صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خطاب

ٹرمپ کو اپنے ورلڈ ویوکو وسعت دینے کی ضرورت ہے

امریکا افغانستان میں قیام سے زیادہ خطے کی حالت زار پر حقیقت پسندانہ نظر ڈالے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشتگردی پر اپنا فوکس نمایاں کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین اور روس امریکی مفادات ، معیشت اور امریکی اقدار کو چیلنج کررہے ہیں، انھوں نے کہا کہ داعش کے زیر قبضہ صد فی صد علاقے آزاد کرالیے گئے ہیں ، صدر ٹرمپ نے اپنی جنوبی ایشیا کی پالیسی کے سیاق وسباق میں پاکستان کا ذکر کیے بغیر کہا کہ افغانستان میں امریکا کی فوج نئے ضوابط کے ساتھ لڑ رہی ہے اور معنی خیز انداز میں خبردار کیا کہ مصنوعی ڈیڈ لائنز بتا کر افغانستان میں دشمنوں کو چوکنا نہیں کریں گے۔

وہ یہ بھی بتا دیتے کہ دشمن کون ہے۔ واشنگٹن میں صدر ٹرمپ نے پہلے اسٹیٹ آف دی یونین سے خطاب میں کہا کہ اس بات کو کانگریس یقینی بنائے کہ داعش اور القاعدہ کے خلاف جنگ میں ہم دہشت گردوں کو گرفتار کرسکیں گے جب کہ بیرون ملک سے گرفتار کیے جانے والے دہشت گردوں سے دہشت گردوں والا سلوک کیا جانا چاہیے، انھوں نے اعلان کیا کہ گوانتاناموبے کا جیل خانہ کھلا رہے گا۔اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ بہتر تو یہ ہے ایسے دہشتگردوں کو اس جیل میں بھیج کر ان کا ٹرائل کیا جائے۔انھوں نے ایران وشمالی کوریا کی سرگرمیوں پر بھی نکتہ چینی کی۔

تاہم یہ بات خاص طور پر میڈیا مبصرین اور سیاسی حلقوں نے نوٹ کی کہ ٹرمپ کا انداز گفتگو کافی بدلا ہوا تھا، لاس اینجلس ٹائمز نے اسے اسٹرائیکنگ چینج قراردیا، تاہم انھوں نے چین کا جس تناظر میں حوالہ دیا وہ چین کی عظیم اقتصادی طاقت سے خائف ہونے کا اشارہ تھا۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکی پالیسی میں دہشتگردی اہداف تو بدستور ٹرمپ انتظامیہ کے پیش نظر رہیں گے مگر دنیا امریکی سرد جنگ کا غالباً چین سے ٹکراؤ کے نئے امریکی ڈاکٹرائن کا نظارہ کریگی۔

چین سے تصادم اور روس و چین کو امریکی اقدار ، معیشت اور مفادات کا دشمن قراردینا خالی از علت نہیں،اس میں افغانستان اور بھارت سے امریکا کے اقتصادی ،اسٹرٹیجک اور دفاعی پالیسی کے جھکاؤ کی تشویش ناک جھلک ملتی ہے، امریکی عزائم تبدیلی سے دوچار ہیں۔امریکی صدر نے کانگریس سے نئی قانون سازی کے ذریعے امیگریشن قوانین کو درست کرنے کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ کھلی سرحدوں کا مطلب ملک میں منشیات اور گینگز کی آمد ہے، کانگریس امیگریشن نظام میں وہ خامیاں دور کرے جس کے ذریعے جرائم پیشہ گروہ امریکا میں آتے ہیں۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم سب مل کر امریکا کو مضبوط، محفوظ اور قابل فخر بنارہے ہیں۔


ہمارے سامنے غیرمعمولی چیلنجز تھے جو شاید کوئی تصور بھی نہ کرسکے۔ پچھلے ایک سال میں توقع سے بڑھ کر کامیابی ملی، ہمارا عزم ہے کہ امریکا کو عظیم تر بنایا جائے۔جوہری اثاثوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ہم ان کی ایسے حفاظت کریں گے جیسے کبھی کسی نے نہیں کی ہوگی، نیز یہ کہ ہم امریکی جوہری ہتھیاروں کو مزید جدید بنائیں گے۔

یہی ٹرمپ دنیا میں امن لانے کے دعوے کرتے تھے، اب کہتے ہیں کہ امریکا کے علاوہ دنیا میں کوئی اور قوم ایسی نہیں ہے جو بھاری چیلنجز کو قبول کرے اور ان کا سامنا کرے، ہمیں آپس کے اختلافات کو بھی ختم کرنا ہے تاکہ ہم ترقی کے لیے مزید آگے بڑھ سکیں، میرٹ کی بنیاد پر امیگریشن سسٹم لانا وقت کی ضرورت ہے۔ اراکین کانگریس کو مخاطب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ سیاست ایک طرف رکھیں اور کام مکمل کریں، کانگریس سے کہا کہ امیگریشن نظام میں خامیاں دور کریں، یقین دلایا کہ نئی قانون سازی کے ذریعے امیگریشن قوانین کو درست کریں گے۔ ٹرمپ کے خطاب میں پاکستان کو ڈو مور کی بازگشت سنائی نہیں دی، ہوسکتا ہے کہ پاکستانی بیانیہ کی بات ٹرمپ کے دل میں اتر گئی ہو، اسے خوش گمانی کہہ لیجیے کہ حقائق کا ادراک شاید امریکی گن بوٹ ڈپلومیسی پر غالب آنے لگا ہے، مگر خطے کا سیاسی وتزویراتی افق ابر آلود ہی رہے گا۔

بھارت کی خوشنودی کی خاطر امریکا کشمیر سمیت فلسطین، یمن ، روہنگیا مسلمانوں اور بدامنی و جنگ کے شعلوں میں لپٹے مشرق وسطیٰ کو کوئی روڈ میپ دینے سے قاصر نظر آتا ہے، لہذا احتیاط سے اس خطاب کے سنگین مضمرات پر ارباب اختیار کو غور وفکر کرنا چاہیے، عالمی بساط پر امریکا کوئی بھی جنگجویانہ چال چل سکتا ہے، افغانستان کے حوالہ سے امریکی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کابل انتظامیہ اپنے علاقے کا کنٹرول کھو رہی ہے۔

اس انتباہ میں کیا راز پنہاں ہے؟حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا اور برصغیر کی صورتحال میں امریکا ثالثی پر تیار ہے ، نہ وہ بھارت اور افغانستان کو پاکستان سے مخاصمت اور الزام تراشیوں سے اجتناب ترک کرنے پر کوئی مثبت اور دیرپا تزویراتی پیش رفت میں دلچسپی رکھتا ہے، اسے حقائق سے چشم پوشی مہنگی پڑیگی، اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں خطے کے حوالہ سے ٹرمپ کوئی واضح بات کرتے توبریک تھرو کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ ٹرمپ کو اپنے ورلڈ ویوکو وسعت دینے کی ضرورت ہے ، امریکا افغانستان میں قیام سے زیادہ خطے کی حالت زار پر حقیقت پسندانہ نظر ڈالے۔دہشتگردی کی جنگ کے خلاف دنیا پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرے۔
Load Next Story