اور کتنی سزائیں باقی ہیں
توہین عدالت کیس میں ہونے والی اس سزا نے (ن) لیگ کے کئی بڑبولے کھلاڑیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
فروری کو ملکی سیاسی حالات کے تناظر میں بہت اہم قرار دیا جا رہا تھا۔ دعوے کچھ اس طرح کے تھے کہ 3صوبائی اسمبلیاں مستعفی ہو جائیں گی اور یوں سینیٹ کے الیکشن نہیں ہو سکیں گے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا تو اس حوالے سے جو ہیجانی کیفیت پیدا کی گئی تھی اس کا خاتمہ ہو گیا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیاں موجودہیںاور سینیٹ کے انتخابات کا شیڈول جاری ہو چکا ہے۔31جنوری کی رات تک مطلع بالکل صاف تھا۔ سیاسی افق پر ستارے پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہے تھے۔
یکم فروری کا سورج طلوع ہوا تو کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ملک کے طول و عرض میں کیا ہونے جا رہا ہے۔ دن کا آغاز سپریم کورٹ کے ایک فیصلے سے ہوا۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی کو توہین عدالت میں ایک ماہ قید، 50ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنا دی گئی ، 5سال کے لیے نا اہلی اس سے الگ ہے۔ نہال ہاشمی جنہوں نے ایک جذباتی تقریر میں ججوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے زمین تنگ کر دینے کی دھمکی دی تھی ، خود ان پر زمین تنگ ہو گئی اور وہ اڈیالہ جیل جا پہنچے۔
توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران نہال ہاشمی نے غیر مشروط معافی مانگی اور خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ توہین عدالت کیس میں ہونے والی اس سزا نے (ن) لیگ کے کئی بڑبولے کھلاڑیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔یکم فروری کی شام ہی چیف جسٹس نے وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کو بھی توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے انھیں6فروری کو طلب کر لیا ہے۔ ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف کی نا اہلی کے بعد عدلیہ اور ججوں پر جس قسم کی تنقید ہو رہی تھی اس پر متعدد حلقے حیران تھے کہ اعلی عدلیہ اتنے تحمل کا مظاہرہ کیوں کر رہی ہے۔
عدلیہ کے اس تحمل کی وجہ سے تنقید کرنے والوں کے حوصلے روز بروز بڑھتے جا رہے تھے اور ان کے جذبات الفاظ کی صورت میں زہر اگل رہے تھے۔ توہین عدالت کے دیگر کیسز بھی اب قابل توجہ رہیں گے۔ ن لیگ کے قائد، ان کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر سمیت وزراء اور مشیر بڑے تواتر سے یہ کام کر رہے تھے۔ دیکھتے ہیں فروری کا کل شروع ہونا والا مہینہ اپنے اندر کیا کیا اور کس قسم کی خبریں چھپائے ہوئے ہے۔ عدلیہ پر تنقید ن لیگ کے قائد اور ارکان پارلیمنٹ ہی نہیں کر رہے تھے، ان کے ہم خیال میڈیا پرسنز بھی اس میں پیش پیش تھے۔ ممکن ہے سال کا یہ مختصر ترین مہینہ کچھ قوتوں خاص طور پر سیاستدانوں کے لیے طویل ترین دورانیے کا بن جائے۔
یکم فروری کو ہی پیپلزپارٹی کے صوبائی وزیر میر ہزار خان بجارانی اور ان کی اہلیہ فریحہ رزاق کی پر اسرار موت نے بھی سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ ابتدائی معلومات کے مطابق دونوں کی لاشیں ڈیفنس کراچی میں ان کی رہائش گاہ کے بیڈ روم سے ملیں۔ کہا جاتا ہے کہ کمرہ اندر سے بند تھا مگر دونوں کو گولیاں بھی لگی ہیں۔
میر ہزار خان بجارانی سینئر سیاست دان تھے۔ وہ 4 بار رکن قومی اسمبلی (ایم این اے) ،3بار رکن صوبائی اسمبلی (ایم پی اے) اور ایک بار پیپلزپارٹی کے سینیٹر بھی رہے۔ ان کی اہلیہ بھی ایک بار خصوصی نشست پر سندھ اسمبلی کی رکن رہیں۔ بعض دن شاید بھاری ہوتے ہیں، یکم فروری بھی ایسا ہی دن تھا۔ سندھ کے وزیر ترقی و منصوبہ بندی بجارانی کی اہلیہ سمیت پر اسرار موت کی خبر ابھی چل ہی رہی تھی کہ خیبر پختون خوا سے پیپلزپارٹی کے ہی سینیٹر حاجی سیف اللہ بنگش جو اسلام آباد کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اﷲ ہم سب پر رحم فرمائے اور سب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔
یہ سب واقعات الگ الگ ہیں۔ کسی واقعے کا دوسرے واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بھی محض اتفاق ہی ہے کہ شاہ زیب قتل کیس کا ملزم شارخ جتوئی دو ساتھیوں سمیت سپریم کورٹ کے حکم پر کمرہ عدالت سے اسی روز گرفتار کر لیا گیا ۔ سپریم کورٹ میں کچھ اور مقدمات بھی زیر سماعت ہیں انھی میں سے ایک آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نا اہلی کی مدت کے تعین کے حوالے سے بھی ہے۔ یکم فروری سے اس کیس کی سماعت بھی جاری رہی۔ اس کیس کا فیصلہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے اور بہت سے معاملات طے ہوجائیں گے۔
فروری کے پہلے دن کا آغاز عدالتی فیصلے سے ہوا، دیکھیں اس کا اختتام کیسے ہوتا ہے۔ یعنی پہلے دن ایک سزا ہو گئی۔ اس وقت سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ اور لاہور ہائیکورٹ میں کئی اہم مقدمات زیر سماعت ہیں۔ حدیبیہ پیپرملزکیس میں بھی نظر ثانی کی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ نیب عدالت میں میاں صاحب اور ان کے خاندان کے حوالے سے بھی کیسز زیر سماعت ہیں۔
وزیراعلی پنجاب شہباز شریف، سابق وزیراعلی پرویز الٰہی اور دیگر اہم شخصیات نیب لاہور میں پیشیاں بھگت رہی ہیں۔ نقیب اللہ محسود کو ماورائے عدالت قتل کرنے کے مفرور ملزم راؤ انوار کا مقدمہ بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ یہ سب طاقتور لوگوں کے مقدمے ہیں، ان کے خلاف مقدمات چلنا یا عدالتوں میں حاضری کا حکم ہونا کوئی عام سے بات نہیں ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ عدلیہ میں ہی ہو رہا ہے۔ کچھ لوگ یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اس قدر جوڈیشل ایکٹو ازم انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اگر غور کیا جائے تو اس جوڈیشل ایکٹو ازم کی ضرورت تب پڑتی ہے جب پارلیمنٹ اور منتخب حکومتیں اپنا کام کرنے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔ عام آدمی کو ریلیف نہیں ملتا تو وہ عدالت کا رخ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدالتوں پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔
موجودہ حالات میں عدالتوں نے حکومتوں کا بوجھ بھی اٹھایا ہوا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ پر سازشوں کا الزام لگانے والوں کی تنقید کا رخ بھی عدالتوں کی طرف ہے۔ ان لوگوں کو آرمی چیف کی اس یقین دہانی پر اطمینان ہے کہ ملک میں ہر کام آئین اور قانون کے دائرے میں ہو گا۔ عدالتیں بھی آئین اور قانون کے دائرے میں ہی کام کر رہی ہیں۔ پھر اعتراض کیسا؟
پہلے دن ایک سزا ہو گئی، دیکھیں فروری میں ابھی اور کتنی سزائیں باقی ہیں؟