میرہزار خان کھوسہ کا تقرر بلوچستان میں انتخابات کے لیے مثبت پیش رفت
میر ہزار خان کھوسہ کے ایک صاحب زادے امجد خان کھوسہ حال ہی میں جعفرآباد بار کونسل کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پہلے منتخب وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی کا تعلق بھی جعفر آباد سے تھا تو اب نگراں وزیراعظم کا ہما جس شخصیت کے سر بیٹھا ہے وہ بھی اس ہی ضلع سے تعلق رکھتی ہے۔
سابق چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس(ر)میر ہزار خان کھوسہ 1929ء میں شرقی جعفرآباد کے ایک معرو ف زمیں دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آبائی گاؤں اعظم خان کھوسہ سے ابتدائی تعلیم کے بعد ایف اے تک شکار پور (سندھ) میں زیر تعلیم رہے، جب کہ بی اے جامعہ کراچی اور ایل ایل بی سندھ مسلم لا کالج کراچی سے کیا، 1956ء میں جعفرآباد سے وکالت کا آغاز کیا اور 1977ء میں بلوچستان ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے، 1979ء میں جنرل ضیا الحق کے مارشل لا میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا، تاہم 1985ء میں جمہوریت کی بحالی کے بعد دوبارہ بلوچستان ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔
1989ء سے 1991ء تک چیف جسٹس آف بلوچستان ہائی کورٹ رہے، 1991ء میں چار ماہ تک بطور گورنر بلوچستان فرائض سرانجام دئیے، 1992ء میں وفاقی شرعی عدالت کے جج مقرر ہوئے، 1994ء سے 1996ء تک شرعی عدالت کے چیف جسٹس بھی رہے، 1996ء تا 1997ء سپریم کورٹ کے معزز جج کی حیثیت سے فرائض سر انجام دیے، ریٹائرمنٹ کے بعد 1997ء تا 2002ء فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین رہنے کے علاوہ گزشتہ چار سال سے صوبائی زکوۃ کونسل کے چیئرمین ہیں، ان کے ایک صاحب زادے امجد خان کھوسہ حال ہی میں جعفرآباد بار کونسل کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نگران وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسہ کا انتخاب اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ علیحدگی پسند قوتوں کی جانب سے صوبے میں الیکشن کے انعقاد کو بزور طاقت روکنے کا برملا اعلان بھی کیا جا چکا ہے، اور صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کے نشانہ وار قتل کے واقعے کو اس اعلان پر عمل درآمد کا آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ میر ہزار خان کھوسہ کی بطور نگراں وزیراعظم تقرری سے صرف دو روز قبل ان کے آبائی ضلع جعفرآباد کے ضلعی ہیڈکوارٹر دیرہ اللہ یار میں ایک بم دھماکا ہو چکا ہے، جس میں دس افراد جاں بحق اور چالیس سے زاید زخمی ہوئے تھے، ان حالات میں میر ہزار خان کھوسہ بطور نگران وزیر اعظم بلوچستان میں عام انتخابات کے پرامن انعقاد کو کہاں تک یقینی بنا سکتے ہیں، اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، تاہم بلوچستان کی نازک ترین صورت حال میں جہاں علیحدگی پسند قوتوں نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کر رکھا ہو، ان کی بطور نگران وزیر اعظم تقرری بلاشبہ ایک مثبت پیش رفت قرار دی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب ملک بھر کی طرح جعفرآباد میں بھی امیدواروں کی جانب سے کاغذات نام زَدگی کی وصولی کا سلسلہ جاری ہے، قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 266 جعفرآباد اور نصیرآباد پر مشتمل ہے، جب کہ صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں حلقہ پی بی 25, 26, اور 27 ضلع جعفرآباد میں ہیں، جمالی اور کھوسہ گروپ یہاں کے روایتی سیاسی حریف ہیں، جمالی گروپ کے سربراہ سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی، جب کہ کھوسہ گروپ کے قائد سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر ظہور خان کھوسہ ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد سے یہاں یہی دو خاندان ہی چھائے ہوئے ہیں، اور عجب اتفاق ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ملک کے پہلے وزیراعظم بننے کا اعزاز میر ظفر اللہ خان جمالی کو حاصل ہوا تو نگراں وزیراعظم کے لیے جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسہ سب پر سبقت لے گئے، قومی اسمبلی کے حلقہ 266 کے لیے سابق وزیر اعطم میر ظفراللہ خان جمالی، ان کے صاحبزادوں میر فرید اللہ خان جمالی اور میر عمر خان جمالی (جو فنکشنل لیگ کے صوبائی صدر بھی ہیں) کھوسہ گروپ کے سربراہ میر ظہور خان کھوسہ، سابق وفاقی وزیر میر چنگیز خان جمالی، میر سلیم خان کھوسہ، جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکریٹری بشیر احمد ماندائی، میر احمد نواز کھوسہ، عبدلفتح ابڑو کے نام بطور امیدوار سامنے آئے ہیں جب کہ صوبائی اسمبلی تینوں نشستوں کے لیے بھی متعدد امیدواروں نے کاغذات نام زَدگی وصول کیے ہیں۔
دوسری جانب ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ ریٹریننگ آفیسر سید ظفر علی شاہ بخاری کی زیر صدارت منعقدہ ایک اجلاس میں الیکشن کے حوالے سے بعض اہم فیصلے کیے گئے اور اس سلسلے میں انتظامات کو حتمی شکل دی گئی۔ واضح رہے کہ 2013ء کے متوقع انتخابات میں ضلع میں مجموعی طور پر 2 لاکھ 60 ہزار ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے۔
سابق چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس(ر)میر ہزار خان کھوسہ 1929ء میں شرقی جعفرآباد کے ایک معرو ف زمیں دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آبائی گاؤں اعظم خان کھوسہ سے ابتدائی تعلیم کے بعد ایف اے تک شکار پور (سندھ) میں زیر تعلیم رہے، جب کہ بی اے جامعہ کراچی اور ایل ایل بی سندھ مسلم لا کالج کراچی سے کیا، 1956ء میں جعفرآباد سے وکالت کا آغاز کیا اور 1977ء میں بلوچستان ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے، 1979ء میں جنرل ضیا الحق کے مارشل لا میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا، تاہم 1985ء میں جمہوریت کی بحالی کے بعد دوبارہ بلوچستان ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔
1989ء سے 1991ء تک چیف جسٹس آف بلوچستان ہائی کورٹ رہے، 1991ء میں چار ماہ تک بطور گورنر بلوچستان فرائض سرانجام دئیے، 1992ء میں وفاقی شرعی عدالت کے جج مقرر ہوئے، 1994ء سے 1996ء تک شرعی عدالت کے چیف جسٹس بھی رہے، 1996ء تا 1997ء سپریم کورٹ کے معزز جج کی حیثیت سے فرائض سر انجام دیے، ریٹائرمنٹ کے بعد 1997ء تا 2002ء فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین رہنے کے علاوہ گزشتہ چار سال سے صوبائی زکوۃ کونسل کے چیئرمین ہیں، ان کے ایک صاحب زادے امجد خان کھوسہ حال ہی میں جعفرآباد بار کونسل کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نگران وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسہ کا انتخاب اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ علیحدگی پسند قوتوں کی جانب سے صوبے میں الیکشن کے انعقاد کو بزور طاقت روکنے کا برملا اعلان بھی کیا جا چکا ہے، اور صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کے نشانہ وار قتل کے واقعے کو اس اعلان پر عمل درآمد کا آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ میر ہزار خان کھوسہ کی بطور نگراں وزیراعظم تقرری سے صرف دو روز قبل ان کے آبائی ضلع جعفرآباد کے ضلعی ہیڈکوارٹر دیرہ اللہ یار میں ایک بم دھماکا ہو چکا ہے، جس میں دس افراد جاں بحق اور چالیس سے زاید زخمی ہوئے تھے، ان حالات میں میر ہزار خان کھوسہ بطور نگران وزیر اعظم بلوچستان میں عام انتخابات کے پرامن انعقاد کو کہاں تک یقینی بنا سکتے ہیں، اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، تاہم بلوچستان کی نازک ترین صورت حال میں جہاں علیحدگی پسند قوتوں نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کر رکھا ہو، ان کی بطور نگران وزیر اعظم تقرری بلاشبہ ایک مثبت پیش رفت قرار دی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب ملک بھر کی طرح جعفرآباد میں بھی امیدواروں کی جانب سے کاغذات نام زَدگی کی وصولی کا سلسلہ جاری ہے، قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 266 جعفرآباد اور نصیرآباد پر مشتمل ہے، جب کہ صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں حلقہ پی بی 25, 26, اور 27 ضلع جعفرآباد میں ہیں، جمالی اور کھوسہ گروپ یہاں کے روایتی سیاسی حریف ہیں، جمالی گروپ کے سربراہ سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی، جب کہ کھوسہ گروپ کے قائد سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر ظہور خان کھوسہ ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد سے یہاں یہی دو خاندان ہی چھائے ہوئے ہیں، اور عجب اتفاق ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ملک کے پہلے وزیراعظم بننے کا اعزاز میر ظفر اللہ خان جمالی کو حاصل ہوا تو نگراں وزیراعظم کے لیے جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسہ سب پر سبقت لے گئے، قومی اسمبلی کے حلقہ 266 کے لیے سابق وزیر اعطم میر ظفراللہ خان جمالی، ان کے صاحبزادوں میر فرید اللہ خان جمالی اور میر عمر خان جمالی (جو فنکشنل لیگ کے صوبائی صدر بھی ہیں) کھوسہ گروپ کے سربراہ میر ظہور خان کھوسہ، سابق وفاقی وزیر میر چنگیز خان جمالی، میر سلیم خان کھوسہ، جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکریٹری بشیر احمد ماندائی، میر احمد نواز کھوسہ، عبدلفتح ابڑو کے نام بطور امیدوار سامنے آئے ہیں جب کہ صوبائی اسمبلی تینوں نشستوں کے لیے بھی متعدد امیدواروں نے کاغذات نام زَدگی وصول کیے ہیں۔
دوسری جانب ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ ریٹریننگ آفیسر سید ظفر علی شاہ بخاری کی زیر صدارت منعقدہ ایک اجلاس میں الیکشن کے حوالے سے بعض اہم فیصلے کیے گئے اور اس سلسلے میں انتظامات کو حتمی شکل دی گئی۔ واضح رہے کہ 2013ء کے متوقع انتخابات میں ضلع میں مجموعی طور پر 2 لاکھ 60 ہزار ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے۔