بالی ووڈ کیسے سچے لوگ

بھارتی فلمی صنعت کے کچھ نام ور موسیقاروں کے روشن کردار کا تذکرہ۔


شاہد لطیف February 04, 2018
کیا پاکستان اور کیا بھارت، موسیقی کے مقابلوں میں اب بھی مدن صاحب کے گیت نئے فن کار اکثر سُناتے ہیں۔ فوٹو : فائل

بھارتی فلمی موسیقی کا جب بھی ذکر ہو گا تو 1950 اور 1960 کے سنہری دور کی بات ضرور ہو گی۔ یہ دور سُریلے نغمات کا خزانہ ہے، جو 50سال گزرنے کے بعد اب تک سدا بہار ہیں۔

اس دور کی کئی ایک فلمیں ماضی کا حصہ ہوگئیں لیکن اُن فلموں کے گیت بار بار سنے جاتے ہیں اور آج کی نسل بھی ان سے محظوظ ہوتی ہے۔ اس دور کو سنہری بنانے میں ہر ایک موسیقار کا اپنا اپنا حصہ ہے جیسے:

شنکر اور جے کشن المعروف شنکر جے کشن:
اس موسیقار جوڑی نے انمول کام کیا۔ اِن کے زیادہ تر گیتوں نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ اِن ہی سے فلمی گیتوں کی صدا بندی میں 200 میوزیشن استعمال کیے جانے کی ریت پڑی۔ اس سے پہلے محض چار پانچ انسٹرومینٹس ہی صدابندی کے لیے ضروری سمجھے جاتے تھے۔ اِن ہی کی وجہ سے یہ بعد میں آنے والوں کے لیے نقشِ قدم ثابت ہوا۔ یہ کس قدر پُرخلوص لوگ تھے اس کی مثال یہ ہے کہ 'دتّہ رام ' ان کے اسسٹنٹ میوزک ڈائریکٹر تھے جو بہترین ڈھولک بجاتے تھے ۔1958 میں ان کو فلم ''پرورش'' کی موسیقی ترتیب دینے کی پیشکش ہوئی جس پر شنکر اور جے کشن بہت خوش ہوئے اور ہر طرح کے تعاون کی پیشکش کی۔ دتّہ رام کی اس فلم میں مکیش کی آواز میں حسرتؔ جے پوری کا لکھا یہ گیت بھی شامل تھا:

؎آنسو بھری ہیں یہ جیون کی راہیں، کوئی اُن سے کہہ دے ہمیں بھول جائیں

یہ گیت سُپرہِٹ ثابت ہوا، جس پر دتّہ رام سے زیادہ خوشی شنکر اور جے کشن کو ہوئی۔ 1960 کے اواخر میں شنکر اور جے کشن میں گلوکارہ شاردا کے مسئلے پر اختلافات ہوگئے۔ شنکر، لتا منگیشکر کی جگہ شاردا کو دینا چاہتے تھے۔1971 میں فلم ''انداز '' کی موسیقی صرف جے کشن نے دی لیکن موسیقار کا نام بدستور شنکر جے کشن ہی رہا۔ جے کشن 12 ستمبر کو اس فانی دنیا سے گزر گئے۔ شنکر نے موسیقی کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1976 میں بننے والی فلم '' لال پتھر'' کے علاوہ ہر ایک فلم میں اپنے نام کے ساتھ جے کشن کا نام برقرار رکھا۔ بہ تدریج وہ موسیقی ترتیب دینے کے عمل سے دور ہو تے گئے۔ بالآخر1987 کو وہ بھی اِس جہاں سے گزر گئے۔

سچّن دیو برمن:
سچّن دیو برمن، المعروف ایس ڈی برمن1950 سے 1970کے عرصہ کے روشن ستاروں میں سے ایک ہیں۔ یہ بھارت کے وہ واحد فلمی موسیقار ہیں جنہوں نے اپنی آخری فلم '' ابھیمان'' (1973) تک سریلے نغموں کا سلسلہ جاری رکھا۔ خرابیٔ صحت کی بنا پر وہ محض چند فلمیں سالانہ کیا کرتے تھے۔ گلوکار کشور کُمار 1968کے بعد سے فلموں میں کام نہ ملنے سے بددل ہو کر کنارہ کش ہونے والے تھے، خاص ان کو سامنے رکھ کر برمن صاحب نے فلم ''ارادھنا'' میں آنند بخشی کا لکھا گیت:

میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی تو

آئی رُت مستانی کب آئے گی تو

کی موسیقی بناکر کشور کمار کو نئی زندگی دی۔ بعد میں تو انہوں نے منا ڈے اور محمد رفیع کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

ایک مرتبہ موسیقار روشن، برمن صاحب کے پاس آئے اور کہا: ''1951میں فلم 'نوجوان' میں آپ کی بنائی ہوئی طرز پر لتا کی آواز میں ساحر لدھیانوی کے گیت:

؎ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں

رُت ہے جواں تم کو یہاں کیسے بُلائیں

کو میں تھوڑا تبدیل کرکے اپنی فلم میں لینا چاہتا ہوں لہٰذا اجازت درکار ہے۔'' برمن صاحب نے بخوشی اجازت دی۔ روشن صاحب نے فلم ''ممتا'' (1966) میں لتا کی آواز اور دوسرا ورژن محمد رفیع اور سُمن کلیان پوری کی آوازوں میں مجروح سلطان پوری کا یہ گیت بنایا:

؎رہیں نہ رہیں ہم مہکا کریں گے

بن کے کلی بن کے صبا باغِ وفا میں

نوشاد علی:
جب بات ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی ہو تو بھارتی فلمی صنعت میں موسیقار نوشاد علی کا نام ممتاز نظر آتا ہے۔ موسیقی کے پنڈتوں کے کہنے کے مطابق کلاسیکی موسیقی کے موضوع پر بننے فلم ''بیجو باورا'' ( 1952 ) کے گیتوں سے بہتر کوئی فلمی کلاسیکی موسیقی کے گیت نہیں بن سکتے۔ نوشاد صاحب ہندوستانی سازوں کو ہی استعمال کرنے کے قائل تھے، گو کہ ضرورتاً انہوں نے مغربی سازوں کا بہت عمدہ استعمال بھی کیا۔ جیسے 1968 کی فلم ''ساتھی۔'' مجروح سلطان پوری کے لکھے گیتوں پر بہت خوب صورتی سے، جہاں ضرورت ہوئی وہاں مغربی ردھم اور بھر پور آرکیسٹرا کا استعمال کیا گیا۔''بیجو باورا '' میں شکیل بدایونی کا لکھا ، محمد رفیع کی آواز میں راگ مالکوس میں ترتیب دیا ہوا گیت:

؎من تڑپت ہاری درشن کو آج ...

اور راگ درباری میں ترتیب دیا ہوا رفیع صاحب کی آواز میں شکیل صاحب کا لکھا یہ گیت:

؎ او دنیا کے رکھوالے ...

یہ اِن راگوں کی بہترین نمائندگی کرنے والے فلمی نغمات قرار دیے جاتے ہیں۔

فلم ''بیجو باورا '' کی کام یابی کے بعد اُس وقت کے ایک نام ور فلم ساز، وی شانتا رام نے اپنی فلم ''جھنک جھنک پائل باجے'' کے لیے نوشاد صاحب کو پیشکش کی۔ اِن کے علم میں تھا کہ شانتارام صاحب کے پاس راج کمال اسٹوڈیوز میں اعلیٰ پائے کے موسیقار ''وسنت ڈیسائی'' ماہانہ تنخواہ پر موجود ہیں۔ نوشاد علی صاحب نے شانتا رام کا شکریہ ادا کیا اور کہا بہتر ہو گا کہ اِس فلم کی موسیقی کے لیے وسنت ڈیسائی ہی سے رابطہ کیا جائے۔

نیز اُن کو قائل بھی کیا کہ ڈیسائی صاحب کلاسیکی موسیقی پر بھرپور عبور رکھتے ہیں۔ گھر آئی ''لکشمی'' کون جانے دیتا ہے! بتانے والے بتاتے ہیں کہ اگلے روز وسنت ڈیسائی نوشاد صاحب کے ہاں گئے اور اس اعلیٰ سلوک کا شکریہ ادا کیا۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ '' جھنک جھنک پائل باجے'' میں حسرتؔجے پوری کے لکھے گیتوں اور ڈیسائی صاحب کی دھنوں نے دھوم مچادی۔ یہ فلم 1955میں نمائش کے لیے پیش ہوئی۔ اِس فلم کی خاص بات یہ ہے کہ سنتور نواز، پدما شِری ایوارڈ یافتہ شیو کمار شرما نے وسنت ڈیسائی کی ترتیب دی ہوئی دھن پر سنتور بجایا جو ہندوستانی سنیما میں پہلی مرتبہ استعمال کیا گیا۔

مدن موہن کوہلی:
مدن موہن کوہلی المعروف مدن موہن بغداد، عراق میں پیدا ہوئے، جب کہ ان کے باپ دادا چکوال کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے آزادی سے پہلے کچھ سال سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے فوج میں گزارے۔ مدن موہن اور لتا منگیشکر کی بہت اچھی ٹیم تھی، اِس میں کچھ وقت مولانا ظفر علی خان ؒ کے بھانجے، راجہ مہدی علی خان کا بھی ساتھ رہا۔ فلمی غزلیات کی طرزیں بنانے میں مدن صاحب کی خدمات قابلِ تعریف ہیں۔ لیکن نہ جانے وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر اُن کو زندگی میں وہ ستائش اور مقام نہیں ملا جس کے وہ حق دار تھے۔

لتا منگیشکر نے مدن موہن سمیت اپنے وقت کے بیشتر موسیقاروں کی طرزوں پر گیت صدابند کرائے، لیکن ان کی آواز کا صحیح استعمال ہمیں مدن موہن کی طرزوں میں زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ اتنی خوب صورت دھنوں کے خالق کو کبھی ایک ''فلم فیئر ایوارڈ'' کا بھی حق دار نہیں سمجھا گیا۔ ''وہ کون تھی''، ''ہیر رانجھا''، ''ہنستے زخم''، ''میرا سایہ''، ''حقیقت'' ... مدن صاحب کی موسیقی میں ان فلموں کے صدابہار گیت آج بھی شوق سے سنے اور سنائے جاتے ہیں۔

کیا پاکستان اور کیا بھارت، موسیقی کے مقابلوں میں اب بھی مدن صاحب کے گیت نئے فن کار اکثر سُناتے ہیں۔ یش چوپڑا صاحب نے اپنی فلم ''ویر زارا'' (2004) میں مدن موہن صاحب کی وہ طرزیں شامل کیں جو کبھی بھی استعمال میں نہیں آئیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اِن کے دنیا سے گزر جانے کے 20 سال بعد اِن طرزوں کو فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا ۔گو کہ مدن موہن اپنے دور کے بڑے ہدایت کاروں اور اداکاروں کے توجہ حاصل نہ کرسکے پھر بھی اِن کا کام غیرمعمولی ہے۔ اُن کی مقبولِ عام طرزوں کی کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں۔ راجہ مہدی علی خان کا لکھا ، لتا کی آواز میں فلم '' ان پڑھ '' (1962)کا یہ گیت: ؎

آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابِل مجھے

دل کی اے دھڑکن ٹھہر جا مل گئی منزل مجھے

فلم '' سنجوگ '' (1961) کا لتا کی آواز میں راجندر کرشن کا لکھا گیت :

وہ بھولی دستاں لو پھر یاد آ گئی

نظر کے سامنے گھٹا سی چھا گئی

1964میں پیش کی جانے والی فلم ''وہ کون تھی'' کے تمام گیت راجہ مہدی علی خان نے لکھے تھے۔ اِس فلم کے گیتوں میں سے یہ تین سدا بہار گیت اب تک سنے اور سنائے جاتے ہیں : ؎

لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو ...

نیناں برسیں رم جھم رم جھم...

جو ہم نے داستاں اپنی سنائی آپ کیوں روئے...

لگتا یہ ہے کہ اُس دور میں ایک واضح گروپ بندی تھی جیسے راج کپور کے ساتھ شنکر جے کشن (بعد میں لکشمی کانت پیارے لال )، دیو آنند کے ساتھ ایس ڈی برمن اور دلیپ کمار کے ساتھ نوشاد علی ہی زیادہ کام کیا کرتے تھے۔ باقی موسیقار جیسے روی، روشن، او پی نیئر، مدن موہن، خیام وغیرہ باصلاحیت ہونے کے باوجود بہت زیادہ کام نہیں کر سکے۔

اُوم کر پراساد نیّر:
اُوم کر پراساد نیئر المعروف او پی نیّر کو 'سنگیت کا جادوگر' بھی کہا جاتا ہے۔ بلاشبہہ اِن کی بنائی ہوئی دُھنیں آج بھی سننے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں، لیکن نیّر صاحب کی ایک وجہ شہرت، گلوکارہ آشا بھونسلے کی آواز میں 'مخمور' سُپرہِٹ گیت بھی ہیں جِن میں او پی نیّر نے پنجابی ڈھولک کا بے مِثال اِستعمال کیا۔ وہ لاہور میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے اور آزادی کے بعد 1949میں بھارت چلے گئے ۔ بمبئی جانے سے کچھ سال پہلے انہوں نے میرے خالو، سید رفیق حسین شاہ صاحب کے ساتھ ایک سرکاری دفتر میں کام کیا۔ میرے خالو بتایا کرتے تھے کہ وہ اکثر ٹیبل بجا کر اُس دور کے مشہور فلمی گیت سُنایا کرتے اور کہا کرتے تھے کہ بمبئی میں جاکر موسیقار بنوں گا۔ اپنے وقت کے یہ واحد موسیقار ہیں جن کے گیت لتا منگیشکر کی آواز کے بغیر بھی بہت زیادہ مقبول ہوئے۔ جلد ہی او پی نیّر موسیقاروں میں سب سے زیادہ پیسے لینے والے ہو گئے۔

وقت کے بہت پابند تھے ایک مرتبہ فلم ''ہمسایہ '' ( 1968) میں شیون رضوی کے لکھے گیت کی صدابندی کے موقع پر محمد رفیع صا حب کے محض 10منٹ دیر سے آنے پر ریکارڈنگ ہی کینسل کروا دی اور اگلے روز کہیں جا کر یہ گیت صدا بند ہوا، جس کے بول ہیں:

؎دل کی آوا ز بھی سُن میرے فسانے پہ نہ جا

میری نظروں کی طرف دیکھ زمانے پہ نہ جا

یہ گیت عوام میں بے حد مقبول ہوا۔

اِن سے متعلق ایک خاص بات یہ ہے کہ 1957 میں نمائش کے لیے پیش کی جانے فلم ''پیاسا'' کی مقبولیت پر اس فلم کے گیتوں کے لکھنے والے مشہور شاعر ساحرؔ لدھیانوی نے کہیں کسی سے کہہ دیا کہ ایس ڈی برمن کو مقبول بنانے والے میرے گیت ہیں (یعنی میں ہوں) ۔ او پی نیّر، برمن صاحب کے مداح تھے۔ اِس دن کے بعد سے او پی نیّر نے پھر ساحرؔ کے گیتوں پر کبھی کوئی دھن نہیں بنائی۔

بہت سے موسیقار فلمی کہانی کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے پہلے گیت کی دھن ترتیب دیتے ہیں پھر شاعر سے اس پر بول لکھواتے ہیں۔ نیّر صاحب مختلف سوچ رکھتے تھے۔ بارہا انہوں نے گیت نگاروں سے پہلے لکھوایا بعد میں دھن بنائی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ طرز پر گیت لکھوانا ایسا ہی ہے جیسے سائز کو ناپے بغیر مُردے کو بنے بنائے تابوت میں زبردستی ٹھونس دیا جائے۔

کسی انٹرویو میں انہوں نے کہا،''کلاسیکی موسیقی اور راگ راگنیوں کا علم تو بہت دور کی بات ہے ، میں نے تو ایک روز کے لیے بھی کبھی کسی سے موسیقی کی تربیت نہیں لی۔'' اس سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ 1958نمائش کے لیے پیش کی جانے فلم ''پھاگن'' کے گانے جب ریڈیو سے نشر ہوئے تو اُستاد امیر خان نے نیّر صاحب کو فون کیا اور مبارک باد دی:''کمال ہوگیا! تُم نے تو اس فلم کے تمام گانے ایک ہی راگ 'راگ پیلو' میں کمپوز کرڈالے!'' عینی شاہدین کہتے ہیں کہ نیّر صاحب ہکا بکا رہ گئے اور محترم اُستاد صاحب سے کہا:''خان صاحب ! مجھے تو آپ سے علم ہوا ہے کہ میرے تمام گیت راگ پیلو میں ہیں۔''...کیا سچے اور بے ساختہ لوگ تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں