اقرا ایک ابدی پیغام
آپؐ نے حصول علم کو امت کا دینی، ملی اور اجتماعی فریضہ قرار دیا۔
رسول اللہؐ نے پوری انسانیت کے لیے راہ عمل کو واضح اور روشن فرمادیا ہے اور اپنی عملی کاوشوں سے اپنے بیان فرمودہ اصول و قوانین کو انفرادی حیثیت میں بھی اور اجتماعی صورت میں بھی جاری و نافذ فرما کر ان کے عملی طور پر ممکن العمل اور ہر طرح سے مفید ہونے کا ثبوت بھی پیش فرما دیا ہے ۔
یہ بھی بتا دیا کہ آپؐ کی تعلیم محض خیالی نظریہ یا تصوراتی خاکہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ سیرت کے بہترین اور کامل ترین ہونے کی دلیل اس کے خوبصورت اقوال اور دل فریب وخوش کن نظریات و خیالات تک محدود نہیں بلکہ اس کی جانب سے دنیا کے سامنے پیش کیے جانے والے اعمال اورکارنامے ہیں، جن کے بغیرکتابی نظریات کاغذی و بے کیف پھولوں سے زیادہ کچھ حقیقت نہیں رکھتے، اگر اس زاویے سے محسن انسانیتؐ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں تو بھی آپؐ تمام رہنمایان اقوام اور پیشوایان مذاہب میں نہایت ارفع اور بلند ترین مقام پر متمکن نظر آتے ہیں۔
معلم انسانیتؐ نے علم، تعلیم اور اہل علم کے بے شمار فضائل بیان فرمائے، آپؐ نے حصول علم کو امت کا دینی، ملی اور اجتماعی فریضہ قرار دیا، آپؐ نے ابلاغ اور فروغ علم کے فضائل بیان فرمائے اور کنمانِ علم کو انفرادی اور اجتماعی جرم اورگناہ قرار دیا، آپؐ کی ان تعلیمات اور فرامین کی بدولت دور رسالت میں علم اور تعلیم کا ایک ہمہ گیر انقلاب برپا ہوا۔ مکہ معظمہ میں دارارقم، مدینہ منورہ میں صفہ اور دیگر درس گاہوں کے ذریعے وہ علمی اور تعلیمی انقلاب برپا ہوا جس نے دنیا کو مثالی تہذیب اور آئین عطا کیا۔
اسلام کے علاوہ دنیا کا کوئی مذہب یا تمدن ایسا نہیں ہے جس نے تمام انسانوں کی تعلیم کو ایک بنیادی ضرورت قرار دیا ہو، یونان اور چین نے غیر معمولی علمی اور تمدنی ترقی کی لیکن وہ بھی تمام انسانوں کی تعلیم کے قائل نہ تھے، بلکہ اہل علم کے ایک طبقے پر ہی قانع ہوگئے تھے۔افلاطون اپنی جمہوریہ میں جو اونچے اونچے خواب دیکھ سکا اس میں بھی فلاسفہ اور اہل نظر کے ایک مخصوص طبقے ہی کو اس امتیاز سے نوازا گیا۔ اسلام واحد مذہب اور پیغمبر اسلامؐ وہ واحد انقلابی شخصیت ہیں، جنھوں نے تمام انسانوں پر حصول علم اور تعلیم کو بنیادی فریضہ قرار دیا۔
تاریخ انسانیت میں یہ منفرد مقام نبی اکرمؐ کے عطا کردہ مثالی ضابطۂ حیات اسلام ہی کو حاصل ہے کہ وہ سراپا علم بن کر آیا اور تعلیمی دنیا میں ایک ابدی اور ہمہ گیر انقلاب کا پیامبر ثابت ہوا۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے بنی نوع آدم نے اپنے سفرکا آغاز تاریکی اور جہالت سے نہیں بلکہ علم اور روشنی سے کیا ہے۔ چنانچہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تخلیق آدمؑ کے بعد خالق کائنات نے انسان اول (حضرت آدمؑ) کو سب سے پہلے جس عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا، وہ علم تھا ''علم'' ہی کی بدولت اللہ علیم و خبیر اور عالم الغیب والشہادہ نے حضرت آدمؑ اور بنی نوع آدم کو جملہ مخلوق پر عزت و عظمت اور فضیلت بخشی۔ اسے لائق عزت و تکریم ٹھہرایا گیا۔
دنیا کے تمام مذاہب میں دین اسلام ہی وہ پہلا اور آخری مذہب اور آسمانی صحائف میں قرآن ہی وہ واحد صحیفہ ہدایت ہے جو انسان کو کائنات اور نظام کائنات میں غوروفکر، عبرت و بصیرت اور تفکروتدبرکی دعوت دیتا ہے۔ ''اقرا'' کا حکم الٰہی انسانی تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ تھا جس نے آنے والے دور میں انسانی تاریخ کا دھارا موڑ دیا، علم وحکمت کے اس ابدی پیغام سرمدی نے انسانی نظام و نظریہ حیات کو ایک خاص رخ اور ایک خاص نہج عطا کیا، اس نے تہذیب و تمدن اور علم پروری کی انسانی تاریخ پر انمٹ نقوش ثبت کیے، انسان جدید کی صورت گری کا آغاز غار حرا میں نزول وحی سے ہوا۔
اقرا باسم ربک الذی خلق
معلم انسانیتؐ پر نازل ہونے والی وحی کی یہ ابتدائی آیات و تعلیمات انتہائی غوروفکر، تدبروتفکر کی متقاضی ہیں، وادی فاران کی چوٹیوں پر واقع ''حرا'' نامی تنگ وتاریک غار میں نازل ہونے والے علم و قلم کے نور سے منور اس ابدی پیغام ہدایت نے دنیائے انسانیت کو علم و حکمت کے نور سے منور کیا۔ اس پیغام ہدایت نے علم پروری کو اسلام اور مسلمانوں کی سرشت میں داخل کردیا، تعلیم و تعلم اور ابلاغ و فروغ علم اسلام اور مسلمانوں کا مزاج بن گیا، اس وحی کے نزول کے بعد ہی معلم انسانیتؐ نے امت کی تعلیم کے لیے اپنی ذات کو وقف کردیا۔ عالم الغیب والشہادۃ نے معلم کتاب و حکمت کی بعثت ہی بحیثیت معلم کے فرمائی، زبان نوبت سے فرمان جاری ہوا ''بے شک، میں تو معلم بنا کر مبعوث کیا گیا ہوں۔''
چنانچہ بعدازاں سفر و حضر، رات اور دن، ہر حال اور ہر مقام پر معلم انسانیتؐ کی ذات مقدسہ متحرک درسگاہ بن گئی۔ مختلف حالات و واقعات میں ایک لاکھ سے زائد تلامذہ و صحابہؓ نے آپؐ سے تعلیم پائی اور فرمان نبویؐ کی پیروی میں فیضان نبویؐ سے فیض یابی کے بعد چہار دانگ عالم میں علم و حکمت کے چراغ روشن کیے۔
مدینہ منورہ میں تحریک اسلام کو آزاد ماحول میسر آیا تو معلم کتاب و حکمتؐ نے سب سے پہلے تعلیم و تربیت کے مسئلے کو مستقل اور پائیدار بنیادوں پر حل کرنے کی طرف توجہ فرمائی اور اس مقصد کے لیے آپؐ نے مسجد کو منتخب فرمایا، اس اعتبار سے مسجد نبویؐ اسلام کا پہلا مرکز تعلیم و تربیت یعنی جامعہ یا یونیورسٹی ہے۔ اس یونیورسٹی کا نصاب تعلیم و تربیت بزبان قرآن ملاحظہ ہو، فرمایا:
''جس طرح (منجملہ اور نعمتوں کے) ہم نے تم میں تمہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو تمہیں ہماری آیات پڑھ پڑھ کر سناتا، تمہارا تزکیہ کرتا، تمہیں الکتاب (قرآن) اور حکمت سکھاتا اور تمہیں ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہ تھا۔''
اس سے معلوم ہوا کہ اس پہلی اسلامی یونیورسٹی (صفہ) کا نصاب اصولی طور پر یہ تھا۔ (1)۔ قرأت قرآن۔ (2)۔ تزکیہ۔ (3)۔تعلیم کتاب (4)۔تعلیم حکمت اور (5)۔علوم نو کی تعلیم۔ اور پھر قرآن حکیم کی فکر کے تین بنیادی اصول ہیں۔ (1)۔ تعلیم احکام۔ (2)۔تہذیب اخلاق۔ (3)۔ تنظیم اعمال۔ تعلیم احکام سے مراد شریعت، تہذیب اخلاق سے مراد طریقت اور تنظیم اعمال سے مراد سیاست ہے۔ یعنی دین اسلام شریعت، طریقت اور سیاست کے مجموعے کا نام ہے نیز اسلامی نظریہ حیات کا اپنا ہی فلسفہ تعلیم ہے جو ہر اعتبار سے منفرد اور ممتاز ہے، ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھی اسلام کا نظام تعلیم اسی تصور کی بنیاد پر پروان چڑھے۔