بھارت نے اسرائیل کے خلاف ووٹ کیوں دیا
فطری اتحادیوں کے تعلقات میں نئی جان ڈالنے کی کوششیں شدومد سے جاری ہیں۔
بھارت کی حکومت نے گذشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یروشلم کے سوال پر پیش کی گئی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔
اس قرارداد میں یروشلم کو امریکا کی جانب سے یکطرفہ طور پر اسرائیل کا دارلحکومت قرار دینے کے فیصلے پر تنقید کی گئی تھی۔ قرارداد میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ یروشلم سے متعلق اقوام متحدہ کی منظور شدہ قرارداد کے مطابق متنازع شہر کی موجودہ پوزیشن برقرار رکھی جائے۔اقوام متحدہ میں اس قرار داد کے حق میں 128 ووٹ آئے جبکہ اس کی مخالفت میں اسرائیل اور امریکا سمیت صرف چھ ملکوں نے ووٹ دیا۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکا کے فیصلے کی مخالفت میں ایک قرارداد پیش کی گئی تھی جس میں سلامتی کونسل کے چار مستقل ارکان فرانس، برطانیہ، چین اور روس نے امریکا کے فیصلے کی مخالفت کی لیکن امریکا نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا۔امریکا نے نے خبردار کیا تھا کہ جو ممالک جنرل اسمبلی کی قرار داد کے حق میں ووٹ دیں گے وہ اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔
اس کے باوجود 128 ملکوں نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ ان میں مصر، پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک بھی شامل تھے، جنھیں امریکا سے امداد ملتی ہے۔ بھارت، امریکا کی امداد لینے والے ملکوں میں شامل نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں بھارت کے تعلقات اسرائیل سے بہت گہرے ہوئے ہیں۔ جولائی 2017ء میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جب اسرائیل کا دورہ کیا تھا، اس وقت انھوں نے ملک کی سفارتی روایت سے انحراف کرتے ہوئے فلسطین کا دورہ نہیں کیا۔ ان کے اس قدم سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ بھارتی حکومت کی پالیسی اب اسرائیل کی طرف جھک رہی ہے۔
اب جنوری میں اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامن نتن یاہو نے بھارت کا دورہ کیا ہے کیونکہ بھارت کے بارے میں یہ تشویش بڑھ رہی تھی کہ وہ امریکا کے ساتھ ساتھ اسرائیل سے بھی کافی قریب آ رہا ہے۔ اس لیے اقوام متحدہ میں قرارداد پیش ہونے سے قبل دلی میں واقع عرب سفارتخانوں کے سفیروں نے بھارت کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور، ایم جے اکبر سے ملاقات کی تھی اور ان سے یہ درخواست کی تھی کہ بھارت ماضی کی اپنی روایات کے مطابق اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھے۔یہاں دائیں بازو کے بڑھتے ہوئے رحجانات اور سیاست کے پیش نظر بہت سے تجزیہ نگار یہ توقع کر رہے تھے کہ بھارت، یروشلم کے سوال پر امریکا کے حق میں ووٹ دے گا لیکن بظاہر اس نے اصولی موقف اختیار کیا اور امریکا کے خلاف ووٹ دیا۔
بھارتی حکومت کے اس فیصلے کی ستائش بھی کی گئی۔ دراصل بھارت نے جنرل اسمبلی میں امریکا کے خلاف ووٹ دے کر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی کسی کے دباؤ میں نہیں آتی اور وہ آزاد ہے۔ حالانکہ اس کی بنیادی وجہ بھارت کی اصول پسندی نہیں بلکہ یہ ہے کہ لاکھوں بھارتی شہری سعودی عرب، کویت، اردن، متحدہ عرب امارات، عمان اور دوسرے خلیجی ملکوں میں کام کر رہے ہیں۔ ان ملکوں سے یہ بھارتی شہری ہر برس 40 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم ملک بھیجتے ہیں۔ بھارت کی غیر ملکی کرنسی حاصل کرنے کا یہ انتہائی اہم اور ٹھوس ذریعہ ہے۔
حالیہ برسوں میں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور دوسرے عرب ملکوں نے بھارت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور وہ رفتہ رفتہ سب سے بڑے تجارتی پارٹنر بن کر ابھر رہے ہیں۔ اس خطے سے بھارت کا اقتصادی مفاد گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب دفاعی سازو سامان، آبپاشی اور زرعی سیکٹر میں اسرائیل، بھارت کا ایک قریبی اور قابل اعتبار دوست بن کر ابھر رہا ہے۔ بھارت کی حکومت نے واضح کیا ہے کہ وہ اسرائیل فلسطین تنازع کا ایک پرامن حل چاہتا ہے اور اس کے حل میں وہ دو مملکت کے قیام کے اصول میں یقین رکھتا ہے۔
جنرل اسمبلی میں امریکا اور اسرائیل کے خلاف جا کر بھارت نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے دونوں ملکوں کے تعلقات کا اس تنازعے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ اصولی موقف پر قائم ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ بھارت نے امریکا کے خلاف ووٹ دے کر اسے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اپنے تمام بھارت نواز بیانوں اور تعلقات کے باوجود امریکا پاکستان کا حمایتی ہے اور دہشت گردی جیسے سوالات پر وہ پاکستان پر مطلوبہ دباؤ نہیں ڈال رہا۔ یوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارت دنیا کے 128 ملکوں کے ساتھ اقوام متحدہ کی قرارداد کے حق میں ووٹ دے کر اپنے 'اصولی موقف' پر قائم رہا۔ امریکا اور اسرائیل ہی نہیں بھارت میں بھی یہ توقع کی جارہی تھی کہ امریکا کے صدر کی طرح بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی اسرائیل کی حمایت میں ایک فیصلہ کن پوزیشن لیں گے لیکن اس کے برعکس حکومت نے جو پوزیشن اختیار کی ہے اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ بھارت کی مستقبل کی پالیسی کسی ملک کے دباؤ یا تقلقات کی نوعیت سے نہیں بلکہ اس کے اپنے سفارتی اور اقتصادی مفاد سے طے ہوگی۔
جس دن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا اسی دن سے دنیا بھر میں اس فیصلے کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہو گیا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس امریکی فیصلے کے خلاف ایک قرارداد کثرتِ رائے سے منظور کر لی گئی۔ اقوام متحدہ کی اس قرارداد کے حق میں 128 ممالک نے ووٹ دیا جبکہ 35 ممالک نے اس رائے شماری میں حصہ نہیں لیا اور نو ممالک نے اس کی مخالفت کی، تاہم اس رائے شماری سے قبل بھارت کی حکمراں جماعت، بی جے پی کے قائدین نے وزیراعظم نریندر مودی سے اس معاملے پر اسرائیل کا ساتھ دینے کی درخواست کی تھی۔
بی جے پی کے رہنما سواپناداس گپتا نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل ٹویٹ میں کہا تھا کہ ''یا تو بھارت اس اجلاس میں حاضر ہی نہ ہو اور یا پھر امریکی سفارتخانے کو یروشلم منتقل کرنے کے فیصلے کو واپس لینے کے لیے پیش کی جانے والی اس قرارداد کی مخالفت کرے۔ ہمیں اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، وہ ہمارا دوست ہے۔'' تاہم ایسا نہ ہوا اور بھارت بھی انھیں ممالک میں شامل رہا جنھوں نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، جس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارت، امریکا اور اسرائیل کے خلاف گیا۔
اس حوالے سے بعض دھڑوں میں مایوسی بھی پائی جاتی ہے۔ بی جے پی کے دوسرے سینیئر رہنما سبرامنیم سوامی کا کہنا ہے کہ ''بھارت نے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ ووٹ نہ دے کر بڑی غلطی کی ہے۔'' لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر بھارت نے ایسا کیوں کیا ؟ جبکہ حالیہ دنوں میں اس کے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے لیکن اس کے باوجود وہ فلسطین کے ساتھ کیوں گیا ؟ بین الاقوامی معاملات پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کے نزدیک اس کی مختلف وجوہات ہیں۔
انٹرنیشنل افیئرز کے بھارتی ماہر پروفیسر کمال پاشا کے مطابق ''اس معاملے پر اکثریت ایک جگہ تھی، او آئی سی کا جلاس استنبول میں ہوا، کوئی بھی اس کے حق میں نہیں تھا۔'' ان کا کہنا ہے کہ ''اس لیے بھارت بین الاقوامی برادری کے ساتھ رہا۔ جسے بہتی لہروں کے ساتھ تیرنا کہتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ہتھیاروں کے حوالے سے بھارت کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں لیکن جس طرح سے وہ سب کچھ طے کر رہا ہے اس کو لے کر حالیہ دنوں کچھ تناؤ رہا ہے۔'' کمال پاشا کا کہنا تھا کہ ''یروشلم کے معاملے پر مسلم ممالک جن میں سعودی عرب اور قطر شامل ہیں، میں شدید تشویش پائی جاتی ہے اور بھارت کے ان ممالک میں مفادات ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارت نے اس بات کا اشارہ کیا ہے کہ اس کے دو طرفہ تعلقات الگ ہیں اور بین الاقوامی حالات پر الگ ہیں۔'' انھوں نے مزید کہا کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے کے حوالے سے بھارت نے مسلم دنیا اور یورپی طاقتوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔'' بہت سال پہلے بھارت کے فلسطین کے ساتھ تعلقات بہت اچھے تھے، اسی لیے بھارت، جنرل اسمبلی میں اسرائیل کے خلاف گیا۔ دیکھیں یاسر عرفات اب واپس نہیں آنے والااور ماحول اب تبدیل ہو چکا ہے۔ آپ کو یہ سب متوازن رکھنا ہوگا۔''
جن نو ممالک نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا ہے ان میں امریکہ، اسرائیل، گوئٹی مالا، ہونڈیورس، دی مارشل آئسلینڈز، مائیکرونیشیا، نورو، پلاؤ اور ٹوگو شامل ہیں۔ جن میں سے امریکا اور اسرائیل کے علاوہ دوسرے سات ممالک کا نام بھی شائد کسی نے نہ سنا ہو۔ امریکا میں یونیورسٹی آف ڈیلاویر کے پروفیسر مقتدر خان کے مطابق '' بھارت زیادہ تر بائے دی بک چلتا ہے اور کشمیر کے معاملے کی وجہ سے اس کے لیے یہ انتہائی اہم ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل قوانین کے مطابق چلے۔'' بھارت کے لیے اس قرارداد کی حمایت کرنا نئی بات نہیں ہے کیونکہ وہ گذشتہ 50 سالوں میں کئی مرتبہ اس کی حمایت کر چکا ہے۔
دفاعی سازو سامان کی خریداری کے حوالے سے بھارت اور اسرائیل کی قربتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کی وزارتِ دفاع نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل سے 70 ملین ڈالر کے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل خرید رہا ہے۔یہ اعلان اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کے بھارت کے دورے سے قبل کیا گیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 'براک' میزائل جسے رافیل ایڈوانسڈ سسٹمز نے بنایا ہے، بھارت کے پہلے ایئرکرافٹ کیریئر کے لیے استعمال کیا جائے گا جو ابھی زیرِ تعمیر ہے۔
وسط جنوری میں اسرائیل کے وزیرِ اعظم چار روزہ دورے پر ایک تجارتی وفد لے کر دہلی پہنچے۔ اسرائیل اسلحے کی فروخت کے حوالے سے بھارت کا ایک اہم سپلائیر بن گیا ہے اور ہر سال اسے اوسطاً ایک ارب ڈالر کا فوجی ساز و سامان فروخت کرتا ہے۔گذشتہ سال بھی دونوں ممالک نے تقریباً دو ارب ڈالر کے ایک فوجی معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت اسرائیل کو بھارت کو درمیانی مار کے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل، لانچر اور مواصلاتی ٹیکنالوجی سپلائی کرنا تھا۔اے ایف پی کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں کہ جس معاہدے کا اس دورے میں اعلان کیا گیا ہے وہ گزشتہ اپریل میں کیے گئے معاہدے کا حصہ ہے یا نہیں۔ بھارت نے، جس کے اپنے ہمسایہ ممالک پاکستان اور چین کے ساتھ کافی عرصے سے سرحدی تنازعات چل رہے ہیں، 2014 ء میں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد کئی بڑے اسلحے کے معاہدے کیے ہیں۔
اسرائیلی ایرو سپیس انڈسٹریز کی ایک فیکٹری میں چاروں طرف رکھے ڈرونز میں سے کچھ نصف تیار ہیں اور کچھ پورے تیار ہیں۔ بھارت کی مسلح افواج سالوں سے ان ڈرونز کا استعمال کر رہی ہیں۔ یروشلم سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر تل ابیب میں ملک میں دفاعی سامان بنانے والی سب سے بڑی فیکٹری ہے۔کمپنی کے قریب سکیورٹی اتنی سخت ہے کہ پرندہ بھی وہاں پر نہ مار سکے۔ بھارت کی فوج ہیرون یو اے وی نظام یعنی ڈرون کے ذریعے جاسوسی کا بہ خوبی استعمال کرتی ہے۔ان کا استعمال میزائل داغنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔ مذکورہ فیکٹری میں یہ ہیرون ڈرون بھی رکھے تھے۔کمپنی کے ایک سینیئر ایگزیکٹو 'کے یواش روبن' کہتے ہیں ''بھارت ان کی کمپنی کا سب سے بڑا خریدار ہے۔'' انھوں نے مزید کہا '' بھارت ہمارا گاہک نہیں بلکہ ہمارا پارٹنر ہے۔ ہمارے رشتے 25 سال پرانے ہیں۔''
دفاعی شعبے میں بھارت کے اسرائیل کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔ گذشتہ 25 سالوں میں 10 ارب ڈالر کا سودا ہو چکا ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو بھارت کے چار روزہ دورے پر دہلی پہنچے تو ان کا سب سے بڑا چیلنج بھارت سے اسرائیل کے رشتے کو مزید مستحکم کرنا تھا۔دفاع ایک ایسا شعبہ ہے جہاں اسے مستحکم کرنے کی مزید گنجائش موجود ہے۔
بھارت اور اسرائیل کے درمیان دوستی کے رشتے میں کئی نشیب و فراز آئے۔ گو، حال ہی میں بھارت کی جانب سے اسرائیل کو کچھ جھٹکے لگے اور ان کے سبب تعلقات کی گرمجوشی میں کمی آئی۔ جیسا کہ بھارت نے اقوام متحدہ میں یروشلم کے معاملے پر فلسطین کے حق میں ووٹ دے کر اسرائیل کو پہلا دھچکا دیا، جس کی اصل وجوہات اوپر بیان کیں گئیں ہیں۔ دوسرا دھچکا اس وقت لگا جب بھارت نے اچانک اسرائیل کے ساتھ نصف ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے کو منسوخ کر دیا۔ ابھی اسرائیل ان دھچکوں سے باہر نہیں آ سکا۔ ایسے میں مقامی میڈیا میں یہ سوال اٹھے کہ آخر نتن یاہو بھارت کیوں جا رہے ہیں ؟ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان گہرا رشتہ نہیں بلکہ صرف رومانس ہے۔
کیا واقعی اب یہ رومانس بھی ماند پڑ رہا ؟ بھارت، اسرائیل کے ثقافتی تعلقات پر گہری نظر رکھنے والی شلوا وائل کہتی ہیں کہ ''اب رومانس ماند پڑ گیا ہے۔'' ان کا اسرائیلی وزیراعظم کو بھارت کے دورے سے قبل مشورہ تھا کہ ''نتن یاہو کو دونوں ممالک کے درمیان ماند پڑتے رومانس کو بحال کرنا ہوگا۔'' خیال رہے کہ بھارت اور اسرائیل کے درمیان سنہ 2010 ء میں جتنی تجارت تھی، آج اتنی بھی نہیں ہے۔
یہ بزنس پانچ ارب ڈالر سالانہ ہے جبکہ دونوں ممالک کے درمیان بزنس کے زیادہ امکانات ہیں۔اسرائیل بھارت چیمبرس آف کامرس کی سربراہ انت برنسٹائن کہتی ہیں کہ ''دونوں ممالک کے تاجروں میں بہت فاصلے ہیں۔'' ان کے بقول ان کاروباری مشکلات کی وجہ یہ ہے کہ ''اسرائیلی تاجر امریکیوں کے ساتھ کام کرنے کے عادی ہیں، انھیں جلدی رہتی ہے۔ بھارت کا ماحول مختلف ہے، انھیں وہاں کام کے ماحول کو سمجھنا ہوگا۔'' وہ اس بارے میں مزیدکہتی ہیں کہ ''2018 ء میں اس میں تبدیلی آ سکتی ہے۔'' ان کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تجارت بہت تیزی سے فروغ پزیر ہوگی کیونکہ اسرائیل 'جدید ترین ٹیکنالوجی' میں بھارت کی مدد کرسکتا ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھی تعاون کرسکتا ہے۔'' لیکن دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ اس شعبے کے تاجروں کو بھارتی مارکیٹ کی سمجھ پیدا کرنی ہوگی، جہاں مال عمدہ اور قیمت کم ہو۔ اسرائیلی تاجر اب یہ بات سمجھنے لگے ہیں۔
اسرائیل کی آبادی محض 80 لاکھ ہے۔ بعض ماہرین کی آراء جان کر یہ احساس ہوتا ہے کہ 80 لاکھ کی آبادی والے ملک کے لیے ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک کے ساتھ تجارت کرنا اپنی صلاحیتوں سے زیادہ کرنے کی کوشش کے مترادف ہے۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو اس ضمن میں درپیش سب سے بڑے چیلنج یعنی بھارت کے ساتھ سٹریٹیجک تعلقات میں گہرائی پیدا کرنے میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں اوراسرائیل اور ہندوستان کے تعلقات کو رومانس سے آگے بڑھانے کی ضرورت کو کیسے پورا کرتے ہیں، مگر تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ بھارت اور اسرائیل جیسی مذہبی انتہا پسند مملکتیں اور ان کی شدت پسند قیادتیں اپنے گٹھ جوڑ کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ہر ممکن حد تک جائیں گی۔
اس قرارداد میں یروشلم کو امریکا کی جانب سے یکطرفہ طور پر اسرائیل کا دارلحکومت قرار دینے کے فیصلے پر تنقید کی گئی تھی۔ قرارداد میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ یروشلم سے متعلق اقوام متحدہ کی منظور شدہ قرارداد کے مطابق متنازع شہر کی موجودہ پوزیشن برقرار رکھی جائے۔اقوام متحدہ میں اس قرار داد کے حق میں 128 ووٹ آئے جبکہ اس کی مخالفت میں اسرائیل اور امریکا سمیت صرف چھ ملکوں نے ووٹ دیا۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکا کے فیصلے کی مخالفت میں ایک قرارداد پیش کی گئی تھی جس میں سلامتی کونسل کے چار مستقل ارکان فرانس، برطانیہ، چین اور روس نے امریکا کے فیصلے کی مخالفت کی لیکن امریکا نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا۔امریکا نے نے خبردار کیا تھا کہ جو ممالک جنرل اسمبلی کی قرار داد کے حق میں ووٹ دیں گے وہ اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔
اس کے باوجود 128 ملکوں نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ ان میں مصر، پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک بھی شامل تھے، جنھیں امریکا سے امداد ملتی ہے۔ بھارت، امریکا کی امداد لینے والے ملکوں میں شامل نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں بھارت کے تعلقات اسرائیل سے بہت گہرے ہوئے ہیں۔ جولائی 2017ء میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جب اسرائیل کا دورہ کیا تھا، اس وقت انھوں نے ملک کی سفارتی روایت سے انحراف کرتے ہوئے فلسطین کا دورہ نہیں کیا۔ ان کے اس قدم سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ بھارتی حکومت کی پالیسی اب اسرائیل کی طرف جھک رہی ہے۔
اب جنوری میں اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامن نتن یاہو نے بھارت کا دورہ کیا ہے کیونکہ بھارت کے بارے میں یہ تشویش بڑھ رہی تھی کہ وہ امریکا کے ساتھ ساتھ اسرائیل سے بھی کافی قریب آ رہا ہے۔ اس لیے اقوام متحدہ میں قرارداد پیش ہونے سے قبل دلی میں واقع عرب سفارتخانوں کے سفیروں نے بھارت کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور، ایم جے اکبر سے ملاقات کی تھی اور ان سے یہ درخواست کی تھی کہ بھارت ماضی کی اپنی روایات کے مطابق اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھے۔یہاں دائیں بازو کے بڑھتے ہوئے رحجانات اور سیاست کے پیش نظر بہت سے تجزیہ نگار یہ توقع کر رہے تھے کہ بھارت، یروشلم کے سوال پر امریکا کے حق میں ووٹ دے گا لیکن بظاہر اس نے اصولی موقف اختیار کیا اور امریکا کے خلاف ووٹ دیا۔
بھارتی حکومت کے اس فیصلے کی ستائش بھی کی گئی۔ دراصل بھارت نے جنرل اسمبلی میں امریکا کے خلاف ووٹ دے کر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی کسی کے دباؤ میں نہیں آتی اور وہ آزاد ہے۔ حالانکہ اس کی بنیادی وجہ بھارت کی اصول پسندی نہیں بلکہ یہ ہے کہ لاکھوں بھارتی شہری سعودی عرب، کویت، اردن، متحدہ عرب امارات، عمان اور دوسرے خلیجی ملکوں میں کام کر رہے ہیں۔ ان ملکوں سے یہ بھارتی شہری ہر برس 40 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم ملک بھیجتے ہیں۔ بھارت کی غیر ملکی کرنسی حاصل کرنے کا یہ انتہائی اہم اور ٹھوس ذریعہ ہے۔
حالیہ برسوں میں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور دوسرے عرب ملکوں نے بھارت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور وہ رفتہ رفتہ سب سے بڑے تجارتی پارٹنر بن کر ابھر رہے ہیں۔ اس خطے سے بھارت کا اقتصادی مفاد گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب دفاعی سازو سامان، آبپاشی اور زرعی سیکٹر میں اسرائیل، بھارت کا ایک قریبی اور قابل اعتبار دوست بن کر ابھر رہا ہے۔ بھارت کی حکومت نے واضح کیا ہے کہ وہ اسرائیل فلسطین تنازع کا ایک پرامن حل چاہتا ہے اور اس کے حل میں وہ دو مملکت کے قیام کے اصول میں یقین رکھتا ہے۔
جنرل اسمبلی میں امریکا اور اسرائیل کے خلاف جا کر بھارت نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے دونوں ملکوں کے تعلقات کا اس تنازعے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ اصولی موقف پر قائم ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ بھارت نے امریکا کے خلاف ووٹ دے کر اسے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اپنے تمام بھارت نواز بیانوں اور تعلقات کے باوجود امریکا پاکستان کا حمایتی ہے اور دہشت گردی جیسے سوالات پر وہ پاکستان پر مطلوبہ دباؤ نہیں ڈال رہا۔ یوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارت دنیا کے 128 ملکوں کے ساتھ اقوام متحدہ کی قرارداد کے حق میں ووٹ دے کر اپنے 'اصولی موقف' پر قائم رہا۔ امریکا اور اسرائیل ہی نہیں بھارت میں بھی یہ توقع کی جارہی تھی کہ امریکا کے صدر کی طرح بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی اسرائیل کی حمایت میں ایک فیصلہ کن پوزیشن لیں گے لیکن اس کے برعکس حکومت نے جو پوزیشن اختیار کی ہے اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ بھارت کی مستقبل کی پالیسی کسی ملک کے دباؤ یا تقلقات کی نوعیت سے نہیں بلکہ اس کے اپنے سفارتی اور اقتصادی مفاد سے طے ہوگی۔
جس دن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا اسی دن سے دنیا بھر میں اس فیصلے کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہو گیا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس امریکی فیصلے کے خلاف ایک قرارداد کثرتِ رائے سے منظور کر لی گئی۔ اقوام متحدہ کی اس قرارداد کے حق میں 128 ممالک نے ووٹ دیا جبکہ 35 ممالک نے اس رائے شماری میں حصہ نہیں لیا اور نو ممالک نے اس کی مخالفت کی، تاہم اس رائے شماری سے قبل بھارت کی حکمراں جماعت، بی جے پی کے قائدین نے وزیراعظم نریندر مودی سے اس معاملے پر اسرائیل کا ساتھ دینے کی درخواست کی تھی۔
بی جے پی کے رہنما سواپناداس گپتا نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل ٹویٹ میں کہا تھا کہ ''یا تو بھارت اس اجلاس میں حاضر ہی نہ ہو اور یا پھر امریکی سفارتخانے کو یروشلم منتقل کرنے کے فیصلے کو واپس لینے کے لیے پیش کی جانے والی اس قرارداد کی مخالفت کرے۔ ہمیں اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، وہ ہمارا دوست ہے۔'' تاہم ایسا نہ ہوا اور بھارت بھی انھیں ممالک میں شامل رہا جنھوں نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، جس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارت، امریکا اور اسرائیل کے خلاف گیا۔
اس حوالے سے بعض دھڑوں میں مایوسی بھی پائی جاتی ہے۔ بی جے پی کے دوسرے سینیئر رہنما سبرامنیم سوامی کا کہنا ہے کہ ''بھارت نے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ ووٹ نہ دے کر بڑی غلطی کی ہے۔'' لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر بھارت نے ایسا کیوں کیا ؟ جبکہ حالیہ دنوں میں اس کے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے لیکن اس کے باوجود وہ فلسطین کے ساتھ کیوں گیا ؟ بین الاقوامی معاملات پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کے نزدیک اس کی مختلف وجوہات ہیں۔
انٹرنیشنل افیئرز کے بھارتی ماہر پروفیسر کمال پاشا کے مطابق ''اس معاملے پر اکثریت ایک جگہ تھی، او آئی سی کا جلاس استنبول میں ہوا، کوئی بھی اس کے حق میں نہیں تھا۔'' ان کا کہنا ہے کہ ''اس لیے بھارت بین الاقوامی برادری کے ساتھ رہا۔ جسے بہتی لہروں کے ساتھ تیرنا کہتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ہتھیاروں کے حوالے سے بھارت کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں لیکن جس طرح سے وہ سب کچھ طے کر رہا ہے اس کو لے کر حالیہ دنوں کچھ تناؤ رہا ہے۔'' کمال پاشا کا کہنا تھا کہ ''یروشلم کے معاملے پر مسلم ممالک جن میں سعودی عرب اور قطر شامل ہیں، میں شدید تشویش پائی جاتی ہے اور بھارت کے ان ممالک میں مفادات ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارت نے اس بات کا اشارہ کیا ہے کہ اس کے دو طرفہ تعلقات الگ ہیں اور بین الاقوامی حالات پر الگ ہیں۔'' انھوں نے مزید کہا کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے کے حوالے سے بھارت نے مسلم دنیا اور یورپی طاقتوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔'' بہت سال پہلے بھارت کے فلسطین کے ساتھ تعلقات بہت اچھے تھے، اسی لیے بھارت، جنرل اسمبلی میں اسرائیل کے خلاف گیا۔ دیکھیں یاسر عرفات اب واپس نہیں آنے والااور ماحول اب تبدیل ہو چکا ہے۔ آپ کو یہ سب متوازن رکھنا ہوگا۔''
جن نو ممالک نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا ہے ان میں امریکہ، اسرائیل، گوئٹی مالا، ہونڈیورس، دی مارشل آئسلینڈز، مائیکرونیشیا، نورو، پلاؤ اور ٹوگو شامل ہیں۔ جن میں سے امریکا اور اسرائیل کے علاوہ دوسرے سات ممالک کا نام بھی شائد کسی نے نہ سنا ہو۔ امریکا میں یونیورسٹی آف ڈیلاویر کے پروفیسر مقتدر خان کے مطابق '' بھارت زیادہ تر بائے دی بک چلتا ہے اور کشمیر کے معاملے کی وجہ سے اس کے لیے یہ انتہائی اہم ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل قوانین کے مطابق چلے۔'' بھارت کے لیے اس قرارداد کی حمایت کرنا نئی بات نہیں ہے کیونکہ وہ گذشتہ 50 سالوں میں کئی مرتبہ اس کی حمایت کر چکا ہے۔
دفاعی سازو سامان کی خریداری کے حوالے سے بھارت اور اسرائیل کی قربتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کی وزارتِ دفاع نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل سے 70 ملین ڈالر کے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل خرید رہا ہے۔یہ اعلان اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کے بھارت کے دورے سے قبل کیا گیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 'براک' میزائل جسے رافیل ایڈوانسڈ سسٹمز نے بنایا ہے، بھارت کے پہلے ایئرکرافٹ کیریئر کے لیے استعمال کیا جائے گا جو ابھی زیرِ تعمیر ہے۔
وسط جنوری میں اسرائیل کے وزیرِ اعظم چار روزہ دورے پر ایک تجارتی وفد لے کر دہلی پہنچے۔ اسرائیل اسلحے کی فروخت کے حوالے سے بھارت کا ایک اہم سپلائیر بن گیا ہے اور ہر سال اسے اوسطاً ایک ارب ڈالر کا فوجی ساز و سامان فروخت کرتا ہے۔گذشتہ سال بھی دونوں ممالک نے تقریباً دو ارب ڈالر کے ایک فوجی معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت اسرائیل کو بھارت کو درمیانی مار کے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل، لانچر اور مواصلاتی ٹیکنالوجی سپلائی کرنا تھا۔اے ایف پی کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں کہ جس معاہدے کا اس دورے میں اعلان کیا گیا ہے وہ گزشتہ اپریل میں کیے گئے معاہدے کا حصہ ہے یا نہیں۔ بھارت نے، جس کے اپنے ہمسایہ ممالک پاکستان اور چین کے ساتھ کافی عرصے سے سرحدی تنازعات چل رہے ہیں، 2014 ء میں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد کئی بڑے اسلحے کے معاہدے کیے ہیں۔
اسرائیلی ایرو سپیس انڈسٹریز کی ایک فیکٹری میں چاروں طرف رکھے ڈرونز میں سے کچھ نصف تیار ہیں اور کچھ پورے تیار ہیں۔ بھارت کی مسلح افواج سالوں سے ان ڈرونز کا استعمال کر رہی ہیں۔ یروشلم سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر تل ابیب میں ملک میں دفاعی سامان بنانے والی سب سے بڑی فیکٹری ہے۔کمپنی کے قریب سکیورٹی اتنی سخت ہے کہ پرندہ بھی وہاں پر نہ مار سکے۔ بھارت کی فوج ہیرون یو اے وی نظام یعنی ڈرون کے ذریعے جاسوسی کا بہ خوبی استعمال کرتی ہے۔ان کا استعمال میزائل داغنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔ مذکورہ فیکٹری میں یہ ہیرون ڈرون بھی رکھے تھے۔کمپنی کے ایک سینیئر ایگزیکٹو 'کے یواش روبن' کہتے ہیں ''بھارت ان کی کمپنی کا سب سے بڑا خریدار ہے۔'' انھوں نے مزید کہا '' بھارت ہمارا گاہک نہیں بلکہ ہمارا پارٹنر ہے۔ ہمارے رشتے 25 سال پرانے ہیں۔''
دفاعی شعبے میں بھارت کے اسرائیل کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔ گذشتہ 25 سالوں میں 10 ارب ڈالر کا سودا ہو چکا ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو بھارت کے چار روزہ دورے پر دہلی پہنچے تو ان کا سب سے بڑا چیلنج بھارت سے اسرائیل کے رشتے کو مزید مستحکم کرنا تھا۔دفاع ایک ایسا شعبہ ہے جہاں اسے مستحکم کرنے کی مزید گنجائش موجود ہے۔
بھارت اور اسرائیل کے درمیان دوستی کے رشتے میں کئی نشیب و فراز آئے۔ گو، حال ہی میں بھارت کی جانب سے اسرائیل کو کچھ جھٹکے لگے اور ان کے سبب تعلقات کی گرمجوشی میں کمی آئی۔ جیسا کہ بھارت نے اقوام متحدہ میں یروشلم کے معاملے پر فلسطین کے حق میں ووٹ دے کر اسرائیل کو پہلا دھچکا دیا، جس کی اصل وجوہات اوپر بیان کیں گئیں ہیں۔ دوسرا دھچکا اس وقت لگا جب بھارت نے اچانک اسرائیل کے ساتھ نصف ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے کو منسوخ کر دیا۔ ابھی اسرائیل ان دھچکوں سے باہر نہیں آ سکا۔ ایسے میں مقامی میڈیا میں یہ سوال اٹھے کہ آخر نتن یاہو بھارت کیوں جا رہے ہیں ؟ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان گہرا رشتہ نہیں بلکہ صرف رومانس ہے۔
کیا واقعی اب یہ رومانس بھی ماند پڑ رہا ؟ بھارت، اسرائیل کے ثقافتی تعلقات پر گہری نظر رکھنے والی شلوا وائل کہتی ہیں کہ ''اب رومانس ماند پڑ گیا ہے۔'' ان کا اسرائیلی وزیراعظم کو بھارت کے دورے سے قبل مشورہ تھا کہ ''نتن یاہو کو دونوں ممالک کے درمیان ماند پڑتے رومانس کو بحال کرنا ہوگا۔'' خیال رہے کہ بھارت اور اسرائیل کے درمیان سنہ 2010 ء میں جتنی تجارت تھی، آج اتنی بھی نہیں ہے۔
یہ بزنس پانچ ارب ڈالر سالانہ ہے جبکہ دونوں ممالک کے درمیان بزنس کے زیادہ امکانات ہیں۔اسرائیل بھارت چیمبرس آف کامرس کی سربراہ انت برنسٹائن کہتی ہیں کہ ''دونوں ممالک کے تاجروں میں بہت فاصلے ہیں۔'' ان کے بقول ان کاروباری مشکلات کی وجہ یہ ہے کہ ''اسرائیلی تاجر امریکیوں کے ساتھ کام کرنے کے عادی ہیں، انھیں جلدی رہتی ہے۔ بھارت کا ماحول مختلف ہے، انھیں وہاں کام کے ماحول کو سمجھنا ہوگا۔'' وہ اس بارے میں مزیدکہتی ہیں کہ ''2018 ء میں اس میں تبدیلی آ سکتی ہے۔'' ان کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تجارت بہت تیزی سے فروغ پزیر ہوگی کیونکہ اسرائیل 'جدید ترین ٹیکنالوجی' میں بھارت کی مدد کرسکتا ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھی تعاون کرسکتا ہے۔'' لیکن دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ اس شعبے کے تاجروں کو بھارتی مارکیٹ کی سمجھ پیدا کرنی ہوگی، جہاں مال عمدہ اور قیمت کم ہو۔ اسرائیلی تاجر اب یہ بات سمجھنے لگے ہیں۔
اسرائیل کی آبادی محض 80 لاکھ ہے۔ بعض ماہرین کی آراء جان کر یہ احساس ہوتا ہے کہ 80 لاکھ کی آبادی والے ملک کے لیے ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک کے ساتھ تجارت کرنا اپنی صلاحیتوں سے زیادہ کرنے کی کوشش کے مترادف ہے۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو اس ضمن میں درپیش سب سے بڑے چیلنج یعنی بھارت کے ساتھ سٹریٹیجک تعلقات میں گہرائی پیدا کرنے میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں اوراسرائیل اور ہندوستان کے تعلقات کو رومانس سے آگے بڑھانے کی ضرورت کو کیسے پورا کرتے ہیں، مگر تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ بھارت اور اسرائیل جیسی مذہبی انتہا پسند مملکتیں اور ان کی شدت پسند قیادتیں اپنے گٹھ جوڑ کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ہر ممکن حد تک جائیں گی۔