ا یک سوال اداروں کی بے توقیری پر

خیر ڈاکٹر شاہد مسعود کی اس خبر کے بعد اُن کی جتنی ’’خبر‘‘ لی جا رہی ہے میرے خیال میں وہ کافی ہے

ali.dhillon@ymail.com

اٹھائیس جنوری کو (اتوار) کولاہور میں عدالت لگی، معاملہ ڈاکٹر شاہد مسعود کی خبر کا تھا، تمام میڈیا چینلزکے اینکرز اور سنیئر صحافی حاضر تھے۔ مختلف اذہان نے اسے مختلف انداز سے سوچا،کچھ نے کہا کہ عدالت میڈیا پر حاوی ہونا چاہ رہی ہے تو کچھ نے کہا کہ آج ''صحافت'' کے لیے اچھا دن نہیں ہے۔کیونکہ ایک اینکر پرسن نے خود ہی سپریم کورٹ کو مخاطب کرکے اپنی ''خبر'' پر ازخود نوٹس لینے کی درخواست کی۔

جب عدالت عظمیٰ نے نوٹس لیا تو وہ ثبوت پیش نہ کر سکے اور چیف جسٹس نے اُن کے کہنے پر نئی انکوائری تشکیل دے دی گئی ہے۔ بادی النظر میں یہ پاکستان میں صحافت کے لیے ایک مبارک دن ثابت بھی ہوا۔ ایک کے بعد ایک سرکردہ صحافی نے روسٹرم پہ آ کر اپنا اصولی موقف بیان کیا۔ آئی اے رحمن، مجیب الرحمٰن شامی، عارف نظامی، سہیل وڑائچ اور حامد میر سمیت دیگر صحافیوں نے پاکستانی صحافت کی لاج رکھ لی۔ معاملہ یہ کھلا کہ ''اہل صحافت'' عدالت پر اعتماد رکھنے والے اور قانون کے پابند شہری ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے صاف لفظوں میں بتا دیا کہ عدلیہ صحافت کے شعبے کی قدردان ہے۔ مشکوک پیشہ وارانہ ساکھ اور غیر ذمے دار رویوں کے حامل چند افراد صحافت کے باوقار شعبے کی نمایندگی نہیں کرتے۔

آج صحافت کے اصول بدل گئے ہیں ، سب کچھ سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آتا ہے، حکومت کو ہوش آتی ہے، معاملہ اُٹھتا ہے، اور پھر دبا دیا جاتا ہے۔ آج المیہ یہ ہے کہ ہم سب نے سوشل میڈیا کو اس قدر اپنے اوپر سوار کر لیا ہے کہ دنیا بھر کی بڑی بڑی کمپنیاں اس کار خیر میں کود پڑی ہیں اور اچھا خاصا بزنس بھی کر رہی ہیں۔ اگر ہم فیس بک کی بات کریں تو ایک اندازے کے مطابق یہ پاکستان سے 1ارب ڈالر سالانہ ریونیو اکٹھا کرتی ہے۔

یوں یہ پوری دنیا سے اربوں ڈالر سالانہ اکٹھے کر رہی ہے، جو مختلف ادارے اسے تشہیر کی مد میں دے رہی ہیں۔ چین میں فیس بک سمیت کئی ویب سائٹس پر اسی لیے پابندی لگا دی ہے کہ وہ بہت زیادہ ریونیو چین سے باہر لے کر جا رہی تھی،اور اگر کسی خبر کی اشاعت نہیں کرنی یا کسی خبر کو وائرل ہونے سے روکنا ہے تو اُسے اپنے ملک سے ہی جب چاہے، جیسے چاہے روکا جا سکے۔ چین، روس نے ان کے متبادل اپنی ایپلی کیشن بنا کر عوام کو دی ہیں، جس وجہ سے ملک کو مجموعی طور پر نقصان نہیں اُٹھانا پڑتا۔ لیکن یہاں میکنیزم نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری سطح پر ایسا کوئی اقدام نہیں اُٹھایا جاتا ، جس سے ملک کا ریونیو بچایا جا سکے، یا کسی بھی خبر کو فوری طور پر روکا جا سکے۔ اس لیے یہاں اس قسم کے مسائل جنم لیتے ہیں، اورمیرے خیال میں ڈاکٹر شاہد مسعود بھی اسی قسم کی فیک نیوز کا شکار ہوئے ہیں۔

بہرکیف دنیا بھرمیں صحافیوں کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ عوام صحافی کی تحقیق سے سچ جاننا چاہتی ہے، عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ صحافی عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور دھوکے بازی سے عام شہریوں کو آگاہ کرنے اور عوامی مسائل اُجاگر کرنے میں اپنا کرِدار ادا کرتا ہے۔عام شہری صحافیوں کے قلم سے لکھی ہوئی اور زبان سے نکلی ہوئی بات کو کافی حدتک اہمیت دیتا ہے۔

شاید یہ ہی وجہ ہے کہ امریکا اور دیگر یورپی ممالک میں صحافیوں کی جانب سے غلط بیانی کو بالکل برداشت نہیں کیا جاتا ہے۔جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسے 2004 میں سی بی ایس نے ایک مشہور نیوز اینکر ڈان راتھرکو غلط خبر نشر کرنے پر معطل کردیا تھا ، اس کے علاوہ 2015 فروری میںامریکی نیوز چینل این بی سی کے مشہور نیوز اینکر جرنلسٹ برائن ولیم کی ہے جو وائٹ ہاوس میں این بی سی کے نیوز کورسپونڈینٹ بھی رہ چکے ہیں اور امریکا میں صحافت کی دنیا کی ایک جانی پہچانی ہستی ہیں، برائن ولیم کو براہ راست غلط رپورٹنگ کرنے پر اسی چینل کے صدر کی جانب سے 6ماہ کے لیے معطل کیا گیا تھا جو ریکارڈ کا حصہ ہے۔


اگر ڈاکٹر شاہد مسعود کی بات کی جائے تو یہ بڑا تکلیف دہ مرحلہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف بات کریں، میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ انھیں کڑی سزا ملنی چاہیے،کیوں کہ ملزم عمران کے37اکاؤنٹس کی معلومات ایک طرف مگر وہ جن معاملات کی طرف نشاندہی کر رہے ہیں، کیا وہ پاکستان میں نہیں ہو رہے؟ کیا ہر غلط کام کے پیچھے پورا نیٹ ورک کام نہیں کر رہا ہوتا؟ اور اکثر اوقات ان نیٹ ورکس کے پیچھے وزیروں مشیروں کا آشیر باد نکل آتا ہے۔

خیر ڈاکٹر شاہد مسعود کی اس خبر کے بعد اُن کی جتنی ''خبر'' لی جا رہی ہے میرے خیال میں وہ کافی ہے۔ اب جب کہ ہمارے دوست صحافی ڈاکٹر صاحب پر مصیبت آن پڑی ہے تو انھیں چاہیے کہ ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے یا تو ثبوت پیش کریں، یا تحریری معذرت کرکے اس معاملے کو مزید نہ اُلجھائیں کیوں کہ پاکستان میں پہلے ہی بہت سے مسائل چل رہے ہیں جن پر سے توجہ ہٹانے کے لیے ایک اس طرح کا کیس ہی کافی ہوتا ہے۔ویسے پاکستان میں صحافی تو شاید شرمندگی سے معافی بھی مانگ لیں مگر ہمارے سیاستدانوں میں نہ کبھی یہ شعور آیا ہے اور نہ ہی آسکتا ہے۔ اقبالؒ کا ایک بہت ہی مشہور شعر ہے:

جلالِ بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

ویسے بھی نبی کریمؐ کا فرمان ہے کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس تک جو بات پہنچے اسے بلا تحقیق آگے پہنچا دے۔ صحافت کا بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ صحافی کو جو اطلاع ملے اسے خبر بنانے سے پہلے ایک سے زیادہ ذرایع سے پوری طرح اس کی تحقیق کر لے۔ یہی حکم اداریہ نویسوں، کالم نگاروں، فیچر رائٹرز اور مضامین لکھنے والوں کے لیے بھی ہے۔ ماضی میں اس اصول پر سختی سے عمل ہوتا تھا اور ذمے دار میڈیا آج بھی اسی پر عمل پیرا ہے۔ ماضی میں ایسا بھی ہوتا تھا کہ اگر کوئی اداروں کے خلاف بات کرتا تو اسے سخت سزا دی جاتی اور پھر کوئی بھی دوبارہ اس طرح کی غلطی کا مرتکب نہ ہوتا۔

آج ایک شخص جسے عدالت عظمی ٰ نے نااہل قرار دے کر وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا تھا، وہ ملک کے معزز اداروں کی بے توقیری کر رہا ہے۔ اگر ایک صحافی کی خبر پر فوری نوٹس بھجوا سکتے ہیں توکیا عدلیہ اس طرف نظر کرم نہیں کرے گی۔ سابق وزیر اعظم اپنی نااہلی کے بعد کم و بیش 70سے زائد جلسوں میں وہ عدالت عظمیٰ اور سیکیورٹی اداروں کے خلاف بات کر چکے ہیں۔ اس لیے گزارش ہے کہ جو لوگ عدلیہ، ملک کے سیکیورٹی اداروںاور صوبائیت میں ملوث ہیں اور میڈیا پر آکر قومی مفاد کے خلاف بات کرتے ہیں اُن کا بھی محاسبہ کیا جائے۔
Load Next Story