سینیٹ الیکشن کا اعلان اہم پیش رفت

الیکشن کمیشن کے بروقت اعلان سے صورتحال میں مثبت تبدیلی آئی ہے


Editorial January 31, 2018
الیکشن کمیشن کے بروقت اعلان سے صورتحال میں مثبت تبدیلی آئی ہے: فوٹو: فائل

BARCELONA: الیکشن کمیشن نے3مارچ کو منعقد ہونے والے سینیٹ انتخابات کا شیڈول جاری کردیا ہے۔ سندھ اور پنجاب سے12، 12سینیٹرز، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے11، 11سینیٹرز کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا، اسلام آباد سے ایک جنرل اور ایک ٹیکنوکریٹ نشست پر انتخاب ہوگا۔ سندھ اور پنجاب سے7 ،7جنرل، 2،2 ٹیکنوکریٹس، 2 ،2 خواتین اور ایک ایک اقلیتی رکن کا انتخاب ہو گا۔

ریٹرننگ آفیسر3فروری2018ء کو سینیٹ انتخابات کے لیے پبلک نوٹس جاری کرے گا جس کے ذریعے امیدواروں کو کاغذات نامزدگی کے حصول اور جمع کرانے کے بارے میں مطلع کیا جائے گا،کاغذات نامزدگی4فروری تا6 فروری تک متعلقہ ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں جمع کرائے جا سکیں گے۔کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال9 فروری تک مکمل کی جائے گی۔ امیدواران کی فہرست15فروری کو جاری کی جائے گی جب کہ کاغذات نامزدگی16فروری تک واپس لیے جا سکیں گے۔سینیٹ کے انتخابات کے لیے پولنگ3مارچ2018ء کو ہو گی۔اسلام آباد سے ایک جنرل اور ایک ٹیکنوکریٹ کی نشست پر انتخاب ہوگا جب کہ سندھ اور پنجاب سے7جنرل، 2 ٹیکنوکریٹس،2خواتین اور ایک اقلیتی رکن کا انتخاب ہوگا۔الیکشن کمیشن کے مطابق فاٹا سے4نشستوں پر انتخاب ہوگا اور چاروں جنرل نشستیں ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے سینیٹ انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد دو سطح پر بے یقینی کی گرد بیٹھ گئی ہے، ایک طرف سیاسی جماعتوں میں اس مسئلہ پر کشمکش کے بجائے باہمی مشاورت اور سیاسی صف بندی کی طرف توجہ مبذول ہو گی دوسری جانب سینیٹ الیکشن کے التوا، بلوچستان کی سیمابی صورتحال اور ملک میں وقت سے پہلے انتخابات کے مطالبہ پر اصرار کے بجائے تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز یکسوئی سے اپنے اپنے سینیٹرز کی کامیابی کے لیے وقت نکال سکتے ہیں جیسا کہ میڈیا کی اطلاعات ہیں کہ سینیٹ انتخابات کے لیے بڑے پیمانے پر سر جوڑ کر بیٹھیں گی، ریٹائر ہونے والے سینیٹرزکی اکثریت کا دوبارہ سینیٹر بننا مشکل نظر آرہا ہے۔

چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی، قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن اور وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار بھی رٹائر ہونے والوں میں شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی رضا ربانی اور اعتزاز احسن کو دوبارہ ٹکٹ دے گی جب کہ اسحق ڈار کو ٹکٹ دینے کے حوالے سے نواز شریف فیصلہ کریں گے ،ادھر مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت نے سینیٹ کے انتخابات کے سلسلہ میں ٹکٹوں کی تقسیم پر سنجیدگی سے مشاورت شروع کر دی ہے ۔

ایک پیراڈائم شفٹ تحریک انصاف کی طرف سے دیکھنے میں آئی ہے جس نے اسمبلیوں سے استعفے دینے کی حکمت عملی پر نظر ثانی کرتے ہوئے سینیٹ الیکشن میں سوئپنگ اکثریت حاصل کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھانے پر پارٹی کی کور لیڈرشپ سے مشاورت کا فیصلہ کیا ہے، یہی ضرورت پی پی سمیت حکمراں ن لیگ اور دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے ناگزیر ہوگئی ہے، سیاسی مبصرین ان انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ اور پیسے کی ریل پیل کے خدشات کو بھی مسترد کرنے پر آمادہ نہیں، تقریباً تمام مین اسٹریم جماعتوں نے ملک کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کے بجائے سینیٹ کے انتخاب میں حصہ لینے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے جو صائب ہونے کے ساتھ ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔

بظاہر سینیٹ کے انتخاب کے شیڈول کا اعلان ہوتے ہی نواز شریف ، آصف علی زرداری،عمران خان ، مولانا فضل الرحمن ، اسفندیارولی خان ، ڈاکٹر فاروق ستار، سراج الحق سمیت دیگر پارلیمانی جماعتوں کی قیادت کا فوکس سینیٹ کے انتخابات کے انعقاد پر ہے۔ بلوچستان سینیٹ الیکشن کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس صوبہ میں سیاسی تبدیلی کی لہر سے ن لیگ کو شدید دھچکا لگا ہے ، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس عمل کو جمہوری اسپرٹ کے ساتھ برتنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے مگر سینیٹ الیکشن کے حوالے سے بلوچستان کی زمینی حقیقت ہی مارچ میں ہونے والے سینیٹ الیکشن کو مہمیز دینے کی وجہ بنی ہے کیونکہ افواہوں اور قیاس آرائیوں کا سارا زور بلوچستان میں حکومتی تبدیلی اور سیاسی بساط لپیٹنے کے سنگین خطرہ سے مشروط کیا جارہا تھا تاہم الیکشن کمیشن کے بروقت اعلان سے صورتحال میں مثبت تبدیلی آئی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جمہوریت ملک میں جڑ پکڑ رہی ہے۔

سیاسی بلوغت اور ملک کے فہمیدہ سیاسی حلقے تعمیری سوچ اور اختلاف رائے کے جمہوری حق کے استعمال کی صحت مند روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں جب کہ سینیٹ انتخابات کے لیے فاٹا، خیبر پختونخوا میں سیاسی جوڑ توڑعروج پر پہنچ سکتا ہے، پیپلزپارٹی، ن لیگ ، پی ٹی آئی ، ایم کیوایم پاکستان ،جے یوآئی (ف) ،اے این پی اور دیگر پارلیمانی جماعتوں نے سینیٹ انتخاب میں اپنے امیدواروں کے ناموں کو حتمی شکل دینے کے لیے سیاسی مشاورت شروع کی ہے اس لیے اتحاد اور رابطوں میں سرعت اور نتیجہ خیزی کی دوڑ لازماً سیاسی تناؤ میں کمی لائے گی، اور جمہوری دائرہ میں سینیٹ انتخابات کے پر امن ماحول میں انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے پر ساری سیاسی جماعتیں اپنی توجہ مرکوز کریں گی۔

سینیٹ انتخابات کے اعلان میں سیاست دانوں کے لیے جمہوری نظام کی استقامت میں اپنا کردار ادا کرنے کا پیغام شامل ہے۔ سینیٹ الیکشن در حقیقت ریاست کی ساخت ، عوام میں اس کی بے لوث قبولیت اور اس کے امیج و آفاقیت کا استعارہ ہیں، ایوان بالا جمہوریت ، صوبائی خود مختاری، قومی یکجہتی اور صوبائی اکائیوں کی ریاست کو بطور ماں کا درجہ دینے کا ایک عہد ہے جس کے بغیر جمہوری عمل اور قومی یگانگت کے اہداف کا حصول ممکن نہیں رہتا، حقیقی جمہوری عمل اکائیوں کے حقوق اور صوبوں کے مابین وفاقیت کی مضبوط زنجیر کوتھامے رکھنے کے عہد کی تجدید ہے جس کا والہانہ اظہارمارچ کے سینیٹ الیکشن میں ہونا چاہیے۔

یہ میسج دنیا کو بھی جائے گا کہ پاکستان میں جمہوریت کے ارتقا میں ماضی کی تاریخ سے سبق آشنائی کے اہم فیصلے ہورہے ہیں، ان انتخابات کے نتیجہ میں کچھ سینیٹرز ریٹائر ہونگے جب کہ ان کی جگہ نئے سینیٹرز لیں گے ، لیکن یہ باری یا نمبر گیم کا معاملہ نہیں ، سینیٹرز پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ وفاق اور صوبائی اکائیوں کے مابین تعلقات کار، جمہوری روابط، عوامی مسائل کے حل ، قوی وسائل کی درست تقسیم اور ملکی معیشت کی ترقی کے لیے مل جل کر کام کریں۔انھیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ بلوچستان سمیت ملک کے دیگر صوبوں کے عوام حکمرانی کے ثمرات سے محرومی پر حالت اضطراب میں ہیں، بربریت، ظلم پرستی اور انتہا پسندی سے نمٹنا بھی ہے۔ مضبوط مرکز کا تصور اب کارآمد نہیں رہا، اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کے عوام میں خوشحالی اور یکجہتی کی تحریک سینیٹ الیکشن سے اٹھنا شرط ہے، یہ ایک بریک تھرو سے کم نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں