روحانی والدین کی تلاش
دراصل ہم اپنی اولاد میں بدتمیزیاں، بداخلاقیاں، بدتہذیبی منتقل کرنے کے سزا وار ہیں۔
کتاب کھلی تو اکبر الٰہ آباد کی اس رباعی پر نظر پڑی، کہتے ہیں:
تم شوق سے کالج میں پھلو، پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اڑو، چرغ پہ جھولو
بس ایک سخن بندۂ عاجز کا رہے یاد
اﷲ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
یہ رباعی یقیناً اکبر الٰہ آباد نے نوجوانوں کو مخاطب کرکے کہی ہے۔ بات بہت مناسب ہے، جو اس وقت کے نوجوانوں کے اطوار دیکھتے ہوئے شاعر کے دل سے نکلی تھی، لیکن آج بھی یہ ہمارے نوجوانوں کے لیے فٹ بیٹھتی ہے۔
آج ہمارے نوجوان تعلیم کو جزوی اور غیر تعلیمی سرگرمیوں کو کلی طور پر اختیار کرتے ہوئے نہ صرف اپنے لیے بلکہ معاشرے میں بھی بگاڑ کی صورت پیدا کررہے ہیں، یہ رجحان جسے خدا جانے ہم کون سی راہ کہیں، عجیب سی صورتحال سامنے لارہا ہے۔
جذباتی ہیجان خیزی، بے ترتیبی ڈسپلن کا فقدان، غیر ذمے دارانہ رویہ عادات میں شامل ہوتا جارہا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام حماقتی رویوں کو ماڈرن اسلوب کا نام دے کر اسے اہمیت نہیں دی جارہی، جدید طرز کے موبائل فونز نے ویسے ہی چڑچڑے پن، تنہائی پسندی اور خودغرضی کے جراثیم پیدا کر رکھے ہیں۔ رہی سہی کسر ہمارے اطراف کے خودغرضانہ ماحول نے پوری کردی ہے۔ اب کس کو مورد الزام ٹھہرائیں کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا اور سب ایک ہی حمام میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
حال ہی میں کے پی کے میں شبقدر کے ایک نجی کالج کے پرنسپل کو جو حافظ قرآن بھی تھے، ان کے اپنے ہی کالج کے سیکنڈ ایئر کے طالب علم نے پستول سے فائر کرکے ہلاک کردیا۔ یہ کیسی روایت ہے، کیسا معاشرہ ہے، جسے ہم سب نے آہستہ آہستہ پروان چڑھایا ہے۔ اس کے ذمے دار محض اس طالب علم کے والدین ہی نہیں، میں اور آپ بھی ہیں۔ کیونکہ میں اور آپ بھی اسی معاشرے کے یونٹ کا ایک حصہ ہیں۔ پہلے خبر ملتی ہے کہ نوجوان اپنے پرنسپل کو ہلاک کرکے برملا اظہار کرتا ہے کہ اسے ان کے ہلاک کرنے پر کوئی شرمندگی نہیں کیونکہ اس کی ناقص عقل کے مطابق اس کے استاد محترم جوکہ حافظ قرآن بھی تھے، نعوذباﷲ کسی طرح بے حرمتی کرنے کے مرتکب تھے۔
اس نوجوان کی عقل میں اتنا ہی سمایا تھا، اس کی ذہن کی عدالت میں بس اتنا ہی تحریر تھا کہ وہ صحیح ہے اور استاد غلطی پر ہیں۔ یقیناً وہ محترم غلطی پر تھے، کیونکہ انھیں احساس تھا کہ ان کا یہ شاگرد جو پہلے ہی تعلیمی کارکردگی میں خاصا کمزور رہا ہے، پورے تین دن تک کالج سے غیر حاضر رہا۔ گو قصہ تو اسی فیض آباد کے جلسے کا تھا لیکن والدین اور اساتذہ کی سرزنش بھی ضروری ہے کہ والدین کا تعلق اولاد سے جس انداز کا ہوتا ہے تو اساتذہ کا تعلق بھی روحانی حد تک ہوتا ہے، وہ اپنے طالب علموں کی روح کی بالیدگی کی نشوونما پر توجہ دیتے ہیں اور اگر وہ استاد پروفیسر صریر محروم جیسے محترم تھے کہ جن کی مذہبی عقیدت کا اظہار ان کے حافظ قرآن ہونے سے لگایا جاسکتا ہے، کیا کسی اور شہادت کی بھی ضرورت ہے اور یہ کہ انھیں اپنے آخری وقت میں جس طرح کلمہ شہادت تین بار پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی اس سے ان کے مذہبی جذبے کا پتہ چلتا ہے۔ کاش کہ ایسا دلخراش واقعہ نہ ہوا ہوتا۔
اس حادثے کی طرح ایک اور برا نمونہ حیدرآباد کے ایک انگریزی سکھانے والے ادارے میں پیش آیا، جب استاد نے ایک طالب علم کو اس کی بدتمیزی پر سرزنش کی تو موصوف نے نہ صرف برا منایا بلکہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ادارے میں توڑ پھوڑ کی اور استاد کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ کچھ ایسا ہی واقعہ کئی برسوں پہلے کراچی کے ایک سرکاری کالج میں بھی پیش آیا تھا، جب چند نوجوانوں نے اپنے ایک لیکچرار کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا، اس حادثے میں ان صاحب کی دونوں آنکھیں ضایع ہوگئی تھیں۔ اچھے بھلے صحت مند، انتہائی سمجھ دار اپنے کام میں ماہر ایک استاد کی اس قدر بے قدری، خدا کی پناہ۔ وہ لیکچرار کام سی کے طالب علموں کو اپنے گھر پر ہی اکاؤنٹنگ پڑھانے لگے تھے۔ ذرا تصور کیجیے آنکھوں سے محروم اور اکاؤنٹنگ جیسا مضمون۔
ایک ریٹائرڈ استاد اور ماہر ہومیو پیتھک ڈاکٹر جو اب خدمت خلق کے جذبے سے سرشار اپنے مریضوں کو مفت بنا کسی فیس کے دیکھتے ہیں اور دوائییں دیتے ہیں، معاشرے میں پھیلنے والی ابتری کا ذمے دار اسی زمانے میں بسنے والے لوگوں کو قرار دیتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ ہم خود اپنے بچوں میں پیدا ہونے والی اخلاقی برائیوں کے ذمے دار ہیں۔ بچے تو معصوم ہوتے ہیں، انھیں جس طرح تربیت دو گے وہ اسی طرح پلیںگے، ہم اپنے بچوں کو بڑوں کو پٹر پٹر جواب دیتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو کتنا جینئس ہے، کیسے فرفر جواب دے رہا ہے، بجائے اس کے کہ اس کے ایک تھپڑ رسید کریں یا تنبیہہ کریں کہ اس طرح بڑوں کو جواب نہیں دیتے۔
ہم خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا تین چار سال کا بچہ موبائل فون پر انگلیاں مار مارکر کھیلتا ہے، ہم کہتے ہیں نئے دور کی پیداوار، پھر کچھ برسوں بعد ہمیں زمانے سے شکایت پیدا ہوجاتی ہے کہ کیا کریں زمانہ بڑا خراب ہے۔ بھئی کیسے خراب ہے۔ یہی زمین ہے، یہی آسمان ہے، آج بھی اسی طرح شکل و صورت کے انسان ہیں جیسے پچاس ساٹھ برس پہلے کے تھے، پھر یہ خرابیاں کیسے پیدا ہوئیں۔ دراصل ہم اپنی اولاد میں بدتمیزیاں، بداخلاقیاں، بدتہذیبی منتقل کرنے کے سزا وار ہیں۔
لالچ، حرص اور حسد نے آج کے انسان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے، ہم اپنی اولاد کی اصل ذمے داری کو پس پشت ڈال کر خود کمائی جمع کرنے پر لگ گئے ہیں۔ گریڈ ون سے لے کر اعلیٰ درجے تک کے افسران کو دیکھ لیں، سب کرپشن میں مبتلا ہیں۔ یہ سب کچھ اچانک سے نہیں بگڑا، بلکہ اسے آہستہ آہستہ ہم سب نے مل کر بگاڑا ہے۔ شبقدر میں ہونے والے اس واقعے نے ہر ایک ذی شعور انسان کی روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے کہ بات اب اس قدر آگے نکل چکی ہے کہ ہمارے بچے اپنے اساتذہ پر پستول بھی تان رہے ہیں۔
وہ ایک نہایت بوڑھی خاتون تھیں، بینک کی خاتون افسران سے بات چیت کررہی تھیں، ان کے ہمراہ ان کی صاحبزادی بھی تھیں، جب وہ خاتون فارغ ہوئیں تو ان کی جگہ ایک صاحب آکر بیٹھے، خاتون افسر نے ان صاحب سے بات شروع کی، اتنے میں وہی بوڑھی خاتون کسی کام سے دوبارہ بینک کی خاتون افسر کے نزدیک آئیں۔
''میڈم کیا آپ فلاں مس ہیں'' ان صاحب نے اپنی کرسی سے کھڑے ہوتے بڑی محبت اور عقیدت سے پوچھا۔ بوڑھی خاتون مسکرائی، ''جی ہاں میں وہ ہی ہوں''۔
''مس! آپ نے مجھے پہلی کلاس میں پڑھایا تھا'' ان صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ ''اچھا اچھا، میں بھی پہچان گئی تھی کہ میرا ہی بچہ ہے'' بزرگ خاتون کے چہرے پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی تھی جس میں فخر و انبساط کے جذبات بھی پنہاں تھے کہ یہ میرا طالب علم ہے۔ ''اور مس! آپ کیسی ہیں، ٹھیک ٹھاک تو ہیں''۔ ''ہاں بیٹا! شکر ہے خدا کا'' وہ بزرگ خاتون اپنے سابقہ طالب علم کو دعائیں دیتی بینک سے رخصت ہوگئیں۔ ایک سوال کیا ہمارے نوجوان اپنے اساتذہ سے ایسی دعائیں سمیٹ سکیں گے؟ کیا استاد اور طالب علم کے بیچ روحانی والدین کا رشتہ پھر سے قائم ہوسکے گا؟