غربت و پسماندگی
دنیا میں ترقی یافتہ ممالک نے اپنی آبادی پر کنٹرول کے منصوبے بنائے جن کے باعث انھوں نے ترقی کی منازل تیزی سے طے کیں
بزرگ کہا کرتے تھے چند یا خاص لوگ ایسے ہوتے تھے جو ترک دنیا کرکے گوشہ نشین ہوجاتے یا کہیں جنگل ویران جگہ جاکر جھونپڑی ڈال کر یاد الٰہی میں بقیہ حیات گزار دیتے، بچپن میں جب یہ بات سنی تو سمجھ میں نہ آئی صرف اتنا سمجھتے ویرانے یا جنگل میں جاکر ایک جھونپڑی میں زندگی گزار دیتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساری بات سمجھ میں آنا شروع ہوگئی۔ چونکہ معاشرے میں وہ ان حالات کو نامناسب سمجھتے کوشش ان کی ہوتی بڑھتی ہوئی برائی ختم کی جائے جب وہ اس میں ناکام ہوتے تو اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ایسے معاشرے سے دور ہو جائیں جس کو وہ پسند نہیں کر رہے اور ان کی بات پر کوئی یقین یا عمل نہیں کرتا۔ برائی کے بارے میں جیسا کہا گیا ہے کہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔ جہاں برائی ہے تو اچھائی بھی موجود ہے لیکن جس طرح آبادی میں اضافہ ہوتا گیا تو اچھائی دب گئی اور برائی بڑھنا شروع ہوئی۔
اگر دوسرے معاشروں کی بات کی جائے تو وہاں برائی بہت کم نظر آئے گی، کہیں ایسا بھی دیکھا ہے ہر شخص اپنے نیک کاموں میں مصروف ہے قانون کے خلاف کوئی عمل نہیں شاید اس لیے کہ ان ملکوں نے پہلے اپنے آپ کو صحیح کیا اور عوام ایسی مشعل راہ بنے جو اچھائی پر مبنی تھی۔ پہلا کام وہاں غربت کو دورکرنے پر ہوا تعلیم عام کی اور عوام کے تمام ضروریات زندگی کو وہاں کی حکومتوں نے پورا کیا۔ تعلیمی ادارے، شفا خانے، ملازمتیں، رہائش، کھانے کے لیے غذا اور پینے کے لیے صاف پانی مہیا کیا۔ یہ کام انھوں نے نہایت کم عمر بچوں کی تعلیم وتربیت سے شروع کیا اور کوشش جاری رہی آخر کار کچھ عرصے بعد ان کے ملک میں ہر رہائش پذیر تعلیم یافتہ، برسر روزگار، رہائش کے لیے مکان، علاج و معالجے کے لیے شفا خانے بالکل عام کردیے گئے۔ جب ان کو ضرورت محسوس ہوئی قانون سازی کرکے پرانے قوانین میں تبدیلی ہوتی رہی اور نئے قوانین عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مرتب کیے گئے۔
آج ہم ان ممالک کی مثال پیش کرتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ان ملکوں کے رہنماؤں نے کوئی نت نویلے قوانین نہیں بنائے بلکہ ہر وہ قانون عوام کی بہتری اور ملک کی ترقی کے لیے نافذ العمل ہوا۔ یہ کوئی اتنا بڑا کام نہ تھا نہ کوئی انوکھی بات۔ یہ تمام کام ہم بھی کرسکتے تھے ہمیں اس امر پر فخر حاصل ہے ہمارا ملک دنیا کے ان ممالک سے بہت اچھا عوام کے لیے وہ سب کچھ باآسانی کرسکتا ہے جو ان ترقی یافتہ ممالک نے کیں ۔ زراعت، صنعت وحرفت ہر شے موجود ہے کسی شے کی کمی نہیں اگر ہمارے ملک کو چلانے والے لیڈر اپنے اغراض و مقاصدکو بھول کر عوام کے لیے وہ سب کچھ کرتے جو دیگر ملکوں نے کیا تو آج ہم ان سے اگر آگے نہیں تو برابر ضرور ہوتے۔ ستر سال آزادی کے گزر گئے لیکن غربت دور کرسکے نہ ہی عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں کاوش کی۔
اگر دیکھا جائے تو غریب اپنی غربت میں آنے والی نسلوں تک غریب رہا۔ صاف ظاہر ہوتا ہے بڑے لوگوں نے اپنے لیے سب کچھ کیا۔ ان کی اولاد اعلیٰ مہنگے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتی رہی حتیٰ کہ مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنی اولادوں کو باہر ممالک میں بھیجا جہاں ان کو زیادہ اعلیٰ تعلیم سے نوازا گیا۔ اب تو یہاں تک ہوگیا کہ علاج معالجے کے لیے بیرونی ممالک کے مہنگے اسپتالوں میں ترجیح دی گئی۔ ملازمتیں بڑھانے کے بجائے کم ہوتی رہیں غریب کا لڑکا محنت مزدوری میں لگا رہا۔ علاج بھی ایسے سرکاری اسپتالوں میں ہوتا رہا جہاں ڈاکٹرز کی تعداد اس قدر کم اور مریض اتنے زیادہ جن کو کہ ڈاکٹر زیادہ وقت نہ دے سکے سرسری چیک کرنے کے بعد جو دوا دی وہ بھی خالص نہیں۔ سرکاری تعلیمی ادارے بھی ایسے جو ایسی تعلیم نہ دے سکے جو بڑے لوگوں کے بچوں کو اعلیٰ اسکولوں سے ملتی۔ بہت سے غریب تو ایسے بھی ہیں جو چھوٹے بچوں کو کسی دکان پرکام پر لگا دیتے اس لیے کہ کتاب اورکاپیوں کے لیے ان کے پاس زر نہیں کھا لیں یا پڑھا لیں ۔
یہ بات سب ہی جانتے ہیں غربت و پسماندگی جرائم کو بھی جنم دیتی ہے ۔ چند غربا کے بچے چھوٹے جرم سے بڑے جرم تک پہنچ گئے ۔ یہ سب غربت کی وجہ سے ہوتا رہا اور ہو رہا ہے۔ جس طرح آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اسی طرح غربت و پسماندگی اور بدحالی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی وطن عزیزکا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ ملکی ترقی کے لیے جو بھی منصوبے بنائے جاتے ہیں وہ ناکامی سے دوچار ہوجاتے ہیں ۔
دنیا میں ترقی یافتہ ممالک نے اپنی آبادی پر کنٹرول کے منصوبے بنائے جن کے باعث انھوں نے ترقی کی منازل تیزی سے طے کیں ۔کیونکہ دستیاب وسائل اور آبادی کے تناسب سے ان کی تقسیم سے بات آگے بڑھتی ہے۔ تعلیم ، علاج ، روزگار اور بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک خاص منصوبہ بندی اور وسائل کی دستیابی سے مشروط ہے ، لیکن ہمارے یہاں یہ مسئلہ وجہ نزاع بنا ہوا ہے ۔ مذہبی جماعتیں اسے کفر اور اسلام کی جنگ سے تعبیر کرتی ہیں جب کہ حقیقی صورتحال اور زمینی حقائق یکسر مختلف ہے ۔ جب تک ہم آبادی پر قابو پانے کے لیے پلاننگ نہیں کریں گے ، اس وقت تک ہم تعلیم ، علم اور سائنس اور ترقی کے میدان میں پیچھے رہیں گے ۔ ہم سنجیدگی سے سوچنا ہوگا ، شعور بیدارکرنا ہوگا عوام میں ۔ ہم کبھی بھی ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہوسکتے جب تک معاشرے میں پھیلی جہالت اور پسماندگی کا جڑ سے خاتمہ نہیں کریں گے۔ سوچیں یہ ہماری آنے والی نسلوں کی بقا کا سوال ہے ۔