کراچی دہشت گردی کی لپیٹ میں…
کیونکہ ان سانحات کے بعد تعزیتی پیغامات داغ دیے جاتے ہیں اور لواحقین کو جھوٹی تسلیوں سے بہلایا جاتا ہے
ہمارے شہر، ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ مجرم نہ پکڑے جاتے ہیں نہ ان کو سزائیں ملتی ہیں۔ اول تو ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ملزمان کا سراغ لگانے میں ہی کامیاب نہیں ہوتے۔ معلوم نہیں ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی کیوں دہشت گردوں کی نقل و حرکت، ان کے منصوبوں کی خبر گیری نہیں کرتیں۔ کیا دہشت گردوں کی کارروائیاں اتنی خفیہ اور راز داری سے ہوتی ہیں کہ خبر رساں اداروں کے لیے ان تک پہنچنا اور قانون نافذ کرنے والوں تک معلومات بہم پہنچانا ان کے لیے ناممکن ہے یا ان کے بس میں نہیں ہے۔
یہ ایسے سوالات ہیں جو ایک عام شہری کے ذہن میں ابھرتے ہیں، لیکن وہ تو خود اتنے بے بس ہوتے ہیں، اتنے خوف زدہ ہوتے ہیں کہ ان کا اظہار حکمرانوں کے ایوانوں تک پہنچا نہیں پاتے۔ ان کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے جدا ہونے والے خاندان کے قتل پر آہ و زاری کریں، ان کی ناگہانی موت کا ماتم کریں، اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔کئی سانحات ہمارے اس شہر بے نوا میں وقوع پذیر ہو چکے ہیں جن میں سانحہ عباس ٹائون، سانحہ بلدیہ ٹاؤن، لیاری، سانحہ اورنگی ٹاؤن وغیرہ وغیرہ بھلائے نہیں جا سکتے۔ لیکن ان سانحات کے وقوعے کے بعد کیا ہوا، یہ کسی کو معلوم نہیں۔
کیونکہ ان سانحات کے بعد تعزیتی پیغامات داغ دیے جاتے ہیں اور لواحقین کو جھوٹی تسلیوں سے بہلایا جاتا ہے اور اس پر بھی احتجاج کا سلسلہ نہ رکا تو زیادہ سے زیادہ ایک تسلی بخش قدم یہ اٹھایا جاتا ہے کہ ایک ''تحقیقاتی کمیشن'' قائم کر دیا جاتا ہے، پھر بھی لواحقین اور عوامی احتجاج کے ختم نہ ہونے پر ایک ''عدالتی کمیشن'' قائم کر دیا جاتا ہے، متاثرین کے لیے معاوضوں کا اعلان کر دیا جاتا ہے، اس لیے جب سے یہ گزشتہ حکومت قائم ہوئی تھی اس کے ساتھ ہی ایک ''آزاد عدلیہ'' بھی وجود میں آ گئی اور ہم پچھلے 5 سال سے دیکھ رہے ہیں کہ یہی ''آزاد عدلیہ'' ہماری منتخب جمہوری حکومت سے زیادہ فعال رہی ہے۔
اسی لیے تو عدالت عظمیٰ کی طرف سے یہ ریمارکس دیے گئے کہ ''اگر عدالت نے ہی سارے کام کرنے ہیں تو پھر حکومت کی کیا ضرورت؟'' عدالت عظمیٰ کے یہ ریمارکس صرف حکومت کے لیے ہی نہیں اور دوسرے انتظامی اداروں کے لیے بھی سبق آموز ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل غور اور قابل توجہ ہے کہ ہمارا شہر گزشتہ کئی سال سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور اب اس انتہا پر پہنچ گیا ہے کہ شہر بھر میں قانون نافذ کرنے والے (پولیس اور رینجرز) تعینات ہیں، دن رات محنت کر رہے ہیں، مسلسل آفت زدہ علاقوں میں گشت کر رہے ہیں، آپریشن کر رہے ہیں۔
گرفتاریاں کر رہے ہیں مگر یہ دہشت گردی کا طوفان ہے کہ قابو میں نہیں آ رہا۔ حکومت کا تو ذکر ہی بے کار ہے کیوں کہ پچھلے پانچ سال میں صوبائی و وفاقی دونوں سطح پر ایسی کارکردگی رہی ہے کہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کوئی حکومت بھی تھی۔ آج کل ہم دیکھ رہے ہیں دنیا کی سپر پاور کی ہٹ دھرمیوں کے باوجود پاکستان ایران کے تعلقات مضبوط اور مستحکم ہو رہے ہیں۔ اس کے بر خلاف دنیا کی سپر پاور ایران کے خلاف جارحانہ کارروائیاں کرنے پر مامور ہے۔ اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ ایران اور ہمارے ملک کے درمیان خوشگوار تعلقات برقرار رہیں اور ہم ایران کے ساتھ اپنی معاشی ترقی کے منصوبوں پر گفت و شنید کریں، معاہدے کریں۔
اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں ایک مخصوص طبقہ فکر کو نشانہ بنانے کے واقعات اسی سلسلے کی کڑی معلوم دیتے ہیں تا کہ ہم کسی صورت ایران سے خوشگوار تعلقات قائم کر سکیں اور نہ ایران ان سانحات و واقعات کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ سے پاکستان سے مذاکرات، معاہدات اور معاشی ترقی کے منصوبوں پر تعاون کرے۔ کئی بار دونوں طرف کے فکر و فلسفہ کے علمائے کرام، مذہبی اسکالرز یہ بات دہرا چکے ہیں کہ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہو رہے، تمام مکتبہ فکر کے اکابرین میں اتفاق و اتحاد قائم ہے اور ملکی حالات کے پیش نظر یہ اتحاد مزید مستحکم ہو گا۔
خدا کرے آنے والے ایام پر امن گزر جائیں کیونکہ عبوری حکومت کے قیام کے بعد انتخابات کا عمل شروع ہونے والا ہے۔ سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ دعا ہے کہ اس سے قبل ہی ہمارے شہر کے حالات درست ہو جائیں۔ یہاں امن و سکون کی فضا بحال ہو جائے اور سب متحد ہو کر اس نا دیدہ اور ناگہانی صورت حال کے خاتمے کے لیے سرگرم ہو جائیں گے۔ اس شہر کے حالات پر سکون اور خوشگوار رہیں گے تو ملک کے سارے شہر پر سکون رہیں گے، کیونکہ کراچی صرف ایک شہر ہی نہیں بلکہ یہ ''منی پاکستان'' ہے، معاشی حب ہے۔
اس کی خوشحالی، ملک کی خوشحالی ہے اور اس کی بد حالی پورے ملک کی بد حالی۔ موجودہ جو حالات ہمارے شہر کے ہیں، ہمارے صوبے کے ہیں، ہمارے ملک کے ہیں وہ ان چند دنوں میں ٹھیک ہونا ناممکن بات ہے۔ الیکشن کے بعد آنے والی حکومت کے پلڑے میں ہی یہ حالات ڈالے جائیں گے۔ لیکن دعا ہے اس درمیانے عرصے میں یعنی ''اِن'' کے جانے میں اور ''اُن'' کے آنے کے درمیان کا وقفہ خیریت سے گزر جائے۔ ویسے خدشات، خطرات، پیش گوئیاں تو بہت کی جا رہی ہیں، لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہم حالات کو بگڑنے نہیں دیں گے، ہم حالات کو بے قابو نہیں ہونے دیں گے، عوام ویسے ہی بے دم اور زندہ درگور ہیں، انھیں اور گیدڑ بھبھکیوں سے ڈرایا جا رہا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ ان سانحات کے مسلسل وقوع پذیر ہونے سے پوری قوم زخموں سے چور چور ہے۔ بس یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے ملک کو جلد از جلد ان سانحات اور دہشت گردی سے نجات دلائے اور عوام کو دشمن عناصر کا مل جل کر مقابلہ کرنے کا ہمت و حوصلہ دے۔ دوسری طرف ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی لازم ہے کہ ملک و قوم کے تحفظ، سلامتی اور خوشحالی کے لیے مزید سخت رویے کے ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی کریں اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے سیاسی قائدین کی ذمے داری بھی بنتی ہے کہ وہ بھی صرف تنقیدی یا جارحانہ انداز سیاست اختیار کرنے کے بجائے خلوص نیت، خلوص دل سے عوام اور ملک کی ملی جذبے سے خدمات انجام دیں۔
آپس کے اختلافات کو بھلا دیں اور مفاہمت اور ہم آہنگی سے ملک کو درپیش مسائل کا حل تلاش کریں تا کہ امن و امان کی صورت حال کو اطمینان بخش سطح پر لایا جا سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں قانون نافذ کرنے والے اہلکار بھی اپنی ڈیوٹیاں بہتر طریقے سے انجام دے رہے ہیں اور اپنی جانوں کے نذرانے بھی دے رہے ہیں۔ اس لیے ان کی خدمات کو بھی مسلسل تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جائے، ہو سکتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکار عوام اور ان کے سیاسی قائدین کے اس رویے سے بد دل نہ ہو جائیں۔ اس لیے تنقید کے ساتھ ساتھ ان کی اچھی اور بے لوث کارکردگی کو بھی سراہا جانا چاہیے تا کہ ان کو حوصلہ ملے اور حوصلہ افزائی کے صلے میں وہ اپنی کارکردگی میں اور زیادہ مستعدی دکھا سکیں۔
یہ ایسے سوالات ہیں جو ایک عام شہری کے ذہن میں ابھرتے ہیں، لیکن وہ تو خود اتنے بے بس ہوتے ہیں، اتنے خوف زدہ ہوتے ہیں کہ ان کا اظہار حکمرانوں کے ایوانوں تک پہنچا نہیں پاتے۔ ان کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے جدا ہونے والے خاندان کے قتل پر آہ و زاری کریں، ان کی ناگہانی موت کا ماتم کریں، اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔کئی سانحات ہمارے اس شہر بے نوا میں وقوع پذیر ہو چکے ہیں جن میں سانحہ عباس ٹائون، سانحہ بلدیہ ٹاؤن، لیاری، سانحہ اورنگی ٹاؤن وغیرہ وغیرہ بھلائے نہیں جا سکتے۔ لیکن ان سانحات کے وقوعے کے بعد کیا ہوا، یہ کسی کو معلوم نہیں۔
کیونکہ ان سانحات کے بعد تعزیتی پیغامات داغ دیے جاتے ہیں اور لواحقین کو جھوٹی تسلیوں سے بہلایا جاتا ہے اور اس پر بھی احتجاج کا سلسلہ نہ رکا تو زیادہ سے زیادہ ایک تسلی بخش قدم یہ اٹھایا جاتا ہے کہ ایک ''تحقیقاتی کمیشن'' قائم کر دیا جاتا ہے، پھر بھی لواحقین اور عوامی احتجاج کے ختم نہ ہونے پر ایک ''عدالتی کمیشن'' قائم کر دیا جاتا ہے، متاثرین کے لیے معاوضوں کا اعلان کر دیا جاتا ہے، اس لیے جب سے یہ گزشتہ حکومت قائم ہوئی تھی اس کے ساتھ ہی ایک ''آزاد عدلیہ'' بھی وجود میں آ گئی اور ہم پچھلے 5 سال سے دیکھ رہے ہیں کہ یہی ''آزاد عدلیہ'' ہماری منتخب جمہوری حکومت سے زیادہ فعال رہی ہے۔
اسی لیے تو عدالت عظمیٰ کی طرف سے یہ ریمارکس دیے گئے کہ ''اگر عدالت نے ہی سارے کام کرنے ہیں تو پھر حکومت کی کیا ضرورت؟'' عدالت عظمیٰ کے یہ ریمارکس صرف حکومت کے لیے ہی نہیں اور دوسرے انتظامی اداروں کے لیے بھی سبق آموز ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل غور اور قابل توجہ ہے کہ ہمارا شہر گزشتہ کئی سال سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور اب اس انتہا پر پہنچ گیا ہے کہ شہر بھر میں قانون نافذ کرنے والے (پولیس اور رینجرز) تعینات ہیں، دن رات محنت کر رہے ہیں، مسلسل آفت زدہ علاقوں میں گشت کر رہے ہیں، آپریشن کر رہے ہیں۔
گرفتاریاں کر رہے ہیں مگر یہ دہشت گردی کا طوفان ہے کہ قابو میں نہیں آ رہا۔ حکومت کا تو ذکر ہی بے کار ہے کیوں کہ پچھلے پانچ سال میں صوبائی و وفاقی دونوں سطح پر ایسی کارکردگی رہی ہے کہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کوئی حکومت بھی تھی۔ آج کل ہم دیکھ رہے ہیں دنیا کی سپر پاور کی ہٹ دھرمیوں کے باوجود پاکستان ایران کے تعلقات مضبوط اور مستحکم ہو رہے ہیں۔ اس کے بر خلاف دنیا کی سپر پاور ایران کے خلاف جارحانہ کارروائیاں کرنے پر مامور ہے۔ اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ ایران اور ہمارے ملک کے درمیان خوشگوار تعلقات برقرار رہیں اور ہم ایران کے ساتھ اپنی معاشی ترقی کے منصوبوں پر گفت و شنید کریں، معاہدے کریں۔
اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں ایک مخصوص طبقہ فکر کو نشانہ بنانے کے واقعات اسی سلسلے کی کڑی معلوم دیتے ہیں تا کہ ہم کسی صورت ایران سے خوشگوار تعلقات قائم کر سکیں اور نہ ایران ان سانحات و واقعات کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ سے پاکستان سے مذاکرات، معاہدات اور معاشی ترقی کے منصوبوں پر تعاون کرے۔ کئی بار دونوں طرف کے فکر و فلسفہ کے علمائے کرام، مذہبی اسکالرز یہ بات دہرا چکے ہیں کہ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہو رہے، تمام مکتبہ فکر کے اکابرین میں اتفاق و اتحاد قائم ہے اور ملکی حالات کے پیش نظر یہ اتحاد مزید مستحکم ہو گا۔
خدا کرے آنے والے ایام پر امن گزر جائیں کیونکہ عبوری حکومت کے قیام کے بعد انتخابات کا عمل شروع ہونے والا ہے۔ سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ دعا ہے کہ اس سے قبل ہی ہمارے شہر کے حالات درست ہو جائیں۔ یہاں امن و سکون کی فضا بحال ہو جائے اور سب متحد ہو کر اس نا دیدہ اور ناگہانی صورت حال کے خاتمے کے لیے سرگرم ہو جائیں گے۔ اس شہر کے حالات پر سکون اور خوشگوار رہیں گے تو ملک کے سارے شہر پر سکون رہیں گے، کیونکہ کراچی صرف ایک شہر ہی نہیں بلکہ یہ ''منی پاکستان'' ہے، معاشی حب ہے۔
اس کی خوشحالی، ملک کی خوشحالی ہے اور اس کی بد حالی پورے ملک کی بد حالی۔ موجودہ جو حالات ہمارے شہر کے ہیں، ہمارے صوبے کے ہیں، ہمارے ملک کے ہیں وہ ان چند دنوں میں ٹھیک ہونا ناممکن بات ہے۔ الیکشن کے بعد آنے والی حکومت کے پلڑے میں ہی یہ حالات ڈالے جائیں گے۔ لیکن دعا ہے اس درمیانے عرصے میں یعنی ''اِن'' کے جانے میں اور ''اُن'' کے آنے کے درمیان کا وقفہ خیریت سے گزر جائے۔ ویسے خدشات، خطرات، پیش گوئیاں تو بہت کی جا رہی ہیں، لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہم حالات کو بگڑنے نہیں دیں گے، ہم حالات کو بے قابو نہیں ہونے دیں گے، عوام ویسے ہی بے دم اور زندہ درگور ہیں، انھیں اور گیدڑ بھبھکیوں سے ڈرایا جا رہا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ ان سانحات کے مسلسل وقوع پذیر ہونے سے پوری قوم زخموں سے چور چور ہے۔ بس یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے ملک کو جلد از جلد ان سانحات اور دہشت گردی سے نجات دلائے اور عوام کو دشمن عناصر کا مل جل کر مقابلہ کرنے کا ہمت و حوصلہ دے۔ دوسری طرف ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی لازم ہے کہ ملک و قوم کے تحفظ، سلامتی اور خوشحالی کے لیے مزید سخت رویے کے ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی کریں اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے سیاسی قائدین کی ذمے داری بھی بنتی ہے کہ وہ بھی صرف تنقیدی یا جارحانہ انداز سیاست اختیار کرنے کے بجائے خلوص نیت، خلوص دل سے عوام اور ملک کی ملی جذبے سے خدمات انجام دیں۔
آپس کے اختلافات کو بھلا دیں اور مفاہمت اور ہم آہنگی سے ملک کو درپیش مسائل کا حل تلاش کریں تا کہ امن و امان کی صورت حال کو اطمینان بخش سطح پر لایا جا سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں قانون نافذ کرنے والے اہلکار بھی اپنی ڈیوٹیاں بہتر طریقے سے انجام دے رہے ہیں اور اپنی جانوں کے نذرانے بھی دے رہے ہیں۔ اس لیے ان کی خدمات کو بھی مسلسل تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جائے، ہو سکتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکار عوام اور ان کے سیاسی قائدین کے اس رویے سے بد دل نہ ہو جائیں۔ اس لیے تنقید کے ساتھ ساتھ ان کی اچھی اور بے لوث کارکردگی کو بھی سراہا جانا چاہیے تا کہ ان کو حوصلہ ملے اور حوصلہ افزائی کے صلے میں وہ اپنی کارکردگی میں اور زیادہ مستعدی دکھا سکیں۔