جعلی خبروں سے بچنے کا کیا طریقہ ہو

جب پوسٹ بنانے والے کا نام نہیں ہوگا تو جھوٹی خبر، غلط حدیث، تاریخی واقعے یا افواہ پر کسی کا بھی محاسبہ نہیں ہوسکے گا


تزئین حسن January 30, 2018
جب پوسٹ بنانے والے کا نام نہیں ہوگا تو جھوٹی خبر، غلط حدیث، تاریخی واقعے یا افواہ پر کسی کا بھی محاسبہ نہیں ہوسکے گا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میدان صحافت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جعلی خبروں سے بچنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ ہم ایسی تمام خبروں کو مسترد کردیں جن میں خبر کے مصنف کا نام یا خبر کا ماخذ (سورس) مذکور نہ ہو کیونکہ اس صورت میں خبر بنانے والے کا مواخذہ ممکن نہیں ہوتا۔ حوالہ دینے کے اصول سے دنیا کو حدیث کی اولین کتب مرتب کرنے والوں نے روشناس کروایا۔

زینب قتل کیس میں ڈاکٹر شاہد مسعود کے غیر معمولی انکشافات اور ثبوت رکھنے کا دعوی ہونے کے باوجود انہیں عدالت میں پیش نہ کرسکنے سے ایک عجیب صورت حال سامنے آئی ہے جس پر بجا طور پر قوم حیران بھی ہے اور تشویش زدہ بھی۔ سینئر صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ ہماری ''پوری میڈیا انڈسٹری کی بہت سی خامیاں اس کیس سے سامنے آ گئیں ہیں۔'' بی بی سی کے مطابق کچھ اینکرز کا کہنا ہے کہ ٹاک شوز میں غیر مصدقہ رپورٹنگ معمول بن گئی ہے اور میڈیا کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے پاکستانی میڈیا انڈسٹری کے بیشتر صحافی، صحافت کے مسلمہ اصولوں کو اس طرح نظرانداز کرتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے وہ ان سے واقف ہی نہیں۔ صحافت کو ریاست کا چوتھا اہم ستون گردانا جاتا ہے جو پہلے تین ستونوں یعنی مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ پر نظر رکھنے اور عوام میں ان کا مواخذہ کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔

حالیہ دہائی میں سوشل میڈیا کو پانچویں ستون کے مماثل قرار دیا جا رہا ہے؛ مگر ایک طرف الیکٹرونک میڈیا پر صحافتی اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہے تو دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ آج ہر وہ فرد جسے کمپیوٹر یا موبائل پر انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے وہ بلاگز، فیس بُک، ٹوئٹر، یوٹیوب وغیرہ پر خبر بنا رہا ہے۔ اور اس طرح صحافی اور عام شہری کے درمیان فرق تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ عام شہری جو پہلے خبر یا میڈیا کا صارف تھا اب متن (ٹیکسٹ)، تصویر، ویڈیو پوسٹنگز کے ذریعے خبر کی پیداوار (پروڈکشن) میں براہ راست حصہ لے رہا ہے اور خود ہی صحافی بنا ہوا ہے۔

سوشل میڈیا کی آمد سے جہاں اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں کی اجارہ داری اس شعبے میں ختم ہوئی ہے، وہیں خبروں کی غیر ذمہ دارانہ ترسیل بھی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔

سوشل میڈیا پر خبر کی تصدیق کا کوئی مناسب انتظام موجود ہے اور نہ ہی خبر پوسٹ کرنے والے کے احتساب یا مواخذے کا کوئی اہتمام۔ اس طرح جعلی صحافت کے علمبرداروں یا پروپیگنڈا کرنے والوں کو، اور ایسے غیر ذمہ دار لوگوں کو بھی جو محض زیادہ ویوز (views) حاصل کرنے کےلیے افواہیں پھیلاتے ہیں یا تاریخی شخصیات کے منہ سے جو کہلوانا چاہیں کہلواتے ہیں، اس میدان تک رسائی حاصل ہوگئی ہے۔

ایسے صحافیوں کی بھی کمی نہیں جو قوم کی بے خبری کا فائدہ اٹھا کر جو کچھ کہنا چاہیں، کہتے ہیں اور اپنی خبر کا ذریعہ قوم کو بتانے کی ضرورت تک محسوس نہیں کرتے۔ صحافتی اصولوں سے بے خبر قوم انہیں ''پہنچا ہوا'' خیال کرتی ہے اور سمجھتی ہے کہ ان کے پسندیدہ صحافی کی اپنی ''نیوز پائپ لائن'' ہے اور من و عن ان خبروں پر ایمان لے آتی ہے۔ نجم سیٹھی صاحب کی چڑیا پاکستانی صحافت میں بڑا برمحل استعارہ ہے۔

میڈیا کے تین اہم اصول ہیں: شفافیت (transparency) یعنی خبر کے منبع یا سورس کا حوالہ یا سند دینا، دوسرا تصدیق (verification)، اور تیسرا اصول احتساب یا مواخذہ (accountability)۔

 

شفافیت یا ٹرانسپرینسی


اگرچہ مذکورہ تینوں اصول ہی خبر اور پوسٹ کی صحیح جانچ میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر یہ تبھی ممکن ہے کہ جب خبر کا منبع درج کیا جائے اور مصنف یا اشاعت کرنے والا، خبر کے غلط یا صحیح ہونے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاسکے۔ اس اصول کو صحافتی اصطلاح میں ''شفافیت'' کہا جاتا ہے۔ صحافت کے ماہرین کے نزدیک جعلی خبروں سے بچنے کا مؤثر ترین طریقہ سوشل میڈیا اور نیوز میڈیا پر شفافیت کو رواج دینا ہے۔ افواہوں کے سد باب کےلیے ضروری ہے کہ خبر چاہے سوشل میڈیا پر نشر کی جائے یا نیوز میڈیا پر، اس کی سورس کا نام یعنی ذریعہ ضرور بتایا جائے۔ اس کے علاوہ خبر بنانے والے کا نام دینا بھی ضروری ہے تاکہ مصنف خود بھی اپنے لکھے ہوئے کا ذمہ دار ہو۔ صارف کو تربیت دی جائے کہ وہ ایسی تمام خبروں اور پوسٹوں کو مسترد کردے جن میں صحافی یا لکھنے والے کا نام مذکور نہ ہو اور خبر کے مندرجات میں اس کا ذریعہ نہ بتایا جائے۔

آئیے اس حالیہ مثال کے ذریعے صحافت کے اس اہم اصول کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے، غلط یا صحیح، زینب قتل کے بارے میں کچھ انکشافات کیے۔ ایک صحافی کی حیثیت سے یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ ٹی وی پر اتنے بڑے دعوے کرنے کے ساتھ وہ اپنی سورسز (ذرائع) سے بھی قوم کو مطلع کرتے۔ اتنے نازک معاملے میں محض سورس کے کہنے پر خبر شائع یا آن ایئر نہیں کی جاسکتی۔

کچھ استثنائی صورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ کبھی کبھی صحافی یا خبر نشر کرنے والا اپنی سورس کا نام نہیں بتاسکتا۔ ہم اس استثنیٰ پر کسی اور مضمون میں تفصیلی بحث کریں گے۔ اس وقت اس استثنیٰ کا سوال اس لئے پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے خبر دینے کے ساتھ اس بات کا دعوی بھی کیا تھا کہ ان کے پاس ثبوت موجود ہیں جنہیں وہ عدالت میں پیش کریں گے۔ اس کا بالواسطہ مطلب یہ ہے کہ وہ سورسز کے نام آن ایئر کرنا نہیں چاہ رہے تھے۔

دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر شاہد، ثبوت کا دعوی کرنے کے بجائے اپنی سورس کا نام لے کر اس خبر کو رپورٹ کرتے تو انہیں کسی قسم کے مقدمے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ان کے پاس صرف اپنی سورس کی آڈیو ریکارڈنگ ہونا کافی تھا۔ کبھی کبھی سورس خود اپنا نام سامنے آنے دینا نہیں چاہتی۔ اس صورت میں وہ صحافی اسے آن ایئر نہیں کرسکتا۔ ایسی سورسز ''آن دی بیک گراؤنڈ'' یا ''آن دی ڈیپ بیک گراؤنڈ'' سورسز کہلاتی ہیں۔ مگر عدالت میں وہ ان سورسز کو اس درخواست کے ساتھ ثبوت کے طور پر پیش کرسکتا ہے کہ ان کا نام ظاہر نہ کیا جائے۔

دنیا کی بڑی بڑی نیوز ایجنسیز میں خبروں میں آن دی بیک گراؤنڈ سورسز کے استعمال کےلیے باقاعدہ پروٹوکولز ہوتے ہیں۔ انہیں ایڈیٹر کی اجازت کے بعد ہی استعمال کیا جاسکتا ہے اور وہ بھی ایسی صورت میں کہ جب یہ ناگزیر ہوں؛ اور آپ پورے مضمون میں ایک آدھ ہی ایسی سورس استعمال کرسکتے ہیں، اس سے زیادہ نہیں۔ اس کے باوجود عراق کی جنگ سے پہلے نیویارک ٹائمز کی ایک صحافی نے یکے بعد دیگر سات مضامین میں آن دی بیک گراؤنڈ سورسز استعمال کیں جو بعد ازاں غلط ثابت ہوئیں۔ خاتون صحافی کو سورس کا نام عدالت میں نہ بتانے پر جیل بھی جانا پڑا کہ جس طرح ریاست کے دوسرے ستونوں کا مواخذہ ہونا چاہیے، اسی طرح صحافیوں کا بھی ہونا چاہیے۔

اب آئیے شاہد مسعود کی طرف۔ یہ انکشافات غلط ہونے یا ثبوت پیش نہ کرنے کی صورت میں معروف صحافی خود ذمہ دار ہیں کہ ان کی صحافیانہ ساکھ متاثر ہو گی اور جھوٹی خبریں پھیلانے پر انہیں سزا بھی ہونی چاہیے۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ ڈارک ویب کے بارے میں مضامین پہلے سے سوشل میڈیا پر پھیلے ہوئے تھے۔ جن لوگوں نے ایسے مضامین منقول کہہ کر کوئی افواہ شیئر کی، ان کا مواخذہ ممکن نہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فرق کیا ہے؟ افواہ شاہد مسعود پھیلائیں یا منقول پوسٹیں، افواہ تو پھیل گئی ناں! فرق بہت واضح ہے: جب میں شاہد مسعود کی کوئی ویڈیو شئیر کرتی ہوں یا کسی اخبار یا آن لائن آؤٹ لیٹ کا کوئی مضمون شیئر کرتی ہوں یا اپنے کسی فیس بک فرینڈ کی کوئی پوسٹ اس کے اپنے نام سے شیئر کرتی ہوں، تو خبر کے غلط یا صحیح ہونے کی ذمہ دار میں نہیں ہوتی، ذمہ دار خود خبر بنانے والا ہوتا ہے۔ ٹرانسپیرنسی یعنی شفافیت کا مطلب ہے کہ خبر کو نشر کرنے والا خبر کی سورس واضح طور پر بتائے۔

حاصل گفتگو یہ کہ شفافیت کا اصول آپ کو اس خبر کے جعلی ہونے کی ذمہ داری سے بری کر دیتا ہے۔ اب یہ پڑھنے والے یا دیکھنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ براہ راست سورس پر بھروسہ کرتا ہے یا نہیں۔ تاہم، اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم جان بوجھ کر جھوٹی خبریں ان کے مصنفین کے نام سے شیئر کریں۔ تصدیق ضروری ہے جس پر ہم اگلے بلاگ میں تفصیل سے بحث کریں گے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ شفافیت کے اصول سے دنیا کو متعارف کروانے والے ہمارے اپنے آباء تھے۔ اس سے دنیا کو روشناس ہمارے ان بزرگوں نے کیا ہے جنہوں نے اسلام کے ابتدائی ادوار میں حدیث کی تدوین کی۔ ایک ایک حدیث کو ضبط تحریر میں لانے سے پہلے چین (chain) یعنی سلسلے کو مرتب کیا کہ یہ حدیث کن کن لوگوں سے ہوتی ہوئی مرتب کرنے والے تک پہنچی ہے۔ اگرآپ صحیح بخاری کی کوئی حدیث پڑھیں گے تو آپ کو پوری چین نظر آئے گی کہ آنحضرتﷺ سے حدیث امام بخاری تک کیسے پہنچی۔ اور دراصل یہی اصول آج تحقیق کی دنیا میں بھی رائج ہے کہ آپ اپنے تحقیقی مقالے میں ریفرنس (حوالہ) ضرور دیتے ہیں۔ یہی اصول صحافت میں بھی رائج ہے اور شفافیت کہلاتا ہے۔ ہمارے بزرگوں نے ایک ایک حدیث کی سند اور راوی کے تسلسل کا ریکارڈ حاصل کرنے کےلیے طویل طویل سفر کیے، بلکہ اپنی زندگیاں اس کےلیے وقف کردیں، مگر ہم ہی وہ بدقسمت قوم ہیں جنہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ''سند'' اور ''حوالہ'' کس چڑیا کا نام ہے۔

جب پوسٹ بنانے والے کا نام نہیں ہوگا تو جھوٹی خبر، غلط حدیث، تاریخی واقعے یا افواہ پر کسی کا بھی محاسبہ نہیں ہوسکے گا۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک شہری، جو خبر کا صارف بھی ہے اور خبر بنانے میں براہ راست شریک بھی، اسے صحافت کے اصولوں کی بنیادی تربیت دی جائے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کے حوالے سے جو صورت حال سامنے آئی ہے، اس کے بعد ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ صحافی حضرات خود بھی ان اصولوں کو سامنے رکھ کر رپورٹنگ کریں اور قوم ان اصولوں کی بنیاد پر ان کا مواخذہ بھی کرسکے؛ اور خبر کو مسترد بھی کرسکے۔ اس کےلیے ایک میڈیا آگاہی مہم کی ضرورت ہے۔ زینب قتل سے جہاں جنسی آگاہی کی مثبت بحث چھڑی ہے، اسی طرح میڈیا آگاہی پر بھی بات ہونی چاہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں