سوشل میڈیا اعتبار کھونے لگا
جُھوٹی خبروں اور پروپیگنڈے کے علاوہ بچوں پر منفی اثرات کے حوالے سے بھی سوشل میڈیا پر تنقید بڑھتی جارہی ہے
کچھ برس قبل کے مقابلے میں آج فیس بُک، ٹویٹر، انسٹاگرام، یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس کے صارفین کی تعداد کئی گنا بڑھ چکی ہے، مگر یہاں موجود مواد خاص طور سے خبروں پر اعتماد کرنے والوں کی شرح اتنی ہی نیچے آگئی ہے۔ ایک زمانے میں سوشل میڈیا پر شایع ہونے والی ہر خبر پر صارفین اعتماد کرتے تھے۔ اس اعتماد نے عرب دنیا میں احتجاج کی لہر کو جنم دیا جس کے نتیجے میں کئی ممالک میں حکومتیں بدل گئیں۔ تاہم اب سوشل میڈیا صارفین کا اعتبار کھوچکا ہے۔ اس کا اندازہ برطانیہ میں کیے گئے ایک سروے سے ہوتا ہے۔
سروے کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا کا وہ دور گزرچکا جب اسے صارفین کا اعتماد حاصل تھا، اور یہاں شایع ہونے والی ہر خبر اور رپورٹ کو من و عن تسلیم کرلیا جاتا تھا۔ پھر اس جہان میں جُھوٹ کی مقدار بڑھنے لگی۔ مسلسل جھوٹ کی وجہ سے صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ اب صرف ایک چوتھائی برطانوی یہاں شایع ہونے والی خبروں کو سچ سمجھتے ہیں۔ یعنی ہر چار میں سے صرف ایک برطانوی سوشل میڈیا کو درست خبروں کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ تین کے خیال میں یہاں ملنے والی خبریںکُلی یا جزوی طور پر غلط ہوتی ہیں۔
سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ لوگ ایک بار پھر روایتی ذرایع ابلاغ کی جانب لوٹ رہے ہیں، اور مصدقہ خبروں کے لیے نیوز چینل اور اخبارات سے رجوع کرنے لگے ہیں۔ جُھوٹی خبروں اور پروپیگنڈے کے علاوہ بچوں پر منفی اثرات کے حوالے سے بھی سوشل میڈیا پر تنقید بڑھتی جارہی ہے۔
اوکسفرڈ یونی یورسٹی کی سوشل میڈیا سائیکولوجسٹ ایمی اوربن کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا کمپنیاں اسی صورت حال کا سامنا کررہی ہیں جس کا روایتی ذرایع ابلاغ نے اپنی ابتدا میں کیا تھا۔ کسی بھی نئی ٹیکنالوجی میں لوگ بے حد دل چسپی لیتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ جذبہ دھیما پڑتا چلاجاتا ہے۔
سروے کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا کا وہ دور گزرچکا جب اسے صارفین کا اعتماد حاصل تھا، اور یہاں شایع ہونے والی ہر خبر اور رپورٹ کو من و عن تسلیم کرلیا جاتا تھا۔ پھر اس جہان میں جُھوٹ کی مقدار بڑھنے لگی۔ مسلسل جھوٹ کی وجہ سے صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ اب صرف ایک چوتھائی برطانوی یہاں شایع ہونے والی خبروں کو سچ سمجھتے ہیں۔ یعنی ہر چار میں سے صرف ایک برطانوی سوشل میڈیا کو درست خبروں کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ تین کے خیال میں یہاں ملنے والی خبریںکُلی یا جزوی طور پر غلط ہوتی ہیں۔
سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ لوگ ایک بار پھر روایتی ذرایع ابلاغ کی جانب لوٹ رہے ہیں، اور مصدقہ خبروں کے لیے نیوز چینل اور اخبارات سے رجوع کرنے لگے ہیں۔ جُھوٹی خبروں اور پروپیگنڈے کے علاوہ بچوں پر منفی اثرات کے حوالے سے بھی سوشل میڈیا پر تنقید بڑھتی جارہی ہے۔
اوکسفرڈ یونی یورسٹی کی سوشل میڈیا سائیکولوجسٹ ایمی اوربن کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا کمپنیاں اسی صورت حال کا سامنا کررہی ہیں جس کا روایتی ذرایع ابلاغ نے اپنی ابتدا میں کیا تھا۔ کسی بھی نئی ٹیکنالوجی میں لوگ بے حد دل چسپی لیتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ جذبہ دھیما پڑتا چلاجاتا ہے۔