دور جدید کا زہر

اس کی زیادتی آپ کو گور کنارے پہنچا سکتی ہے۔

ایک عام انسان کو زیادہ سے زیادہ روزانہ صرف 40 گرام چینی استعمال کرنا چاہیے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

وطن عزیز کے طول وعرض میں چینی قسم قسم کے کھانوں میں استعمال کی جاتی ہے۔تاہم چینی کی زیادتی انسانی جسم کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایک عام انسان کو زیادہ سے زیادہ روزانہ صرف 40 گرام چینی استعمال کرنا چاہیے۔یہ مقدار چینی کی نو چمچیاں بنتی ہیں۔اس سے زیادہ چینی کا استعمال آپ کو درج ذیل طبی مسائل کا شکار بنا سکتا ہے :

ذیابیطس

جن ممالک میں چینی کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے ،وہاں اس موزی مرض کی شرح کافی بلند ہے۔امریکا میں 51 ہزار مرد وخواتین پر ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جو لوگ میٹھے مشروبات جیسے میٹھی آئس ٹی، انرجی ڈرنکس وغیرہ استعمال کرتے ہیں، ان میں ذیابیطس چمٹنے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح تین لاکھ سے زائد افراد پر ہونے والی ایک اور تحقیق نے بھی اس نتیجے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بہت زیادہ مشروبات کا استعمال نہ صرف وزن میں اضافے کا باعث بنتا ہے بلکہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کا مرض بھی لاحق ہوسکتا ہے۔

امراض دنداں

یہ کوئی راز نہیں کہ بہت زیادہ چینی اور دانتوں کے امراض کے درمیان تعلق موجود ہے ۔درحقیقت یہ میٹھی شے دانتوں کی صحت کی دشمن ہے اور اسے کیوٹیز جنم لینے کا بڑا سبب قرار دیا جاتا ہے۔ طویل عرصے سے دندان ساز مطالبہ کر رہے ہیں کہ لوگوں کو روزانہ چینی کی چھ چمچیاں استعمال کرنی چاہیں۔ ایک ماہر کے مطابق دانتوں کی فرسودگی اس وقت عمل میں آتی ہے جب عام چینی کے استعمال سے دانتوں کی سطح پر بیکٹریا پیدا ہوتے ہیں۔ مٹھاس سے تیزاب بھی پیدا ہوتا ہے جو دانتوں کی سطح تباہ کردیتا ہے۔

ختم نہ ہونے والی بھوک

ایک ہارمون، لپٹین جسم کو بتاتا ہے کہ کب اس نے مناسب حد تک کھالیا ہے۔ جن لوگوں میں اس ہارمون کی مزاحمت پیدا ہو جائے تو انہیں پیٹ بھرنے کا اشارہ کبھی موصول نہیں ہوتا اور یہ وزن کنٹرول کرنے کے لیے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ کچھ طبی تحقیقی رپورٹوں میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ لپٹین کی مزاحمت موٹاپے کے اثرات میں سے ایک ہے ۔مگر چوہوں پر ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ بہت زیادہ چینی کا استعمال خاص طور پر اس کا سیرپ جو کولڈ ڈرنکس میں عام ہوتا ہے، براہ راست لپٹین کی سطح معمول سے زیادہ بڑھا دیتا ہے۔یوں اس ہارمون سے متعلق جسمانی حساسیت میں کمی آجاتی ہے۔

موٹاپا

یہ چینی کے زیادہ استعمال سے لاحق ہونے والے بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔ روزانہ صرف ایک مشروب کا استعمال ہی ایک سال میں تین کلو وزن بڑھا دیتا ہے۔ جبکہ مشروب کا ہر کین بہت زیادہ موٹاپے کا امکان بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ مشروبات کا استعمال مضر ہے مگر دیگر میٹھی غذائیں کا بھی موٹاپے سے تعلق کافی پیچیدہ ہے۔ چینی براہ راست موٹاپے کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔ ساتھ ساتھ ذیابیطس، میٹابولک سینڈروم یا منفی عادات جیسے زیادہ غذا کا حد سے زیادہ استعمال اور ورزش نہ کرنا بھی اس کا باعث بنتے ہیں۔


انسولین کی حساسیت

جب آپ ناشتے میں بہت زیادہ مٹھاس پر مشتمل غذا استعمال کریں تو کیا ہوگا؟ یہ آپ کے جسم میں انسولین کی طلب کا مطالبہ بڑھا دے گی۔ انسولین وہ ہارمون ہے جو غذا کو قابل استعمال توانائی میں تبدیل کرنے کا کام کرتا ہے مگر جب اس کی مقدار زیادہ ہو تو جسم اس کے حوالے سے کم حساس ہوجاتا ہے اور خون میں گلوکوز جمنے لگتا ہے۔ ایک تحقیق کے دوران محققین نے چوہوں کو چینی کی بہت زیادہ مقدار سے بنی خوراک استعمال کرائی تو ان میں انسولین کی مزاحمت فوری طور پر سامنے آگئی۔ انسولین کی مزاحمت کی علامات میں تھکن، بھوک، دماغ میں دھند چھا جانا اور ہائی بلڈ پریشر شامل ہیں۔ جبکہ یہ پیٹ کے اردگرد اضافی چربی بھی پیدا کر دیتی ہے۔

لبلبے کا کینسر


برطانیہ کی کچھ طبی تحقیق رپورٹوں میں زیادہ چینی والی غذاؤں کے استعمال اور لبلبے کے کینسر کے خطرے میں اضافے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس تعلق کی وجہ ممکنہ طور پر یہ ہے کہ زیادہ میٹھی غذائیں موٹاپے اور ذیابیطس کا باعث بنتی ہیں اور یہ دونوں لبلبے کے افعال پر اثر انداز ہوکر کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایک تحقیق میں چینی کے زیادہ استعمال اور کینسر کے خطرے کے درمیان تعلق کی تردید کی مگر محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

امراض گردہ


چینی سے بھرپور غذا اور بہت زیادہ مشربات کا استعمال گردوں کے امراض کا خطرہ بھی بڑھا سکتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق گردوں کے نقصان اور میٹھے مشروبات کے درمیان تعلق ایسے افراد میں سامنے آیا ہے جو روزانہ دو تین مشروب نوش کریں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ چوہوں کو چینی سے بھرپور غذا کا استعمال کرایا گیا تو ان جانوروں کے گردوں نے آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیا جبکہ ان کے حجم میں بھی اضافہ ہوا۔

بلڈپریشر کا جنم

عام طور پر نمک کو بلند فشار خون یا ہائی بلڈ پریشر کا باعث سمجھا جاتا ہے مگر بہت زیادہ چینی کھانے کی عادت بھی آپ کو اس جان لیوا مرض کا شکار بناسکتی ہے۔ مختلف طبی رپورٹوں کے مطابق طبی ماہرین نے بلڈ پریشر کے حوالے سے سفید دانوں پر غلط توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ تحقیق کے مطابق نمک کے مقابلے میں اس غذا پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو لت کی طرح انسانی دماغ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور وہ ہے چینی۔ محققین کے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ چینی ہضم کرنے سے یورک ایسڈ پیدا ہوتا ہے یعنی ایسا کیمیکل جو ہائی بلڈ پریشر کا باعث بنتا ہے۔تاہم محققین کے مطابق اس حوالے سے طویل المعیاد تحقیق کی ضرورت ہے۔

دل کی بیماریاں

کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی معمولی سی بے پرواہی یا منہ کے ذائقے کا چسکا آپ کو دل کی بیماریوں کا شکار بنا سکتا ہے۔ جی ہاں بہت زیادہ میٹھی اشیا کھانے کی عادت آپ کے دل کی صحت کے لیے تباہ کن ہے خاص طور پر اگر آپ ایک خاتون ہیں۔ امراض قلب کو ایڈز یا کینسر جتنی توجہ تو نہیں ملتی مگر یہ دنیا میں اموات کا باعث بننے والی چند بڑی وجوہ میں سے ایک ہیں کیونکہ ذیابیطس اور موٹاپے جیسے عناصر انہی کے باعث جنم لیتے ہیں۔ ایک تحقیق میں چوہوں پر کیے جانے والے تجربات سے معلوم ہوا کہ بہت زیادہ چینی والی غذاؤں کے استعمال سے ہارٹ فیل کے کیس زیادہ سامنے آنے لگے جبکہ بہت زیادہ چربی یا نشاستہ دار غذاؤں کے استعمال سے اتنا خطرہ پیدا نہیں ہوا۔ ہزاروں افراد پر ہونے والی ایک تحقیق میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ بہت زیادہ چینی کے استعمال اور دل کے امراض سے ہلاکتوں کے خطرے میں اضافے کے درمیان تعلق موجود ہے۔ اس تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ جو لوگ اپنی روزمرہ کیلوریز کی ضروریات کا 17 سے 21 فیصد حصہ چینی سے پورا کرتے ہیں، ان میں امراض قلب سے ہلاکت کا خطرہ 38 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

جگر کے امراض

بہت زیادہ مقدار میں چینی آپ کے جگر کو بہت زیادہ کام پر مجبور کرتی ہے،یوں جگر خراب ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق چینی کو جس طرح ہمارا جسم استعمال کرتا ہے، وہ جگر کو تھکا دینے اور متورم کردینے کے لیے کافی ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ چینی کی بہت زیادہ مقدار جگر پر غیر الکحلی چربی بڑھنے کے مرض کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ چربی بتدریج پورے جگر پر چڑھ جاتی ہے۔ عام فرد کے مقابلے میں دو گنا زیادہ مشروبات استعمال کرنے والے افراد میں اس مرض کی تشخیص زیادہ ہوتی ہے۔ جگر پر غیر الکحلی چربی کے امراض کے شکار بیشتر افراد کو اکثر علامات کا سامنا نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ وہ کافی عرصے تک اس سے آگاہ بھی نہیں ہوپاتے۔

 
Load Next Story