عمران نہیں زرداری لاڈلے ہیں

عمران خان پریشان نظر آرہے ہیں۔ نواز شریف غصہ میں ہیں۔ زرداری سکون میں ہیں۔


مزمل سہروردی January 30, 2018
[email protected]

سیاست ایک ظالم کھیل ہے۔ اس میں دوست کے دشمن بننے اور دشمن کے دوست بننے میں دیر نہیں لگتی۔ تخت اور تختہ کے اس کھیل میں رحم اور دوستی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ پاکستان کی سیاست بھی اس وقت اسی دور سے گزر رہی ہے۔لیکن اب تک کے کھیل میں آصف زرداری نے بہترین کھیل پیش کیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی آصف زرداری ہیںجو گزشتہ انتخاب میں چاروں شانے چت ہو گئے تھے۔

ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان کی سیاست سے پیپلزپارٹی اور آصف زرداری کا بوریا بستر گول ہو گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ سندھ کی حکومت بچ گئی تھی لیکن زبان زد عام تھا کہ یہ سندھ میں بھی زرداری کی آخری باری ہے۔ لیکن کیا کمال کر دیا ہے زرداری نے، اگلے انتخابات سے قبل صورتحال کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ بلا شبہ کہنا پڑے گا ویلڈن زرداری۔

نواز شریف ایسے ہی عمران خان کو لا ڈلا کہ رہے ہیں۔ صورتحال تو ایسی ہے کہ جیسے جیسے دن گزر رہے ہیں زرداری اسٹبلشمنٹ کے لاڈلے سے لاڈلے ترین بنتے جا رہے ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ زرداری کو کیا ضرورت تھی کہ وہ نواز شریف کی خاطر اسٹبلشمنٹ سے لڑتے۔ حیرانگی ہے نواز شریف کی سوچ پرہے' اپنی باری تو زرداری کی مدد نہیں کی اور اب یہ توقع رکھ لی کہ زرداری ان کی مدد کرے گا۔سیاست میں نہ تو کچھ مفت ملتا ہے اور نہ ہی خیرات ملتی ہے۔

سب سے پہلے نواز شریف کیمپ کا خیال تھا کہ ہمارے پاس زرداری کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔ ڈیل ہو ہی جائے گی۔ دوبارہ صدر بنا دیں گے۔ وزارت عظمیٰ دے دیں گے۔ پنجاب میں گورنر دے دیں گے۔ لیکن نواز شریف اپنا سودا رکھ کر بیٹھے رہے اور زرداری نے خریدنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے کھیل کا پانسہ ہی پلٹ دیا۔

عمران خان کو دیکھیں۔ چار سال زرداری کو گالیاں نکلانے کے بعد عمران خان کا یہ خیال تھا کہ زرداری ان کے ساتھ اسمبلیوں سے استعفیٰ دے کر ملک میں قبل از وقت انتخابات کی راہ ہموار کر دے گا۔ عمران خان کی اس سوچ پر بھی حیرانگی کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔ بھائی آپ نے زرداری کے ساتھ کونسی نیکی کی ہے جو وہ آپ کے اقتدار کی راہ ہموار کر دے۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ زرداری کو کیا مل گیا ہے جو میں اتنے گن گا رہا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ انھوں نے نواز شریف اور عمران خان دونوں کی گیم کھیلنے سے انکار کر دیا ۔ وہ اسٹبلشمنٹ کو ایک تیسرے اسکرپٹ پر لے آئے ہیں اور الگ ڈیل کی۔ ڈیل کے پہلے مرحلے میں بلوچستان گفٹ میں مل گیاہے۔ ویسے زداری صاحب کہہ رہے ہیں کہ انھوںنے دوا اور دعا دی تھی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام بغیر دوا اور دعا کے ہوا ہے۔ یہ تحفہ ہے۔ جس سے بات سمجھ آگئی ہے کہ ڈیل آن ہو گئی ہے۔

اب نواز شریف کا مقابلہ کرنے والا گھوڑا عمران خان نہیں ہے بلکہ زرداری ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ سینیٹ تھا۔پہلے اسکرپٹ تھا کہ سینیٹ نواز شریف کے پاس نہیں جانی چاہیے، اس لیے سینیٹ کے انتخابات ہی نہ ہونے دئے جائیں۔ چاہے نظام کا بوریابستر گول ہوجائے۔ اسمبلیوں کے قبل ا ز وقت ٹوٹنے کی گونج تھی۔ استعفوں کی گونج تھی۔ لیکن اب سینیٹ زرداری کو مل رہا ہے۔ اسے کہتے ہیں لاٹھی بھی بچ گئی اور سانپ بھی مر گیا۔

اب آگے دیکھیں۔ بلوچستان دوبارہ پیپلزپارٹی کے پاس جائے گا۔ سندھ میں پیپلزپارٹی پر خطرات کے بادل ختم ہو گئے۔ پنجاب میں ایک زینب کے واقعہ سے شہباز شریف کی حکومت زلزلہ کا شکار ہو گئی تھی لیکن سندھ میں اتنے بڑے واقعات ہوئے ، پھر بھی کوئی طوفان نہیں آیا۔ آج تو پیپلزپارٹی کی گورننس پر سوال بھی نہیں اٹھ رہا۔وہ جو سندھ میں اتحاد بنتے نظر آرہے تھے وہ بھی ڈوبتے نظر آرہے ہیں اور پیپلزپارٹی کا جادو پھر سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

دوسرے دو صوبے بھی زرداری کے پاس جاتے نظر آرہے ہیں۔ کے پی کے میں پیپلزپارٹی کی بحالی نظر آرہی ہے۔کچھ سیٹیں مل جائیں گی۔ مسئلہ پنجاب کا ہے۔ پنجاب میں بریک تھرو نہیں ہے لیکن لوگ انفرادی سیٹوں کی بات کر رہے ہیں۔ دوست کہ رہے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، کائرہ سیٹ نکال لیں گے۔ لوگ میاں منظور وٹو کی سیٹ کی بھی بات کر رہے ہیں۔ ندیم افضل چن کی سیٹ کی بھی بازگشت ہے۔ لاہور سے گھرکی بھی معجزہ کر سکتے ہیں۔مخدوم شہاب الدین کی سیٹ بھی نکلے گی۔

مخدوم احمد محمود کی سیٹ بھی نکل سکتی ہے۔ اس طرح پیپلزپارٹی پنجاب سے مکمل آؤٹ نہیں ہے۔ دوست کہہ رہے ہیں کہ ابھی لودھراں کے ضمنی انتخاب میں پیپلزپارٹی دوسرے نمبر پر آسکتی ہے۔ جو ایک اپ سیٹ سے کم نہیں ہو گا۔ ایسے میں پنجاب میں بحالی کا سفر شروع ہو جائے گا۔ اسکور جو گزشتہ انتخاب میں صفر تھا۔ دس کے قریب پہنچے گا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ پھر کیا ہو گا۔ کیا اقتدار مل جائے گا۔ شائد زرداری اقتدار مکمل اقتدار مانگ ہی نہیں رہے۔و ہ شراکت اقتدار مانگ رہے ہیں۔ وہ مل سکتا ہے۔ مرکز میں حکومت ان کی مرضی کے بغیر نہیں بن سکے گی۔ جس طرح بلوچستان کا وزیر اعلیٰ پیپلزپارٹی سے نہیں ہے لیکن زرداری ہاؤس پہنچ گیا ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم پیپلزپارٹی سے نہیں ہو گا لیکن زرداری ہاؤس پہنچ جائے گا۔جو بھی ہو گا ان کے ساتھ ہو گا۔

یہ بھی ممکن ہے شہباز شریف ہو اورپیپلزپارٹی کے ساتھ شراکت اقتدار میں ہو جائے۔ لیکن یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ ابھی دو صوبوں کی حد تک منظر صاف نظر آرہا ہے۔ اسی لیے سینیٹ کے انتخابات بھی صاف نظر آرہے ہیں۔ زرداری لاڈلے نظر آرہے ہیں۔ عمران خان پریشان نظر آرہے ہیں۔ نواز شریف غصہ میں ہیں۔ زرداری سکون میں ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں