سپریم کورٹ کا راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے آئی ایس آئی اور ایم آئی کو مکمل تعاون کا حکم
عدالت نے راؤ انوار کا پیغام میڈیا پر چلانے پر بھی پابندی لگادی ہے
سندھ پولیس کے سربراہ اے ڈی خواجہ نے نقیب اللہ قتل میں ہونے والی پیش رفت سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی ہے جب کہ عدالت نے راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے آئی ایس آئی اور ایم آئی کو مکمل تعاون کا حکم دیا ہے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت کی، اس موقع پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے نقیب اللہ قتل کیس کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نقیب اللہ محسود کی پروفائل کا جائزہ لیا گیا، بادی النظر میں یہ پولیس مقابلہ جعلی تھا، نقیب اللہ کو پولیس نے 2 دوستوں کے ہمراہ 3 جنوری کو اٹھایا، نقیب اللہ کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا اور شدید تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
اس خبر کو بھی : سپریم کورٹ کی راؤ انوار کو گرفتار کرنے کیلئے 3 روز کی مہلت
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ نقیب کے دوستوں قاسم اور حضرت علی کو 6 جنوری کو چھوڑ دیا گیا جب کہ پولیس افسران نقیب اللہ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے رہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ راؤ انوار جان بوجھ کر کمیٹی میں شامل نہ ہوئے جب کہ انہوں نے جعلی دستاویزات پر ملک سے فرار ہونے کی کوشش کی۔
سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ساری بات کی تفصیل فراہم کریں، کیا پاکستان سے راؤ انوار کے لیے نجی جہاز استعمال ہواہے جس پر ڈی جی سول ایوی ایشن نے عدالت کو بتایا کہ تمام نجی طیاروں کے مالکان نے اپنے بیان حلفی جمع کروا دیے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کنگ کریٹ فلائٹ کی جانب سے بیان حلفی کس نے دیا، ڈی جی سول ایوی ایشن نے کہا کہ اس دوران صرف 4 فلائٹس نے بیرون ملک آپریٹ کیا جب کہ کنگ کریٹ کی جانب سے بیان حلفی سی او کرنل خلیل الرحمان نے جمع کروایا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : راؤ انوار کی گرفتاری کی عدالتی ڈیڈلائن ختم
ملک ریاض کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملک ریاض اور کمپنی کے سی ای او ملک سے باہر ہیں چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ میں کسی سی ای او کے بیان حلفی کو نہیں مانتا، 2 دن تک علی ریاض کا بیان حلفی ریکارڈ کا حصہ بنائیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا راوٴ انوار پاکستان سے چلے گئے ہیں جس پر ڈی جی سول ایوی ایشن کا کہنا تھا کہ ہم نے رپورٹ داخل کردی ہے، 4 آپریٹرز نے فلائٹس کیں، غوث صاحب کنٹریکٹر جب کہ ملک ریاض طیارے کے مالک ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا بیان حلفی ملک ریاض نے دیا ہے جس پر ڈی جی سول ایوی ایشن کا کہنا تھا کہ بیان حلفی ملک ریاض کے سی ای او نے دیا ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق راؤ انوار ملک سے باہر نہیں گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اس قتل کا الزام ریاست پر ہے، الزام کے مطابق ریاست نے قانون سے انحراف کرتے ہوئے قتل کیا، جن پر حفاظت کی ذمہ داری تھی ان پرقتل کا الزام ہے،مجھے راؤ انوار کا سروس پروفائل مہیا کریں۔
آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ نقیب اللہ کیس کی ابتدائی معلومات میں 13 جنوری کو 4 دہشت گردوں کے مرنے کی اطلاع دی گئی، محمد اسحاق نذر جان کی شناخت موقع پر کرلی گئی جب کہ 17 جنوری کو نسیم اللہ عرف نقیب اللہ کی شناخت ہوئی جس پر میں نے فوری سی سی پی او کراچی کو مرنے والوں کی شناخت کرنے کا کہا، کمیٹی بنائی جس نے 20 جنوری کو عبوری رپورٹ دی جس میں انکاونٹر کو اسٹیج انکاونٹر کہاگیا۔
آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ رپورٹ کے نتیجے میں 20 جنوری کو راؤ انوار اور اس کی ٹیم کو معطل کردیا گیا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فوری مقدمہ کیوں درج نہیں کیا گیا اور راؤ انوار کی حاضری یقینی بنانے کے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے، سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ایک دوسرا مقدمہ درج کیا جا سکتاہے، جب بھی پولیس مقدمہ پولیس کی جانب سے درج ہو تو سوال اٹھتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ راؤ انوار کے لیے کیا اقدامات کیے گئے، کیا صرف وزارت داخلہ کو نام دینا کافی تھا، بطور سربراہ آپ کو مقدمہ درج کروانا چاہیے تھا، چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کمال کی سپروژن تھی آئی جی صاحب، راؤانوار اسلام آباد ائیرپورٹ سے پکڑا گیا جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ 20 جنوری کو راؤ انوار کراچی سے اسلام آباد پی کے 300 پر آیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میراخیال تھا آپ کہیں گے راؤ انوار فلموں کی طرح کسی بس یا گنے کے ٹرک پر آیاہے تاہم کیا آپ کو علم نہیں ہونا چاہیے تھا، راؤ انوار کی بیرون ملک روانگی کو ایک خاتون نے روکا، سندھ پولیس کیا کر رہی ہے، جو والد موقع پر موجود ہی نہیں تھا وہ کیا مقدمہ درج کروائے گا۔
چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ کیا معلوم ہے آپ سے متعلق عدالت نے نہ ہٹانے کا حکم دیا تھا، اس حکم پر عدالت کو کتنی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ میں عہدہ چھوڑ دیتا ہوں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ میں نے 36 گھنٹے دیے تھے جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ پولیس واٹس ایپ کو ٹریس نہیں کر سکی، ہمارے پاس واٹس ایپ ٹریس کرنے کی سہولت نہیں، راؤ انوار میڈیا سمیت بہت سے دیگر افراد سے رابطے میں ہیں، عدالت تمام ایجنسیوں کوحکم دے، راؤ انوار کا فون 19جنوری سے بند ہے جب کہ ان کے پاس دوبئی کا اقامہ ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پولیس افسران کے پاس اقامہ ہوسکتاہے، کیا آپ نے سوچا بھی نہیں تھا کہ راؤ انوار باہر جاسکتاہے۔ آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ لکی مروت اور اسلام آباد میں ٹیمیں بھیجی ہیں، راؤ انوار کی آخری پوزیشن ڈھوک پراچہ اسلام آباد ترنول کی ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : نقیب اللہ قتل؛ راؤ انوار کو پولیس پارٹی سمیت گرفتار کرنے کا فیصلہ
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ نقیب سے زندگی کو کسی عام آدمی نے نہیں چھینا، ریاست نے ہی نقیب اللہ سے جینے کا حق چھینا ہے، اب یہ پوری ریاست کی ذمہ داری بن چکی ہے، ممکن ہے راؤ انوار کو واپس لانے میں سال لگ جائے جب کہ بھول جائیں آپ پر کوئی سیاسی دباؤ ہے، ہم پولیس اور انتظامیہ کے تحفظ کے لیے تیار ہیں جب کہ اگر سب معاملات میں عدالت حکم دے تو اختیارات سے تجاوز کا کہا جاتاہے۔
عدالت نے راؤ انوار کا پیغام میڈیا پر چلانے پر پابندی لگاتے ہوئے آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی کو پولیس سے مکمل تعاون کرنے اور گواہوں کومکمل تحفظ دینے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 13 فروری تک ملتوی کردی۔
سماعت کے موقع پر نقیب اللہ کے والد کا خط عدالت میں پیش کیا گیا جس میں نقیب اللہ کے والد نے کہا کہ راؤ انوار میڈیا میں بولتاہے، الحمداللہ پاکستان میں ہوں، پولیس سے پوچھا جائے کہ تفتیش کے دوران وہ کیسے غائب ہوا جب کہ خط میں نقیب کے والد کا کہنا تھا کہ پورا فاٹا آپ کے انصاف کامنتظر ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فاٹا والوں کاغم اور خوشی مشترک ہیں، فاٹا والے فکرنہ کریں دل آپ کے لیے دھڑکتے ہیں، کسی دن فاٹا میں عدالت لگا سکتاہوں۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت کی، اس موقع پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے نقیب اللہ قتل کیس کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نقیب اللہ محسود کی پروفائل کا جائزہ لیا گیا، بادی النظر میں یہ پولیس مقابلہ جعلی تھا، نقیب اللہ کو پولیس نے 2 دوستوں کے ہمراہ 3 جنوری کو اٹھایا، نقیب اللہ کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا اور شدید تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
اس خبر کو بھی : سپریم کورٹ کی راؤ انوار کو گرفتار کرنے کیلئے 3 روز کی مہلت
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ نقیب کے دوستوں قاسم اور حضرت علی کو 6 جنوری کو چھوڑ دیا گیا جب کہ پولیس افسران نقیب اللہ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے رہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ راؤ انوار جان بوجھ کر کمیٹی میں شامل نہ ہوئے جب کہ انہوں نے جعلی دستاویزات پر ملک سے فرار ہونے کی کوشش کی۔
سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ساری بات کی تفصیل فراہم کریں، کیا پاکستان سے راؤ انوار کے لیے نجی جہاز استعمال ہواہے جس پر ڈی جی سول ایوی ایشن نے عدالت کو بتایا کہ تمام نجی طیاروں کے مالکان نے اپنے بیان حلفی جمع کروا دیے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کنگ کریٹ فلائٹ کی جانب سے بیان حلفی کس نے دیا، ڈی جی سول ایوی ایشن نے کہا کہ اس دوران صرف 4 فلائٹس نے بیرون ملک آپریٹ کیا جب کہ کنگ کریٹ کی جانب سے بیان حلفی سی او کرنل خلیل الرحمان نے جمع کروایا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : راؤ انوار کی گرفتاری کی عدالتی ڈیڈلائن ختم
ملک ریاض کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملک ریاض اور کمپنی کے سی ای او ملک سے باہر ہیں چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ میں کسی سی ای او کے بیان حلفی کو نہیں مانتا، 2 دن تک علی ریاض کا بیان حلفی ریکارڈ کا حصہ بنائیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا راوٴ انوار پاکستان سے چلے گئے ہیں جس پر ڈی جی سول ایوی ایشن کا کہنا تھا کہ ہم نے رپورٹ داخل کردی ہے، 4 آپریٹرز نے فلائٹس کیں، غوث صاحب کنٹریکٹر جب کہ ملک ریاض طیارے کے مالک ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا بیان حلفی ملک ریاض نے دیا ہے جس پر ڈی جی سول ایوی ایشن کا کہنا تھا کہ بیان حلفی ملک ریاض کے سی ای او نے دیا ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق راؤ انوار ملک سے باہر نہیں گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اس قتل کا الزام ریاست پر ہے، الزام کے مطابق ریاست نے قانون سے انحراف کرتے ہوئے قتل کیا، جن پر حفاظت کی ذمہ داری تھی ان پرقتل کا الزام ہے،مجھے راؤ انوار کا سروس پروفائل مہیا کریں۔
آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ نقیب اللہ کیس کی ابتدائی معلومات میں 13 جنوری کو 4 دہشت گردوں کے مرنے کی اطلاع دی گئی، محمد اسحاق نذر جان کی شناخت موقع پر کرلی گئی جب کہ 17 جنوری کو نسیم اللہ عرف نقیب اللہ کی شناخت ہوئی جس پر میں نے فوری سی سی پی او کراچی کو مرنے والوں کی شناخت کرنے کا کہا، کمیٹی بنائی جس نے 20 جنوری کو عبوری رپورٹ دی جس میں انکاونٹر کو اسٹیج انکاونٹر کہاگیا۔
آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ رپورٹ کے نتیجے میں 20 جنوری کو راؤ انوار اور اس کی ٹیم کو معطل کردیا گیا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فوری مقدمہ کیوں درج نہیں کیا گیا اور راؤ انوار کی حاضری یقینی بنانے کے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے، سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ایک دوسرا مقدمہ درج کیا جا سکتاہے، جب بھی پولیس مقدمہ پولیس کی جانب سے درج ہو تو سوال اٹھتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ راؤ انوار کے لیے کیا اقدامات کیے گئے، کیا صرف وزارت داخلہ کو نام دینا کافی تھا، بطور سربراہ آپ کو مقدمہ درج کروانا چاہیے تھا، چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کمال کی سپروژن تھی آئی جی صاحب، راؤانوار اسلام آباد ائیرپورٹ سے پکڑا گیا جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ 20 جنوری کو راؤ انوار کراچی سے اسلام آباد پی کے 300 پر آیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میراخیال تھا آپ کہیں گے راؤ انوار فلموں کی طرح کسی بس یا گنے کے ٹرک پر آیاہے تاہم کیا آپ کو علم نہیں ہونا چاہیے تھا، راؤ انوار کی بیرون ملک روانگی کو ایک خاتون نے روکا، سندھ پولیس کیا کر رہی ہے، جو والد موقع پر موجود ہی نہیں تھا وہ کیا مقدمہ درج کروائے گا۔
چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ کیا معلوم ہے آپ سے متعلق عدالت نے نہ ہٹانے کا حکم دیا تھا، اس حکم پر عدالت کو کتنی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ میں عہدہ چھوڑ دیتا ہوں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ میں نے 36 گھنٹے دیے تھے جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ پولیس واٹس ایپ کو ٹریس نہیں کر سکی، ہمارے پاس واٹس ایپ ٹریس کرنے کی سہولت نہیں، راؤ انوار میڈیا سمیت بہت سے دیگر افراد سے رابطے میں ہیں، عدالت تمام ایجنسیوں کوحکم دے، راؤ انوار کا فون 19جنوری سے بند ہے جب کہ ان کے پاس دوبئی کا اقامہ ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پولیس افسران کے پاس اقامہ ہوسکتاہے، کیا آپ نے سوچا بھی نہیں تھا کہ راؤ انوار باہر جاسکتاہے۔ آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ لکی مروت اور اسلام آباد میں ٹیمیں بھیجی ہیں، راؤ انوار کی آخری پوزیشن ڈھوک پراچہ اسلام آباد ترنول کی ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : نقیب اللہ قتل؛ راؤ انوار کو پولیس پارٹی سمیت گرفتار کرنے کا فیصلہ
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ نقیب سے زندگی کو کسی عام آدمی نے نہیں چھینا، ریاست نے ہی نقیب اللہ سے جینے کا حق چھینا ہے، اب یہ پوری ریاست کی ذمہ داری بن چکی ہے، ممکن ہے راؤ انوار کو واپس لانے میں سال لگ جائے جب کہ بھول جائیں آپ پر کوئی سیاسی دباؤ ہے، ہم پولیس اور انتظامیہ کے تحفظ کے لیے تیار ہیں جب کہ اگر سب معاملات میں عدالت حکم دے تو اختیارات سے تجاوز کا کہا جاتاہے۔
عدالت نے راؤ انوار کا پیغام میڈیا پر چلانے پر پابندی لگاتے ہوئے آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی کو پولیس سے مکمل تعاون کرنے اور گواہوں کومکمل تحفظ دینے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 13 فروری تک ملتوی کردی۔
سماعت کے موقع پر نقیب اللہ کے والد کا خط عدالت میں پیش کیا گیا جس میں نقیب اللہ کے والد نے کہا کہ راؤ انوار میڈیا میں بولتاہے، الحمداللہ پاکستان میں ہوں، پولیس سے پوچھا جائے کہ تفتیش کے دوران وہ کیسے غائب ہوا جب کہ خط میں نقیب کے والد کا کہنا تھا کہ پورا فاٹا آپ کے انصاف کامنتظر ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فاٹا والوں کاغم اور خوشی مشترک ہیں، فاٹا والے فکرنہ کریں دل آپ کے لیے دھڑکتے ہیں، کسی دن فاٹا میں عدالت لگا سکتاہوں۔