نااہلی مدت کیس چیٹنگ کرنے والوں پر تاحیات پابندی ہونی چاہیے چیف جسٹس
نواز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ کی کیس کی تیاری کیلئے تین دن کا وقت دینے کی درخواست منظور
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے نااہلی کی مدت کے تعین کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا کہ چیٹنگ کرنے والوں پر تاحیات پابندی ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح اور نااہلی کی مدت کے تعین کے کیس کی سماعت کی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے سینئر وکیل اعظم نذیر تارڑ پیش ہوئے اور کیس کی تیاری کیلئے تین دن کا وقت دینے کی درخواست کی جو عدالت عظمیٰ نے منظور کرلی۔
دوران سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ بے ایمانی کا مطلب چیٹنگ اور فراڈ ہے، چیٹنگ کرنے والوں پر تاحیات پابندی ہونی چاہیے، ایک دن اسی شخص نے وزیر یا وزیراعظم بن جانا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نااہلی مدت کیس؛ سپریم کورٹ کی جانب سے عوامی نوٹس جاری
کل کیس میں سپریم کورٹ نے عوامی نوٹس جاری کیا تھا۔ آج دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پبلک نوٹس ان لوگوں کیلئے تھا جو متاثرہ ہیں، تمام متاثرہ لوگ اپنے لئے ایک مشترکہ وکیل کر لیں، آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین کرنا چاہتے ہیں۔
وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عدالت کے پبلک نوٹس میں ابہام ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پبلک نوٹس میں غلطی ہو گئی ہوگی، یہ نوٹس صرف متاثرین کے لئے ہے۔ اللہ ڈنو کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ ان کے موکل کو 2013 میں 2008 کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے پر ڈی نوٹیفائی کیا گیا، عدالت 62 ون ایف کے معاملے کو حل کرے، آرٹیکل 63 میں نااہلی کے ساتھ سزا کا تعین بھی ہے، زیادہ سے زیادہ نااہلی پانچ سال کی ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر عدالت کسی شخص کو نااہل کر دے تو کیا وہ شخص تین ماہ بعد انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے؟۔ وکیل طارق محمود نے کہا کہ نااہلی پانچ سال کی ہونی چاہیے، پشاور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کو بدیانتی پر تاحیات نااہل قرار دیا۔
عدالتی معاون منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن لڑنا سب کابنیادی حق ہے، اٹھارویں ترمیم سے قبل آرٹیکل 63میں ماضی کے کنڈکٹ پرنااہلی تاحیات تھی، اٹھارویں ترمیم میں پارلیمنٹ کی بصیرت یہ تھی تاحیات نااہلی کو مدت سے مشروط کردیا، 18 ویں ترمیم میں فوج اور عدلیہ کے حوالے سے سزا آرٹیکل 63 میں 5 سال کردی گئی، تعزیرات پاکستان کے تحت کوئی امیدوار سزاپاتا ہے تو آرٹیکل کا اطلاق ہوگا، دیکھنا ہوگا عدالتی ڈیکلریشن سے امیدوار پر الیکشن لڑنے کی قدغن کتنے عرصے کی ہے۔
جہانگیرترین کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو آرٹیکل 62 اور 63 کی تشریح کرنا ہوگی، نیب قانون اور روپا قانون میں نااہلی تاحیات نہیں، سنگین جرائم پر بھی الیکشن لڑنے کی قدغن کی مدت کاتعین ہے، آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی دائمی نہیں ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 62 کے دیگر الفاظ کو بھی دیکھنا ہوگا، عدالت کے پاس آئین کی تشریح کااختیار ہے، آرٹیکل 62 ون ایف کا اسکوپ وسیع ہے، ایک کیس میں کہہ چکے ہیں ڈیکلریشن واپس لینے کا ڈیکلریشن نہیں دے سکتے، کسی شخص کے خلاف ڈیکلریشن آجائے وہ ذہنی طور پر صحتمند نہیں توکیا وہ تاحیات نااہل ہوگا؟۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پارلیمنٹ نے آرٹیکل 63 میں نااہلی کی مدت کا تعین کردیا لیکن آرٹیکل 62 میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا، کیا آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی 5 سال ہونی چاہیے؟۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ سوال یہ ہے ڈیکلریشن کے اثرات سے کیسے نجات حاصل کی جاسکتی ہے، جب تک ڈیکلریشن موجود ہے اس کے اثرات بھی ہوں گے، کیا نااہلی کا ڈیکلریشن خود بخود ختم ہوجائے گا۔
جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ پارلیمینٹیرین کے لیے ایمانداری بہت ضروری ہے، ہمیں اہلیت اورنااہلیت میں فرق کاجائزہ لیناہے ، کیانااہلی سزاہے یامعذوری ہے؟
ہم نے کاروں اور واشنگ مشینوں سے رقوم برآمد ہوتے دیکھی ہیں، کیاوہ لوگ مستقبل میں وزیراعظم، وزیراور ایم این اے بن سکتے ہیں، قوم کے لیڈروں کے منتخب ہونے کے معیار ہونے چاہیے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سنگین جرائم والے ملزم کو عمرقید پوری کرکے 5 سال نااہلی کی سزا بھی بھگتنا پڑتی ہے، یہاں ہم لیڈرشپ، قومی اسمبلی اور سینٹ کی بات کررہے ہیں۔
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 62 ون ایف کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
واضح رہے کہ 14 ارکان اسمبلی نے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں میں مطالبہ کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے۔ درخواستیں دائر کرنے والوں میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور پی ٹی آئی رہنما جہانگیر خان ترین سمیت وہ ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنا پر نااہل کیا گیا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح اور نااہلی کی مدت کے تعین کے کیس کی سماعت کی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے سینئر وکیل اعظم نذیر تارڑ پیش ہوئے اور کیس کی تیاری کیلئے تین دن کا وقت دینے کی درخواست کی جو عدالت عظمیٰ نے منظور کرلی۔
دوران سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ بے ایمانی کا مطلب چیٹنگ اور فراڈ ہے، چیٹنگ کرنے والوں پر تاحیات پابندی ہونی چاہیے، ایک دن اسی شخص نے وزیر یا وزیراعظم بن جانا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نااہلی مدت کیس؛ سپریم کورٹ کی جانب سے عوامی نوٹس جاری
کل کیس میں سپریم کورٹ نے عوامی نوٹس جاری کیا تھا۔ آج دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پبلک نوٹس ان لوگوں کیلئے تھا جو متاثرہ ہیں، تمام متاثرہ لوگ اپنے لئے ایک مشترکہ وکیل کر لیں، آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین کرنا چاہتے ہیں۔
وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عدالت کے پبلک نوٹس میں ابہام ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پبلک نوٹس میں غلطی ہو گئی ہوگی، یہ نوٹس صرف متاثرین کے لئے ہے۔ اللہ ڈنو کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ ان کے موکل کو 2013 میں 2008 کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے پر ڈی نوٹیفائی کیا گیا، عدالت 62 ون ایف کے معاملے کو حل کرے، آرٹیکل 63 میں نااہلی کے ساتھ سزا کا تعین بھی ہے، زیادہ سے زیادہ نااہلی پانچ سال کی ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر عدالت کسی شخص کو نااہل کر دے تو کیا وہ شخص تین ماہ بعد انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے؟۔ وکیل طارق محمود نے کہا کہ نااہلی پانچ سال کی ہونی چاہیے، پشاور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کو بدیانتی پر تاحیات نااہل قرار دیا۔
عدالتی معاون منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن لڑنا سب کابنیادی حق ہے، اٹھارویں ترمیم سے قبل آرٹیکل 63میں ماضی کے کنڈکٹ پرنااہلی تاحیات تھی، اٹھارویں ترمیم میں پارلیمنٹ کی بصیرت یہ تھی تاحیات نااہلی کو مدت سے مشروط کردیا، 18 ویں ترمیم میں فوج اور عدلیہ کے حوالے سے سزا آرٹیکل 63 میں 5 سال کردی گئی، تعزیرات پاکستان کے تحت کوئی امیدوار سزاپاتا ہے تو آرٹیکل کا اطلاق ہوگا، دیکھنا ہوگا عدالتی ڈیکلریشن سے امیدوار پر الیکشن لڑنے کی قدغن کتنے عرصے کی ہے۔
جہانگیرترین کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو آرٹیکل 62 اور 63 کی تشریح کرنا ہوگی، نیب قانون اور روپا قانون میں نااہلی تاحیات نہیں، سنگین جرائم پر بھی الیکشن لڑنے کی قدغن کی مدت کاتعین ہے، آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی دائمی نہیں ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 62 کے دیگر الفاظ کو بھی دیکھنا ہوگا، عدالت کے پاس آئین کی تشریح کااختیار ہے، آرٹیکل 62 ون ایف کا اسکوپ وسیع ہے، ایک کیس میں کہہ چکے ہیں ڈیکلریشن واپس لینے کا ڈیکلریشن نہیں دے سکتے، کسی شخص کے خلاف ڈیکلریشن آجائے وہ ذہنی طور پر صحتمند نہیں توکیا وہ تاحیات نااہل ہوگا؟۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پارلیمنٹ نے آرٹیکل 63 میں نااہلی کی مدت کا تعین کردیا لیکن آرٹیکل 62 میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا، کیا آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی 5 سال ہونی چاہیے؟۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ سوال یہ ہے ڈیکلریشن کے اثرات سے کیسے نجات حاصل کی جاسکتی ہے، جب تک ڈیکلریشن موجود ہے اس کے اثرات بھی ہوں گے، کیا نااہلی کا ڈیکلریشن خود بخود ختم ہوجائے گا۔
جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ پارلیمینٹیرین کے لیے ایمانداری بہت ضروری ہے، ہمیں اہلیت اورنااہلیت میں فرق کاجائزہ لیناہے ، کیانااہلی سزاہے یامعذوری ہے؟
ہم نے کاروں اور واشنگ مشینوں سے رقوم برآمد ہوتے دیکھی ہیں، کیاوہ لوگ مستقبل میں وزیراعظم، وزیراور ایم این اے بن سکتے ہیں، قوم کے لیڈروں کے منتخب ہونے کے معیار ہونے چاہیے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سنگین جرائم والے ملزم کو عمرقید پوری کرکے 5 سال نااہلی کی سزا بھی بھگتنا پڑتی ہے، یہاں ہم لیڈرشپ، قومی اسمبلی اور سینٹ کی بات کررہے ہیں۔
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 62 ون ایف کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
واضح رہے کہ 14 ارکان اسمبلی نے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں میں مطالبہ کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے۔ درخواستیں دائر کرنے والوں میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور پی ٹی آئی رہنما جہانگیر خان ترین سمیت وہ ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنا پر نااہل کیا گیا۔