سیٹھ آسن داس
خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، وہ ظالم کو بہت ڈھیل دیتا ہے مگر جب پکڑتا ہے تو سنبھلنے بھی نہیں دیتا
ABU DHABI:
میں نے اس کا نام پہلی بار میر بندہ علی خان تالپور سے ان کے بنگلے پر اس وقت سنا تھا، جب وہ ہمارے شہر کے مشہور معالج، ڈاکٹر جمیل سے ان کے بھائی رزاق کے کیس کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے جو ان دنوں قتل کے الزام میں بند تھے۔ میں لاڑکانہ کے سردار پیر بخش بھٹو اور ایوب کھوڑو کے درمیان ہونے والے انتخابی مقابلے پر اپنے اخبار کے لیے میر صاحب کے کمنٹس لینے گیا تھا۔
لوگ مجھے میر صاحب کے ساتھ بے تکلفی سے بات چیت کرتے دیکھ کر کہتے تمہاری بڑی''ٹور'' ہے بھئی، ان کے سامنے یوں کرسی پر پھیل کر اور چوڑے ہوکر بیٹھتے ہو جیسے انھی کی حیثیت کے کوئی بڑے آدمی ہو۔ میں بھلا اس کا کیا جواب دیتا، سن کر خاموش ہوجاتا تھا۔ یہ تو میر صاحب کا بڑا پن اور اعلیٰ ظرفی تھی کہ میری عزت افزائی فرماتے اور مزاحاً مسٹر جرنلسٹ کہہ کر مخاطب کرتے تھے، آخرکو میں ٹنڈو غلام علی کا واحد صحافی جو تھا اور بطور نامہ نگار حیدرآباد کے ایک اخبارکے لیے کام کرتا تھا۔ ابھی ہماری بات چیت شروع نہیں ہوئی تھی کہ ڈاکٹر جمیل کو آتا دیکھ کر میر صاحب بولے تم بیٹھو میں ذرا ان سے ضروری بات کرلوں۔ تب میں نے بنگلے کے کیئر ٹیکر چاچا آچرکے لائے ہوئے بسکٹس کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے دونوں کے مابین ہونے والی گفتگو سنی تھی۔
پتہ چلا سیٹھ آسن داس ہی نے، جو میرپور خاص کا رہائشی امیر کبیر آدمی اور بہت بڑا زمیندار تھا، ڈاکٹر جمیل کے بھائی کو اندر کرایا تھا اور وہ بھی ایسا کہ اے کے بروہی جیسا نامی گرامی بڑا وکیل بھی، جو اس زمانے میں جب سونے کا بھاؤ 100 روپے تولہ تھا ہر پیشی پر ایک لاکھ روپے بطور فیس لیتا تھا، اس کی ضمانت نہیں کرا پا رہا تھا۔
میں نے میر صاحب کو ڈاکٹر جمیل سے کہتے ہوئے سنا کہ آسنداس سے بات کرنے کو انا کا مسئلہ مت بناؤ اور اس سے صلح کرلو ۔ میں نے دیکھا ڈاکٹر اس کے لیے تیار نہیں تھا، وہ بار بار میر صاحب سے ایک ہی بات کہتا کہ آپ فکر نہ کریں اور دیکھتے جائیں میں اس کے ساتھ کیا کرتا ہوں، وہ تو حئی قریشی (جو اس زمانے میں حیدرآباد کے سیشن جج تھے اورکیس انھی کی عدالت میں زیر سماعت تھا) اس کا حق نمک ادا کر رہا ہے ورنہ وہ کب کا ناک رگڑ چکا ہوتا۔ میر صاحب نے ڈاکٹرکو ایسی بے سروپا باتیں کرنے سے منع کیا اورکہا تم آسنداس کو نہیں جانتے، اس نے اب تک شاید اپنے پڑدادا کی جمع کی ہوئی دولت بھی پوری طرح خرچ نہیں کی ہوگی، دادا، باپ اور خود اس کی اپنی بنائی ہوئی دولت کو تو ابھی ہوا بھی نہیں لگی۔ 20-10 لاکھ اڑا دینا اس کے لیے کوئی معنیٰ نہیں رکھتا جب کہ تم اتنے نقصان کے متحمل نہیں ہوسکتے اور تباہ ہو جاؤگے، ضد مت کرو، میں کل آسنداس کو بلواتا ہوں، وہ میری بہت عزت کرتا ہے اور میری کوئی بات نہیں ٹالے گا، تم بھی آؤ، میں تمہارا راضی نامہ کرادیتا ہوں۔
لیکن ڈاکٹر جمیل نہیں مانا، میرے سامنے اس نے بڑی بے اعتنائی سے میر صاحب سے اجازت چاہی اورکوئی واضح جواب دیے بغیر اٹھ کر چلا گیا۔ اس کیس سے قطع نظر جس کے حوالے سے انھوں نے ڈاکٹر جمیل کو بلوایا تھا، میں نے جب سیٹھ آسنداس کے متعلق اتنا کچھ سنا تو مجھے مزید جاننے کا تجسس اور اشتیاق ہوا، مختلف لوگوں نے اس کی نفسیات، عادات واطوار، مشاغل اور طریقہ کارکے بارے میں نہایت سنسنی خیز انکشافات کیے جن کی اور لوگوں نے بھی تصدیق کی۔ مثلاً معلوم ہوا کہ پیسہ خرچ کرنا اس کا سب سے بڑا مسئلہ تھا جس کے لیے وہ بہانے ڈھونڈتا پھرتا تھا، کیس لڑنا اس کے مشاغل میں سر فہرست تھا۔
اگر اسے پتہ چلتا کہ فلاں فلاں دو پارٹیوں میں جو کیس طویل عرصے سے چل رہا تھا اس میں فلاں پارٹی کمزور پڑتی دکھائی دیتی ہے تو وہ فوراً آدمی بھیج کر اس سے رابطہ کرتا، پہلے تو اسے ڈٹے رہنے کے لیے اکساتا اور قرض وغیرہ دینے کی پیشکش بھی کرتا لیکن اگر وہ پارٹی پھر بھی نہ مانتی تو کہتا اچھا بتاؤ تمہارا اب تک کیس پر کتنا خرچ ہوا ہے، اسے وہ رقم ادا کرتا اور کہتا اب وہ خود اس کے نام سے یہ کیس لڑے گا۔ پھر وہ اچھے سے اچھا وکیل کرتا، پیسہ پانی کی طرح بہاتا اور ہر جائز ناجائز طریقہ اختیار کرکے کیس جیت جاتا جس سے اس کو ایک قسم کی تسکین ملتی، برتری کا احساس اسے مزید غلط کاریوں کی ترغیب دیتا اور وہ دولت کے نشے میں بدمست ہوکر تمام حدود پارکرجاتا۔
کہنے کو ہندو تھا لیکن اپنے لچھنوں سے بنیا لگتا نہیں تھا، غیر شادی شدہ تھا اور اپنے کنوارے رہنے کا جواز یہ بتاتا تھا کہ میں ایک بیوی پر قناعت نہیں کرسکتا جب کہ ہم ہندوؤں میں ایک وقت میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ یہ بھی کہا کرتا تھا کہ میں کسی عورت کو تین ماہ سے زیادہ برداشت ہی نہیں کرسکتا، کتنی ہی حسین کیوں نہ ہو مجھے زہر لگنے لگتی ہے۔ کہتے ہیں حیدرآباد کے علاقے ہیرآباد میں اس کا بنگلہ تھا جس کا بہت کم لوگوں کو علم تھا، وہ گویا اس کا عشرت کدہ تھا۔ ایک اعلیٰ سرکاری افسر کی بیگم اس کی داشتہ مشہور تھی۔ ایک بار جب وہ دونوں رنگ رلیاں منا رہے تھے، مذکورہ افسر بھی وہاں آ دھمکا۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ اسے اپنی بیوی پر بدچلنی کا شبہ تھا اور وہ اس کا تعاقب کرتا ہوا وہاں پہنچا تھا تو کچھ دوسرے لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ آسنداس کو بلیک میل کرکے مال بٹورنا چاہتا تھا۔ بہرحال جو بھی ہو، آسنداس نے مبینہ طور پر اسے اپنے پسٹل سے فائرکرکے قتل کردیا۔
مشہور تھا کہ اس نے خود ہی فون کرکے ایس پی کو بلوایا اور اس سے معاملہ طے کیا جو لاش اپنی گاڑی کی ڈکی میں ڈال کر لے گیا اور اس کو ایسا ٹھکانے لگایا کہ پولیس گمشدگی کا مقدمہ درج کرکے کئی سال تک اس افسرکو تلاش کرتی رہی۔ ڈاکٹر جمیل کے جس بھائی کو اس نے قتل کے جھوٹے کیس میں پھنسوایا تھا، پھانسی چڑھ گیا، میر بندہ علی خان نے بالکل صحیح اندازہ لگایا تھا، ڈاکٹر جمیل نہ صرف کنگال ہوگیا بلکہ اس کا ذہنی توازن بھی خراب ہوگیا، آخری دنوں میں اس کا یہ حال ہوگیا تھا کہ ازار بند لٹک رہا ہوتا اور وہ خود سے باآواز بلند باتیں کرتا ہوا بازارکا ایک سرے سے دوسرے سرے تک چکر لگا رہا ہوتا تھا۔ واقفانِ حال بتاتے تھے کہ سیٹھ آسنداس کا ایک ہاری قتل تو ہوا تھا لیکن اسے نہ تو ڈاکٹر جمیل کے بھائی نے خود قتل کیا تھا نہ ہی کروایا تھا ۔ جھگڑا پانی کی باری لینے پر آسنداس اور چوہدری رزاق کے ہاریوں میں ہوا تھا، لیکن آسنداس نے بطور قاتل چوہدری کو اس لیے نامزد کروایا کہ وہ اس سے معافی مانگنے نہیں گیا تھا۔ غرض اس کی اس قسم کی کارستانیوں کے کئی قصے مشہور تھے، ان میں سے کتنے سچے تھے اورکتنے جھوٹے یہ خدا ہی جانتا ہے۔
لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، وہ ظالم کو بہت ڈھیل دیتا ہے مگر جب پکڑتا ہے تو سنبھلنے بھی نہیں دیتا سو سیٹھ آسنداس کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ۔ وہ اپنی گاڑی میں براستہ سڑک میرپورخاص سے حیدرآباد جارہا تھا کہ ٹنڈو الہ یار کے قریب دونوں طرف گھات لگائے بیٹھے ہوئے حملہ آوروں نے اندھا دھند فائرنگ کرکے اس موقعے پر ہی قتل کر دیا، شاید اس سے بھی ان کے انتقام کی آگ نہیں بجھی تبھی انھوں نے گاڑی اور اس میں موجود سیٹھ آسنداس کی لاش پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی، آگے پیچھے تو اس کے ویسے بھی کوئی نہ تھا میرپور خاص کی ہندو برادری کو بھی اس کا کریا کرم کرنے کی زحمت نہیں اٹھانی پڑی۔
خس کم جہاں پاک