چینی سفیر کا بیان اور اثرات
یقیناً ایسی تعریف اور ایسے کلمات عمران کی پارٹی کے لیے ایک تمغہ سے کم نہیں۔
چین کے سفیر نے 24 جنوری کو پاکستان کے ایک رہنما عمران خان سے ملاقات کی اور اس روز انھوں نے جو گفتگو عمران خان سے کی ظاہر ہے وہ عام سی دو طرفہ تعلقات کے موضوعات کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے۔
یہ تو معمول کے مطابق ایک رسمی سا عمل تھا مگر اس ملاقات کے بعد چین کے سفیر جو اسلام آباد میں مقیم ہیں، مسٹر یاؤجنگ، ان کی گفتگو کا ایک جملہ جو میرے ذہن میں اس وقت تک گردش کر رہا ہے، وہ جملہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ یہ جملہ کسی عام آدمی کا نہیں، بلکہ عوامی جمہوریہ چین کے سفیر کا ہے، جہاں پر سیاست اور لوگوں کا چناؤ اہلیت (Merit) کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ لہٰذا غفلت اور بے دھیانی کا کوئی امکان نہیں۔ یہ وہ ملک ہے جس کی بنیاد کامریڈ ماؤزے تنگ نے رکھی اور یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس نے انقلاب کے بعد نہ صرف آزادی کی حفاظت کی بلکہ جرائم کا خاتمہ کیا۔ اسی لیے دوران جدوجہد علامہ اقبال نے یہ مصرع ادا کیا:
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
اس قوم کو ابتدا سے ہی ایسے لیڈر ملے جو کسی ملک کے آلہ کار نہ تھے، بلکہ جنگ آزادی اور لانگ مارچ کے بعد صرف جشن فتح نہ منایا بلکہ تقریباً 4 برس بعد ثقافتی انقلاب کا آغاز کیا۔ کیونکہ اقتدار میں بلند عہدوں پر آنے کے بعد شخصیت میں ایک بڑا پن اور عام طور پر پروٹوکول طمطراق پیدا کردیتا ہے، اور عوامی انقلابی روح دب جاتی ہے، لہٰذا فی الوقت جو قیادت ملک کی شخصیت اعلیٰ ثقافتی انقلاب کی گزرگاہ سے گزری، اس ثقافتی انقلاب میں بعض غلطیاں بھی سرزد ہوئیں، جس کا انسانی زندگی سے ہمہ وقت امکان رہتا ہے، جیسے تن سیاوپنگ کو تنقید سے گزرنا پڑا۔ یہ تمہید اس لیے بیان کی گئی کہ چین کی کانگریس میں خاندانی جمہوریت کا امکان نہیں بلکہ اہلیت، علم اور عمل ہی ترقی کی بنیاد ہے۔
لہٰذا چین کے سفیر جو اسلام آباد میں موجود ہیں، مسٹر یاؤجنگ بھی کوئی عام آدمی نہیں، لہٰذا ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ غور کے قابل ہے اور اس کا تجزیہ ضروری ہے کہ انھوں نے پی ٹی آئی کے لیے پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کا لفظ کیوں کہا؟ یہ خاصا اہم اور غور طلب ہے، جب کہ چین اور پاکستان کے مابین جو سی پیک کا معاہدہ معرض وجود میں آیا وہ عملی طور پر (ن) لیگ کا تحفہ ہے اور اس پر تمام پارٹیوں کا اتفاق ہے کہ یہ پاکستان کے لیے مفید ترین ہے، بشرطیکہ یہ پلان خوش اسلوبی سے آگے بڑھتا رہے۔
اس کے باوجود کیا وجہ تھی کہ سفیر موصوف نے (ن) لیگ کو تقابل میں نہ رکھا۔ یہ تو ممکن نہیں کہ وہ ذات گرامی جو سفارت کار ہے، تغافل کا شکار ہوگئی ہو اور اس موضوع پر اتنے غور و فکر و احتیاط سے کام نہ لیا کہ اس طرح دوسری پارٹیاں سبک لگنے لگیں گی۔ اور یقیناً اس کا یہی اثر ہوا کہ پی ٹی آئی کو بہت سے لوگوں نے جائزہ لیے بغیر یہ سمجھ لیا کہ ٹھیک ہے عمران خان پنجاب میں اتنے مضبوط نہیں مگر ہر جگہ مدمقابل ضرور ہیں اور ہر شہر میں ان کی فالوونگ تو ضرور ہے۔
اسی لیے یہ بات تو یقینی ہے کہ (ن) لیگ کی قیادت میں اگر کہیں بھی موجودہ سماجی اور سیاسی دراڑ پڑی تو عمران خان نے اپنی بعض کوتاہیوں کے باوجود صرف اپنی جرأت اور کھلم کھلا الفاظ میں اسمبلی کے ممبران کی مذمت سے خاصے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنالی ہے اور بلامبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انتخابی نتائج نے یہ تو ثابت کردیا ہے کہ خیبرپختونخوا کی لیڈر شپ پنجاب میں جگہ بنا رہی ہے اور نواز شریف کی لیڈرشپ عوامی پلیٹ فارم پر وہ مقام اب نہیں رکھتی جو ایک زمانے میں اس کے پاس موجود تھا۔ لہٰذا چینی سفیر نے عمران خان کی تنظیم کو ملک کی سب سے بڑی تنظیم کہہ کر مخاطب کیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چینی سفیر نے پی ٹی آئی کو سب سے بڑی سیاسی پارٹی کیوں کہا، وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ یہ سب سے منظم پارٹی ہے، اس کے برعکس انھوں نے بڑی پارٹی اس لیے کہا کہ سندھ اور بلوچستان میں ان کی آواز پر لبیک کہنے والے خاصے لوگ ہیں، وہ الگ بات ہے کہ سندھ میں وڈیرہ شاہی کی وجہ سے وہ ان علاقوں کو ہم خیال نہ بنا سکیں گے جہاں پر وڈیرہ شاہی کی بنیاد پر نتائج آتے ہیں، اسی لیے ذوالفقار علی بھٹو بھی آخری وقت تک ان لوگوں سے نجات نہ پاسکے جنھوں نے پاکستان کی اسمبلی کو توقیر بخشی تھی، آئین دیا تھا۔
ان ممبران اسمبلی نے معراج محمد خان، جو ذوالفقار علی بھٹو کو آزاد کرانے کی تحریک چلانا چاہتے تھے، بیگم نصرت بھٹو کو گمراہ کیا اور پرسکون رہنے پر زور دیا تو سندھ میں حالات آج بھی بدلے نہیں بلکہ بد سے بدتر کی طرف چل پڑے ہیں اور آج صورتحال سندھ میں بدتر ہے۔ پہلے ہاری حق دار تحریکیں تھیں مگر اب سندھ کی سرزمین انقلابیوں سے محروم ہوچکی ہے، لہٰذا سندھ میں اگر عمران خان ہاری تحریک کو زندہ کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں تو پھر چند سیٹیں اندرون سندھ اور کراچی میں لے سکیں گے۔ مگر چینی سفیر نے پس پردہ جو بات کہی ہے، وہ یہ کہ عمران خان کی شخصیت میں ایک حرارت ہے، جس سے وہ مرد و زن دونوں کو متحرک کرسکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مسٹر یاؤجنگ نے جو بے لاگ تبصرہ کیا ہے وہ سیاست سے بالاتر ہوکر کیا ہے، کیونکہ یہ پی ٹی آئی نہ تھی جس نے سی پیک کا معاہدہ تشکیل دیا ہے بلکہ یہ معاہدہ نواز شریف کی (ن) لیگ نے عملی جامہ پہنایا ہے اور موجودہ وفاقی حکومت بھی (ن) لیگ کی ہے، اس کے باوجود مسٹر یاؤجنگ نے کسی قسم کی سیاسی مصلحت سے کام نہیں لیا، اس سے ان کی واضح اور اعلیٰ اوصاف کی نشاندہی ہوتی ہے۔
ان کی اس اعلیٰ قوت کا کمال اس لیے بھی نمایاں ہوتا ہے کہ وہ ایک مضبوط اور عوام دوست ملک کے سفیر ہیں، جو دنیا کے مناقشوں سے دور ہونے کے ساتھ ساتھ سامراجی عزائم سے لاتعلق اور ملکوں کی خودمختاری پر یقین رکھتے ہیں۔ لہٰذا ایسے ملک کے نمایندہ کی جانب سے عمران خان کی پارٹی اور ذاتی حیثیت سے ان کی توصیف بے معنی نہیں بلکہ اس تبصرے نے پارٹی کے مستقبل کے تابناک مستقبل کے برابر لاکھڑا کیا ہے۔
دنیا میں سفرا کا جہاں ان کی پوسٹنگ کی جاتی ہے وہاں کے حکمرانوں سے ملنا اور اپنے قومی دن پر لوگوں کو مدعو کرنا ایک روایت ہے۔ اس میں کوئی اتنی پریشانی کی بات ہرگز نہیں ہوتی۔ البتہ جس ملک میں سفیروں کی عام طور پر تقرری ہوتی ہے وہاں کے لیڈروں کی ایسی توصیف عام طور پر نہیں کی جاتی کہ وہ خاصی اہمیت کی حامل ہو اور یقیناً ایسی تعریف اور ایسے کلمات عمران کی پارٹی کے لیے ایک تمغہ سے کم نہیں، لہٰذا اب یہ ان کا فرض بنتا ہے کہ پارٹی کو ان زیوروں سے آراستہ کریں جس سے عوام کی خوشحالی کی ابتدا ہو۔