عرب لیگ نے شامی باغیوں کی حمایت کردی

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے شام سے اپنے آدھے عملے کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔


March 26, 2013
شام کی بشار الاسد حکومت کے خلاف جاری خانہ جنگی بدستور طوالت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ فوٹو: رائٹرز/ فائل

عربی زبان بولنے والے بائیس ممالک پر مبنی بین البراعظمی تنظیم عرب لیگ نے، جس میں ایشیائی عرب ممالک کے ساتھ افریقی ممالک بھی شامل ہیں، شام کے باغیوں کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ عرب لیگ نے اپنے اس اہم اجلاس کے موقعے پر شام کی خالی سیٹ باغیوں کی متحدہ تنظیم کو الاٹ کر دی ہے۔ جس کی شام کی بشار الاسد حکومت نے اس فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔عرب لیگ کے اس فیصلے سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ وہ شام کے بحران کو حل نہیں کرسکی۔

شام کی بشار الاسد حکومت کے خلاف جاری خانہ جنگی بدستور طوالت اختیار کرتی جا رہی ہے جب کہ امریکا کی زیر قیادت دیگر مغربی طاقتیں بھی خاصے تزویراتی یا اسٹرٹیجک انداز سے باغیوں کی امداد و رہنمائی کر رہی ہیں۔ باغیوں کو جدید ترین اسلحہ اور گولہ بارود تواتر اور تسلسل سے پہنچایا جا رہا ہے۔ تازہ اطلاع کے مطابق شام میں ایک جھڑپ میں باغی کمانڈر ریاض الاسد بم دھماکے میں شدید زخمی ہو کر اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہوگیا ہے۔ اصولی طور پر تو عرب لیگ کو اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کے تعاون سے شام کے بحران پر ابتداء میں ہی قابو پا لینا چاہیے تھا مگر افسوس کہ ایسا نہ کیا جا سکا اور اس اسلامی ملک میں عالمی سامراجی مداخلت کا جواز پیدا کر دیا گیا۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے شام سے اپنے آدھے عملے کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق شام سے 100 میں سے آدھے اسٹاف کو واپس بلا لیا جائے گا، اس کے علاوہ دمشق میں اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی نمایندے لخدار براہمی کا دفتر بھی بند کر دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ان اقدامات سے خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ شام پر بھی عراق حملے جیسی کوئی ترکیب آزمائی جانے والی ہے۔ افغانستان پر حملے کے لیے نائن الیون کا بہانہ بنایا گیا لیکن عراق پر عالمی احتجاج کی پروا نہ کرتے ہوئے سابق امریکی صدر بش جونیئر نے حملہ کر نے کا حکم دے دیا کیونکہ افغان جنگ جاری رکھنے کے لیے عراقی پیٹرول پر قبضہ کرنا ضروری تھا۔

خود امریکی میڈیا نے لکھا ہے کہ بغداد پر پہلی رات کی بمباری نے تمام وزارتوں کی عمارتیں تباہ کر دیں سوائے وزارت تیل کے جہاں پہلے ہی امریکی ماہرین پہنچا دیے گئے تھے تا کہ تیل کے ذخائر پر قبضہ کیا جا سکے جو کہ فی الحقیقت مطلوب و مقصود تھا۔تاہم یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ امریکا اس میدان میں اس وقت کودا جب عرب ممالک خود بحران کو حل نہ کرسکے بلکہ انھوں نے اس مزید پیچیدہ بنادیا۔شام میں جو کچھ ہوا یا ہورہا ہے، اس کی ذمے داری شام کی حکومت اور اپوزیشن پر بھی عائد ہوتی ہے۔

انھوں نے جمہوری جذبے کے بجائے اپنے اپنے تعصبات کو سامنے رکھا اور اپنے ملک کو تباہی کے سپرد کردیا۔اب عرب لیگ کے فیصلے کے بعد شامی حکومت کی ساکھ مزید کمزور ہوگئی ہے کیونکہ دنیا کو یہ پیغام مل گیا ہے کہ عرب ممالک بھی شامی حکومت کے حق میں نہیں ہیں۔یہ صورتحال افسوس ناک ہے ۔ظاہر ہے کہ موجودہ صورتحال میں شام کے بحران کو کوئی آسان اور سادہ حل نظر نہیں آرہا۔اس ملک میں غیر ملکی مداخلت کے خدشات پہلے سے زیادہ بڑھ گئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں