نگراں وزارت عظمیٰ کے بارے میں الیکشن کمیشن کا با وقار فیصلہ

نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے ملک میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کو اپنی اولین ترجیح قرار۔۔۔


Khalid Qayyum March 27, 2013
نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے ملک میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے۔ فوٹو: فائل

TORONTO: پاکستان کی تمام اہم سیاسی جماعتوں نے میر ہزار خاں کھوسو کے بطور نگران وزیراعظم انتخاب کو تسلیم کیا ہے۔

وہ بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان پر سب سے کم اعتراضات تھے جس کے باعث وہ نگران وزیراعظم بنے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اجلاس میں چاروں ناموں پر کھل کر مشاورت کی اور کثرت رائے سے میر ہزار خان کھوسو کا فیصلہ کیا گیا۔ پنجاب سے الیکشن کمیش کے رکن جسٹس(ر) ریاض کیانی نے اختلافات کرتے ہوئے جسٹس ناصر اسلم زاہد کا نام تجویز کیا۔ اس سے پنجاب سے بلوچستان میں کوئی اچھا پیغام نہیں گیا۔ جسٹس (ر) ریاض کیانی کو مسلم لیگ(ن) نے پنجاب سے ممبر الیکشن کمیشن نامزد کیا ہے۔ وہ لاہور میں ہائی رائزنگ بلڈنگ کمیشن کے سر براہ بھی تھے۔

نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے ملک میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ نگران حکومت کی معیاد نہیں بڑھانے دیں گے اور اگر مقررہ مدت میں الیکشن نہ کرواسکے تو گھر چلے جائیں گے۔ بزرگ نگران وزیراعظم سے جانبداری کی توقع نہیںہے۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے الیکشن کمیشن میں ان کے خلاف اعتراض دائر کیا گیا کہ وہ پیپلزپارٹی کے دور میں اعلیٰ عدالتی عہدے پر فائز رہے ہیں اور بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں برطرف ملازمین کی بحالی کمیشن کے سربراہ مقرر ہوئے تاہم چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم سمیت کمیشن کے تین ممبران کا مؤقف تھا کہ یہ اعتراضات ایسے نہیں ہیں جن کی بنیاد پر میر ہزار خاں کھوسو کے حوالے سے سوالات اٹھائے جاسکیں۔

چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ر) فخرالدین جی ابراہیم، خیبر پختونخواہ سے رکن جسٹس (ر) شہزاد اکبر اور بلوچستان سے رکن جسٹس فضل الرحمٰن نے ہفتہ کے روز بھی میر ہزار خان کھوسو کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا تاہم جسٹس (ر) روشن عیسانی فلائیٹ نہ ہونے پر اسلام آباد نہ پہنچ سکنے کے باعث اجلاس میں شریک نہ ہوئے اس لئے فیصلے کو اتوار کی صبح تک ملتوی کرنا پڑا۔ چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کی زیرصدارت اتوار کے روز جب اجلاس ہوا تو سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد نے مختصر بریفنگ دی جس کے بعد جسٹس عیسانی سے جسٹس میر ہزار خان کھوسو کے بارے میں رائے پوچھی گئی، انہوں نے کمیشن کے باقی تین ارکان کی رائے سے اتفاق کیا۔

جسٹس ناصر اسلم زاہد مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ قیادت سے تعلقات کی بنا پر ایک متنازعہ شخصیت ہیں۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن ) کے خطوط اور پارلیمانی کمیٹی کی کارروائی الیکشن کمیشن کے سامنے تھی اور اس کو بنیاد بنا کر نگران وزیراعظم کا فیصلہ کیا گیا۔ چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم اور الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان ریٹائرڈ جج ہیں اور انہوں نے بطور جج اس بارے میں فیصلہ دیا۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ایسے ہی ہے جیسے سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ کا فیصلہ ہوتا ہے۔

یہ فیصلہ خالصتاً میرٹ پرکیاگیا، اس میں بنیادی نکتہ یہ تھا کہ وزارت عظمیٰ کا امیدوار متنازعہ نہ ہو اور اس کی ذات ، ساکھ اور ماضی کے حوالے سے الزامات نہ ہوں ۔ پیپلز پارٹی نے جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد پر سخت اعتراضات کئے تھے، پہلا اعتراض یہ تھا کہ وہ صدر آصف زرداری سے ذاتی عداوت رکھتے تھے جس کا ثبوت ان کو جسٹس نظام اور ان کے بیٹے کے قتل میں ملوث کیا جانا تھا جس میں وہ بری بھی ہوئے تھے۔ جب نواز شریف نے بطور وزیراعظم ایک عدالتی بغاوت کے ذریعے جسٹس(ر) سجاد علی شاہ کو برطرف کیا تو اس سارے معاملے میں مرکزی کردار جسٹس(ر) سعید الزمان صدیقی اور ناصر اسلم زاہد کا تھا۔

سپریم کورٹ پر حملہ سازش کیس میں ملوث مسلم لیگ(ن) کے 7 اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو ناصر اسلم زاہد کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے 14 مئی 1999ء کو باعزت بری کردیاتھا۔ فیصلے میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ بی بی سی، سی این این اور سپریم کورٹ کی اپنی طرف سے مہیا کردہ ویڈیو کیسٹس کو ثبوت کے طور پر نہیں لیا جاسکتا اور اسے عدم ثبوت قرار دیاگیا جن میں سارے لوگ نظر آرہے تھے مگر انہیں بری کر دیا گیا۔

ان پر تیسرا اعتراض یہ تھا کہ میر مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں غنویٰ بھٹو کی خواہش پر جو عدالتی کمیشن بنا اس کے سربراہ بھی جسٹس(ر) ناصر اسلم زاہد تھے اورکمیشن نے رپورٹ میں صدر زرداری اور بے نظیر بھٹو کا نام لئے بغیر واضح اشارے دیئے تھے کہ اس واقعہ میں یہ دونوں میاں بیوی ملوث ہیں۔ یہ وہ اعتراضات ہیں جو ان کو اس عہدے کیلئے نااہل بناتے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ر) فخرالدین نے کمیشن کے اجلاس میں گزارش کی تھی کہ ممبران ذاتی پسند ناپسند کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بطور جج یہ فیصلہ کریں کہ ان چار ناموں میں سے غیر جانبدار شخص کون ہے۔ اس سارے عمل کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ سیاستدان اپنے تعصبات اور گروہی مفادات سے نجات نہ پا سکے۔

اگر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر باہمی مشورے سے یہ معرکہ سر کرلیتے تو اسے حقیقی معنوں میں جمہوریت کی فتح قرار دیا جاتا اور مقتدر حلقوں کو یہ پیغام مل جاتا کہ اب سیاستدان اتنے میچور ہوگئے ہیں کہ اپنے فیصلے خود کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن افسوس جمہوری حکومت کے نگران وزیراعظم کا فیصلہ ٹیکنو کریٹس کو کرنا پڑا اور ان میں سے ہی نگران بن گیا۔ سیاستدان نگران وزیراعظم کا انتخاب کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے۔ سیاستدانوں کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہے، تجزیہ یہی ہے کہ ن لیگ نے اب کھوسو پر اعتماد ظاہر کیا ہے، اگر اپوزیشن لیڈر شروع میں ہی ایسا کردیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ صدر زرداری کے مخالفیں ان پر جتنی مرضی تنقید کریں لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ وہ اس آخری لڑائی میں بھی وہ سرخرو ہوئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں