آزاد صحافت کی آواز لالہ رخ
لالہ اپنے طالب علم ساتھیوں کے ساتھ پمفلٹ اور پوسٹر لکھتیں ، این ایس ایف کا ترجمان اخبار طالب علم شایع کرتیں۔
گزشتہ صدی کی 60 اور 70 کی دہائیاں سوشلزم، قومی آزادی اور امریکی سامراج کے خلاف جدوجہد کی تھیں۔ ان ادوار میں چی گویرا، ماؤزے تنگ، ہوچی من نوجوانوں کے ہیرو تھے۔ یورپ میں طلباء تحریک فعال تھی۔ فرانس میں پاکستانی نژاد طالب علم رہنما طارق علی کی قیادت میں چلنے والی تحریک نے فرانس کے مرد آہن ڈیگال کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔
پاکستان میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے تحت جنرل ایوب خان کے 3سالہ ڈگری کورس کے خاتمے کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوچکی تھیں۔ این ایس ایف کراچی کی 1968 میں آغاز کردہ تحریک ایوب خان کے خلاف ایک بہت بڑی تحریک میں تبدیل ہو کر ایک فوجی آمر کے اقتدار کے خاتمے کا موجب بن چکی تھی۔ ملک میں عام انتخابات کے انعقاد اور بنگلہ دیش بننے کی تحریک چل رہی تھی۔ اس مجموعی سیاسی صورتحال کے پس منظر میں ایک خوبصورت لڑکی نے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں داخلہ لیا۔
انگریزی زبان پر عبور اور مطالعے کا شوق رکھنے والی لالہ رخ انصاری نے یونیورسٹی میں تعلیم کے آغاز کے ساتھ ہی بائیں بازو کی تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس وقت این ایس ایف دو گروپوں این ایس ایف کاظمی اور این ایس ایف رشید میں تقسیم تھی۔ این ایس ایف رشید گروپ چین نواز کہلاتا تھا۔ لالہ رخ کے ساتھ نرگس ہودبھائی بھی فعال تھیں۔ لڑکیوں کی انتہائی کم تعداد کسی طلباء تنظیم میں شامل ہوتی تھی۔ پھر بائیں بازو کی طلباء تنظیم کے خلاف منفی پروپیگنڈہ بہت زیادہ تھا۔ اسی پروپیگنڈے سے لڑکیاں زیادہ متاثر ہوتی تھیں مگر لالہ رخ انصاری جلد ہی این ایس ایف کی ممتاز کارکن بن گئیں۔
لالہ اپنے طالب علم ساتھیوں کے ساتھ پمفلٹ اور پوسٹر لکھتیں ، این ایس ایف کا ترجمان اخبار طالب علم شایع کرتیں۔ پھر یونیورسٹی اور کالجوں میں پوسٹر لگاتیں اور دوسرا لٹریچر تقسیم کرتی تھیں۔ پھر این ایس ایف کے تحت منعقد ہونے والے اسٹڈی سرکل میں نظریات کی تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ کچھ عرصے بعد وہ خود اسٹڈی سرکل میں طالب علموں کو نظریاتی تعلیم دینے لگیں۔ پھر بھٹو حکومت قائم ہوئی۔ اس زمانے میں مزدور تحریک چل رہی تھی۔ سائٹ میں متحدہ مزدور فیڈریشن کے تحت چلنے والی ولیکا ٹیکسٹائل ملز کے مزدوروں کی تحریک کو بھٹو حکومت نے طاقت کے ذریعے کچل دیا تھا۔
لالہ رخ ان طالب علموں میں شامل تھیں جو مزدوروں کی مدد کررہی تھیں۔ ان کی کوشش تھی کہ کراچی کے طالب علم مزدوروں کی اس تحریک کی حمایت کریں۔ پھر کچھ دنوں بعد لانڈھی لیبر آرگنائیزنگ کمیٹی کے تحت ایک تحریک شروع ہوئی۔ پولیس نے اس تحریک کو طاقت کے ذریعے کچلا۔ نہتے مزدور پولیس کی فائرنگ میں شہید ہوئے۔ سائٹ اور لانڈھی کی مزدور تحریک کو کچلنے کے لیے ہزاروں مزدوروں کو بے روزگار کردیا گیا۔ لالہ رخ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بے روزگار مزدوروں اور ان کے اہل خانہ کی مدد کے لیے منظم کوشش کی۔
اس کے علاوہ انھوں نے اسکولوں کے اساتذہ کے حالات کار کو بہتر بنانے کی جدوجہد کی۔ لالہ رخ نے اس تحریک کو کامیاب کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ پھر بھٹو حکومت نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ این ایس ایف رشید گروپ کی قیادت مزدور رہنما زین الدین خان کی قیادت میں زیر زمین کمیونسٹ پارٹی سے منسلک تھی۔ یہ گروپ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے خلاف تھا۔ زین الدین خان اور ڈاکٹر رشید حسن خان انقلابی رہنما ماؤزے تنگ کی ریڈ بک کے تحت بنگال کے نیکسلائٹ رہنما چارومجمدار کی گوریلا جنگ کو انقلاب کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ وہ امریکی سامراج کے ساتھ سوویت یونین کو بھی سوشل سامراج قرار دیتے تھے۔
لالہ رخ اس فلسفے سے متاثر تھیں۔ یوں وہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کو بنگلہ دیش کے مظلوم عوام کی جدوجہد سے غداری سمجھتی تھیں۔ اس زمانے میں بحث و مباحثے اور مکالمے کا کلچر تھا۔ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے حق میں چوہدری افتخار، شہریار مرزا، حفیظ مقبول، محمد نعمان، سہیل احمد، عابد علی، حسن جاوید، شاہد علی وغیرہ دلائل دیتے تھے۔ لالہ رخ، نرگس، نجم الہدیٰ، انجم رشید، راشد اختر ملک وغیرہ کے ساتھ مل کر زور دار دلال دیتیں، یوں روزانہ دنیا بھر میں رونما ہونے والے انقلابات کا تجزیہ ہوتا اور نئی نئی کتابوں سے دلائل دیے جاتے۔ کبھی کسی فریق کے دلائل کمزور ہوجاتے مگر استقامت میں فرق نہیں آتا۔ پھر لالہ رخ کی نمایاں حیثیت یہ بھی تھی کہ وہ اپنا کلاسوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتی تھی۔
اس وقت کے بعض طالب علم کہتے ہیں کہ شعبہ صحافت کی کلاس میں لالہ رخ کی موجودگی اساتذہ کو امتحان میں ڈال دیتی تھی۔ انھیں لالہ رخ کے سوالات کے جوابات کے لیے اپنی معلومات کو اپ گریڈ کرنا پڑتا تھا۔ لالہ رخ نے جو کچھ سیکھا اس کی عکاسی ان کے صحافت کا شعبہ اختیار کرنے کے بعد ان کی کارکردگی سے ہوتی ہے۔ لالہ رخ نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد عملی صحافت کا آغاز کیا۔ انھوں نے ایک انگریزی کے شام کے اخبار ڈیلی نیوز میں انٹرویو اور فیچر لکھنے شروع کیے۔ لالہ رخ نے اس وقت کے ان ممتاز شعراء اور ادیبوں کے انٹرویو لیے جو زیر عتاب تھے ۔ ان میں شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض اور معروف دانش ور سبط حسن وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح لالہ رخ نے اپنے فیچرز میں غریب لوگوں کے حالات پر توجہ دی۔
وہ ایک زمانے میں لارنس روڈ کے قریب رہتی تھیں۔ لارنس روڈ میں بہت سے کاریگر کام کرتے ہیں۔ لالہ رخ نے ان میں سے کئی کاریگر وںکے تفصیلی انٹرویو لیے۔ ان میں مستری، لیتھ مشین پر کام کرنے والے اور ویلڈنگ کرنے والے محنت کش شامل ہیں۔ لالہ رخ نے اپنے ساتھی زاہد حسین سے شادی کی۔ زاہد حسین کا تعلق ایک انقلابی خاندان سے تھا۔ وہ این ایس ایف کے نظریاتی رہنما سمجھے جاتے تھے۔ زاہد حسین نے 1977 کے آخری عشرے میں ایک 15 روزہ رسالہ پرچم شایع کیا۔ لالہ اس کی شریک ایڈیٹر تھیں۔ اس رسالے میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف طلباء، مزدوروں ،کسانوں اور سیاسی کارکنوں کی تحریکوں کو خصوصی طور پر پیش کیا گیا۔
جب 1978میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور ایپنک نے روزنامہ مساوات پر پابندی کے خلاف تحریک شروع کی تو لالہ رخ اس تحریک میں متحرک ہوگئیں۔ انھوں نے دوسرے صحافیوں کے ساتھ مل کر گرفتاری دی۔ لالہ کے بچے اس وقت بہت چھوٹے تھے مگر لالہ رخ کا عزم کم نہ ہوا۔ انھیں سرسری سماعت کی فوجی عدالت نے ایک سال قید بامشقت کی سزا دی مگر اس نے جرات سے اس فیصلے کو تسلیم کیا۔ وہ پہلی خاتون صحافی تھیں جنھیں فوجی عدالت نے سزا سنائی۔ فوجی حکومت نے بعد میں انھیں گھر میں نظربند کردیا۔ لالہ رخ نے بعد میں سرکاری خبررساں ایجنسی اے پی پی اور ملک کے سب سے بڑے انگریزی کے اخبار روزنامہ ڈان میں ملازمت کی۔
جنرل ضیاء الحق کے اس دور میں مسجد اسکول کی اسکیم شروع تھی۔ اس اسکیم کے تحت مساجد میں اسکول قائم کیے گئے تھے۔ اس وقت کی حکومت مساجد اسکولوں کو اپنا بہت بڑا کارنامہ قرار دیتی تھی۔ لالہ رخ نے ان اسکولوں کا دورہ کیا۔ ان کے اساتذہ اور طالب علموں سے انٹرویو کیے۔ ان میں سے بہت سے اسکول صرف کاغذات پر قائم تھے، اگر اس وقت کے حکمراں لالہ رخ کے یہ فیچر پڑھ لیتے تو پھر خواندگی کی شرح بڑھانے کے لیے حقیقت پسندانہ اقدامات کرتے۔ لالہ رخ نے بعد میں صحافت ترک کردی تھی اور وہ اپنے بچوں کے ساتھ لاس اینجلس چلی گئیں ۔
مگر ترقی پسند نظریات ار جدوجہد سے ان کا کمٹمنٹ ہمیشہ رہا۔ اردو یونیورسٹی کے سابق استاد پروفیسر سعید کا کہنا ہے کہ وہ این ایس ایف کے رکن کی حیثیت سے نئے کارکنوں کے اسٹڈی سرکل میں لیکچر دیتے تھے۔ ایک اسٹڈی سرکل میں لالہ رخ بھی آئیں، اس اسٹڈی سرکل میں سماج کا ارتقاء، کمیونسٹ مینی فیسٹو، لینن، اسٹالن اور ماؤ کی کتابوں ، کمیونسٹ پارٹی کے خفیہ رسالے میں شایع ہونے والے مضامین پر بحث ہوتی تھی۔ یہ اسٹڈی سرکل صبح سے شام تک جاری رہتے تھے۔ لالہ رخ نے جلد ہی مارکسٹ کتابوں پر عبور حاصل کرلیا اور پھر ان کتابوں پر اپنے رائے دینے لگیں۔
یوں ان کی ذہانت کی بناء پر کمیونسٹ پارٹی کی خفیہ قیادت نے انھیں اسٹڈی سرکل میں لیکچر دینے کے فریضے پر مامور کیا۔ سینئر صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ لالہ رخ غریب طبقات اور آزادی صحافت کی آواز تھیں۔ انھوں نے طالب علموں کے دور سے لے کر عملی صحافت کے میدان تک اپنے ان اصولوں کی پاسداری کی، یوں وہ دنیا سے تو چلی گئیں مگر نوجوان صحافیوں کے لیے ایک روشنی کی لکیر چھوڑ گئیں۔ پچھلے دنوں لالہ رخ انتقال کرگئیں۔ کئی نوجوان صحافی لالہ رخ کی زندگی سے سیکھ سکتے ہیں۔ لالہ رخ کا انتقال صرف ان کے خاندان کے لیے ہی صدمہ نہیں بلکہ پاکستان کے تمام صحافیوں اور مظلوم طبقات کے لیے بھی صدمے کے ساتھ ساتھ صحافتی اور انسانی نقصان بھی ہے۔