ مسلم لیگ نون نے اپنا ماضی کے ووٹوں کا ریکارڈ نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اس میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو تینوں منہ بولے بھائیوں کی پریشانی کچھ ایسی غلط بھی نہیں اور ان کی پنجاب حکومت گرانے کی حکمتِ عملی ان کے نقطہ نظر سے درست بھی دکھائی دیتی ہے۔ میرا موضوع انھیں صرف یہ مشورہ دینا ہے کہ آپ کو حق ہے کہ آپ اقتدارکے حصول کے لیے جدوجہد کریں لیکن آپ کی ہرکوشش اپنی ایک حدکا تعین ضرور رکھے۔
سینیٹ کا ادارہ ایوانِ بالا ہے، ملک کا آئین، قانون ، وہیں سے تشکیل پاتا ہے، یہ کیا احمقانہ ضد ہے کہ مسلم لیگ نون کیونکہ یہ الیکشن جیت رہی ہے لہٰذا اُسے ہونے ہی نا دیا جائے ،دھرنے پے دھرنا ،احتجاج پر احتجاج ، اسمبلیاں توڑ کر الیکٹرول کالج کا خاتمہ،گویا ملک داؤ پر لگ جائے، آئین کا بیڑہ غرق ہوتا ہو، ایک ایسی رِیت پڑجائے کہ پھر جو الیکشن جیت رہا ہو اُسے روکوکسی بھی طرح ،کیا آپ جانتے ہیں کہ جو لعنت آپ پارلیمنٹ کو دے رہے ہیں اس کا حقیقی مستحق کون ہے؟
وہ جو جمہوریت کا خاتمہ چاہتا ہے ، شعور صرف آپ تک ہی نہیں پہنچا اس نے کچھ سفر ہماری سمت بھی کیاِ ہے اور زرداری صاحب پر یا علامہ صاحب پر تو تبصرہ ہی کیاِ؟ بات سیدھی سادھی سی ہے،کام کی بھی ہے کہ الیکشن لڑیے، پوری ایمانداری کے ساتھ ،کسی تیسری انگلی یا چوتھی انگلی کے اشارے کے بغیر اور ماشاء ماللہ حکومت بنایے اگرکامیاب ہوتے ہوں تو ، ورنہ یہ جن گھن چکروں میں آپ خود پڑگئے ہیں یا کسی کے کہنے پر تو یہ بالکل فضول سلسلہ ہے جو میری پیشنگوئی کے مطابق آپ کے کسی کام نہیں آنے والا، بلکہپریشان کن ثابت ہوگا ۔ ہم آپ سے بصیرت آموز، بصارت افروز فیصلوں کی توقع کرتے ہیں۔