راحت فتح علی خاں کا ’ثقافتی بیڑا‘ ورلڈ ٹورکیلئے تیار
دنیا کے بیشترممالک میں اپنے فن سے پاکستانی کلچرکومتعارف کرانا مشن ہے، گلوکار
موسیقی کے میدان میں ہمارے معروف گلوکاروں نے ہمیشہ ہی وطن عزیز کا نام پوری دنیا میں روشن کیا ہے۔
موسیقی کی مختلف اصناف کی جب بات کی جاتی ہے تو کلاسیکل، غزل، صوفی، پاپ ، فوک اورقوالی کے شعبوں میں نمایاں کام کرنے والے پاکستان کے عظیم گلوکاروںکا تذکرہ کئے بغیربات آگے نہیں بڑھتی اورجس طرح سے ہمارے لیجنڈز نے اپنے فن کا لوہا منوایا ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ اگرگزشتہ ایک دہائی کے دوران بولی وڈ میں بننے والی فلموں کے میوزک سے پاکستانی گلوکاروں کے گائے گیت نکال دیئے جائیں توپھرباقی کچھ نہیں بچتا۔ ان آوازوں میں ایک نام ایسا ہے جوکسی تعارف کا محتاج نہیں۔
ان کا خاندان گزشتہ کئی دہائیوں سے فن قوالی سے وابستہ ہے اوران کے خاندان سے تعلق رکھنے والے گائیکوں نے ہردور میں موسیقی کے میدان میں نمایاں کام کرتے ہوئے نہ صرف اپنی فیملی کا نام روشن کیا ہے بلکہ پاکستان کا سافٹ امیج بھی پوری دنیا میں متعارف کروایا ہے۔
سچے سُروں کے ذریعے لوگوں کے دلوں پرراج کرنے والے ' شہنشاہ ' کوئی اورنہیں بلکہ ہم سب کے ہردلعزیزگلوکار استاد راحت فتح علی خاں ہیں۔ جنہوں نے پاکستانی میوزک کوکامیابی کی اس بلندی تک پہنچا دیا ہے جس کے بارے میں سوچنا بھی ممکن نہ تھا۔ وہ جس گیت اورغزل کوگا دیتے ہیں وہ ہمیشہ کیلئے امرہوجاتی ہے۔ اس کی بہترین مثال ہم بولی وڈ فلموں کے گیتوں سے بھی دے سکتے ہیں کہ جب سے راحت فتح علی خاں نے بولی وڈ فلموں کیلئے گانا شروع کیا اس کے بعد سے بھارتی فلموں میں بطورپلے بیک سنگرراج کرنے والے اکثر گلوکاروں کوگھربیٹھنا پڑگیا۔
یہی نہیں راحت کے گائے گیت اب بولی وڈ فلموں کی کامیابی کی ضمانت بن چکے ہیں اوراسی لئے جب تک کسی فلم میں ان کا گایاگیت شامل نہ ہوتوشائقین کومایوسی کا سامنا رہتا ہے۔ اگرہم غورکریں توبولی وڈ کنگ شاہ رخ خان اورسلمان خان کی فلموں میں راحت کی آوازمیں گیت شامل کرنا ایسے ہی بن چکا ہے ، جیسے اس کے بغیران کی فلم ادھوری رہ جائے گی۔ دیکھاجائے تویہ ہرایک پاکستانی کیلئے فخر کی بات ہے۔
آج پاکستانی میوزک کی باگ دوڑ راحت فتح علی خاں کے ہاتھ میں ہے اوروہ اپنی خاندانی روایت کے مطابق اس کوبخوبی دنیابھرتک پہنچا رہے ہیں۔ ایک شام مڈل ایسٹ میں گزرتی ہے تودوسری امریکہ، ایک رات یورپ میں شوہوتا ہے تودوسرا افریقہ، بس یوں کہئے کہ راحت فتح علی خاں نے اپنی عمدہ گائیکی سے دنیا بھرکے لوگوں کواپنادیوانہ بنا رکھا ہے۔ گزشتہ برس انہوں نے اپنے استاد ، استاد نصرت فتح علی خاں مرحوم کوخراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ایک ورلڈ ٹورکیا۔
یہ دورہ اس قدر کامیاب رہا ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بولی وڈ کے ان گنت مقبول ترین فنکاروں نے بھی راحت کے سامنے پرفارم کرنے کی کوشش کی ، لیکن انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ رواں سال بھی راحت فتح علی خاں نے ایک نیا ورلڈ ٹوورپلان کیا ہے۔ جس میں وہ دنیا کے بہت سے ممالک میں ہزاروں، لاکھوں مداحوں کے سامنے پرفارم کرینگے۔ اس حوالے سے انہوں نے ''ایکسپریس'' کوخصوصی انٹرویو دیاہے، جوقارئین کی نذرہے۔
استاد راحت فتح علی خاں کا کہنا تھا کہ ایک فنکارکی یہ اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے چاہنے والوںکی خواہشات کا احترام کرے۔ ایک بات توطے ہے کہ میں اپنی خاندانی روایت کو آگے لے کرچل رہا ہوں۔ جس طرح میرے بزرگوں نے فن موسیقی کے ذریعے دنیا بھرمیں پاکستان کا نام روشن کیا، اسی طرح میں بھی اس نام اورکام کوبرقراررکھنے کی کوشش میں دن رات لگا ہوں۔
یہ اللہ کا خاص کرم ہے کہ دنیا بھرمیں لوگ میری پرفارمنس کوپسند کرتے ہیں اورمیں بھی اپنے چاہنے والوں کو انٹرٹین کرنے کیلئے ہرلمحہ کام کرتا رہتا ہوں۔ جہاں تک بات گزشتہ برس ہونے والے ورلڈ ٹورکی ہے توہم نے 48کے قریب گرینڈ میوزک شوز میں پرفارم کیا، جس میں ہزاروں ، لاکھوں کی تعداد میں ناصرف پاکستانی اورہندوستانی کمیونٹی کے لوگ شریک ہوئے بلکہ مختلف رنگ ونسل اورممالک سے تعلق رکھنے والوںکی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ یہ سماں واقعی میرے لئے دیدنی تھا، کیونکہ اس سے پہلے میں اپنے استاد ، استاد نصرت فتح علی خاں کے ساتھ پرفارم کرتے ہوئے یہ مناظردیکھ چکا تھا لیکن میں ہمیشہ یہ سوچتا تھا کہ وہ دن کب آئے گا، جب میں ان کی طرح دنیا کو اپنی پرفارمنس سے جھومنے کیلئے مجبورکروں گا۔
یہ سب کچھ آسان تونہ تھا لیکن مجھے اپنی محنت پرپورا یقین تھا۔ اس سلسلہ میں میری ٹیم کی بھی بہت کاوش شامل رہی۔ خاص طورپرمیرے بزنس ڈائریکٹرسلمان احمد کا کرداربہت نمایاں ہے۔ انہوں نے جس طرح سے میرے فن کو ایک نئی سمت پرآگے بڑھایا ہے، یہ ان کے بناء واقعی ممکن نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے گزشتہ برس بیک ٹوقوالی کے نام سے کام شروع کیا تھا اوراب ہم اسی سلسلہ کی دوسری قسط رواں برس دنیا بھرمیں پیش کرینگے۔
اس بار ہم امریکہ، کینیڈا، دبئی، اومان، قطر، سعودی عرب، برطانیہ، جرمنی، فرانس، ہالینڈ، ناروے، ساؤتھ افریقہ، بحرین، بنگلہ دیش، نیپال، کینیا، موروکو، ترکی اوردیگرممالک شامل ہیں۔ یہاں پرمنعقد ہونے والے شوز کو فائنل کیا جاچکا ہے اور شیڈول کے مطابق ہم مختلف ممالک میں پرفارم کرنے کیلئے جاتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ دیکھا جائے تویہ کوئی آسان ٹاسک نہیں ہے۔ کیونکہ جب ہم بیرون ممالک پرفارم کرنے کیلئے جاتے ہیں توہمارا سخت مقابلہ پڑوسی ممالک کے ''مقبول '' فنکاروں اور گلوکاروں سے ہوتا ہے۔ پھر جہاں پاکستان کی بات آجائے تو میں اور میری ٹیم کا ہرفرد اس بات کوثابت کرنے میں لگ جاتا ہے کہ ہمارے پاس وسائل کم ہیں لیکن ٹیلنٹ میں ہم کسی سے کم نہیں ۔ ہمارے ملک میں دہشتگردی ہے لیکن ہم دہشتگرد نہیں۔ ہم مہمان نواز ، بھائی چارے اورامن ، دوستی کوفروغ دینے والی قوم ہیں اور ہم اپنے فن کے ذریعے یہی پیغام ہرجگہ پہنچاتے ہیں۔ اس میں ہمیں بہت کامیابی ملتی ہے۔
اس میں کوئی دورائے بھی نہیں ہیں۔ پاکستان کاہرحصہ امن، بھائی چارے کی فضاء سے سرشارہے۔ کوئی غیرملکی جب یہاں ایک بار آجاتا ہے توپھر وہ دوبارہ ضرور آتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ پاکستانیوں کی میزبانی اورمہمان نوازی ہے۔ خاص طورپرہم اگربھارتی شہریوں اوربولی وڈ سٹارزکا زکر کریں توجوبھی یہاں آیاہے، وہ یہاں گزارے لمحات کوکبھی نہیں بھلا پاتا۔ مگراس کے باوجود ناجانے وہ کون سی طاقتیں ہیں جوہمارے ملک کوبدنام کرنے پرلگی ہیں۔ مگرمیں اپنے فن سے پاکستان کا نام روشن کرتا رہوں گا۔
ایک سوال کے جواب میں استاد راحت فتح علی خاں نے بتایاکہ پاکستان میں میوزک انڈسٹری شدید بحران سے دوچارہے لیکن اس بحرانی صورت حال میں بھی ہم نے اپنے البم ''بیک ٹولو'' کو ''ایکسپریس میڈیا گروپ'' کے اشتراک سے ریلیز کیا تھا۔ میوزک چینل چارٹس ہوں یا سوشل میڈیا کی ویب سائٹس ہر طرف ہمارے البم کے چرچے ہیں ۔ دوسری جانب 'ایکسپر میڈیا گروپ' اور ' میکڈونلڈ پاکستان' کے پلیٹ فارم سے البم کی سی ڈی کی ریکارڈ سیل ہوئی تھی، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اچھا اور معیاری میوزک سننے والے 'بیک ٹولو' کے دیوانے بن چکے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح ہم نے گزشتہ برس پاکستان میں میوزک کے شعبے کی بہتری کیلئے بہت کام کیا، اسی طرح رواں برس بھی ہم کچھ نیا کرنے جارہے ہیں۔ جہاں تک نوجوان ٹیلنٹ کوپلیٹ فارم مہیا کرنے کی بات ہے تواس سلسلہ میں بھی میرا ادارہ دن رات کام کررہا ہے۔ ہم میوزک انڈسٹری کے فروغ کیلئے بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، لیکن یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوسکتا۔ اس کیلئے کچھ وقت لگے گا لیکن جب ہم ایک پلیٹ فارم قائم کرلیں گے اوراس کوقواعد وٖضوابط کے مطابق چلائیں گے تواس کے مثبت نتائج ہمارے سامنے آئیں گے۔
انٹرویو کے آخرمیں راحت نے کہا کہ پاکستان کی دھرتی میوزک کے شعبے میں بہت زرخیز ہے۔ چاروں صوبوں کی اپنی ایک الگ اورخوبصورت شناخت ہے۔ خاص طورپرمیوزک کی بات کریں تواس کا انداز بہت ہی منفرد اورنرالا ہے۔ مگراس حوالے سے کچھ زیادہ کام نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سا ٹیلنٹ ضائع ہوجاتا ہے۔
یہ میری پوری کوشش ہے کہ جہاں بھی کوئی اچھا ٹیلنٹ ملے گا، ہم اس کواپنی ٹیم کا حصہ بنائیں گے اوراس کوایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرینگے، جس سے وہ اپنا اورپاکستان کا نام روشن کرسکے۔ جہاں تک میری بات ہے تومیں اپنی خاندانی روایت کوزندہ رکھتے ہوئے اپنے فن کی بدولت پاکستان کا نام روشن کرنے کا کام بطورمشن جاری رکھوں گا۔ میں ہی نہیں میرے صاحبزادے بھی اس مشن کیلئے ابھی سے تیاری کرنے میں لگے ہیں۔ ان کو بھی موسیقی کی تربیت دی جا رہی ہے اوروہ بھی ہماری خاندانی روایت کوبڑی ذمہ داری سے آگے بڑھانے کیلئے تیارہیں۔
مجھے امید ہے کہ رواں برس منعقد ہونے والا ورلڈ ٹور بھی کامیاب رہے گا اورپاکستان کا سبزہلالی پرچم دنیا کے بیشترممالک میں لہراتا دکھائی دے گا۔ جومیرے لئے ہی نہیں بلکہ ہرایک پاکستانی کیلئے قابل فخر بات ہوگی۔
موسیقی کی مختلف اصناف کی جب بات کی جاتی ہے تو کلاسیکل، غزل، صوفی، پاپ ، فوک اورقوالی کے شعبوں میں نمایاں کام کرنے والے پاکستان کے عظیم گلوکاروںکا تذکرہ کئے بغیربات آگے نہیں بڑھتی اورجس طرح سے ہمارے لیجنڈز نے اپنے فن کا لوہا منوایا ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ اگرگزشتہ ایک دہائی کے دوران بولی وڈ میں بننے والی فلموں کے میوزک سے پاکستانی گلوکاروں کے گائے گیت نکال دیئے جائیں توپھرباقی کچھ نہیں بچتا۔ ان آوازوں میں ایک نام ایسا ہے جوکسی تعارف کا محتاج نہیں۔
ان کا خاندان گزشتہ کئی دہائیوں سے فن قوالی سے وابستہ ہے اوران کے خاندان سے تعلق رکھنے والے گائیکوں نے ہردور میں موسیقی کے میدان میں نمایاں کام کرتے ہوئے نہ صرف اپنی فیملی کا نام روشن کیا ہے بلکہ پاکستان کا سافٹ امیج بھی پوری دنیا میں متعارف کروایا ہے۔
سچے سُروں کے ذریعے لوگوں کے دلوں پرراج کرنے والے ' شہنشاہ ' کوئی اورنہیں بلکہ ہم سب کے ہردلعزیزگلوکار استاد راحت فتح علی خاں ہیں۔ جنہوں نے پاکستانی میوزک کوکامیابی کی اس بلندی تک پہنچا دیا ہے جس کے بارے میں سوچنا بھی ممکن نہ تھا۔ وہ جس گیت اورغزل کوگا دیتے ہیں وہ ہمیشہ کیلئے امرہوجاتی ہے۔ اس کی بہترین مثال ہم بولی وڈ فلموں کے گیتوں سے بھی دے سکتے ہیں کہ جب سے راحت فتح علی خاں نے بولی وڈ فلموں کیلئے گانا شروع کیا اس کے بعد سے بھارتی فلموں میں بطورپلے بیک سنگرراج کرنے والے اکثر گلوکاروں کوگھربیٹھنا پڑگیا۔
یہی نہیں راحت کے گائے گیت اب بولی وڈ فلموں کی کامیابی کی ضمانت بن چکے ہیں اوراسی لئے جب تک کسی فلم میں ان کا گایاگیت شامل نہ ہوتوشائقین کومایوسی کا سامنا رہتا ہے۔ اگرہم غورکریں توبولی وڈ کنگ شاہ رخ خان اورسلمان خان کی فلموں میں راحت کی آوازمیں گیت شامل کرنا ایسے ہی بن چکا ہے ، جیسے اس کے بغیران کی فلم ادھوری رہ جائے گی۔ دیکھاجائے تویہ ہرایک پاکستانی کیلئے فخر کی بات ہے۔
آج پاکستانی میوزک کی باگ دوڑ راحت فتح علی خاں کے ہاتھ میں ہے اوروہ اپنی خاندانی روایت کے مطابق اس کوبخوبی دنیابھرتک پہنچا رہے ہیں۔ ایک شام مڈل ایسٹ میں گزرتی ہے تودوسری امریکہ، ایک رات یورپ میں شوہوتا ہے تودوسرا افریقہ، بس یوں کہئے کہ راحت فتح علی خاں نے اپنی عمدہ گائیکی سے دنیا بھرکے لوگوں کواپنادیوانہ بنا رکھا ہے۔ گزشتہ برس انہوں نے اپنے استاد ، استاد نصرت فتح علی خاں مرحوم کوخراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ایک ورلڈ ٹورکیا۔
یہ دورہ اس قدر کامیاب رہا ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بولی وڈ کے ان گنت مقبول ترین فنکاروں نے بھی راحت کے سامنے پرفارم کرنے کی کوشش کی ، لیکن انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ رواں سال بھی راحت فتح علی خاں نے ایک نیا ورلڈ ٹوورپلان کیا ہے۔ جس میں وہ دنیا کے بہت سے ممالک میں ہزاروں، لاکھوں مداحوں کے سامنے پرفارم کرینگے۔ اس حوالے سے انہوں نے ''ایکسپریس'' کوخصوصی انٹرویو دیاہے، جوقارئین کی نذرہے۔
استاد راحت فتح علی خاں کا کہنا تھا کہ ایک فنکارکی یہ اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے چاہنے والوںکی خواہشات کا احترام کرے۔ ایک بات توطے ہے کہ میں اپنی خاندانی روایت کو آگے لے کرچل رہا ہوں۔ جس طرح میرے بزرگوں نے فن موسیقی کے ذریعے دنیا بھرمیں پاکستان کا نام روشن کیا، اسی طرح میں بھی اس نام اورکام کوبرقراررکھنے کی کوشش میں دن رات لگا ہوں۔
یہ اللہ کا خاص کرم ہے کہ دنیا بھرمیں لوگ میری پرفارمنس کوپسند کرتے ہیں اورمیں بھی اپنے چاہنے والوں کو انٹرٹین کرنے کیلئے ہرلمحہ کام کرتا رہتا ہوں۔ جہاں تک بات گزشتہ برس ہونے والے ورلڈ ٹورکی ہے توہم نے 48کے قریب گرینڈ میوزک شوز میں پرفارم کیا، جس میں ہزاروں ، لاکھوں کی تعداد میں ناصرف پاکستانی اورہندوستانی کمیونٹی کے لوگ شریک ہوئے بلکہ مختلف رنگ ونسل اورممالک سے تعلق رکھنے والوںکی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ یہ سماں واقعی میرے لئے دیدنی تھا، کیونکہ اس سے پہلے میں اپنے استاد ، استاد نصرت فتح علی خاں کے ساتھ پرفارم کرتے ہوئے یہ مناظردیکھ چکا تھا لیکن میں ہمیشہ یہ سوچتا تھا کہ وہ دن کب آئے گا، جب میں ان کی طرح دنیا کو اپنی پرفارمنس سے جھومنے کیلئے مجبورکروں گا۔
یہ سب کچھ آسان تونہ تھا لیکن مجھے اپنی محنت پرپورا یقین تھا۔ اس سلسلہ میں میری ٹیم کی بھی بہت کاوش شامل رہی۔ خاص طورپرمیرے بزنس ڈائریکٹرسلمان احمد کا کرداربہت نمایاں ہے۔ انہوں نے جس طرح سے میرے فن کو ایک نئی سمت پرآگے بڑھایا ہے، یہ ان کے بناء واقعی ممکن نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے گزشتہ برس بیک ٹوقوالی کے نام سے کام شروع کیا تھا اوراب ہم اسی سلسلہ کی دوسری قسط رواں برس دنیا بھرمیں پیش کرینگے۔
اس بار ہم امریکہ، کینیڈا، دبئی، اومان، قطر، سعودی عرب، برطانیہ، جرمنی، فرانس، ہالینڈ، ناروے، ساؤتھ افریقہ، بحرین، بنگلہ دیش، نیپال، کینیا، موروکو، ترکی اوردیگرممالک شامل ہیں۔ یہاں پرمنعقد ہونے والے شوز کو فائنل کیا جاچکا ہے اور شیڈول کے مطابق ہم مختلف ممالک میں پرفارم کرنے کیلئے جاتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ دیکھا جائے تویہ کوئی آسان ٹاسک نہیں ہے۔ کیونکہ جب ہم بیرون ممالک پرفارم کرنے کیلئے جاتے ہیں توہمارا سخت مقابلہ پڑوسی ممالک کے ''مقبول '' فنکاروں اور گلوکاروں سے ہوتا ہے۔ پھر جہاں پاکستان کی بات آجائے تو میں اور میری ٹیم کا ہرفرد اس بات کوثابت کرنے میں لگ جاتا ہے کہ ہمارے پاس وسائل کم ہیں لیکن ٹیلنٹ میں ہم کسی سے کم نہیں ۔ ہمارے ملک میں دہشتگردی ہے لیکن ہم دہشتگرد نہیں۔ ہم مہمان نواز ، بھائی چارے اورامن ، دوستی کوفروغ دینے والی قوم ہیں اور ہم اپنے فن کے ذریعے یہی پیغام ہرجگہ پہنچاتے ہیں۔ اس میں ہمیں بہت کامیابی ملتی ہے۔
اس میں کوئی دورائے بھی نہیں ہیں۔ پاکستان کاہرحصہ امن، بھائی چارے کی فضاء سے سرشارہے۔ کوئی غیرملکی جب یہاں ایک بار آجاتا ہے توپھر وہ دوبارہ ضرور آتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ پاکستانیوں کی میزبانی اورمہمان نوازی ہے۔ خاص طورپرہم اگربھارتی شہریوں اوربولی وڈ سٹارزکا زکر کریں توجوبھی یہاں آیاہے، وہ یہاں گزارے لمحات کوکبھی نہیں بھلا پاتا۔ مگراس کے باوجود ناجانے وہ کون سی طاقتیں ہیں جوہمارے ملک کوبدنام کرنے پرلگی ہیں۔ مگرمیں اپنے فن سے پاکستان کا نام روشن کرتا رہوں گا۔
ایک سوال کے جواب میں استاد راحت فتح علی خاں نے بتایاکہ پاکستان میں میوزک انڈسٹری شدید بحران سے دوچارہے لیکن اس بحرانی صورت حال میں بھی ہم نے اپنے البم ''بیک ٹولو'' کو ''ایکسپریس میڈیا گروپ'' کے اشتراک سے ریلیز کیا تھا۔ میوزک چینل چارٹس ہوں یا سوشل میڈیا کی ویب سائٹس ہر طرف ہمارے البم کے چرچے ہیں ۔ دوسری جانب 'ایکسپر میڈیا گروپ' اور ' میکڈونلڈ پاکستان' کے پلیٹ فارم سے البم کی سی ڈی کی ریکارڈ سیل ہوئی تھی، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اچھا اور معیاری میوزک سننے والے 'بیک ٹولو' کے دیوانے بن چکے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح ہم نے گزشتہ برس پاکستان میں میوزک کے شعبے کی بہتری کیلئے بہت کام کیا، اسی طرح رواں برس بھی ہم کچھ نیا کرنے جارہے ہیں۔ جہاں تک نوجوان ٹیلنٹ کوپلیٹ فارم مہیا کرنے کی بات ہے تواس سلسلہ میں بھی میرا ادارہ دن رات کام کررہا ہے۔ ہم میوزک انڈسٹری کے فروغ کیلئے بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، لیکن یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوسکتا۔ اس کیلئے کچھ وقت لگے گا لیکن جب ہم ایک پلیٹ فارم قائم کرلیں گے اوراس کوقواعد وٖضوابط کے مطابق چلائیں گے تواس کے مثبت نتائج ہمارے سامنے آئیں گے۔
انٹرویو کے آخرمیں راحت نے کہا کہ پاکستان کی دھرتی میوزک کے شعبے میں بہت زرخیز ہے۔ چاروں صوبوں کی اپنی ایک الگ اورخوبصورت شناخت ہے۔ خاص طورپرمیوزک کی بات کریں تواس کا انداز بہت ہی منفرد اورنرالا ہے۔ مگراس حوالے سے کچھ زیادہ کام نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سا ٹیلنٹ ضائع ہوجاتا ہے۔
یہ میری پوری کوشش ہے کہ جہاں بھی کوئی اچھا ٹیلنٹ ملے گا، ہم اس کواپنی ٹیم کا حصہ بنائیں گے اوراس کوایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرینگے، جس سے وہ اپنا اورپاکستان کا نام روشن کرسکے۔ جہاں تک میری بات ہے تومیں اپنی خاندانی روایت کوزندہ رکھتے ہوئے اپنے فن کی بدولت پاکستان کا نام روشن کرنے کا کام بطورمشن جاری رکھوں گا۔ میں ہی نہیں میرے صاحبزادے بھی اس مشن کیلئے ابھی سے تیاری کرنے میں لگے ہیں۔ ان کو بھی موسیقی کی تربیت دی جا رہی ہے اوروہ بھی ہماری خاندانی روایت کوبڑی ذمہ داری سے آگے بڑھانے کیلئے تیارہیں۔
مجھے امید ہے کہ رواں برس منعقد ہونے والا ورلڈ ٹور بھی کامیاب رہے گا اورپاکستان کا سبزہلالی پرچم دنیا کے بیشترممالک میں لہراتا دکھائی دے گا۔ جومیرے لئے ہی نہیں بلکہ ہرایک پاکستانی کیلئے قابل فخر بات ہوگی۔