سیاسی پارٹیوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات
ٹکٹوں کی تقسیم اور اعلان کے حوالے سے امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ اے این پی سب سے پہلے یہ کام کرے گی۔
سیاسی جماعتیں جس طریقہ سے الیکشن کے لیے آپس میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات طے کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور جس انداز میں امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا جارہا ہے۔
اس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں الیکشن کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں تھیں اور سیاسی جماعتوں کا خیال یہ تھا کہ الیکشن آتے ،آتے ملتوی کردیاجائے گا، یہی وجہ ہے کہ اب جبکہ ان سطور کی اشاعت کے بعد الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے میں صرف دو دن رہ جائیں گے ،اب تک سیاسی جماعتیں آپس میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات تک طے نہیں کرسکیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک جانب سیاسی جماعتوں کی جانب سے اعلان کردہ اپنے امیدوار الیکشن کی مہم میں مصروف ہوں گے تو دوسری جانب جن جماعتوں کے ساتھ ان کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوگی وہ امیدوار ان نشستوں پرموجود ہوں جس کی وجہ سے ان پارٹیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ کئی امیدوار پارٹیوں سے بغاوت بھی کریں گے اور کئی کھل کر اگر بغاوت نہ بھی کرسکے تو تب بھی وہ ڈھکے چھپے انداز میں ان امیدواروں کے خلاف برسرپیکار ہوں گے جن کو وہ نشستیں دی جائیں گی جو ان امیدواروں کے حصہ میں آرہی ہیں کیونکہ یقینی طور پر یہ انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے کہ جب کسی ایک امیدوار کو ٹکٹ دے کر واپس لے لیاجائے یااسے اس نشست سے دستبردار کرایاجائے جسے اکثر امیدوار اپنی انا کا مسلہ بنالیتے ہیں۔
ان سطور کو سپرد قلم کرنے تک جمیعت علماء اسلام (ف)اور پیپلزپارٹی نے اپنے امیدواروں کا باقاعدہ اعلان کردیا ہے،ان میں جمیعت علماء اسلام (ف) کا ہوم ورک سب سے زیادہ مضبوط نظر آتا ہے کیونکہ جمیعت نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی تقریباًتمام نشستوں پر اپنے امیدوار میدان میں اتارے ہیں ، تاہم جے یو آئی(ف) کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ابھی اس کے مسلم لیگ(ن)کے ساتھ معاملات طے ہونا باقی ہیں اور اگر مسلم لیگ(ن)اور جے یو آئی کی آپس میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوجاتی ہے تو اس صورت میں جے یو آئی کو کئی نشستوں سے اپنے امیدوار مقابلے سے دستبردارکرانے ہوں گے جبکہ دوسری جانب مسلم لیگ(ن) کو یہ فائدہ حاصل ہے کہ وہ جے یوآئی(ف) کی جانب سے اعلان کردہ امیدواروں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کرے گی تاکہ ''لین دین''میں زیادہ سہولت ہوسکے۔
ٹکٹوں کی تقسیم اور اعلان کے حوالے سے امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ اے این پی سب سے پہلے یہ کام کرے گی کیونکہ اے این پی کی جانب سے اس سلسلے میں کافی دن پہلے تمام امورکو نمٹا لیا گیا تھا تاہم اب سب سے زیادہ مسائل ہی اے این پی میں نظر آرہے ہیں کیونکہ ایک جانب تو اے این پی کے کئی ساتھی اے این پی کو چھوڑ کر جے یو آئی اور دیگر پارٹیوں کی جانب چلے گئے ہیں تو دوسری طرف اے این پی کے کئی ارکان آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیں گے ۔ اس میں ایک بات یہ بھی نظر آرہی ہے کہ اے این پی کی سطح پر ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملہ پر شاید بعض امور میں اس روایتی ''ہوشیاری''کا مظاہرہ نہیں کیا گیا جو اے این پی کا خاصہ ہے یہی وجہ ہے کہ اے این پی کے لیے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔
امکان یہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ جن مشکلات کا شکار اے این پی ہے انہی مشکلات کا شکار پیپلزپارٹی بھی ہوگی تاہم پیپلزپارٹی کی سطح پر یہ مشکلات کم نظر آرہی ہیں کیونکہ پیپلزپارٹی نے پارٹی میں نوواردوں کے ساتھ پرانے کارکنوں کو بھی ٹکٹوں کی تقسیم میں حصہ دیا ہے جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی میں کوئی ایسا طوفان اٹھتا ہوا نظر نہیں آرہا جیسا اے این پی میں موجود ہے تاہم مسلم لیگ(ن) اور جے یو آئی (ف) سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بعد معاملات کو مناسب انداز میں ڈیل نہ کرنے کی صورت میں ایسی ہی مشکلات کا شکار ہوسکتی ہیں۔
رہی بات جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی تو وہ بھی اب تک نشستوں کی تقسیم کے کسی فارمولے پر نہیں پہنچ سکیں اور دونوں پارٹیاں اس سلسلے میں کام کررہی ہیں جس کے حوالے سے ان دونوں پارٹیوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ تحریک انصاف میں شامل ہر کارکن الیکشن کے لیے میدان میں اترنے کا خواہاں ہے جبکہ دوسری جانب جماعت اسلامی پچاس نشستوں سے کم پر راضی ہونے کا نام نہیں لے رہی، اس لیے ان دونوں پارٹیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جے یو آئی(ف) نے پارٹی سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو تین نشستوں پر قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا ہے کیونکہ ڈی آئی خان میں ان کا مقابلہ فیصل کریم کنڈی کے خاندان سے ہے جہاں وہ گزشتہ الیکشن میں بھی شکست کھاچکے ہیں اسی لیے وہ اس مرتبہ ڈی آئی خان کے ساتھ لکی مروت کی نشست پر بھی میدان میں اتر رہے ہیںکیونکہ انہوں نے لکی مروت میں کبیر خان فیملی کو اپنے ساتھ شامل کرتے ہوئے اپنی پوزیشن مستحکم کی ہے تاہم اس نشست پر بھی ان کا مقابلہ آسان نہیں ہوگا کیونکہ اس نشست پر ان کا مقابلہ ہمایوں سیف اللہ سے ہوگا جو یقینی طور پر تگڑے امیدوار ہیں، جے یو آئی (ف)نے مولانا فضل الرحمٰن کے برادر اصغر مولانا لطف الرحمٰن کو ڈی آئی خان سے دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ٹکٹ دے کر بہت سوں کو الرٹ کردیا ہے۔
یہ ایک واضح پیغام ہے کہ اگر جے یو آئی اکثریت حاصل کرتے ہوئے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آتی ہے تو وزارت اعلیٰ کے لیے ان کا امیدوار کوئی اور نہیں بلکہ مولانا لطف الرحمٰن ہوں گے اسی لیے ایک جانب اسی عہدہ کے ایک متوقع امیدوار سینیٹر غلام علی کو صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے ٹکٹ نہیں دیا گیاتو دوسری جانب اکرم درانی بھی صورت حال کو بھانپ چکے ہیں اسی لیے وہ صوبائی کے ساتھ قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑرہے ہیں۔
اس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں الیکشن کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں تھیں اور سیاسی جماعتوں کا خیال یہ تھا کہ الیکشن آتے ،آتے ملتوی کردیاجائے گا، یہی وجہ ہے کہ اب جبکہ ان سطور کی اشاعت کے بعد الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے میں صرف دو دن رہ جائیں گے ،اب تک سیاسی جماعتیں آپس میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات تک طے نہیں کرسکیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک جانب سیاسی جماعتوں کی جانب سے اعلان کردہ اپنے امیدوار الیکشن کی مہم میں مصروف ہوں گے تو دوسری جانب جن جماعتوں کے ساتھ ان کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوگی وہ امیدوار ان نشستوں پرموجود ہوں جس کی وجہ سے ان پارٹیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ کئی امیدوار پارٹیوں سے بغاوت بھی کریں گے اور کئی کھل کر اگر بغاوت نہ بھی کرسکے تو تب بھی وہ ڈھکے چھپے انداز میں ان امیدواروں کے خلاف برسرپیکار ہوں گے جن کو وہ نشستیں دی جائیں گی جو ان امیدواروں کے حصہ میں آرہی ہیں کیونکہ یقینی طور پر یہ انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے کہ جب کسی ایک امیدوار کو ٹکٹ دے کر واپس لے لیاجائے یااسے اس نشست سے دستبردار کرایاجائے جسے اکثر امیدوار اپنی انا کا مسلہ بنالیتے ہیں۔
ان سطور کو سپرد قلم کرنے تک جمیعت علماء اسلام (ف)اور پیپلزپارٹی نے اپنے امیدواروں کا باقاعدہ اعلان کردیا ہے،ان میں جمیعت علماء اسلام (ف) کا ہوم ورک سب سے زیادہ مضبوط نظر آتا ہے کیونکہ جمیعت نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی تقریباًتمام نشستوں پر اپنے امیدوار میدان میں اتارے ہیں ، تاہم جے یو آئی(ف) کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ابھی اس کے مسلم لیگ(ن)کے ساتھ معاملات طے ہونا باقی ہیں اور اگر مسلم لیگ(ن)اور جے یو آئی کی آپس میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوجاتی ہے تو اس صورت میں جے یو آئی کو کئی نشستوں سے اپنے امیدوار مقابلے سے دستبردارکرانے ہوں گے جبکہ دوسری جانب مسلم لیگ(ن) کو یہ فائدہ حاصل ہے کہ وہ جے یوآئی(ف) کی جانب سے اعلان کردہ امیدواروں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کرے گی تاکہ ''لین دین''میں زیادہ سہولت ہوسکے۔
ٹکٹوں کی تقسیم اور اعلان کے حوالے سے امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ اے این پی سب سے پہلے یہ کام کرے گی کیونکہ اے این پی کی جانب سے اس سلسلے میں کافی دن پہلے تمام امورکو نمٹا لیا گیا تھا تاہم اب سب سے زیادہ مسائل ہی اے این پی میں نظر آرہے ہیں کیونکہ ایک جانب تو اے این پی کے کئی ساتھی اے این پی کو چھوڑ کر جے یو آئی اور دیگر پارٹیوں کی جانب چلے گئے ہیں تو دوسری طرف اے این پی کے کئی ارکان آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیں گے ۔ اس میں ایک بات یہ بھی نظر آرہی ہے کہ اے این پی کی سطح پر ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملہ پر شاید بعض امور میں اس روایتی ''ہوشیاری''کا مظاہرہ نہیں کیا گیا جو اے این پی کا خاصہ ہے یہی وجہ ہے کہ اے این پی کے لیے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔
امکان یہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ جن مشکلات کا شکار اے این پی ہے انہی مشکلات کا شکار پیپلزپارٹی بھی ہوگی تاہم پیپلزپارٹی کی سطح پر یہ مشکلات کم نظر آرہی ہیں کیونکہ پیپلزپارٹی نے پارٹی میں نوواردوں کے ساتھ پرانے کارکنوں کو بھی ٹکٹوں کی تقسیم میں حصہ دیا ہے جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی میں کوئی ایسا طوفان اٹھتا ہوا نظر نہیں آرہا جیسا اے این پی میں موجود ہے تاہم مسلم لیگ(ن) اور جے یو آئی (ف) سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بعد معاملات کو مناسب انداز میں ڈیل نہ کرنے کی صورت میں ایسی ہی مشکلات کا شکار ہوسکتی ہیں۔
رہی بات جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی تو وہ بھی اب تک نشستوں کی تقسیم کے کسی فارمولے پر نہیں پہنچ سکیں اور دونوں پارٹیاں اس سلسلے میں کام کررہی ہیں جس کے حوالے سے ان دونوں پارٹیوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ تحریک انصاف میں شامل ہر کارکن الیکشن کے لیے میدان میں اترنے کا خواہاں ہے جبکہ دوسری جانب جماعت اسلامی پچاس نشستوں سے کم پر راضی ہونے کا نام نہیں لے رہی، اس لیے ان دونوں پارٹیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جے یو آئی(ف) نے پارٹی سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو تین نشستوں پر قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا ہے کیونکہ ڈی آئی خان میں ان کا مقابلہ فیصل کریم کنڈی کے خاندان سے ہے جہاں وہ گزشتہ الیکشن میں بھی شکست کھاچکے ہیں اسی لیے وہ اس مرتبہ ڈی آئی خان کے ساتھ لکی مروت کی نشست پر بھی میدان میں اتر رہے ہیںکیونکہ انہوں نے لکی مروت میں کبیر خان فیملی کو اپنے ساتھ شامل کرتے ہوئے اپنی پوزیشن مستحکم کی ہے تاہم اس نشست پر بھی ان کا مقابلہ آسان نہیں ہوگا کیونکہ اس نشست پر ان کا مقابلہ ہمایوں سیف اللہ سے ہوگا جو یقینی طور پر تگڑے امیدوار ہیں، جے یو آئی (ف)نے مولانا فضل الرحمٰن کے برادر اصغر مولانا لطف الرحمٰن کو ڈی آئی خان سے دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ٹکٹ دے کر بہت سوں کو الرٹ کردیا ہے۔
یہ ایک واضح پیغام ہے کہ اگر جے یو آئی اکثریت حاصل کرتے ہوئے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آتی ہے تو وزارت اعلیٰ کے لیے ان کا امیدوار کوئی اور نہیں بلکہ مولانا لطف الرحمٰن ہوں گے اسی لیے ایک جانب اسی عہدہ کے ایک متوقع امیدوار سینیٹر غلام علی کو صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے ٹکٹ نہیں دیا گیاتو دوسری جانب اکرم درانی بھی صورت حال کو بھانپ چکے ہیں اسی لیے وہ صوبائی کے ساتھ قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑرہے ہیں۔