صحافت کی آبرو
اگر آپ کے پاس صحافت کی کوئی اعلیٰ ڈگری موجودہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ آپ صحافی بن گئے ہیں۔
میں ایک طویل عرصے سے کسی اخبار کے ماحول سے دور ہوں، میر امطلب ہے کہ میں باقاعدہ اخبار کے دفتر جانے سے قاصر ہوں اس کی ایک وجہ تو میرے گھٹنے کا درد ہے جو کسی اخبار کی سیڑھیاں چڑھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔
ہمارے پنجابی کے شاعر استاد امام دین نے اسے یوں بیان کیا''کہ میرے گوڈے میں درد جگر مام دینا''اور دوسری بڑی وجہ میرے ہم عصردوست اور دیرینہ رفیق ہیں جن میں سے کچھ تو اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں اور باقی ماندہ میری طرح پیرانہ سالی کا شکار ہیں۔
میں باقاعدہ اخباری ماحول سے دور رہنے کو اپنی بد قسمتی سمجھتا ہوں لیکن میری کالم نویسی کے لیے یہ گنجائش موجود ہے کہ میں اخبار کے دفتر میں نہ بھی جاؤں تو یہ کام جاری رکھ سکتا ہوںچنانچہ اخبار کے روز مرہ کے کاموں سے غیر متعلق ہونے کی وجہ سے میں کسی دفتر میں بیٹھوں بھی تو وہاں کیا کروں۔ نہ میرا اخبار کے نیوز ڈیسک پر کوئی کام ہے اور نہ ہی رپورٹنگ سے کوئی سرو کار لیکن اس دوری کی وجہ سے میں اخبار کے دفتر کے زندگی بخش ماحول سے دور ہو گیا ہوں اور مجھے کچھ معلوم نہیں کہ آج کل اخبارات میں کس طرح کام ہوتا ہے۔
میں جب اخبارات میں کام کرتا تھا تو ہمارے وسائل بہت محدود ہوتے تھے جن میں آج کل بے تحاشہ اور حیران کن حد تک اضافہ سننے میں آرہا ہے، ہم جو کام ہاتھوں سے کیا کرتے تھے وہ اب کمپیوٹر کر رہا ہے اور منٹوں میں اخبار کا مواد ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہو جاتا ہے بلکہ دوسر ملک بھی۔
کہاں ٹرنک کال والے ٹیلی فون پر رابطہ اور کہاں ایک بٹن دبایا تواخبار کا میٹریل ایک شہر سے دوسرے شہر بلکہ ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچ گیا ۔ چشم زدن میں معاملات طے پا جاتے ہیں ۔ مثلاً میں جب گاؤں جاتا ہوں پہلے تو میں فیکس مشین ساتھ اٹھا کر لے جاتا تھا اور وہاں سے کالم فیکس کر دیتا تھا، اب اس کی جگہ کمپیوٹر نے لے لی ہے جس سے میں تو نابلد ہوں مگر میرا پوتا میرا یہ کام منٹوںمیں کر دیتا ہے اور کالم بذریعہ ای میل ایکسپریس کے دفتر میں پہنچ جاتا ہے، ایسے حالات کا میں کبھی خواب و خیال میں بھی تصور نہیں کرسکتا تھا.
اب تو دنیاکے بیشتر ممالک میں پاکستانی اخباروں کی صرف طباعت ہی ہوتی ہے ان کا میٹریل پاکستان میں بیٹھ کر مرتب کیا جاتا ہے لیکن ایسے حیران کن وسائل کے باوجودپاکستانی اخبارات کا معیار ان کے مطابق ترقی نہیں کر سکا اس کی کئی وجوہات ہیں جس میں بعض صحافیوں کی نظریاتی ناپختگی صحافت کو محض ایک اور نوکری سمجھ لینا اور صحافتی تربیت کا فقدان ہے۔
اگر آپ کے پاس صحافت کی کوئی اعلیٰ ڈگری موجودہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ آپ صحافی بن گئے ہیں جس طرح کوئی ڈاکٹرہاؤس جاب کے بغیر ڈاکٹر نہیں بن سکتا اسی طرح کوئی صحافی بھی اخبار میں عملاً کام کیے بغیر صحافی نہیں بن سکتا ۔ مثلاً کالم نویسی میں میرا تجربہ اور مشن بہت بڑھ چکا ہے لیکن جو کالم میں نے اپنی رپورٹنگ کے زمانے میں لکھے تھے آج وہ کالم مجھے کسی دوسرے کے لکھے ہوئے لگتے ہیں ، وہ زیادہ جانداراور بھر پور ہوا کرتے تھے۔
آج بھی میرے جو ہمعصر اخبارات کے ماحول میں رہتے ہوئے کالم نویسی کر رہے ہیں، ان کی خبروں سے آگے تک رسائی کی وجہ سے ان کی کالم نویسی میں خبریت کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔ ہمارے نیوز ایڈیٹر ہمیں بتایا کرتے تھے کہ موچی دروازے میں جلسے کے دوران کی گئی دھواں دھار تقاریر میں اصل خبر کہا ںہے، اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ لاہور میں پیپلز پارٹی بنانے کے دنوں میں بھٹو صاحب نے ایک تقریر کی جس میں انھوں نے کہا کہ سوشلزم کی پہلی اینٹ پیغمبر اسلام نے رکھی تھی۔
میں نے یہ تقریر رپورٹ کی اور کہیں آخر میں ان کا یہ جملہ بھی لکھ دیا۔ نیوز ایڈیٹر نے خبر پڑھتے ہی مجھے بنچ پر کھڑا کر دیا اور کہا بتاؤاس میں اصل خبر کہاں ہے۔ ان دنوں اسلامی سوشلزم بے حد متنارعہ تھا، میں ان کے اس رویہ سے گھبرا گیا لیکن انھوں نے مجھے سمجھایا کہ اصل خبر یہ ہے اور اگلے دن یہ سوشلزم والا جملہ اخبار کی شہ سرخی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اخبار کا دفتر ملازمت کی جگہ نہیں بلکہ تعلیم وتربیت اور ذوق وشوق کا ادارہ ہوا کرتا تھا اور سینئر اپنا فرض سمجھتے ہوئے نئے لوگوں کی تربیت کرتے تھے.
یہی وجہ ہے ان دنوں کے اخبار کا معنوی معیار آج کے بظاہر پروقار دور سے بہت بہتر تھا، صحافت کا پیشہ بالعموم نظریاتی لوگ اختیار کرتے تھے۔ میں خود صحافت میں آنے سے پہلے جماعت اسلامی کا کارکن تھا، اسی طرح میرے چیف رپورٹر مارکسٹ تھے ، اس وجہ سے اخبار میں ذمے دار لوگ آتے تھے اور ان کے کردار پر ایڈیٹر اعتماد کرتا تھا، وہ اخبار کی پالیسی کا احترام کریں گے۔ ہمارے اس اخبار کا مالک جماعت اسلامی اور کمیونسٹوں دونوں کا کٹر مخالف تھا مگر اعتماد اور ایک دوسرے پر بھروسے کا مضبوط رشتہ قائم تھا ۔
تربیت کا فقدان تو اپنی جگہ مگر صحافت میں سیاستدانوں اور خاص طور پر حکمرانوں کی مداخلت اور صحافیوں کی طرف سے حکمرانوں کی پذیرائی بھی اخبارات کے منصفانہ اور اونچے معیارمیں ایک بڑی رکاوٹ ہے جس طرح سیاستدانوں نے افسر رکھے ہوئے ہیں معذرت کے ساتھ اسی طرح سیاستدانوں اور حکمرانوں نے صحافی بھی رکھے ہوئے ہیں، ہم لوگوں کی اخباری تربیت کے زمانے میں کسی حکمران کی یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ کسی صحافی کو کسی طرح سے مرعوب کر سکے لفافہ تو ناقابل تصور تھا۔
مجھے صحافت کی اس عملی زندگی کا تذکرہ مجبوراکرنا پڑا کہ میںروزانہ صبح سویرے اخبارات پڑھ کراور شام کو ٹی وی پر اپنے پیٹی بھائیوں کے ارشادات سن کر سر دھنتا ہوں کہ صحافت پہ کیسا زمانہ آگیا ہے اور ہم نے اپنی کس قدر بے توقیری کر لی ہے ۔ یہ صحافی کہاں سے آگئے، برسہا برس کی میری رپورٹنگ میںکسی خبر کی تردید نہیں ہوئی اور نہ کسی سیاستدان اور حکمران نے کسی شریفانہ وعدے کی خلاف ورزی کی۔
آج کے نوجوان صحافیوں کو معذور سمجھئے کہ کسی نے ان کی تربیت ہی نہیںکی اور وہ سیدھے صحافت کی اعلیٰ ترین مسند پر جا بیٹھے، ہاں ان وہ بھی موجود ہیں جو کسی اخبار میں مار کھا کر ٹیلی ویژن کو پیارے ہو گئے ہیں لیکن ان کے تجزئے ان کے تجربے کی گواہی دیتے ہیں۔ پسند ناپسند ہر ایک کی اپنی ہوتی ہے لیکن جس پیشے سے منسلک ہیں اس کا بھی ایک وقار ہے۔
آج کے قیمتی اور خوبصورت اخبارات کی خبروں کے انداز بیان اور ٹیلی ویژن کی رنگ برنگی اسکرینوں پر نفیس لباس میں ملبوس چمکتے چہروں کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے جو جانتے بوجھتے کسی اور کی نہیں اپنی ہی بے توقیری کر رہے ہوتے ہیں۔ شیوہ اہل نظر کی آبرو جا چکی ہے۔مگر یہ ضرور لوٹے گی۔
ہمارے پنجابی کے شاعر استاد امام دین نے اسے یوں بیان کیا''کہ میرے گوڈے میں درد جگر مام دینا''اور دوسری بڑی وجہ میرے ہم عصردوست اور دیرینہ رفیق ہیں جن میں سے کچھ تو اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں اور باقی ماندہ میری طرح پیرانہ سالی کا شکار ہیں۔
میں باقاعدہ اخباری ماحول سے دور رہنے کو اپنی بد قسمتی سمجھتا ہوں لیکن میری کالم نویسی کے لیے یہ گنجائش موجود ہے کہ میں اخبار کے دفتر میں نہ بھی جاؤں تو یہ کام جاری رکھ سکتا ہوںچنانچہ اخبار کے روز مرہ کے کاموں سے غیر متعلق ہونے کی وجہ سے میں کسی دفتر میں بیٹھوں بھی تو وہاں کیا کروں۔ نہ میرا اخبار کے نیوز ڈیسک پر کوئی کام ہے اور نہ ہی رپورٹنگ سے کوئی سرو کار لیکن اس دوری کی وجہ سے میں اخبار کے دفتر کے زندگی بخش ماحول سے دور ہو گیا ہوں اور مجھے کچھ معلوم نہیں کہ آج کل اخبارات میں کس طرح کام ہوتا ہے۔
میں جب اخبارات میں کام کرتا تھا تو ہمارے وسائل بہت محدود ہوتے تھے جن میں آج کل بے تحاشہ اور حیران کن حد تک اضافہ سننے میں آرہا ہے، ہم جو کام ہاتھوں سے کیا کرتے تھے وہ اب کمپیوٹر کر رہا ہے اور منٹوں میں اخبار کا مواد ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہو جاتا ہے بلکہ دوسر ملک بھی۔
کہاں ٹرنک کال والے ٹیلی فون پر رابطہ اور کہاں ایک بٹن دبایا تواخبار کا میٹریل ایک شہر سے دوسرے شہر بلکہ ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچ گیا ۔ چشم زدن میں معاملات طے پا جاتے ہیں ۔ مثلاً میں جب گاؤں جاتا ہوں پہلے تو میں فیکس مشین ساتھ اٹھا کر لے جاتا تھا اور وہاں سے کالم فیکس کر دیتا تھا، اب اس کی جگہ کمپیوٹر نے لے لی ہے جس سے میں تو نابلد ہوں مگر میرا پوتا میرا یہ کام منٹوںمیں کر دیتا ہے اور کالم بذریعہ ای میل ایکسپریس کے دفتر میں پہنچ جاتا ہے، ایسے حالات کا میں کبھی خواب و خیال میں بھی تصور نہیں کرسکتا تھا.
اب تو دنیاکے بیشتر ممالک میں پاکستانی اخباروں کی صرف طباعت ہی ہوتی ہے ان کا میٹریل پاکستان میں بیٹھ کر مرتب کیا جاتا ہے لیکن ایسے حیران کن وسائل کے باوجودپاکستانی اخبارات کا معیار ان کے مطابق ترقی نہیں کر سکا اس کی کئی وجوہات ہیں جس میں بعض صحافیوں کی نظریاتی ناپختگی صحافت کو محض ایک اور نوکری سمجھ لینا اور صحافتی تربیت کا فقدان ہے۔
اگر آپ کے پاس صحافت کی کوئی اعلیٰ ڈگری موجودہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ آپ صحافی بن گئے ہیں جس طرح کوئی ڈاکٹرہاؤس جاب کے بغیر ڈاکٹر نہیں بن سکتا اسی طرح کوئی صحافی بھی اخبار میں عملاً کام کیے بغیر صحافی نہیں بن سکتا ۔ مثلاً کالم نویسی میں میرا تجربہ اور مشن بہت بڑھ چکا ہے لیکن جو کالم میں نے اپنی رپورٹنگ کے زمانے میں لکھے تھے آج وہ کالم مجھے کسی دوسرے کے لکھے ہوئے لگتے ہیں ، وہ زیادہ جانداراور بھر پور ہوا کرتے تھے۔
آج بھی میرے جو ہمعصر اخبارات کے ماحول میں رہتے ہوئے کالم نویسی کر رہے ہیں، ان کی خبروں سے آگے تک رسائی کی وجہ سے ان کی کالم نویسی میں خبریت کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔ ہمارے نیوز ایڈیٹر ہمیں بتایا کرتے تھے کہ موچی دروازے میں جلسے کے دوران کی گئی دھواں دھار تقاریر میں اصل خبر کہا ںہے، اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ لاہور میں پیپلز پارٹی بنانے کے دنوں میں بھٹو صاحب نے ایک تقریر کی جس میں انھوں نے کہا کہ سوشلزم کی پہلی اینٹ پیغمبر اسلام نے رکھی تھی۔
میں نے یہ تقریر رپورٹ کی اور کہیں آخر میں ان کا یہ جملہ بھی لکھ دیا۔ نیوز ایڈیٹر نے خبر پڑھتے ہی مجھے بنچ پر کھڑا کر دیا اور کہا بتاؤاس میں اصل خبر کہاں ہے۔ ان دنوں اسلامی سوشلزم بے حد متنارعہ تھا، میں ان کے اس رویہ سے گھبرا گیا لیکن انھوں نے مجھے سمجھایا کہ اصل خبر یہ ہے اور اگلے دن یہ سوشلزم والا جملہ اخبار کی شہ سرخی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اخبار کا دفتر ملازمت کی جگہ نہیں بلکہ تعلیم وتربیت اور ذوق وشوق کا ادارہ ہوا کرتا تھا اور سینئر اپنا فرض سمجھتے ہوئے نئے لوگوں کی تربیت کرتے تھے.
یہی وجہ ہے ان دنوں کے اخبار کا معنوی معیار آج کے بظاہر پروقار دور سے بہت بہتر تھا، صحافت کا پیشہ بالعموم نظریاتی لوگ اختیار کرتے تھے۔ میں خود صحافت میں آنے سے پہلے جماعت اسلامی کا کارکن تھا، اسی طرح میرے چیف رپورٹر مارکسٹ تھے ، اس وجہ سے اخبار میں ذمے دار لوگ آتے تھے اور ان کے کردار پر ایڈیٹر اعتماد کرتا تھا، وہ اخبار کی پالیسی کا احترام کریں گے۔ ہمارے اس اخبار کا مالک جماعت اسلامی اور کمیونسٹوں دونوں کا کٹر مخالف تھا مگر اعتماد اور ایک دوسرے پر بھروسے کا مضبوط رشتہ قائم تھا ۔
تربیت کا فقدان تو اپنی جگہ مگر صحافت میں سیاستدانوں اور خاص طور پر حکمرانوں کی مداخلت اور صحافیوں کی طرف سے حکمرانوں کی پذیرائی بھی اخبارات کے منصفانہ اور اونچے معیارمیں ایک بڑی رکاوٹ ہے جس طرح سیاستدانوں نے افسر رکھے ہوئے ہیں معذرت کے ساتھ اسی طرح سیاستدانوں اور حکمرانوں نے صحافی بھی رکھے ہوئے ہیں، ہم لوگوں کی اخباری تربیت کے زمانے میں کسی حکمران کی یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ کسی صحافی کو کسی طرح سے مرعوب کر سکے لفافہ تو ناقابل تصور تھا۔
مجھے صحافت کی اس عملی زندگی کا تذکرہ مجبوراکرنا پڑا کہ میںروزانہ صبح سویرے اخبارات پڑھ کراور شام کو ٹی وی پر اپنے پیٹی بھائیوں کے ارشادات سن کر سر دھنتا ہوں کہ صحافت پہ کیسا زمانہ آگیا ہے اور ہم نے اپنی کس قدر بے توقیری کر لی ہے ۔ یہ صحافی کہاں سے آگئے، برسہا برس کی میری رپورٹنگ میںکسی خبر کی تردید نہیں ہوئی اور نہ کسی سیاستدان اور حکمران نے کسی شریفانہ وعدے کی خلاف ورزی کی۔
آج کے نوجوان صحافیوں کو معذور سمجھئے کہ کسی نے ان کی تربیت ہی نہیںکی اور وہ سیدھے صحافت کی اعلیٰ ترین مسند پر جا بیٹھے، ہاں ان وہ بھی موجود ہیں جو کسی اخبار میں مار کھا کر ٹیلی ویژن کو پیارے ہو گئے ہیں لیکن ان کے تجزئے ان کے تجربے کی گواہی دیتے ہیں۔ پسند ناپسند ہر ایک کی اپنی ہوتی ہے لیکن جس پیشے سے منسلک ہیں اس کا بھی ایک وقار ہے۔
آج کے قیمتی اور خوبصورت اخبارات کی خبروں کے انداز بیان اور ٹیلی ویژن کی رنگ برنگی اسکرینوں پر نفیس لباس میں ملبوس چمکتے چہروں کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے جو جانتے بوجھتے کسی اور کی نہیں اپنی ہی بے توقیری کر رہے ہوتے ہیں۔ شیوہ اہل نظر کی آبرو جا چکی ہے۔مگر یہ ضرور لوٹے گی۔