رشتہ مارکیٹ میں لڑکیوں کی وِنڈو شاپنگ
رشتہ مارکیٹ میں لڑکیوں کی ’’وِنڈو شاپنگ‘‘ کو رواج دینے میں میرج بیورو اور آن لائن رشتہ(میٹریمونیئل)سروسزکا بڑا کردارہے
''ایک اور لڑکی نے (رشتے کے سلسلے) میں پانچویں بار بھی مسترد ہونے پر خودکشی کر لی''
کہنے کو یہ میڈیا کی حد تک ایک خبر ہے، مگر حقیقت میں ہمارے معاشرے کا آئینہ ہے۔ ایسے رُو بہ زوال معاشرے کا عکس کہ جہاں غیر اسلامی رسم و رواج بڑھتے بڑھتے خودکشی جیسے حرام کاموں کا ذریعہ بن رہے ہیں۔
لفظ شادی کے ذہن میں آتے ہی نہایت حسین تصورات کا تانا بانا بُننے لگتا ہے۔ ہمارے معاشرتی چلن نے اس مقدس معاملے کو بھی تعصب اور نفسانیت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ عورت ذات سے مربوط ہر معاملے میں ہمارے دین میں سب سے بڑھ کر عدل موجود ہے۔ اس کے کمزور سے وجود کو رحمت قرار دے کر نازک آبگینے سے تشبیہہ دی گئی۔ اس کو قدم قدم پر زمانے کے سرد و گرم سے بچانے کےلیے ان کے حقوق و فرائض کا مقدس نظام طے کر دیا۔ اس کی نگہبانی مردوں پر قانوناََ لازم کر دی گئی۔
''مرد عورتوں پر قوام (نگہبان) ہیں۔'' (القرآن)
نکاح کی عمر کو پہنچتے پہچتے، عورت مرد کی نگہبانی کی پہلے سے کہیں زیادہ محتاج ہوتی نظر آتی ہے۔ بدلتی اقدار کی حشر سامانیوں نے زندگی کے اس پہلو پر بھی خوب ہی قدغن لگائی ہے۔ رشتوں/ شادی کے معاملے میں مردوں نے اپنے ''ولی'' ہونے کے اختیار کو نکاح نامے کے دستخط تک ہی محدود کر لیا ہے۔ اس اہم دستخط سے قبل شادی کے معاملے کے کتنے پہلو ان کی نگاہ سے اوجھل یا توجہ سے محروم ہو رہے ہیں اس کا اندازہ کم ہی ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ شادی کے اولین مرحلے ''رشتے کی تلاش'' سے ہی مرد اپنی قوامیت میں عورتوں کو معاون کے نام پر مختار ہی بنا ڈالتے ہیں۔ اس اعزازی اختیار کے ساتھ خواتین رشتہ پسند کرنے کے نام پر اپنی ہی جیسی خواتین کا جس طرح استحصال کرتی ہیں اس کا اندازہ ہے ان کے مروں کو؟
جس طرح لڑکی کا ہڈیوں تک چیرتی خوردبینی نگاہوں سے جائزہ لیا جاتا ہے، ان عذاب نگاہوں کی تپش کبھی خود لڑکے یا اس کے گھر کے مردوں نے بھی محسوس کی ہے؟
ملاقات یا گفتگو کے بہانے جو سوالات معصوم لڑکیوں سے کیے جاتے ہیں، کبھی اس ''تفتیش'' کی لڑکے کے مردوں نے خبر لینے کی زحمت بھی کی؟ ''آپ کی شکل کیسی لگ رہی ہے، کوئی بیماری تو نہیں؟'' ۔''ذرا چشمہ اتاریے۔اب ذرا چمشہ لگایے''۔ ''ہمارے بچے کے ساتھ کھڑی ہو جائیں ذرا، تاکہ قد کا درست اندازہ ہو جائے''۔
ایک خاتون نے اپنے صاحبزادے کےلیے پسند بلکہ تلاش کی ہوئی لڑکی کے بارے میں ہم سے رائے چاہی۔ لڑکی واقعی بہت فیئر اور اسمارٹ تھی، سو ہم نے بھی گرم جوشی سے مبارکباد دی کہ ''آخر آپ کی پسند کے مطابق گوری بہو مل ہی گئی۔'' سپاٹ لہجے میں جواب ملا، ''اتنی بھی گوری نہیں ۔'' ایک دوست کی بہن انتہائی خوب صورت تھی۔ خیال تھا کہ اس کا رشتہ بہت اچھی جگہ بہ آسانی ہو جائے گا۔ مگر پتہ چلا کہ رشتے کےلیے آنے والی خواتین کو اتنے حسن کے ساتھ کچھ جدید انداز بھی مطلوب ہوتے ہیں۔ ایک اچھی اسمارٹ ڈاکٹر لڑکی کو اپنے کچھ کم قد اور کم گورے ہونے کا شدید احساس رشتے والی آنٹیوں کے کمنٹس سے ہی ہوا۔
رشتہ مارکیٹ میں لڑکیوں کی اس ''وِنڈو شاپنگ'' کو رواج دینے میں میرج بیورو اور آن لائن رشتہ (میٹریمونیئل) سروسز کا بھی بڑا کردار ہے۔ پہلے ایک لڑکے کے رشتے کےلیے قریبی خاندان یا چند گھروں تک جانے پر اکتفا کر لیا جاتا تھا۔ اب آن لائن رشتہ سروسز نے لڑکیوں کی اس ونڈو شاپنگ کو شہروں اور ملکوں کی حدود و قیود سے آزاد کر دیا ہے۔ اب ایک لڑکے کےلیے چند کے بجائے کئی لڑکیوں سے رابطے کر کے انہیں منتخب یا مسترد کرنا ایک کلک کا محتاج رہ گیا ہے۔
پاکستانی اور نسبتاََ سیدھی سادی بہو کی متلاشی، باہر کی فیملیز کی تو آن لائن میٹریمونیئل سروسز نے چاندی ہی کر دی۔ ایک کثیرالعیال والدہ نے بتایا کہ انہوں نے اپنے تیرہویں بچے کےلیے بھی کئی لڑکیوں کے والدین سے رابطے کر رکھے ہیں۔ پاکستان آکر ''رشتے کے مکمل طریقۂ کار'' سے گزرنے کے بعد ہی بہو کا انتخاب مکمل ہوگا۔ بیٹے کی شادی کےلیے بیرونِ ملک سے ہی آنے والی ایک اور خاتون کو شادی کی مبارکباد دی تو بڑے اطمینان سے جواب ملا، ''بری کی پوری تیاری کے ساتھ آئے ہیں لیکن طے شدہ لڑکی سے بھی بالمشافہ ملاقات کے بعد ہی شادی کا فیصلہ ہو گا۔ اور فیصلہ جس کے حق میں ہوا وہ کوئی اور مزید حسین لڑکی تھی۔'' کیا لڑکے اور ان کے مرد حضرات ان لڑکیوں کی دلی کیفیات کا اندازہ کر سکتے ہیں؟
ہمارے دین میں شادی جیسے فریضہ کو دو رکعت نمازوں کی ادائیگی کی مانند ہلکا پھلکا رکھنے سے متعلق واضح ہدایات و تعلیمات موجود ہیں۔ اسی ضمن میں لڑکی کو دیکھنے کی ہدایت نکاح کے حتمی ارادے یا فیصلے کے وقت ہے۔ اس میں بھی لڑکی اور اس کے گھر والوں کو گرانی یا ناگواری سے بچانے کا لحاظ رکھنے کی بھی ہدایت ہے۔ صحابۂ کرام کے ہاں مثالیں ملتی ہیں کہ نکاح کےلیے پیش نظر لڑکی کو ان کی لاعلمی میں دیکھنے کا اہتمام رکھا تو نکاح بھی ان ہی سے کیا۔ (حضرت مغیرہ بن شعبہ رض: ترمذی ابنِ ماجہ مسنداحمد۔ حضرت جابر رض: سنن ابی داؤد)
ہمارے دور میں شادی کے معاملات میں ''لڑکی'' کی عزتِ نفس کا لحاظ کرنے والے حضرات، ادیب، صحافی، اساتذہ، والدین اور علماء اپنا کردار کب ادا کریں گے؟
کہنے کو یہ میڈیا کی حد تک ایک خبر ہے، مگر حقیقت میں ہمارے معاشرے کا آئینہ ہے۔ ایسے رُو بہ زوال معاشرے کا عکس کہ جہاں غیر اسلامی رسم و رواج بڑھتے بڑھتے خودکشی جیسے حرام کاموں کا ذریعہ بن رہے ہیں۔
لفظ شادی کے ذہن میں آتے ہی نہایت حسین تصورات کا تانا بانا بُننے لگتا ہے۔ ہمارے معاشرتی چلن نے اس مقدس معاملے کو بھی تعصب اور نفسانیت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ عورت ذات سے مربوط ہر معاملے میں ہمارے دین میں سب سے بڑھ کر عدل موجود ہے۔ اس کے کمزور سے وجود کو رحمت قرار دے کر نازک آبگینے سے تشبیہہ دی گئی۔ اس کو قدم قدم پر زمانے کے سرد و گرم سے بچانے کےلیے ان کے حقوق و فرائض کا مقدس نظام طے کر دیا۔ اس کی نگہبانی مردوں پر قانوناََ لازم کر دی گئی۔
''مرد عورتوں پر قوام (نگہبان) ہیں۔'' (القرآن)
نکاح کی عمر کو پہنچتے پہچتے، عورت مرد کی نگہبانی کی پہلے سے کہیں زیادہ محتاج ہوتی نظر آتی ہے۔ بدلتی اقدار کی حشر سامانیوں نے زندگی کے اس پہلو پر بھی خوب ہی قدغن لگائی ہے۔ رشتوں/ شادی کے معاملے میں مردوں نے اپنے ''ولی'' ہونے کے اختیار کو نکاح نامے کے دستخط تک ہی محدود کر لیا ہے۔ اس اہم دستخط سے قبل شادی کے معاملے کے کتنے پہلو ان کی نگاہ سے اوجھل یا توجہ سے محروم ہو رہے ہیں اس کا اندازہ کم ہی ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ شادی کے اولین مرحلے ''رشتے کی تلاش'' سے ہی مرد اپنی قوامیت میں عورتوں کو معاون کے نام پر مختار ہی بنا ڈالتے ہیں۔ اس اعزازی اختیار کے ساتھ خواتین رشتہ پسند کرنے کے نام پر اپنی ہی جیسی خواتین کا جس طرح استحصال کرتی ہیں اس کا اندازہ ہے ان کے مروں کو؟
جس طرح لڑکی کا ہڈیوں تک چیرتی خوردبینی نگاہوں سے جائزہ لیا جاتا ہے، ان عذاب نگاہوں کی تپش کبھی خود لڑکے یا اس کے گھر کے مردوں نے بھی محسوس کی ہے؟
ملاقات یا گفتگو کے بہانے جو سوالات معصوم لڑکیوں سے کیے جاتے ہیں، کبھی اس ''تفتیش'' کی لڑکے کے مردوں نے خبر لینے کی زحمت بھی کی؟ ''آپ کی شکل کیسی لگ رہی ہے، کوئی بیماری تو نہیں؟'' ۔''ذرا چشمہ اتاریے۔اب ذرا چمشہ لگایے''۔ ''ہمارے بچے کے ساتھ کھڑی ہو جائیں ذرا، تاکہ قد کا درست اندازہ ہو جائے''۔
ایک خاتون نے اپنے صاحبزادے کےلیے پسند بلکہ تلاش کی ہوئی لڑکی کے بارے میں ہم سے رائے چاہی۔ لڑکی واقعی بہت فیئر اور اسمارٹ تھی، سو ہم نے بھی گرم جوشی سے مبارکباد دی کہ ''آخر آپ کی پسند کے مطابق گوری بہو مل ہی گئی۔'' سپاٹ لہجے میں جواب ملا، ''اتنی بھی گوری نہیں ۔'' ایک دوست کی بہن انتہائی خوب صورت تھی۔ خیال تھا کہ اس کا رشتہ بہت اچھی جگہ بہ آسانی ہو جائے گا۔ مگر پتہ چلا کہ رشتے کےلیے آنے والی خواتین کو اتنے حسن کے ساتھ کچھ جدید انداز بھی مطلوب ہوتے ہیں۔ ایک اچھی اسمارٹ ڈاکٹر لڑکی کو اپنے کچھ کم قد اور کم گورے ہونے کا شدید احساس رشتے والی آنٹیوں کے کمنٹس سے ہی ہوا۔
رشتہ مارکیٹ میں لڑکیوں کی اس ''وِنڈو شاپنگ'' کو رواج دینے میں میرج بیورو اور آن لائن رشتہ (میٹریمونیئل) سروسز کا بھی بڑا کردار ہے۔ پہلے ایک لڑکے کے رشتے کےلیے قریبی خاندان یا چند گھروں تک جانے پر اکتفا کر لیا جاتا تھا۔ اب آن لائن رشتہ سروسز نے لڑکیوں کی اس ونڈو شاپنگ کو شہروں اور ملکوں کی حدود و قیود سے آزاد کر دیا ہے۔ اب ایک لڑکے کےلیے چند کے بجائے کئی لڑکیوں سے رابطے کر کے انہیں منتخب یا مسترد کرنا ایک کلک کا محتاج رہ گیا ہے۔
پاکستانی اور نسبتاََ سیدھی سادی بہو کی متلاشی، باہر کی فیملیز کی تو آن لائن میٹریمونیئل سروسز نے چاندی ہی کر دی۔ ایک کثیرالعیال والدہ نے بتایا کہ انہوں نے اپنے تیرہویں بچے کےلیے بھی کئی لڑکیوں کے والدین سے رابطے کر رکھے ہیں۔ پاکستان آکر ''رشتے کے مکمل طریقۂ کار'' سے گزرنے کے بعد ہی بہو کا انتخاب مکمل ہوگا۔ بیٹے کی شادی کےلیے بیرونِ ملک سے ہی آنے والی ایک اور خاتون کو شادی کی مبارکباد دی تو بڑے اطمینان سے جواب ملا، ''بری کی پوری تیاری کے ساتھ آئے ہیں لیکن طے شدہ لڑکی سے بھی بالمشافہ ملاقات کے بعد ہی شادی کا فیصلہ ہو گا۔ اور فیصلہ جس کے حق میں ہوا وہ کوئی اور مزید حسین لڑکی تھی۔'' کیا لڑکے اور ان کے مرد حضرات ان لڑکیوں کی دلی کیفیات کا اندازہ کر سکتے ہیں؟
ہمارے دین میں شادی جیسے فریضہ کو دو رکعت نمازوں کی ادائیگی کی مانند ہلکا پھلکا رکھنے سے متعلق واضح ہدایات و تعلیمات موجود ہیں۔ اسی ضمن میں لڑکی کو دیکھنے کی ہدایت نکاح کے حتمی ارادے یا فیصلے کے وقت ہے۔ اس میں بھی لڑکی اور اس کے گھر والوں کو گرانی یا ناگواری سے بچانے کا لحاظ رکھنے کی بھی ہدایت ہے۔ صحابۂ کرام کے ہاں مثالیں ملتی ہیں کہ نکاح کےلیے پیش نظر لڑکی کو ان کی لاعلمی میں دیکھنے کا اہتمام رکھا تو نکاح بھی ان ہی سے کیا۔ (حضرت مغیرہ بن شعبہ رض: ترمذی ابنِ ماجہ مسنداحمد۔ حضرت جابر رض: سنن ابی داؤد)
ہمارے دور میں شادی کے معاملات میں ''لڑکی'' کی عزتِ نفس کا لحاظ کرنے والے حضرات، ادیب، صحافی، اساتذہ، والدین اور علماء اپنا کردار کب ادا کریں گے؟