جب تک ڈیکلریشن موجود رہے گا بددیانتی بھی رہے گی، جسٹس شیخ عظمت سعید فوٹو: فائل
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نااہلی مدت کیس میں کہا ہے کہ بددیانت قرار دیا گیا شخص 5 روز بعد کیسے دیانتدار ہوجائے گا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح اور نااہلی کی مدت کے تعین کے کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ اگر کسی کو بددیانت قرار دیا گیا ہے تو 5 روز بعد وہ دیانتدار کیسے ہوجائیگا۔
درخواست گزار عبدالغفور لہڑی کے وکیل کامران مرتضی کو عدالت نے طلب کیا تو انہوں نے کہا کہ آج دلائل نہیں دے سکوں گا۔ چیف جسٹس نے وجہ پوچھی تو
کامران مرتضی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی کی سزا پر ڈسٹرب ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: تاحیات پابندی ہونی چاہیے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے پوچھا کہ نہال ہاشمی توہین عدالت کیس کا کیا فیصلہ آیا ہے؟۔ کامران مرتضی نے جواب دیا کہ نہال ہاشمی کو 5 سال کیلئے نااہلی اور ایک ماہ قید کی سزا دی گئی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ نہال ہاشمی کو سزا کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے آپ اپنے دلائل دیں۔
کامران مرتضی نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کو ملا کر پرکھا جائے، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی ایک مدت کے لیے ہوگی اور نااہل شخص اگلا ضمنی الیکشن لڑ سکتا ہے، کاغذات نامزدگی کے وقت ڈیکلریشن کردار سے متعلق ہوگا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جب تک ڈیکلریشن موجود رہے گا بددیانتی بھی رہے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہی جائزہ لینا ہے ڈیکلریشن کا اطلاق کب تک ہوگا، اگر کسی کو بددیانت قرار دیا گیا تو 5روز بعد وہ دیانتدار کیسے ہوجائیگا۔
وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ توبہ کا تصور بھی موجود ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ نااہلی کے مقدمات میں توبہ گالیاں دے کر ہوگی، کیا سرعام برابھلا کہہ کر توبہ ہوسکتی ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ توبہ کا طریقہ بھی موجود ہے، پہلے غلطی اور گناہ کااعتراف کرناہوگا، عوام کے سامنے بددیانتی کا اعتراف کرنا ہوگا،کوئی کہتا ہے میں نے کچھ نہیں کیا میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، کسی کی بات نہیں کررہا آپ کی توبہ کی بات پر اظہار کیاہے، سب سے پہلے ڈیکلریشن کوتسلیم کیاجائے، ہم بھی روزتوبہ کرتے ہیں، غلطی تسلیم کریں گے تومعافی ہوگی، غلطی کی معافی بھی پبلک ہونی چاہیے، توبہ کرنے کا لوگوں کوبھی معلوم ہوناچاہیے،
کامران مرتضی نے کہا کہ میرا موکل توبہ کرچکاہے، چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل موکل کی جانب سے توبہ نہیں کرسکتا، جس نے توبہ کرنی ہے ہمارے سامنے آئے، اسحاق خاکوانی والا فیصلہ نوازشریف کے حق میں ہوا، اگرآپ شرمندہ ہیں توعدالتی فیصلہ قبول کریں، کنڈکٹ سے ثابت کرناہوگا بدیانتی ایمانداری میں تبدیل ہوگئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جس کے خلاف فیصلہ ہو اس کو اپنی بے ایمانی، بددیانتی یاغلطی کی معافی مانگنا چاہیے، پھر دیکھ سکتے ہیں معافی والے کے لیے نااہلی کی مدت کتنی ہو؟۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ امیدوار کا غلط بیانی کرنا ووٹر سے غلط بیانی ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ 14 ارکان اسمبلی نے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں میں مطالبہ کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے۔ درخواستیں دائر کرنے والوں میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور پی ٹی آئی رہنما جہانگیر خان ترین سمیت وہ ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنا پر نااہل کیا گیا۔