خبر کی حرمت کی پامالی
ڈاکٹر شاہد مسعود نے ایک فرضی کہانی کو جو سوشل میڈیا پر گشت کررہی تھی اسے اپنے تجزیے میں شامل کیا۔
خبرکی حرمت ہی سے صحافی کا وقار بلند ہوتا ہے، یہی صحافت ہے، اگر خبر میں صداقت نہ ہو اور خبرمیں معروضیت کے اصول کو نظرانداز کرکے اپنا ایجنڈا شامل کردیا جائے تو صحافت کے طالب علموں کے لیے وہ خبر شمار نہیں ہوتی اور پھر جھوٹی کہانیوں کو خبرکی صورت میں پیش کرنے والے افراد کو صحافت کے طالب علم صحافی نہیں سمجھتے۔ صحافت کے نئے ستون سوشل میڈیا پر پیش کیا جانے والے بیشتر مواد خبرکی تعریف پر پورا نہیں اترتا مگر ایک اینکر پرسن نے قصور میں 7سالہ بچی زینب کے قتل میں ملوث ملزم کو بین الاقوامی گروہ کا رکن ثابت کرنے اور اس کے ملک اور بیرون ممالک 38 سے زائد بینک اکاؤنٹس کا الزام لگا کر اور بچوں کی عریاں تصاویر بنانے والے بین الاقوامی گروہ کا رکن ثابت کر کے زینب قتل کو ایک بڑی سازش قرار دیا۔ اس معاملے میں پنجاب کے کسی وزیرکو بھی ملوث قرار دے کر بین الاقوامی سازش کا انکشاف کیا گیا۔ اب اسٹیٹ بینک اور دیگر اداروں سے تمام حقائق پیش کرنے کے بعد سپریم کورٹ اس معاملے کا کوئی فیصلہ کرے گی تاہم اینکر موصوف اپنی اس خبر کے بارے میں تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (J.I.T) کے سامنے پیش نہ ہوکر ثابت کردیا کہ وہ حقائق کا سامنا نہیں کرسکتے۔
برصغیر میں اخبارات کا ارتقاء 1780ء سے ہوا۔ ایک انگریز جیمس آگسٹ نے پہلا اخبارکلکتہ جنرل ایڈوائز ہکی گزٹ کلکتہ سے شایع کیا۔ ہکی کو اس اخبارکی اشاعت کے لیے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہکی نے اپنے اخبارکی مختصر مدت میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے لڑائی لڑی اور مستقبل کے صحافیوں کو اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرنے کا راستہ دکھایا۔ پھر سماجی کارکن راجہ رام موہن رائے نے انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد کا راستہ دکھایا ۔ مولانا عبدالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان نے خبرکی حرمت کے لیے جدوجہد کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ مولانا حسرت موہانی نے خبرکے ذرایع کو ظاہر نہ کر کے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر صحافیوں کے لیے یہ سبق دیا کہ ذرایع کا تحفظ کتنا ضروری ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد جن لوگوں نے خبر کی حرمت کا تحفظ کیا، ان میں فیض احمد فیض، مظہرعلی خان، احمد ندیم قاسمی، منہاج برنا، حسین نقی ، ظفرعباس اور نثارعثمانی وغیرہ نمایاں رہے۔ الیکٹرونک میڈیا کے آنے کے بعد خبروں کی ترسیل میں آسانی ہوگئی۔ ٹی وی چینلز نے عوام کے جاننے کے حق کو یقینی بنانے کے لیے ایک نئی تاریخ رقم کی مگر بعض ایسے اینکرپرسن بھی ان چینلز کے ذریعے سامنے آئے جو خبر کی معروضیت اور خبر اور تبصرے میں فرق کو محسوس نہیں کرتے تھے۔ ٹی وی چینلز نے ریٹنگ کی جنگ میں ایسے مواد کو بریکنگ نیوزکے نام پر نشر کیا جوکسی صورت خبرکے دائرے میں نہیں آتی تھی ۔
سوشل میڈیا جہاں خبرکی نگرانی کا تصور نہیں ہے وہاں سے پیش ہونے والے مواد کو نشر کر کے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ بڑے میڈیا ہاؤس نے اپنے مخصوص ایجنڈے کو عوام کا مسئلہ بنانے کے لیے ایجنڈا جرنلزم کو رائج کیا۔ ان میڈیا ہاؤس نے اگرچہ یہ سب کچھ مخصوص مفادات کے تحفظ کے لیے کیا مگر اس سے نہ صرف جمہوری اداروں کو نقصان پہنچنے کا امکان ہوا بلکہ عوام کے سامنے میڈیا کا امیج بری طرح متاثر ہوا ۔
ڈاکٹر شاہد مسعود نے ایک فرضی کہانی کو جو سوشل میڈیا پر گشت کررہی تھی اسے اپنے تجزیے میں شامل کیا۔ وہ کہتے ہیںکہ اپنی اسٹوری کے ذرایع نہیں بتائیں گے۔ سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ ذرایع کا تحفظ ہر صحافی کی اخلاقی ذمے داری ہے۔ حسرت موہانی سمیت دنیا کے معروف صحافیوں نے خبرکے ذرایع کے تحفظ کے لیے تاریخی قربانیاں دی ہیں مگر ہر صحافی نے اپنی خبر میں شامل مواد کی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے جان کی بازی لگادی ، اگر خبر میں شامل مواد غلط ثابت ہوا تو پھر متعلقہ صحافی نے معافی مانگی ہے اور متاثرہ خبرکے ذرایع سے ہمیشہ کے لیے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ قصور میں 7 سالہ زینب کے قتل کو بین الاقوامی سازش قرار دینے اور ان معاملات میں دنیا کی مہنگی ترین کرنسی کا ذکرکرنے کے مقاصد کچھ اور ہیں۔
ان کا مقصد جمہوری راستے کو سبوتاژکرنے اور مقتدرہ قوتوں کے جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کے منصوبہ کو مکمل کرنا ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں ابھی تک ہتک عزت کے قوانین بہت زیادہ فرسودہ ہیں۔ یہ قوانین انگریزوں نے اس وقت نافذ کیے تھے جب صرف مخصوص تعداد میں اخبارات شایع ہوتے تھے اور عدالتی نظام محدود تھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اخبارات کی تعداد بڑھتی گئی۔ عدالتی نظام پر مقدمات کی بھرمار ہونے لگی۔ ایک عام سے مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچنے میں کم از کم 5سے 10سال کا عرصہ صرف ہونے لگا۔ نجی شعبے میں ریڈیو اور ٹی وی چینلزکی بھرمار اور سوشل میڈیاکے پھیلاؤ کے باوجود ان قوانین کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بہتر نہیں بنایا گیا اور عدالتی نظام میں طوالت کوکم کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔حکومت بھی الیکٹرونک میڈیا کو کنٹرول کرنے اور ٹی وی چینلزکے معیارکو بہتر بنانے کے لیے کوئی اہم کردار ادا نہیں کر پائی۔
صحافتی قوانین پر تحقیق کرنے والے میڈیا کے استاد ڈاکٹر عرفان عزیز کا کہنا ہے کہ اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا میں شایع اور نشر ہونے والے مواد کے احتساب کے لیے ایک آزاد ادارہ قائم ہونا چاہیے جہاں عام آدمی بھی اپنی شکایات کی داد رسی کرسکے۔ اس ادارے میں ججوں، وکلاء، اساتذہ اور سول سوسائٹی کے اراکین اور منتخب اراکین کو شامل کیا جانا چاہیے اور یہ ادارہ صحافت کے مسلمہ اصولوں کے تحت میڈیا کا احتساب کرے۔ میڈیا پر تحقیق کرنے والے محقق ڈاکٹر سیف اﷲ خٹک کا کہنا ہے کہ اینکر پرسن کے احتساب کے لیے میڈیا کے اداروں میں اندورنی طور پر احتساب کا نظام قائم ہونا چاہیے۔
یہ نظام ابتدائی سطح سے اعلیٰ ترین سطح تک ہو اور اس نظام کے ذریعے خبرکی معروضیت، خبر اور تبصرے کے فرق کو یقینی بنانا چاہیے۔ میڈیا ہاؤس کا اندرونی نظام ہی میڈیا کے پیغام کو مؤثر بنانے میں بنیادی کردار ادا کرسکتا ہے۔ پاکستان میں صحافیوں نے آزادئ صحافت کے لیے طویل جدوجہد کی اور یہ صحافیوں کی طویل جدوجہد کا ہی ثمر ہے کہ آج صحافی کسی حد تک اپنی بات کہنے میں آزاد ہیں، اگر صحافیوں نے اس حق کے تحفظ کے لیے خود اقدامات نہیں کیے اور دوبارہ ریاستی اداروں نے آزادئ صحافت کو ریگولیٹ کرنا شروع کردیا تو اس سے نہ صرف جمہوری نظام متاثر ہوگا بلکہ میڈیا کی ترقی بھی متاثر ہوگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ میڈیا مالکان ،اخبارات کے ایڈیٹر ، ٹی وی چینلزکے ڈائریکٹر کنٹرول نیوز اور صحافی منفی صورتحال کی سنگینی کو محسوس کریں اور اندرونی طور پر ایسا خود کار نظام تیار کریں کہ خبر کی حرمت پامال نہ ہو۔ خبر کی حرمت عوام کے جاننے کے حق سے منسلک ہے۔ عوام کا جاننے کا حق جمہوری نظام کے لیے لازمی ہے۔ جمہوری نظام اس ملک کی بقاء اور ترقی کے لیے لازم و ملزوم ہے۔اس صورتحال میں خبرکی معروضیت کا تحفظ ہر صحافی کی ذمے داری ہے۔