اب انتخابات ہونے دیں
موجودہ صورتحال میں بہتر یہی ہے کہ عام انتخابات کا انعقاد سب مل کر یقینی بنائیں۔
موجودہ قومی اسمبلی کی مدت مکمل ہونے میں اب چار ماہ سے بھی کم وقت بچا ہے اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی کہہ چکے ہیں، اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی اور ایک سیکنڈ قبل بھی ہم اپنی حکومت ختم نہیں کریں گے۔ بلوچستان میں تبدیلی لائی جاچکی ہے اور 544 ووٹوں سے صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے والا اب وزیر اعلیٰ بن چکا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس ملک میں سب کچھ ہوسکتا ہے۔
صدر غلام اسحاق کے دور میں (ن) لیگی وزیر اعلیٰ کو ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حکمرانی سے چند دنوں میں ہٹائے جانے کے بعد اب سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان میں (ن) لیگی وزیر اعلیٰ کو چند دنوں میں ہٹوا کر پیغام دیا گیا ہے کہ وزیر اعظم کچھ بھی کہتے رہیں کرنے والے سب کچھ کرسکتے ہیں اور دنوں میں صوبائی حکومتیں تبدیل کرانے والوں کے لیے سب کچھ ممکن ہیں اور چھ ماہ وزیر اعظم رہنے والا اپنی بقایا مدت پوری کرسکتا ہے یا نہیں یہ وزیر اعظم عباسی نہیں کوئی اور ہی جانتا ہے جسے سب ہی جانتے ہیں۔
2002 میں زندگی میں پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے ڈاکٹر طاہر القادری نے بعد میں سیاست چھوڑ دی تھی اور دینی کاموں کے لیے کینیڈا کو اپنا مسکن بنالیا تھا اور وہ 2013 میں اچانک عام انتخابات کے موقعے پر سیاست کی بجائے ریاست بچانے چلے آئے تھے ۔ سخت سردی میں اسلام آباد میں خود گرم کنٹینر میں محفوظ رہ کر اپنے کارکنوں کا جوش کھلی فضا میں گرماتے رہے اور کارکن اپنے رہنما کی محبت میں سردیوں میں سکڑتے رہے تھے جن کا خیال قادری صاحب کی بجائے زرداری صاحب نے کیا تھا اور دھرنا ختم کرایا تھا۔
2018 کے انتخابات سے ایک سال قبل ہی طاہر القادری نے اپنی سیاست میں گرمی پیدا کردی تھی اور اب ان کے پاس سیاست اور ریاست سے زیادہ اپنے شہید کارکنوں کے لہو کا حساب لینے کا موقعہ ہاتھ لگا اور انھوں نے چار سال پرانے ایشو کو زندہ کرکے سیاسی میدان خوب سجایا اور صرف پنجاب حکومت ہی نہیں (ن) لیگ کی وفاقی حکومت کو بھی وقت سے قبل ختم کرانے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور انھوں نے شریفوں کی مخالفت میں آصف زرداری اور عمران خان دو بڑے ناموں کو ماڈل ٹاؤن میں اپنے گھر کی حاضری پر مجبورکردیا اور پنجاب میں نام کی حد تک باقی رہ جانے والی پیپلز پارٹی کے عملی سربراہ کو اپنے گھر آنے کا پہلا موقعہ دیا تو عمران خان بھی اپنے سیاسی کزن سے ملنے اس لیے چلے آئے کہ آصف زرداری نمبر نہ بڑھالیں جس کے بعد آصف زرداری پھر القادریہ آنے پر مجبور ہوئے۔
ڈاکٹر طاہر القادری اپنے دعوے کے مطابق اپنے کنٹینر پر بیک وقت آصف زرداری اور عمران خان کو نہ بٹھا سکے کیونکہ دونوں کے مقاصد مختلف ہیں۔ عمران خان تو 2013 سے ہی نئے انتخابات کی جدوجہد کرتے آئے اور وہ فوری طور انتخابات چاہتے ہیں مگر آصف زرداری اپنی سیاسی مصلحت کے باعث قبل از وقت عام انتخابات نہیں چاہتے مگر وہ نواز شریف کی نااہلیت کے بعد شہباز شریف کو بھی نااہل دیکھنا چاہتے ہیں اور عمران خان بھی شریفوں کی سیاست کے خاتمے کے خواہاں ہیں۔
عمران خان ساڑھے چار سال عام انتخابات کرانے کی کوشش میں ناکام رہنے کے بعد اب مجبور ہوکر عام انتخابات کا انتظار کرنے پر مجبور ہیں جو ان کی جلدبازی کی سیاست کی ناکامی اور آصف زرداری کی سیاسی پالیسی کی کامیابی ہے جس کے زعم میں آصف زرداری دعوے کر رہے ہیں کہ وہ جب چاہیں وفاقی حکومت کو چلتا کرسکتے ہیں۔ آصف زرداریکو اب بھی ملک میں عمران خان جیسی مقبولیت حاصل نہیں اور وہ عمران کی طرح جلد عام انتخابات کے حامی نہیں اور وہ پیپلز پارٹی کے لیے پنجاب کی سیاست کی زمین ہموار کر رہے ہیں۔
آصف زرداری عام انتخابات سے قبل سینیٹ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور اپنی اتحادی پارٹیوں کے امیدواروں کو کامیاب کرانے کے مشن پر ہیں جس کا الزام وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ان پر لگا چکے ہیں کہ وہ ارکان اسمبلی کو خرید کر (ن) لیگ کو حاصل ہونے والی اکثریت روکنا چاہتے ہیں اور بلوچستان میں (ن) لیگ یہ سیاسی نقصان اٹھا چکی ہے۔
مارچ میں سینیٹ کے انتخابات ہونے کے آثار نظر آرہے ہیں جو اگر (ن) لیگ کی ناکامی کی صورت میں ہوگئے تو اگست تک عام انتخابات کی راہ ہموار ہوجائے گی اور اگر نواز شریف نے اپنی موجودہ جارحانہ سیاست جاری رکھی تو (ن) لیگ کے ارکان اسمبلی اپنی پارٹی کی بجائے دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرف راغب ہونا شروع ہوجائیں گے جس کی دیگر رہنماؤں کو قوی امید ہے مگر نواز شریف کو نہیں ہے کیونکہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ موجودہ (ن) لیگی ارکان ان کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں مگر ایسا ہے نہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری اپنے سیاسی مشن میں اگرچہ ناکام نظر آتے ہیں مگر ان کی عوامی تحریک ملک بھر میں کہیں سے بھی ایک سیٹ نہیں جیت سکے گی، اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ نہ خود کھیلیں گے نہ کھیلنے دینا چاہیں گے۔ طاہر القادری کے سوا تمام سیاسی رہنما عام انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں جو ان کا درست فیصلہ ہے۔
عمران خان کے پی کے اسمبلی توڑیں گے نہ سندھ سے پیپلز پارٹی حکومت کا خاتمہ چاہے گی اس لیے موجودہ صورتحال میں بہتر یہی ہے کہ عام انتخابات کا انعقاد سب مل کر یقینی بنائیں۔ اس طرح یہ تیسری اسمبلی ہوگی جو اپنی مقررہ مدت پوری کرلے گی اور جمہوریت جیسی بھی ہے اس کو بھی نقصان نہیں ہوگا۔ آیندہ چار ماہ اہم ہیں، شیخ رشید اور عمران خان اسمبلیوں میں جائیں گے نہ مستعفی ہوں گے ان کے لیے بھی بہتر ہوگا کہ وہ بھی پارلیمنٹ کا احترام کریں اور عام انتخابات ہونے دیں اور اپنے مستقبل کی طرف توجہ دیں تو عوام فیصلہ خود ہی کردیں گے۔
صدر غلام اسحاق کے دور میں (ن) لیگی وزیر اعلیٰ کو ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حکمرانی سے چند دنوں میں ہٹائے جانے کے بعد اب سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان میں (ن) لیگی وزیر اعلیٰ کو چند دنوں میں ہٹوا کر پیغام دیا گیا ہے کہ وزیر اعظم کچھ بھی کہتے رہیں کرنے والے سب کچھ کرسکتے ہیں اور دنوں میں صوبائی حکومتیں تبدیل کرانے والوں کے لیے سب کچھ ممکن ہیں اور چھ ماہ وزیر اعظم رہنے والا اپنی بقایا مدت پوری کرسکتا ہے یا نہیں یہ وزیر اعظم عباسی نہیں کوئی اور ہی جانتا ہے جسے سب ہی جانتے ہیں۔
2002 میں زندگی میں پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے ڈاکٹر طاہر القادری نے بعد میں سیاست چھوڑ دی تھی اور دینی کاموں کے لیے کینیڈا کو اپنا مسکن بنالیا تھا اور وہ 2013 میں اچانک عام انتخابات کے موقعے پر سیاست کی بجائے ریاست بچانے چلے آئے تھے ۔ سخت سردی میں اسلام آباد میں خود گرم کنٹینر میں محفوظ رہ کر اپنے کارکنوں کا جوش کھلی فضا میں گرماتے رہے اور کارکن اپنے رہنما کی محبت میں سردیوں میں سکڑتے رہے تھے جن کا خیال قادری صاحب کی بجائے زرداری صاحب نے کیا تھا اور دھرنا ختم کرایا تھا۔
2018 کے انتخابات سے ایک سال قبل ہی طاہر القادری نے اپنی سیاست میں گرمی پیدا کردی تھی اور اب ان کے پاس سیاست اور ریاست سے زیادہ اپنے شہید کارکنوں کے لہو کا حساب لینے کا موقعہ ہاتھ لگا اور انھوں نے چار سال پرانے ایشو کو زندہ کرکے سیاسی میدان خوب سجایا اور صرف پنجاب حکومت ہی نہیں (ن) لیگ کی وفاقی حکومت کو بھی وقت سے قبل ختم کرانے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور انھوں نے شریفوں کی مخالفت میں آصف زرداری اور عمران خان دو بڑے ناموں کو ماڈل ٹاؤن میں اپنے گھر کی حاضری پر مجبورکردیا اور پنجاب میں نام کی حد تک باقی رہ جانے والی پیپلز پارٹی کے عملی سربراہ کو اپنے گھر آنے کا پہلا موقعہ دیا تو عمران خان بھی اپنے سیاسی کزن سے ملنے اس لیے چلے آئے کہ آصف زرداری نمبر نہ بڑھالیں جس کے بعد آصف زرداری پھر القادریہ آنے پر مجبور ہوئے۔
ڈاکٹر طاہر القادری اپنے دعوے کے مطابق اپنے کنٹینر پر بیک وقت آصف زرداری اور عمران خان کو نہ بٹھا سکے کیونکہ دونوں کے مقاصد مختلف ہیں۔ عمران خان تو 2013 سے ہی نئے انتخابات کی جدوجہد کرتے آئے اور وہ فوری طور انتخابات چاہتے ہیں مگر آصف زرداری اپنی سیاسی مصلحت کے باعث قبل از وقت عام انتخابات نہیں چاہتے مگر وہ نواز شریف کی نااہلیت کے بعد شہباز شریف کو بھی نااہل دیکھنا چاہتے ہیں اور عمران خان بھی شریفوں کی سیاست کے خاتمے کے خواہاں ہیں۔
عمران خان ساڑھے چار سال عام انتخابات کرانے کی کوشش میں ناکام رہنے کے بعد اب مجبور ہوکر عام انتخابات کا انتظار کرنے پر مجبور ہیں جو ان کی جلدبازی کی سیاست کی ناکامی اور آصف زرداری کی سیاسی پالیسی کی کامیابی ہے جس کے زعم میں آصف زرداری دعوے کر رہے ہیں کہ وہ جب چاہیں وفاقی حکومت کو چلتا کرسکتے ہیں۔ آصف زرداریکو اب بھی ملک میں عمران خان جیسی مقبولیت حاصل نہیں اور وہ عمران کی طرح جلد عام انتخابات کے حامی نہیں اور وہ پیپلز پارٹی کے لیے پنجاب کی سیاست کی زمین ہموار کر رہے ہیں۔
آصف زرداری عام انتخابات سے قبل سینیٹ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور اپنی اتحادی پارٹیوں کے امیدواروں کو کامیاب کرانے کے مشن پر ہیں جس کا الزام وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ان پر لگا چکے ہیں کہ وہ ارکان اسمبلی کو خرید کر (ن) لیگ کو حاصل ہونے والی اکثریت روکنا چاہتے ہیں اور بلوچستان میں (ن) لیگ یہ سیاسی نقصان اٹھا چکی ہے۔
مارچ میں سینیٹ کے انتخابات ہونے کے آثار نظر آرہے ہیں جو اگر (ن) لیگ کی ناکامی کی صورت میں ہوگئے تو اگست تک عام انتخابات کی راہ ہموار ہوجائے گی اور اگر نواز شریف نے اپنی موجودہ جارحانہ سیاست جاری رکھی تو (ن) لیگ کے ارکان اسمبلی اپنی پارٹی کی بجائے دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرف راغب ہونا شروع ہوجائیں گے جس کی دیگر رہنماؤں کو قوی امید ہے مگر نواز شریف کو نہیں ہے کیونکہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ موجودہ (ن) لیگی ارکان ان کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں مگر ایسا ہے نہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری اپنے سیاسی مشن میں اگرچہ ناکام نظر آتے ہیں مگر ان کی عوامی تحریک ملک بھر میں کہیں سے بھی ایک سیٹ نہیں جیت سکے گی، اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ نہ خود کھیلیں گے نہ کھیلنے دینا چاہیں گے۔ طاہر القادری کے سوا تمام سیاسی رہنما عام انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں جو ان کا درست فیصلہ ہے۔
عمران خان کے پی کے اسمبلی توڑیں گے نہ سندھ سے پیپلز پارٹی حکومت کا خاتمہ چاہے گی اس لیے موجودہ صورتحال میں بہتر یہی ہے کہ عام انتخابات کا انعقاد سب مل کر یقینی بنائیں۔ اس طرح یہ تیسری اسمبلی ہوگی جو اپنی مقررہ مدت پوری کرلے گی اور جمہوریت جیسی بھی ہے اس کو بھی نقصان نہیں ہوگا۔ آیندہ چار ماہ اہم ہیں، شیخ رشید اور عمران خان اسمبلیوں میں جائیں گے نہ مستعفی ہوں گے ان کے لیے بھی بہتر ہوگا کہ وہ بھی پارلیمنٹ کا احترام کریں اور عام انتخابات ہونے دیں اور اپنے مستقبل کی طرف توجہ دیں تو عوام فیصلہ خود ہی کردیں گے۔