
ذرائع کے مطابق اسلام آباد، لاہور سمیت خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے مختلف شہروں، راولا کوٹ، مظفرآباد، میرپور آزاد کشمیر، پشاور وغیرہ کے علاوہ بھارت کے شمالی علاقوں سمیت نئی دلی اور کابل میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ بلوچستان کے شہر لسبیلہ میں زلزلے سے بیلہ کے علاقے میں ایک اسکول کی چھت گرگئی جس سے ایک بچی کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں، اس کے علاوہ ایک گھر کی چھت گرنے کی بھی اطلاعات ہیں جہاں 9 افراد زخمی ہوئے۔
بلاشبہ قدرتی آفات کو ٹالا نہیں جاسکتا لیکن حفاظتی تدابیر اختیار کرکے نقصانات کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ زلزلے کے جھٹکوں سے زیادہ نقصانات کا سامنا نہیں ہوا لیکن یہ امر قابل توجہ ہے کہ ہمارے ملک میں قدرتی آفات کی پیشگی اطلاع دینے والے ادارے اور سسٹم غیر فعال ہیں، جب کہ دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں قدرتی آفات کی پیشگی اطلاع اور ان سے نمٹنے کے لیے فعال حکمت عملی تیار کی جاتی ہے۔ پاکستان کو اس سے پیشتر کئی مواقع پر زلزلے کے باعث حد درجہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے، ایسے میں ملک میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور الارمنگ سسٹم کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سپر بلیو بلڈ مون تھا، اور ماہرین کے مطابق جب بھی سپر مون ہوتا ہے تو زمین پر چاند کی کشش بے پناہ بڑھ جاتی ہے، جس کے سبب اس قسم کے واقعات پیش آنے کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ ماضی میں بھی سپرمون کے موقع پر ایسے واقعات پیش آچکے ہیں۔ صائب ہوگا کہ نہ صرف اداروں کو فعال اور ان کی کارکردگی بہتر بنائی جائے بلکہ مستقبل میں زلزلہ کے امکانات سے نمٹنے کی حکمت عملی، زلزلہ پروف عمارتوں کی تعمیر اور عوامی آگاہی مہم پر توجہ دی جائے۔ پاکستان کے بہت سے علاقے ان زمینی پرتوں پر قائم ہیں جن کے ہلنے سے زلزلہ کے خدشات ہیں، ایسے علاقوں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔