سیاسی لب ولہجہ کا کلچر
سیاست عملی طور پر ایک کوڈ آف کنڈکٹ یا سیاسی ضابطہ اخلاق یا سیاسی و اخلاقی دائرہ کار کے تحت کی جاتی ہے
لاہور/
KARACHI:
پاکستان کی جمہوری سیاست ابھی اپنے ابتدائی ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے اس لیے اہل دانش بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھاتے ہیں۔ کیونکہ اہل سیاست سمیت سیاسی جماعتوں کی قیادت کو داخلی اور خارجی محاذ پر تعمیری سیاست کے تناظر میں جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا، اس کا فقدان غالب نظر آتا ہے۔ سیاسی نظام معاشرے میں ایک بہتر، مثبت اور متبادل تبدیلی کے امکانات کو پیدا کرتا ہے ۔ پاکستان میں سیاست سے جڑے ہوئے افراد جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بنیادی نکتہ بھول جاتے ہیں کہ دوسرے کی منفی کردار کشی اور الزامات کی سیاست سے گریز کرکے تعمیری سیاست کو فروغ دینا ہوتا ہے جو جمہوریت کا مقدمہ مضبوط بناتا ہے ۔
پاکستان کی سیاست میں سب کچھ ملے گا، لیکن جمہوریت کا حقیقی منظرنامہ نہیں ہو گا۔ اہل سیاست قانون کی حکمرانی کو اپنی مفادات پر مبنی سیاست میں استعمال کرتے ہیں۔ ہماری سیاست میں اخلاقیات اور شائستگی کا جنازہ نکل گیا ہے۔ ہمارے اہل سیاست اور اہل دانش سیاسی جلسوں، تقریروں، مجالس، ٹی وی ٹاک شوز سمیت مختلف مجالس میں جو ایک دوسرے کے بارے میں لب ولہجہ اختیار کرتے ہی وہ ایک مہذہب معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم خارجی مسائل کا تو ماتم بہت کرتے ہیں، مگر اپنی داخلی کمزوریوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ملک میں محاذ آرائی، الزا م تراشیوں اور گالم گلوچ پر مبنی سیاست نے پانچ طریقوں سے قومی جمہوری سیاست کا مقدمہ کمزور کیا ہے۔ یہ ہی سیاست کا مجموعی کلچر بھی بن جاتا ہے کیونکہ اہل سیاست عوام میں جوابدہی کے لیے تیار نہیں ہمارے اہل دانش کی فکری مجالس اور میڈیا میں ریٹنگ کی بنیاد پر کھیلا جانے والا کھیل میں بھی یہ الزام تراشیوں پر مبنی ایجنڈا اس حد تک غالب ہوگیا ہے کہ کچھ باقی نہیں بچا۔
مسئلہ اس نئی نسل کا ہے جس میں ہماری سیاسی قیادت ایک ایسے سیاسی کلچر کو متعارف کروارہی ہے جو کسی بھی صورت میں جمہوریت کو مضبوط نہیں بناسکے گا۔ ہمیں اپنے مخالف نکتہ نظر کے لوگوں سے مکالمہ کرنا، برداشت کرنا، رواداری پر مبنی سوچ کو اجاگر کرنا، دوسرے کی رائے کا احترام، سیاسی وجود کو تسلیم کرنا، شائشتگی اور تہذیب پر مبنی کلچر اور سوچ کو فروغ دینے کے بجائے منفی انداز کو اپنا کر وہی کچھ کرنا چاہیے جو ہمیں اب سیاست میں غالب نظر آتا ہے۔ یہ سب کچھ غیر شعوری طور پر نہیں ہو رہا بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت لوگوں کو حقیقی نوعیت کے مسائل سے نمٹنے کے بجائے ان کو غیر حقیقی مسائل سمیت ذاتیات پر مبنی سیاست میں الجھا کر حکمرانوں کے بالادست طبقات اپنی ذاتی سیاست کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں۔
اہل سیاست جب یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ اس ملک میں ایک خاص سوچ اور فکر کو بنیاد بنا کر سیاست ، جمہوریت اور سیاست دانوں کو گالی اور گندہ بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔ یہ بات وزنی ہے، یقینی طور پر غیر سیاسی قوتیں جمہوری قوتوں کے خلاف اپنا ایجنڈا رکھتی ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اہل سیاست خود وہ تمام مواد اپنے طرز عمل سے پیدا کررہے ہیں جو غیر جمہوری قوتوں کے حق میں جاتا ہے۔
آپ نواز شریف، عمران خان، آصف زرداری، بلاو ل بھٹو، مولانا فضل الرحمن سمیت تمام سیاست دانوں کی اپنے مخالفین کے بارے میں لب ولہجہ کا تجزیہ کریں تو سوائے مایوسی کے کچھ نہیں ملتا اور لگتا ہے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت کا قائد اپنی جماعت میں موجود ان لوگوں کا کڑا احتساب یا روکتا نہیں جو اپنے مخالفین کی مخالفت میں سیاسی، اخلاقی حد ود سے تجاوز کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ بعض سیاست دان براہ راست اور بعض دوسروں کی مدد سے اپنے مخالفین کی مخالفت میں ان کی ذات اور گھروں تک گھس جاتے ہیں۔ اس میں بدقسمتی سے گھروں کی عورتوں، بیٹیو ں، بہنوں اور بہووں سمیت سیاسی عورتوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔یہ سب کچھ اس کھلے انداز اور بے شرمی یا ڈھٹائی سے کیا جاتا ہے کہ سر شرم سے جھک جاتے ہیںکہ عورتوں کو سیاست میں بطور ہتھیار استعمال کرکے ہم کیسی سیاست کا فروغ چاہتے ہیں۔
سیاست عملی طور پر ایک کوڈ آف کنڈکٹ یا سیاسی ضابطہ اخلاق یا سیاسی و اخلاقی دائرہ کار کے تحت کی جاتی ہے یا کی جانی چاہیے ۔کیونکہ معاشرے کو چلانے کے لیے سیاست اور جمہوریت دونوں بنیادی لوازمات ہیں ۔ سیاسی جماعتوں میں یقینی طور پرآگے بڑھنے کے لیے قوائد وضوابط ہوتے ہونگے، لیکن اگر اس پر عملدرآمد نہیں کرنا تو ان کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ۔ایک مسئلہ سیاسی نظام میں لب ولہجہ میں تلخی یا غیر شائشتگی کی وجہ ردعمل کی سیاست بھی ہے ۔ جب ایک جماعت یا سیاست دان کیچڑ اچھالتا ہے تو دوسرا اس سے دو قدم آگے بڑھ کر اور زیادہ تلخیاں پیدا کرتا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے طرز عمل میں شائشتگی کا کلچر کیسے آگے بڑھایا جائے ، اصولی طور پر تو یہ کام خود سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو کرنا چاہیے ۔ لیکن اگر وہ اس کام کرنے کے لیے تیار نہیں تو اہل دانش سمیت رائے عامہ بنانے والے فکری اداروں کو آگے بڑھ کر ایک بڑے قومی سیاسی و اخلاقی نصاب کی بات پر دباو بڑھانا چاہیے جو نفرت، انتقا م اور غیر شائشتگی کی سیاست کو پیچھے دکھیلے ۔ ہمیں قومی سیاست کے اہم مسائل پر اپنی توجہ دینی چاہیے نہ کہ غیر ضروری اور غیر سنجیدہ مسائل میں الجھ کر خود کو بھی خراب کریں اور قومی جمہوری سیاست کو بھی نقصان پہنچائیں ، لیکن یہ کام ایک بڑے دباو کی سیاست کو پیدا کیے بغیر ممکن نہیں اور اسی پر ہماری توجہ بھی ہونی چاہیے۔