ملک بھر میں سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ عروج پر

عام انتخابات کو شفاف،آزادانہ اورمنصفانہ بنانے کے حوالے سے اہم ترین ذمہ داریاں نگران وزیراعظم میرہزار خان کھوسو۔۔۔

عام انتخابات کو شفاف،آزادانہ اور منصفانہ بنانے کے حوالے سے اہم ترین ذمہ داریاں نگران وزیراعظم میرہزار خان کھوسو کے کندھوں پر ہوں گی۔ فوٹو: فائل

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے کثرت رائے سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو کو نگران وزیر اعظم نامزد کرنے، انتخابی شیڈول کے اعلان اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے باضابطہ انتخابی مہم کے آغاز سے اب انتخابی منظر نامہ واضح ہو چکا ہے۔

عام انتخابات کے التواء کی تمام تر قیاس آرائیاں بالآخر دم توڑ گئی ہیں، نگران وزیر اعظم کی نامزدگی کے معاملہ پر پارلیمانی کمیٹی ناکام رہی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے قائدین بیک ڈور رابطوں کے باوجود نگران وزیر اعظم کے معاملہ پر اتفاق رائے نہ کر سکے، پہلے مرحلے میں سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کے درمیان نگراں وزیر اعظم کے معاملہ پر خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا، قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان تمام تر مشاورت کے باوجود نگران وزیر اعظم کے معاملہ پر اتفاق رائے نہ ہو سکا۔

20 ویں ترمیم کے تحت نگران وزیر اعظم کی نامزدگی کیلئے سپیکر قومی اسمبلی نے 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی قائم کی تھی، 8رکنی کمیٹی کا اجلاس 3 روز تک جاری رہنے کے باوجود نگران وزیر اعظم کی نامزدگی کا معاملہ حل نہ ہو سکا، پارلیمانی کمیٹی کے اندر نگران وزیر اعظم کیلئے مجوزہ ناموں میں سے کسی ایک نام پر اتفاق رائے نہ ہونے پر اسے سیاستدانوں کی ناکامی کہا جا رہا ہے، غیر جانبدار حلقوں کا خیال تھا کہ 8 رکنی کمیٹی میں نگران وزیر اعظم پر اتفاق ہو جائے گا، کمیٹی میں شامل حکومتی ارکان یہ کوششیں کرتے رہے کہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان تک نہ جائے۔

مسلم لیگ (ق) کے صدر اور کمیٹی کے رکن چودھری شجاعت حسین بار بار اس بات پر زور دیتے رہے کہ سیاسی فیصلے سیاستدان کرتے ہیں، سیاسی فیصلے غیر سیاسی لوگوں سے نہ کرائے جائیں، انہوں نے یہاں تک کہا کہ اگر ہم نگراں وزیر اعظم کی نامزدگی کا معاملہ حل نہیں کر سکتے تو ہمیں سیاست سے دستبردار ہو جانا چاہیے، فریقین اپنے اپنے موقف پر آخری دم تک ڈٹے رہے، کمیٹی کے ارکان کی ہٹ دھرمی کے باعث کافی روز تک ملک بھر میں ایک بے یقینی کی فضاء برقرار رہی، سیاستدانوں کو ہر طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ سیاستدان افہام و تفہیم، سیاسی دانشمندی، مشاورت اور برداشت کا مظاہرہ کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئے ہیں۔

اگر سیاستدان باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ نگراں وزیر اعظم خود نامزد کرتے تو اس کا اچھا پیغام جاتا، فریقین اگر لچک کا مظاہرہ کرتے تو کمیٹی کے اندر یہ مسئلہ حل ہو جاتا، سیاسی تجزیہ نگاروں کی سیاستدانوں پر تنقید بجا ہے تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ مکمل آئینی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کثرت رائے سے جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو کو نگراں وزیر اعظم نامزد کر دیا ہے، بلوچستان کے ایک بزرگ میر ہزار خان کھوسو کو ملک کا نگراں وزیر اعظم بنانا ایک خوش آئند پیش رفت ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر جماعتوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس فیصلہ کو تسلیم کر کے سیاسی پختگی کا ثبوت دیا ہے۔


الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو مستحسن قرار دیا جا رہا ہے، جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو کی شخصیت بڑی حد تک بے داغ ہے، مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں نے بھی میر ہزار خان کھوسو پر کسی قسم کا الزام عائد نہیں کیا تھا، بعض رہنمائوں نے صرف یہ کہا تھا کہ میر ہزار خان کھوسو صدر مملکت آصف علی زرداری کے قریبی ہیں، میر ہزار خان کھوسو ایک دیانتدار اور سادہ طبیعت کے مالک شخص ہیں، نگران وزیر اعظم بلوچستان سے لے کر وفاق نے ایک مثبت پیغام دیا ہے، وفاق کی اکائیوں کو قومی دھارے میں لانے میں یہ فیصلہ مدد گار ثابت ہوگا۔

عام انتخابات کو شفاف،آزادانہ اور منصفانہ بنانے کے حوالے سے اہم ترین ذمہ داریاں نگران وزیراعظم میرہزار خان کھوسو کے کندھوں پر ہوں گی۔ نگران وزیراعظم میرہزار خان کھوسو کے بارے میں کہاجارہا ہے کہ وہ مکمل طور پر غیرجانبدار رہیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ بطور نگران وزیراعظم اپنے اختیارات کس طرح استعمال کرتے ہیں؟ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کے میرہزار خان کھوسوعمررسیدہ ترین نگران وزیراعظم ہیں۔ نگران وزیراعظم میرہزار اعظم خان کھوسو نے یہ منصب سنبھالنے کے بعد کہا ہے کہ ان کی اولین ترجیح ملک میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کروانا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ انتخابات میں التوا اور دھاندلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ملک میں امن وامان کی صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لئے صوبائی حکومتوں کو مکمل تعاون فراہم کیاجائے گا۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے باضابطہ انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے، ملک بھر میں سیاسی جوڑ توڑکا سلسلہ جاری ہے، تمام جماعتیں انتخابی منشور کا اعلان کرچکی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی اتحادی جماعتیں ایم کیو ایم اور اے این پی نے انتخابی اتحاد کرنے کے بجائے اپنے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کررکھا ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) کے درمیان سیٹ ٹوسیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملہ پر ایک ڈیڈ لاک کی کیفیت ہے۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے لاہو رمیں کامیاب جلسہ عام کے بعد یہ کہاجارہا ہے کہ تحریک انصاف ان انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کو خاصا نقصان پہنچائے گی۔ تحریک انصاف کے قائدین ان انتخابات میں بڑا اپ سیٹ کرنے کے لئے خاصے پرامید ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان انتخابات میں کون سی جماعت اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔غالب امکان یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں کوئی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کرسکی گی۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات میں ایک مخلوط حکومت وجود میں آئے گی۔ اسلام آباد میں تعینات غیر ملکی سفارتکار ان دنوں مسلم لیگ(ن) کے صدر میاں نوازشریف اور دیگرقائدین کے ساتھ ملاقاتیں کررہے ہیں ۔

اسلام آباد میں جرمن کے سفیر نے یورپی ممالک کے سفیروں کی طرف سے مسلم لیگ(ن) کے صدر میاں نوازشریف کے اعزاز میں ظہرانہ دیا۔ میاں نوازشریف نے سفارتکاروں سے خطاب کے دوران اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ اقتدار میں آکر خارجہ اور قومی سلامتی سے متعلق پالیسی پر مکمل نظرثانی کریں گے۔ سابق صدر پرویزمشرف خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے تشریف لاچکے ہیں وہ سیاست میں سرگرم کردارادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔انہیں بے شمار مقدمات کا سامنا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالتیں سابق صدر سے کیا سلوک کرتی ہیں؟
Load Next Story