امریکا کا مطلب کیا ڈو مور ڈو مور
نئے سال کا آغاز ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئیٹ پر ہوا کہ پاکستان نے امریکا کو بے وقوف بنایا۔
ہلاکو خان نے بغداد کو تباہ ، تاراج کرنے کے بعد عباسی وزیر سے مخاطب ہوکرکہا ہمیں کوئی شکست دے ہی نہیں سکتا۔ فتح ہمارا مقدر ہے کیونکہ ہماری مائیں گھوڑے کی پیٹھ پر بچے جنم دیتی ہیں۔ عباسی وزیر نے جواب دیا۔ ''بے شک آپ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر ملک پر ملک فتح کرسکتے ہیں، لیکن کسی ایک ملک پر بھی حکومت نہیں کرسکتے کیونکہ اس کے لیے گھوڑے کی پیٹھ سے نیچے اترنا پڑتا ہے۔''
ویت نام کی جنگ میں جب امریکی فوجی ہزاروں کی تعداد میں ہلاک ہونے لگے تو ابتدا میں ان کی لاشوں کو دوست ملکوں کے مردہ خانوں میں چھپایا جانے لگا، لیکن جلد ہی تمام مردہ خانے بھی جام ہوگئے۔ تب امریکا میں بھانڈا پھوٹا۔ کہرام مچ گیا۔ امریکیوں نے اپنے نوجوانوں کو امریکی حکومت کی بیرون ملک مہمات میں مروانے سے انکارکردیا۔ نتیجتاً امریکی فوج میں بری کے بجائے بحری فوج کو اولیت حاصل ہوئی۔ ایئرفورس دوسرے نمبر پر اور بری فوج برائے نام۔
اس کے بعد امریکا نے جارحانہ دفاع کی پالیسی اپنالی ہے یعنی وہ امریکی سرحد پر جنگ نہیں لڑتا بلکہ دشمن ملک کی سرحد پر لڑتا ہے۔ چنانچہ شکست اس کا مقدر بنتی ہے کیونکہ اس کی پیٹھ مضبوط نہیں رہتی۔ اس کے پیچھے امریکی قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر نہیں کھڑی ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ امریکا، امریکی قوم اور ملک کی سلامتی کی جنگ نہیں لڑتا کیونکہ امریکا ملک تو دورکی بات امریکی براعظم بھی دنیا کا محفوظ ترین ہزاروں میل کے سمندر سے گھرا براعظم ہے جس پر آج تک کسی نے حملہ نہیں کیا ۔ یہ امریکا ہے جو بن نتھنی کے بیل کی طرح دوسرے براعظموں کے ساتھ جنگ کرتا رہتا ہے تاکہ کمزور قوموں پر نیو ورلڈ آرڈر مسلط کرے۔
نئے سال کا آغاز ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئیٹ پر ہوا کہ پاکستان نے امریکا کو بے وقوف بنایا۔ امریکا ''ڈو مور'' کہتا رہا اور پاکستان نو مورNo More کرتا رہا اور ڈالر فی سبیل اللہ لیتا رہا۔ ساتھ ہی ایک کتاب Fire & Fury منظر عام پر آئی جس کے توسط سے وائٹ ہاؤس کے اسٹاف کے نئے امریکی صدر کے متعلق خیالات منظر عام پر آئے کہ موصوف ٹرمپ پاگل پن مثلاً وہ ڈبل ڈیکر چیز برگر کھاتے ہوئے بیک وقت تین TV پر تین مختلف چینلز دیکھتے تھے۔
اس کے علاوہ نیویارک ٹائمز نے بھی جلتی پر تیل چھڑکا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے سال میں اب تک دو ہزار مرتبہ جھوٹ بول چکے ہیں۔ مختصراً آداب وہ دن ہوا ہوئے کہ جب امریکی صدرکو قوم سے محض ایک جھوٹ بولنے پر صدارت چھوڑنا پڑتا تھا۔
سوال یہ ہے کہ اب ڈالر فی سبیل اللہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے کیا کریں؟ فرمودات عالی کو ارشادات خالی سمجھ کر نظرانداز کردیں یا۔۔۔۔؟
بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے تک میں بھی اس خیال کا حامی تھا کہ ٹرمپ کو سنجیدہ نہ لیا جائے۔ ماضی میں کسی بھی امریکی صدرکی یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ عالم اسلام کے جذبات کو نظرانداز کرکے محض اسرائیل کی خواہش پوری کرنے کے لیے اس اقدام کی حمایت کرتا۔ روایتی شور شرابا ہوا، جلسے جلوس بھی ہوئے، اقوام متحدہ نے اکثریت سے اس فیصلے کے خلاف قرارداد بھی پاس کردی۔ او آئی سی کا رسمی اجلاس ہوا مگر آخرکار سب ٹائیں، ٹائیں، فش۔ ٹرمپ کو جانچا گیا، ٹرمپ کارڈ کامیاب ہوا، اگر مذکورہ اقدام ناکام ہوتا تو کہا جاتا ٹرمپ تو ہے ہی پاگل۔ اس سے پہلے بھی انھوں نے کئی ایسے احمقانہ اقدامات کیے ہیں جن کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا ہے۔
جنگ عظیم دوم کے بعد برطانیہ کا سورج غروب ہوگیا۔ افغان جنگ کے بعد روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ اب امریکا افغانستان کے دلدل میں پھنسا ہاتھ پیر مار رہا ہے۔ اس کی معیشت تباہ ہوچکی ہے۔ جس کا دارومدار اسلحے کی تجارت پر ہے۔ جس کے لیے امریکا کو جنگ عظیم درکار ہے یا بڑی جنگوں کا جمعہ بازار۔ اسلحے کی خریداری میں سعودی عرب کا پہلا نمبر ہے اب اسلحے کے لیے فوجیوں کو تلاش کررہا ہے۔ دوسرے نمبر پر بھارت ہے جس کو امریکا نے سپر پاور بنانے کا جھانسہ دیا ہوا ہے (چین کی ٹکر کا) اگر ایسا ہوا تو بھارت دنیا کی واحد سپرپاور ہوگا جس کی آدھے سے زیادہ آبادی خط افلاس سے نیچے جاچکی ہے۔
اگر جنگ عظیم سوم چھڑی تو اس کے ممکنہ میدان جنگ دو ہیں۔ (1)۔ بحر ہند۔ (2)۔جنوبی چین کا سمندر۔ پہلے بحر ہند کے میدان جنگ کا جائزہ لیتے ہیں۔ ایک طرف امریکا بھارت اور دوسری طرف پاکستان چین روس ہیں۔ اس کے اہداف ہیں (1)۔چین کے گرد حصار قائم کرنا۔ (2)۔اقتصادی راہداری میں رکاوٹ ڈالنا۔ (3)۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنا۔ (4)۔افغانستان میں بھارت کی پوزیشن کو مضبوط کرنا۔ (5)۔ خطے میں بھارت کی بالادستی قائم کرنا۔ (6)۔ایران کی ایٹمی پیش رفت کو لگام دینا وغیرہ۔
لیکن میں آج بھی اس بات پر قائم ہوں کہ اس علاقے میں جنگ نہیں ہوگی۔ وجہ؟ (1)۔9/11 سے پہلے مغرب سے سرمایہ مشرق کی طرف فرار ہونے لگا تھا۔ 9/11 کے بعد تمام ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے اپنے پروڈکٹس یونٹس کے ساتھ غیر محفوظ امریکا سے محفوظ چین میں منتقل ہوگئیں۔ (2)۔ اس علاقے میں چار بڑی طاقتیں روس، چین، پاکستان، بھارت ایٹمی طاقتیں ہیں۔ تین ایٹمی طاقتیں پاکستان، چین، روس ایک طرف جب کہ اکیلا بھارت دوسری طرف۔ ایٹمی جنگ کی صورت میں امریکا کا روایتی اسلحہ کس کام کا؟ الٹا امریکا اپنے اکلوتے حلیف بھارت سے بھی ہاتھ دھوسکتا ہے۔ (3)۔چین اور بھارت میں امریکا کا سرمایہ بھی لگا ہوا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کو اپنی احمقانہ ٹوئیٹ کے ذریعے غلط ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھیں۔
جنگ عظیم سوم کا دوسرا ممکنہ محاذ جنوبی چین کا سمندر ہے۔ جہاں امریکا اور چین براہ راست ایک دوسرے کے مقابل ہوں گے۔ یہ سراسر امریکا کے لیے گھاٹے کا سودا ہے کیونکہ چین امریکا سے جنگ کرنے کے لیے امریکی اسلحے کا محتاج نہیں ہے۔ افغانستان جنگ کا خمیازہ بھگت کر بھاگنے والا امریکا براہ راست چین سے جنگ میں الجھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
البتہ اگر امریکا کو اس خطے سے نکلنا پڑا تو اس کا آخری آپشن شمالی کوریا کا معقول بندوبست ہوسکتا ہے۔ وجوہات یہ ہیں۔ امریکا جارحانہ دفاع پر عمل کرتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ امریکی سرحد پر جنگ نہیں لڑتا بلکہ دشمن کی سرحد پر لڑتا ہے۔ شمالی کوریا کے صدر ٹرمپ سے بھی زیادہ بعید ازقیاس Unpredictable شخصیت ہیں۔ شمالی کوریا کی میزائل ٹیکنالوجی میں مہارت شک و شبے سے بالاتر ہے چنانچہ شمالی کوریا مشرقی سمت سے امریکا کو نشانہ بناسکتا ہے۔
آخر میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر اور شمالی کوریا کے تازہ ترین ٹوئیٹس ملاحظہ کیجیے۔ شمالی کوریا کے صدر امریکا کو خبردار کرتے ہوئے ''میری میز کے ساتھ نیوکلیئر بٹن لگا ہوا ہے'' جواباً صدر امریکا کی ٹوئیٹ ''میری میزکے ساتھ اس سے بھی بڑا بٹن لگا ہوا ہے جو کام بھی کرتا ہے۔''
کیا ایسا نہیں لگتا کہ دونوں حماقت میں پی۔ ایچ۔ ڈی کیے ہوئے ہیں بلکہ کلاس میٹ بھی رہ چکے ہیں؟