رشتوں کا بھروسہ کوئی نہیں
آج یہ حالت ہے کہ اگرکسی کے بچے کو ڈانٹ دو تو گھر والے لڑنے مرنے کو تیار ہوجاتے ہیں
ایک خاتون کا فون آیا جس کو سن کر واقعی ان کی ذہنی کیفیت اور پریشانی کا اندازہ ہوا کہ معاشرہ کس پستی کی طرف جا رہا ہے اور اس کے اثرات کس طرح منفی لوگوں کے ذہنوں پر پڑرہے ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ زینب کے واقعے اور اس سے پہلے کے متعدد واقعات کی وجہ سے وہ ذہنی طور پر بہت پریشان ہیں، اب تو ان کے دماغ کی وہ حالت ہوگئی ہے کہ ان کو سگے رشتوں کا بھی بھروسہ نہیں رہا۔ اپنی بیٹیوں کو بھائیوں اور دوسرے سگے رشتے داروں سے بھی بات کرنے پر بری طرح جھڑک رہی ہیں لڑکیوں کو ڈانٹ پڑنے سے وہ الگ پریشان ہیں۔ اس صورتحال میں بچے الگ ڈسٹرب ہو رہے ہیں مگر وہ اپنی ان حرکات کو کوئی نام دینے سے قاصر ہیں ۔ خاتون کا کہنا تھا کہ میرے دن رات کا سکون برباد ہوگیا ہے بچے موبائل فون پر مصروف ہوں تو الگ پریشانی لگتا ہے کہ ہو نہ ہو کوئی نازیبا چیز ہی دیکھ رہے ہوں گے کسی دوست سے بھی بات کریں تو لگتا ہے کوئی چکر ہے اپنی بات کہہ کر وہ رونے لگیں اور کہا کہ بتائیں میں کیا کروں؟
واقعی معاشرے کی بڑھتی ہوئی غلط سوچ اور حرکات نے آج ان تمام لوگوں کا سکون برباد کردیا ہے جوکہ اس بگڑتی ہوئی تبدیلی کو دیکھ اور سمجھ رہے ہیں۔ آج ہم اس تنزلی کے دور میں داخل ہوگئے ہیں کہ واقعی رشتوں کا احترام ختم ہوتا جا رہا ہے مگر اس کے ذمے دار ہم خود ہیں۔ خاندانی نظام ختم ہونے سے بھی بہت سی برائیوں نے جنم لیا ہے اور اسی لیے اس قسم کی صورتحال کا سامنا ہے۔ پہلے محلہ سسٹم یا کمیونٹی سسٹم کی فعالی کی وجہ سے بزرگوں کا عمل دخل بہت زیادہ تھا ان کی نگاہ آنے جانے والوں، کرائے داروں، نوجوانوں پر رہتی تھی اور وہ غلط باتوں پرکسی کو بھی ٹوکنا روکنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ میرے ابا ہمیں بتاتے تھے کہ جب وہ میٹرک میں تھے توکچھ دوستوں کی وجہ سے سگریٹ نوشی کرنے لگے کسی دن محلے کے بزرگ نے دیکھ لیا پھر وہ پٹائی کی کہ بس وہ دن اور ابا بوڑھے ہوگئے مگر سگریٹ کو ہاتھ نہ لگایا۔ یہ تھا پچھلے زمانوں میں بزرگوں کا کردار۔
آج یہ حالت ہے کہ اگرکسی کے بچے کو ڈانٹ دو تو گھر والے لڑنے مرنے کو تیار ہوجاتے ہیں اسی وجہ سے بزرگ بھی محتاط ہوگئے ہیں۔ دادا، دادی، نانا، نانی کی نگرانی میں بچے پرورش پاتے تھے جب سے مغربی تقلید میں خاندانی نظام میں دراڑ پڑی ہے تو تربیت کا فقدان پیدا ہوگیا ہے ماں باپ اور بچے فیملی کا تصور ہی یہ رہ گیا ہے پھر ماں باپ دونوں معاشی جدوجہد میں مصروف ہیں دونوں کمانے نکل جاتے ہیں بچے یا تو نوکروں کے ذمے یا پھر اکیلے ہی گھر پر رہنے پر مجبور ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں پھر موبائل فونز ہر بچے کے ہاتھ میں ہے ۔ پہلے تو یہ تھا کہ رانگ نمبرز ہی آتے اور جاتے تھے سونے پر سہاگہ اسمارٹ فونز آگئے نیٹ کی دستیابی نے دنیا کو ہاتھوں پر منتقل کردیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر طرح کی ویب سائٹس نکل گئیں اور اس کے نتیجے میں وہ تمام چیزیں جوکہ شجر ممنوعہ تھیں وقت سے پہلے ہمارے بچے جان چکے ہیں۔
اس کے نتیجے میں صحیح اور غلط کی تمیزکھو چکے ہیں کیونکہ ہر چیز تو خود سیکھ رہے ہیں کوئی ان کو اچھی اور بری بات بتانے والا نہیں جب وقت گزر جائے تو نصیحت بھی بے اثر ہوجاتی ہے جس وقت ماں باپ کو پتا چلتا ہے کہ اولاد کن سرگرمیوں میں ملوث ہو رہی ہے تو روک ٹوک شروع کرتے ہیں اس وقت اولاد اتنا قابو سے باہر ہوجاتی ہے کہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کا استعمال ہی نہیں کیا جاتا اور ہر چیز قابو سے باہر ہوجاتی ہے معاشرے کی تنزلی دورکرنے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ خاندانی سسٹم کو بحال کیا جائے رشتوں کا احترام اچھے برے کی تمیز بچپن ہی سے ذہن نشین کرائے جائیں تو اس کے نتائج مثبت نکلیں گے ابھی ہمارا معاشرہ اتنی دور نہیں گیا کہ واپسی مشکل ہو۔
معاشرے کی تبدیلی کے لیے حکومت اور عوام دونوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ خواص سے ہی متاثر ہوکر عوام میں تبدیلی آتی ہے مگر جس معاشرے میں خواص کا یہ عالم ہو کہ وہ زینب جیسے واقعے پر اپنی سیاست کی دکان چمکائیں ان کا کیا کہنا، پھر شرمندہ بھی نہ ہوں ایسے لوگوں کے لیے ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرما دیا ہے کہ یہ لوگ آنکھیں رکھتے ہیں مگر دیکھتے نہیں اور کان رکھنے کے باوجود بہرے ہیں۔
چلتے چلتے خادم پنجاب کی بات جس کو پڑھ کر مجھے تو بہت ہنسی آئی کہ یہ لوگ عوام کو کیوں اتنا بے وقوف سمجھتے ہیں۔ خادم اعلیٰ فرماتے ہیں خادم پاکستان بنا تو لوٹی ہوئی دولت واپس لاؤں گا یہ کیسے لوگ ہیں کہ ان کو اپنے الفاظ پر شرمندگی بھی نہیں یہی الفاظ 2013ء کے الیکشن میں موصوف نے کہے تھے اور 2018ء میں بھی ان کا وژن اور مشن یہی ہے تو سوال یہ ہے کہ درمیان کے عرصے میں یہ کام کیوں نہ کیا؟ کسی اورکی دولت واپس لانے کے لیے تو تڑپ اتنی ہے مگر عرصہ 30 سال سے عنان حکومت آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہے کس کی دولت آپ واپس لائے بلکہ خود کی دولت دنیا بھر میں بکھری ہوئی ہے ۔
نواز شریف اسی دولت کے چکر میں نااہل ہوئے۔ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ آپ اپنی دولت ہی واپس لے آتے تو ملک کا بھلا ہوجاتا کیا کریں گے اتنی دولت کا جو اپنوں کے کام نہ آئے؟ ایک وقت آجانا ہے جب لاد چلے گا بنجارہ جب کوئی دولت کوئی شہرت کچھ کام نہ آئے گا کام آئیں گے تو صرف اعمال اور وہ نیکیاں جو کسی ضرورت مند کے لیے کی گئی ہوں کاش آپ 2013ء کی ہی کہی ہوئی بات پر عمل پیرا ہوجاتے تو 2018ء میں یہ بات نہیں دہرانی پڑتی۔ عوام اب صرف عمل دیکھیں گے خادم پاکستان بننا ہے تو لے آئیں اپنی تمام دولت۔ دے دیں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کے شہیدوں کو انصاف ۔
ان کا کہنا تھا کہ زینب کے واقعے اور اس سے پہلے کے متعدد واقعات کی وجہ سے وہ ذہنی طور پر بہت پریشان ہیں، اب تو ان کے دماغ کی وہ حالت ہوگئی ہے کہ ان کو سگے رشتوں کا بھی بھروسہ نہیں رہا۔ اپنی بیٹیوں کو بھائیوں اور دوسرے سگے رشتے داروں سے بھی بات کرنے پر بری طرح جھڑک رہی ہیں لڑکیوں کو ڈانٹ پڑنے سے وہ الگ پریشان ہیں۔ اس صورتحال میں بچے الگ ڈسٹرب ہو رہے ہیں مگر وہ اپنی ان حرکات کو کوئی نام دینے سے قاصر ہیں ۔ خاتون کا کہنا تھا کہ میرے دن رات کا سکون برباد ہوگیا ہے بچے موبائل فون پر مصروف ہوں تو الگ پریشانی لگتا ہے کہ ہو نہ ہو کوئی نازیبا چیز ہی دیکھ رہے ہوں گے کسی دوست سے بھی بات کریں تو لگتا ہے کوئی چکر ہے اپنی بات کہہ کر وہ رونے لگیں اور کہا کہ بتائیں میں کیا کروں؟
واقعی معاشرے کی بڑھتی ہوئی غلط سوچ اور حرکات نے آج ان تمام لوگوں کا سکون برباد کردیا ہے جوکہ اس بگڑتی ہوئی تبدیلی کو دیکھ اور سمجھ رہے ہیں۔ آج ہم اس تنزلی کے دور میں داخل ہوگئے ہیں کہ واقعی رشتوں کا احترام ختم ہوتا جا رہا ہے مگر اس کے ذمے دار ہم خود ہیں۔ خاندانی نظام ختم ہونے سے بھی بہت سی برائیوں نے جنم لیا ہے اور اسی لیے اس قسم کی صورتحال کا سامنا ہے۔ پہلے محلہ سسٹم یا کمیونٹی سسٹم کی فعالی کی وجہ سے بزرگوں کا عمل دخل بہت زیادہ تھا ان کی نگاہ آنے جانے والوں، کرائے داروں، نوجوانوں پر رہتی تھی اور وہ غلط باتوں پرکسی کو بھی ٹوکنا روکنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ میرے ابا ہمیں بتاتے تھے کہ جب وہ میٹرک میں تھے توکچھ دوستوں کی وجہ سے سگریٹ نوشی کرنے لگے کسی دن محلے کے بزرگ نے دیکھ لیا پھر وہ پٹائی کی کہ بس وہ دن اور ابا بوڑھے ہوگئے مگر سگریٹ کو ہاتھ نہ لگایا۔ یہ تھا پچھلے زمانوں میں بزرگوں کا کردار۔
آج یہ حالت ہے کہ اگرکسی کے بچے کو ڈانٹ دو تو گھر والے لڑنے مرنے کو تیار ہوجاتے ہیں اسی وجہ سے بزرگ بھی محتاط ہوگئے ہیں۔ دادا، دادی، نانا، نانی کی نگرانی میں بچے پرورش پاتے تھے جب سے مغربی تقلید میں خاندانی نظام میں دراڑ پڑی ہے تو تربیت کا فقدان پیدا ہوگیا ہے ماں باپ اور بچے فیملی کا تصور ہی یہ رہ گیا ہے پھر ماں باپ دونوں معاشی جدوجہد میں مصروف ہیں دونوں کمانے نکل جاتے ہیں بچے یا تو نوکروں کے ذمے یا پھر اکیلے ہی گھر پر رہنے پر مجبور ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں پھر موبائل فونز ہر بچے کے ہاتھ میں ہے ۔ پہلے تو یہ تھا کہ رانگ نمبرز ہی آتے اور جاتے تھے سونے پر سہاگہ اسمارٹ فونز آگئے نیٹ کی دستیابی نے دنیا کو ہاتھوں پر منتقل کردیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر طرح کی ویب سائٹس نکل گئیں اور اس کے نتیجے میں وہ تمام چیزیں جوکہ شجر ممنوعہ تھیں وقت سے پہلے ہمارے بچے جان چکے ہیں۔
اس کے نتیجے میں صحیح اور غلط کی تمیزکھو چکے ہیں کیونکہ ہر چیز تو خود سیکھ رہے ہیں کوئی ان کو اچھی اور بری بات بتانے والا نہیں جب وقت گزر جائے تو نصیحت بھی بے اثر ہوجاتی ہے جس وقت ماں باپ کو پتا چلتا ہے کہ اولاد کن سرگرمیوں میں ملوث ہو رہی ہے تو روک ٹوک شروع کرتے ہیں اس وقت اولاد اتنا قابو سے باہر ہوجاتی ہے کہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کا استعمال ہی نہیں کیا جاتا اور ہر چیز قابو سے باہر ہوجاتی ہے معاشرے کی تنزلی دورکرنے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ خاندانی سسٹم کو بحال کیا جائے رشتوں کا احترام اچھے برے کی تمیز بچپن ہی سے ذہن نشین کرائے جائیں تو اس کے نتائج مثبت نکلیں گے ابھی ہمارا معاشرہ اتنی دور نہیں گیا کہ واپسی مشکل ہو۔
معاشرے کی تبدیلی کے لیے حکومت اور عوام دونوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ خواص سے ہی متاثر ہوکر عوام میں تبدیلی آتی ہے مگر جس معاشرے میں خواص کا یہ عالم ہو کہ وہ زینب جیسے واقعے پر اپنی سیاست کی دکان چمکائیں ان کا کیا کہنا، پھر شرمندہ بھی نہ ہوں ایسے لوگوں کے لیے ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرما دیا ہے کہ یہ لوگ آنکھیں رکھتے ہیں مگر دیکھتے نہیں اور کان رکھنے کے باوجود بہرے ہیں۔
چلتے چلتے خادم پنجاب کی بات جس کو پڑھ کر مجھے تو بہت ہنسی آئی کہ یہ لوگ عوام کو کیوں اتنا بے وقوف سمجھتے ہیں۔ خادم اعلیٰ فرماتے ہیں خادم پاکستان بنا تو لوٹی ہوئی دولت واپس لاؤں گا یہ کیسے لوگ ہیں کہ ان کو اپنے الفاظ پر شرمندگی بھی نہیں یہی الفاظ 2013ء کے الیکشن میں موصوف نے کہے تھے اور 2018ء میں بھی ان کا وژن اور مشن یہی ہے تو سوال یہ ہے کہ درمیان کے عرصے میں یہ کام کیوں نہ کیا؟ کسی اورکی دولت واپس لانے کے لیے تو تڑپ اتنی ہے مگر عرصہ 30 سال سے عنان حکومت آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہے کس کی دولت آپ واپس لائے بلکہ خود کی دولت دنیا بھر میں بکھری ہوئی ہے ۔
نواز شریف اسی دولت کے چکر میں نااہل ہوئے۔ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ آپ اپنی دولت ہی واپس لے آتے تو ملک کا بھلا ہوجاتا کیا کریں گے اتنی دولت کا جو اپنوں کے کام نہ آئے؟ ایک وقت آجانا ہے جب لاد چلے گا بنجارہ جب کوئی دولت کوئی شہرت کچھ کام نہ آئے گا کام آئیں گے تو صرف اعمال اور وہ نیکیاں جو کسی ضرورت مند کے لیے کی گئی ہوں کاش آپ 2013ء کی ہی کہی ہوئی بات پر عمل پیرا ہوجاتے تو 2018ء میں یہ بات نہیں دہرانی پڑتی۔ عوام اب صرف عمل دیکھیں گے خادم پاکستان بننا ہے تو لے آئیں اپنی تمام دولت۔ دے دیں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کے شہیدوں کو انصاف ۔