وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کردے گا
انوسٹیگیٹنگ جرنلزم کاایک خصوصی شعبہ معرض وجود میں بھی آچکا ہے
ہمارے یہاں سیاست اور صحافت کے شعبے میںآج کل جس ہنر اورچابکدستی سے جھوٹ اور دروغ گوئی سے کام لیا جاتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اِس سے پہلے یہ کام شاذونادر ہی دیکھنے اور سننے کو ملاکرتا تھااور اِس کام کی ذمے داری صرف ایک سرکاری چینل کے سپرد ہواکرتی تھی، وہ جتنا سچ یا جھوٹ بولتا تھا لوگوں کے پاس اُسے سچ ماننے کوسوا کوئی چارہ نہ تھا۔ لیکن اب جتنے چینلز ہیں اُتنی ہی باتیں ہیں۔ خاص کر پرائیویٹ چینلزکی آمد کی بعد تو یہ کاروبار بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھتا گیا۔
کون کتنا سچ بولتا ہے اِس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ ہم تو بس یہ دیکھتے ہیں کون کتنے وثوق اوراعتماد کے ساتھ جھوٹ بولتا ہے وہی ہمارے لیے زیادہ معتبر اورزیادہ قابل اعتماد شخص ہے۔ ہمارے معاشرے میں جھوٹ بولنا اب ایک عیب نہیں رہا، بلکہ یہ ایک اضافی صلاحیت اور قابلیت کے طور پر سمجھا جانے لگا ہے۔ صحافت کے خمیر میں سنسنی خیزی، تجسس آمیزی اور تحیرآفرینی اب ایک لازمی جزو بن چکی ہے۔
اِس کے بغیرکوئی صحافی مقبولیت کے اُس اعلیٰ اوربلند مقام تک نہیں پہنچ سکتا جس کو پانے کی حسرت میں اُس نے اِس شعبے کو پروفیشن کے طور پر اختیارکیا تھا۔ اسکینڈلوں، گھپلوں، سازشوں اور راز ہائے درونِ پردہ کے انکشافات ہماری قومی صحافت کے لیے اب ضروری قرار پاچکے ہیں۔ چینلوں اور ٹاک شوز کی ریٹنگ کا انحصار بھی اب اِسی کام سے وابستہ ہوچکا ہے۔اور اِس مقصد کے لیے انوسٹیگیٹنگ جرنلزم کاایک خصوصی شعبہ معرض وجود میں بھی آچکا ہے۔معاملہ پاناما کیس کا ہو یا پھر میمو گیٹ اور نیوز لیکس کا، سبھی میںاِس شعبے سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے اپنی ذہانت اور قابلیت کے جوہر دکھائے۔ وطن عزیزکے پر سکون سیاسی ماحول میں آج جو بے چینی اور بے یقینی کی فضا سرگرم ہے دیکھا جائے تو اُس کے پیچھے بھی اِسی انوسٹیگیٹنگ صحافت کا عمل دخل ہے۔
پچھلے دنوں قصور میں درندگی کے انتہائی افسوسناک واقعے کے بعد جوکچھ ہوا ہمارے کچھ صحافی بھائیوں اورٹی وی اینکروں کو طبع آزمائی کا ایک سنہری موقعہ ہاتھ آگیا اور انھوں نے اپنی اپنی دانست میں ایسے ایسے قصے سنائے کہ اللہ کی پناہ ۔ معاملے کی گہرائی میں جائے بغیر انھوں نے گھر بیٹھے بیٹھے ایسے نام نہاد ٹھوس ثبوت اورشواہد بھی جمع کرلیے کہ جسے دیکھنے اور سننے کے لیے ہماری آنکھیں اورکان تیار نہ تھے۔
ایک ملزم جس کی شکل وصورت اور معاملات زندگی سے ایسا کہیں سے بھی نہیں لگتا تھا کہ وہ ایک نہیں دو نہیں پورے 37 فارن کرنسی کے اکاؤنٹس کا مالک ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اپنی اِس دروغ گوئی پر شرمسار اور نادم ہونے کی بجائے ہمارے وہ اینکر پرسن ہر اُس شخص کو برا بھلاکہنے لگے جس نے اسٹیٹ بینک کی وضاحت آنے کے بعداُن سے اِس معاملے میں کچھ استفسار کرناچاہا۔ بلا تحقیق وتصدیق ایسے کئی سچ اور جھوٹ ہم نے اُن صاحب ِ عقل ودانش سے ماضی قریب میں کئی بار سنے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے جب وہ زرداری صاحب کے سابقہ دور میں روزانہ حکومت کے گرنے کی نئی نئی تاریخیں دیا کرتے تھے اورکیا مجال کی کسی دن وہ اپنے اِس فعل پر شرمندہ ہوتے بھی دکھائی دیے ہوں۔
وہ بڑے دھڑلے سے حالیہ پورے چار پانچ سال میں بھی یہی کا م بڑی تندہی اور جانفشانی سے کرتے آئے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کے پورے تین سالہ دور میں وہ سخت اورکڑے احتساب کی باتیں بڑی شدومد کے ساتھ بلاناغہ سنایاکرتے تھے یہی حال اُن کا آج بھی ہے۔ اِس سلسلے میں اُن کے اپنے اختراع کردہ نئی وضع کے''دبھڑ دہوس'' کا انتظارکرتے کرتے ہماری آنکھیں چندھیاں سی گئی ہیں لیکن وہ آج بھی مسلسل اُسی راگ کو الاپے جارہے ہیں۔ ایان علی اور ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری سے لے کر اُن کی رہائی تک ہم نے موصوف کی زبان سے بے رحم اور بے لاگ احتساب کی ایسی ایسی رام کہانیاں اور خوش گپیاں سنی ہیں کہ آج جن پر ماتم کرنے کوجی چاہتا ہے۔ حکمرانوں کی چیخیں نکالنے اور ''بدمعاشیہ'' کو نیست ونابود کردینے کی ہیبت ناک اور ہولناک خبریں آج بھی اُن کے پروگراموں کا حصہ اور اہم جز ہواکرتی ہیں۔ اپنے سامنے ایک بھولی بھالی لڑکی کو بٹھا کر جس کے منہ میں زبان تک نہ ہوبڑی بڑی بڑھکیں مارنا کسی عام صحافی کا نہیں بلکہ اُنہی جیسے دلیر اور بہادر اینکرکا خاصہ ہو سکتا ہے۔
ویسے یہ کذب بیانی اور چرب زبانی کسی ایک فرد یا ایک شعبے کا وطیرہ یا اسلوب نہیں رہا ہے۔ بد قسمتی سے یہ ہمارے سارے معاشرے کی خصلت اور صفت بن چکی ہے۔ ہم شعلہ بیانی اورسحر انگیزی اور بے دریغ اپنے جذبات کے اظہار میں ایسی ایسی باتیں کرجاتے ہیں جن کاکوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ حواس باختگی اور سراسیمگی کے عالم میں ہم اپنے مخالف کو نشانہ بناتے ہوئے زبان و قلم کے گھوڑوں کوایسا سرپٹ دوڑاتے ہیں کہ سبھی کچھ اُن کے پیروں تلے روندا چلاجاتا ہے اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا، مگر بات جب عدالت عظمیٰ کی دہلیز تک پہنچتی ہے تو معافی نامہ لکھنے کے سوا ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں بچتا۔ وہ چاہے کوئی سیاستداں ہو یا کوئی نامور وکیل اور بیرسٹریا پھر الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والا میزبان اور اینکر سبھی کو جاں بخشی کے لیے بالآخر یہی کچھ کرنا پڑتا ہے۔
ابھی حال ہی میں ہمارے ایک بڑے دلیر اور نڈر سیاستداں نے بھی جوش خطابت میں کی جانے والی اپنی آتش فشانی پر اُنہی معززججوں کے سامنے معافی نامہ داخل کردیا، جن کے بچوں کی زندگی تنگ کردینے کے وہ دعوے کرتے رہے ہیں۔
بالکل اِسی طرح نئی نئی مقبولیت کے سحر میں گرفتارہمارے کپتان صاحب بھی اپنے 126دنوں کے دھرنوں میں کیا کچھ کہتے رہے جنھیں ہم مجذوب کی بڑ کے علاوہ کوئی اور نام دے ہی نہیں سکتے۔35 پنکچروں سے لے کر اردو بازار میں بیلٹ پیپر چھپوانے تک کسی ایک بات پر وہ ثابت قدمی دکھا نہیں سکے اور اپنے اِس سارے عمل کو سیاست میں کی جانے والی چالاکی قرار دیتے رہے۔ اِسی طرح پاناما کیس میں خاموش رہنے کے لیے شہباز شریف کی جانب سے 10ارب روپے کی رشوت کے الزام کو بھی وہ آج تک عدلیہ کے روبر ثابت نہیں کرپائے بلکہ اِس ضمن میں عدلیہ میں پیش ہونے سے بھی وہ مسلسل اجتناب کرتے آئے ہیں ۔ پھر ایسی صورتحال میں ہم کسی ایک شخص کوکیونکر مورد الزام ٹہرا سکتے ہیں۔ جس طرح ہمارے یہاں بڑے بڑے سیاستداں سیاست کی شعبدہ بازی میں بہت کچھ کہہ کر مکرجاتے ہیں ہمارا کوئی ٹی وی اینکراور میزبان اگر اپنے خوابوں کے تذکرے کو شام میں ہونے والے اپنے کسی پروگرام کی زینت بنادے تو اِس میں حرج ہی کیا ہے۔
قوم اپنے رہبروں اوررہنماؤں کے نقشِ قدم پرچلتے ہوئے آج وہی کچھ کررہی ہے جو وہ دن رات کررہے ہوتے ہیں ۔ صبح سے شام تک ہر شخص اپنی اپنی بساط اور قوتِ گویائی کے مطابق جھوٹ بول رہا ہوتا ہے۔ بحیثیت مجموعی ہم ایک جھوٹی اور دروغ گوقوم بنتے جارہے ہیں ۔ راست بازی اور حق گوئی کی بجائے کذب بیانی اور منافقت کی ملمع کاری سے بوجھل ایک جامد معاشرہ بنتے جارہے ہیں۔ جہاں حقائق سے نابلد اور اور فضول پروپیگنڈے کو بڑی اہمیت اور فوقیت حاصل ہے۔ جہاں بے سروپا باتوں اور بسیارگوئی کو بڑی فضیلت حاصل ہے اورشاید اپنے دانشوروں کی ایسی ہی منافقانہ اور متعصبانہ سوچ پر مبنی تجزیوں اور تبصروں کی روشنی میں قوم آج خود اپنا اور اپنے رہنماؤں کی قسمت کا فیصلہ صادر کرنے پر لاچار اورمجبورکردی گئی ہے۔ایسے پراگندہ اور بے حس ماحول اورمعاشرے میں ہم اِس کے سوا اورکہہ بھی کیا سکتے ہیں۔بقول پروین شاکر...
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا
کون کتنا سچ بولتا ہے اِس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ ہم تو بس یہ دیکھتے ہیں کون کتنے وثوق اوراعتماد کے ساتھ جھوٹ بولتا ہے وہی ہمارے لیے زیادہ معتبر اورزیادہ قابل اعتماد شخص ہے۔ ہمارے معاشرے میں جھوٹ بولنا اب ایک عیب نہیں رہا، بلکہ یہ ایک اضافی صلاحیت اور قابلیت کے طور پر سمجھا جانے لگا ہے۔ صحافت کے خمیر میں سنسنی خیزی، تجسس آمیزی اور تحیرآفرینی اب ایک لازمی جزو بن چکی ہے۔
اِس کے بغیرکوئی صحافی مقبولیت کے اُس اعلیٰ اوربلند مقام تک نہیں پہنچ سکتا جس کو پانے کی حسرت میں اُس نے اِس شعبے کو پروفیشن کے طور پر اختیارکیا تھا۔ اسکینڈلوں، گھپلوں، سازشوں اور راز ہائے درونِ پردہ کے انکشافات ہماری قومی صحافت کے لیے اب ضروری قرار پاچکے ہیں۔ چینلوں اور ٹاک شوز کی ریٹنگ کا انحصار بھی اب اِسی کام سے وابستہ ہوچکا ہے۔اور اِس مقصد کے لیے انوسٹیگیٹنگ جرنلزم کاایک خصوصی شعبہ معرض وجود میں بھی آچکا ہے۔معاملہ پاناما کیس کا ہو یا پھر میمو گیٹ اور نیوز لیکس کا، سبھی میںاِس شعبے سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے اپنی ذہانت اور قابلیت کے جوہر دکھائے۔ وطن عزیزکے پر سکون سیاسی ماحول میں آج جو بے چینی اور بے یقینی کی فضا سرگرم ہے دیکھا جائے تو اُس کے پیچھے بھی اِسی انوسٹیگیٹنگ صحافت کا عمل دخل ہے۔
پچھلے دنوں قصور میں درندگی کے انتہائی افسوسناک واقعے کے بعد جوکچھ ہوا ہمارے کچھ صحافی بھائیوں اورٹی وی اینکروں کو طبع آزمائی کا ایک سنہری موقعہ ہاتھ آگیا اور انھوں نے اپنی اپنی دانست میں ایسے ایسے قصے سنائے کہ اللہ کی پناہ ۔ معاملے کی گہرائی میں جائے بغیر انھوں نے گھر بیٹھے بیٹھے ایسے نام نہاد ٹھوس ثبوت اورشواہد بھی جمع کرلیے کہ جسے دیکھنے اور سننے کے لیے ہماری آنکھیں اورکان تیار نہ تھے۔
ایک ملزم جس کی شکل وصورت اور معاملات زندگی سے ایسا کہیں سے بھی نہیں لگتا تھا کہ وہ ایک نہیں دو نہیں پورے 37 فارن کرنسی کے اکاؤنٹس کا مالک ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اپنی اِس دروغ گوئی پر شرمسار اور نادم ہونے کی بجائے ہمارے وہ اینکر پرسن ہر اُس شخص کو برا بھلاکہنے لگے جس نے اسٹیٹ بینک کی وضاحت آنے کے بعداُن سے اِس معاملے میں کچھ استفسار کرناچاہا۔ بلا تحقیق وتصدیق ایسے کئی سچ اور جھوٹ ہم نے اُن صاحب ِ عقل ودانش سے ماضی قریب میں کئی بار سنے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے جب وہ زرداری صاحب کے سابقہ دور میں روزانہ حکومت کے گرنے کی نئی نئی تاریخیں دیا کرتے تھے اورکیا مجال کی کسی دن وہ اپنے اِس فعل پر شرمندہ ہوتے بھی دکھائی دیے ہوں۔
وہ بڑے دھڑلے سے حالیہ پورے چار پانچ سال میں بھی یہی کا م بڑی تندہی اور جانفشانی سے کرتے آئے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کے پورے تین سالہ دور میں وہ سخت اورکڑے احتساب کی باتیں بڑی شدومد کے ساتھ بلاناغہ سنایاکرتے تھے یہی حال اُن کا آج بھی ہے۔ اِس سلسلے میں اُن کے اپنے اختراع کردہ نئی وضع کے''دبھڑ دہوس'' کا انتظارکرتے کرتے ہماری آنکھیں چندھیاں سی گئی ہیں لیکن وہ آج بھی مسلسل اُسی راگ کو الاپے جارہے ہیں۔ ایان علی اور ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری سے لے کر اُن کی رہائی تک ہم نے موصوف کی زبان سے بے رحم اور بے لاگ احتساب کی ایسی ایسی رام کہانیاں اور خوش گپیاں سنی ہیں کہ آج جن پر ماتم کرنے کوجی چاہتا ہے۔ حکمرانوں کی چیخیں نکالنے اور ''بدمعاشیہ'' کو نیست ونابود کردینے کی ہیبت ناک اور ہولناک خبریں آج بھی اُن کے پروگراموں کا حصہ اور اہم جز ہواکرتی ہیں۔ اپنے سامنے ایک بھولی بھالی لڑکی کو بٹھا کر جس کے منہ میں زبان تک نہ ہوبڑی بڑی بڑھکیں مارنا کسی عام صحافی کا نہیں بلکہ اُنہی جیسے دلیر اور بہادر اینکرکا خاصہ ہو سکتا ہے۔
ویسے یہ کذب بیانی اور چرب زبانی کسی ایک فرد یا ایک شعبے کا وطیرہ یا اسلوب نہیں رہا ہے۔ بد قسمتی سے یہ ہمارے سارے معاشرے کی خصلت اور صفت بن چکی ہے۔ ہم شعلہ بیانی اورسحر انگیزی اور بے دریغ اپنے جذبات کے اظہار میں ایسی ایسی باتیں کرجاتے ہیں جن کاکوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ حواس باختگی اور سراسیمگی کے عالم میں ہم اپنے مخالف کو نشانہ بناتے ہوئے زبان و قلم کے گھوڑوں کوایسا سرپٹ دوڑاتے ہیں کہ سبھی کچھ اُن کے پیروں تلے روندا چلاجاتا ہے اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا، مگر بات جب عدالت عظمیٰ کی دہلیز تک پہنچتی ہے تو معافی نامہ لکھنے کے سوا ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں بچتا۔ وہ چاہے کوئی سیاستداں ہو یا کوئی نامور وکیل اور بیرسٹریا پھر الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والا میزبان اور اینکر سبھی کو جاں بخشی کے لیے بالآخر یہی کچھ کرنا پڑتا ہے۔
ابھی حال ہی میں ہمارے ایک بڑے دلیر اور نڈر سیاستداں نے بھی جوش خطابت میں کی جانے والی اپنی آتش فشانی پر اُنہی معززججوں کے سامنے معافی نامہ داخل کردیا، جن کے بچوں کی زندگی تنگ کردینے کے وہ دعوے کرتے رہے ہیں۔
بالکل اِسی طرح نئی نئی مقبولیت کے سحر میں گرفتارہمارے کپتان صاحب بھی اپنے 126دنوں کے دھرنوں میں کیا کچھ کہتے رہے جنھیں ہم مجذوب کی بڑ کے علاوہ کوئی اور نام دے ہی نہیں سکتے۔35 پنکچروں سے لے کر اردو بازار میں بیلٹ پیپر چھپوانے تک کسی ایک بات پر وہ ثابت قدمی دکھا نہیں سکے اور اپنے اِس سارے عمل کو سیاست میں کی جانے والی چالاکی قرار دیتے رہے۔ اِسی طرح پاناما کیس میں خاموش رہنے کے لیے شہباز شریف کی جانب سے 10ارب روپے کی رشوت کے الزام کو بھی وہ آج تک عدلیہ کے روبر ثابت نہیں کرپائے بلکہ اِس ضمن میں عدلیہ میں پیش ہونے سے بھی وہ مسلسل اجتناب کرتے آئے ہیں ۔ پھر ایسی صورتحال میں ہم کسی ایک شخص کوکیونکر مورد الزام ٹہرا سکتے ہیں۔ جس طرح ہمارے یہاں بڑے بڑے سیاستداں سیاست کی شعبدہ بازی میں بہت کچھ کہہ کر مکرجاتے ہیں ہمارا کوئی ٹی وی اینکراور میزبان اگر اپنے خوابوں کے تذکرے کو شام میں ہونے والے اپنے کسی پروگرام کی زینت بنادے تو اِس میں حرج ہی کیا ہے۔
قوم اپنے رہبروں اوررہنماؤں کے نقشِ قدم پرچلتے ہوئے آج وہی کچھ کررہی ہے جو وہ دن رات کررہے ہوتے ہیں ۔ صبح سے شام تک ہر شخص اپنی اپنی بساط اور قوتِ گویائی کے مطابق جھوٹ بول رہا ہوتا ہے۔ بحیثیت مجموعی ہم ایک جھوٹی اور دروغ گوقوم بنتے جارہے ہیں ۔ راست بازی اور حق گوئی کی بجائے کذب بیانی اور منافقت کی ملمع کاری سے بوجھل ایک جامد معاشرہ بنتے جارہے ہیں۔ جہاں حقائق سے نابلد اور اور فضول پروپیگنڈے کو بڑی اہمیت اور فوقیت حاصل ہے۔ جہاں بے سروپا باتوں اور بسیارگوئی کو بڑی فضیلت حاصل ہے اورشاید اپنے دانشوروں کی ایسی ہی منافقانہ اور متعصبانہ سوچ پر مبنی تجزیوں اور تبصروں کی روشنی میں قوم آج خود اپنا اور اپنے رہنماؤں کی قسمت کا فیصلہ صادر کرنے پر لاچار اورمجبورکردی گئی ہے۔ایسے پراگندہ اور بے حس ماحول اورمعاشرے میں ہم اِس کے سوا اورکہہ بھی کیا سکتے ہیں۔بقول پروین شاکر...
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا