ترکی کا شام میں ’آپریشن شاخ زیتون‘

صدر طیب اردوان بری اور ہوائی فوج استعمال کرکے کیا مقاصد حاصل کرناچاہتے ہیں؟

امریکا کا کیا کردار ہے، روس کیوں تعاون پر مجبور ہے؟۔ فوٹو: فائل

امسال بیس جنوری کو ترک زمینی اور ہوائی فوج بھی'آپریشن شاخِ زیتون' کا نعرہ لگاتے ہوئے شام کے معرکہ میں باقاعدہ کود پڑی ہے۔

جب یہ سطور رقم ہورہی ہیں،اس آپریشن کے دوران میں جیٹ طیاروں کی بمباری سے 44 اہداف کو تباہ کیاجاچکاتھا جبکہ 597 دہشتگرد ہلاک کر دئیے گئے تھے۔ اسی دوران سٹریٹجک نقطہ نظر سے اہم پہاڑی 'برصایا' پر قبضہ کر لیا گیا۔ ترک فوج کی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ یہ آپریشن بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے قراردادوں کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے ترکی کے مفادات کے تحت ہو رہا ہے۔

یواین چارٹر کے مطابق کسی بھی ملک کو اپنے دفاع کے لیے قدم اٹھانے کا حق ہے تاہم اس سلسلے میں شام کی سالمیت کا احترام کیا جائے گا۔ ترک فوج نے اعلان کیا، ان کے لئے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اس آپریشن کے دوران میں کسی عام شہری کو نقصان نہ پہنچے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے آپریشن کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ترکی شام کے علاقے'عفرین' میں آپریشن کرد''پی کے کے'' کی شامی شاخ ''پی وائے ڈی اور وائے پی جی'' کے خلاف شروع کررہاہے جو2014ء سے اس علاقے پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔

شام میں اس دوسرے بڑے ترک آپریشن کے مختلف مقاصد ہیں، مثلاً ترکی ''پی کے کے'' کی شمالی شام خصوصاً عفرین میں موجودگی کو علاقائی استحکام کے خلاف خطرہ سمجھتا ہے۔ کرد دہشتگرد تنظیم کی کوشش رہی ہے کہ ترک، شام سرحد پر ایک خودمختار زمینی ریاست قائم کی جائے۔ حال ہی میں امریکی سربراہی میںداعش کے خلاف قائم اتحاد نے اس دہشت گرد تنظیم کے ساتھ مل کر اسے ایک فوج میں بدلنے کا منصوبہ بنایا، یہ ریاست قائم کرنے کی کوششوں کا ایک حصہ ہوسکتاہے۔

حالیہ برسوں میں''پی کے کے'' تنظیم کی شامی علاقے عفرین کی موجودگی کے نتیجے میں ترک عوام اور سیکیورٹی فورسز پر دہشت گردانہ کاروائیاں جاری رہی ہیں۔ جنوبی ترکی خصوصاً 'ہیتھے' میں ہونے والی کئی کارروائیوں میں بھی ''پی کے کے'' ملوث رہی ہے۔ ترکی کو خطرہ تھا کہ یہ دہشت گرد تنظیم تورس کے پہاڑوں پر بیٹھ کر ترکی کے بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں میں اپنی دہشتگرد کارروائیاں آسانی سے پھیلا سکتی ہے۔

نتیجتاً فیصلہ کیا گیا کہ ترک فوج اس آپریشن کے ذریعے عفرین کو 'پی کے کے'،' پی وائے ڈی' سے آزاد کروائے۔ اس کے علاوہ ترکی عفرین کے سماجی فیبرک اور معاشی انفراسٹرکچر کو بھی قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ یہاں استحکام قائم کیا جائے۔ اس استحکام سے مقامی کرد جو جنگ زدہ علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے وہ واپس اپنے گھروں اور آبادی میں آسکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ترک آپریشن کی وہاں کے مقامی لوگوں نے حمایت کی۔ عفرین کی تعمیر نو کے لیے ترکی کے پاس بہترین تجربہ موجود ہے۔ اس سے قبل وہ جرابلس اور الباب کے علاقے دہشت گردوں سے پاک کرکے مقامی آبادی کے حوالے کرچکا ہے۔

بشارالاسد کے خلاف لڑنے والی آزاد شامی فوج بھی ترک آپریشن میں مدد فراہم کررہی ہے، آزاد شامی فوج کے قریباً25000 مجاہدین آپریشن شاخِ زیتون میں شامل ہورہے ہیں۔میجر یاسر عبد رحیم،آزاد شامی فوج کے مرکزی یونٹ کے کمانڈر، نے روسی خبر رساں ادارے کو بتایا ''آزاد شامی فوج کے جوانوں کا مقصد علاقے کو 'وائے پی جی' کے دہشتگردوں سے آزاد کروانا ہے۔ہمارا شہر میں داخل ہونے کا منصوبہ صرف اندرون شہر عسکری اہداف کو حاصل کرنا نہیں ہے،ہمارا مقصد پورے شہر کو گھیرے میں لے کر یہ یقینی بنانا ہے کہ دہشتگردوں کا صفایا ہو، ہم شہر کے اندر نہیں لڑیں گے کیونکہ ہمیں شہریوں سے کوئی مسئلہ نہیں''۔ میجر عبد الرحیم نے کہا:''آزاد شامی فوج کا ہدف روسی فضائی مدد کے ساتھ 16 عرب قصبوں اور دیہاتوں کو حاصل کرناہے''۔کرد دہشت گرد تنظیمیں خطے سے نسلی بنیادوں پر عربوں کو شہر بدر کرتی ہیں، ان کی املاک اور کاروبار پر قبضہ کرتی ہیں۔

ترک صدر اردوان کا کہنا ہے:''ہمارے بہادر سپاہیوں نے اس خطے میں 'آپریشن فرات ڈھال' کی صورت میں تاریخ رقم کی تھی، آج یہ عفرین میں تاریخ بنارہے ہیں،(آنے والے) کل یہ ہماری سرحدوں پر موجود دہشت گردوں کے خلاف تاریخ لکھیں گے''۔ ترک صدر نے ان قوتوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جو ترک سپاہیوں کو ''حملہ آور'' کہہ رہی ہیں، انہوں نے کہا کہ ایسا کہنے والوں کی اپنی تاریخ جارحیت اور استحصال سے بھری پڑی ہے، ترک قوم کی تاریخ میں کوئی جارحیت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ترکوں کی شامی سرزمین پر نظر نہیںہے، وہ عفرین میں اس لیے داخل ہوئے کہ اسے انسانوں کے لیے رہنے کی جگہ بنا سکے تاکہ ترکی میں رہنے والے شامی اپنے گھروں کو واپس جاسکیں۔ ہم اسی طرح الباب اور جرابلس میں کر چکے ہیں۔'آپریشن فرات ڈھال' کے نتیجے میں جو علاقہ دہشت گردوں سے صاف کیا گیا اس میں ایک لاکھ 30ہزار شامی شہری واپس جا بسے ہیں ، اسی طرح عفرین اور ادلب میں ہوگا، ان زمینوں کے مالک اپنی زمینوں پر واپس جائیں گے۔ صدر اردوان نے کہا کہ''ہماری نظریں ان کی زمین پر نہیں ہیں، ہمارا ایسا کوئی منصوبہ نہیں، ہم مغرب کی طرح نہیں ہیں، ہم ترک ہیں، ہم ترکی ہیں۔ ہم نے ایک راستہ چنا ہے اور ایک طریقے سے اس پر چل رہے ہیں''۔

ترک صدر نے کہا ہے کہ عفرین میں دہشت گردوںکے خلاف شروع کیا جانے والا آپریشن مختصر مدت میں مکمل کر لیا جائے گا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ دہشت گرد علاقے سے فرار ہو رہے ہیں، پی کے کے عفرین سے فرار ہورہی ہے لیکن ہم اس کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے، وہ بھاگے گی اور ہم اس کا پیچھا کریں گے۔


طیب اردوان نے کہا کہ ''دنیا بھر کے مسلمان ہمارے لئے دعا کر رہے ہیں، افریقہ کے مسلمان، افریقی بچے بھی ہمارے لئے دعا کر ر ہے ہیں، ہم تنہا نہیں ہیں۔ دہشت گردوں کا سر کچلنا ہمارا ملّی مسئلہ تھا۔ یورپ میں یورپی حمایت حاصل کرنے والی دہشت گرد تنظیمیں محض دہشتگرد تنظیمیں نہیں ہیں بلکہ غلیظ منظرنامے کی قیادت کرنے والوں کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ترک صدر نے دہشت گردوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا '' صرف اس تسلی پر کہ ہمارے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے آپ ترکی پر حاوی نہیں ہو سکتے''۔

اب ترکی نے اعلان کیا ہے کہ وہ 'عفرین' کے بعد'وائے پی جی' کے مقبوضہ علاقے 'منبج' میں آپریشن کرے گا، اس نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ اس علاقے سے اپنی فوج نکال لے تاہم امریکی سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل جوزف وٹال نے کہا کہ امریکا منبج سے اپنے فوجی نہیں نکالے گا۔ جنرل جوزف عراق اور شام میں داعش مخالف جنگ کے کوارڈینیٹر بھی ہیں۔ امریکی ٹی وی'سی این این' نے جنرل جوزف کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکا 'منبج' سے فوجیوں کو نکالنے کے کسی منصوبہ پر غور نہیں کر رہا۔

ترک حکام نے اپنے وعدے نہ نبھانے پر امریکا کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، یادرہے کہ امریکہ نے وعدہ کیا تھا، وہ جو علاقے بھی آزاد کروائے گا ، مقامی کونسل کے کنٹرول میں دیتاچلاجائے گا لیکن شمالی شام میں امریکہ کی طرف سے آزاد کردہ علاقوں کو 'پی وائے ڈی'، 'پی کے کے' کے کنٹرول میں دیدیا گیا۔ باراک اوبامہ کی زیرقیادت سابقہ امریکی انتظامیہ نے ترکی کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ 'وائے پی جی' دریائے فرات کے مشرق کی طرف چلی جائے گی۔انقرہ کی طرف سے جاری وارننگ کے باوجود اس وعدے پر عمل نہیں کیا گیا اور وائے پی جی فرات کے مشرق کی طرف نہیں گئی۔

ایک طرف امریکا ترکی کے دشمن دہشت گردوں کی پشتی بانی کررہاہے ، دوسری طرف وہ ترکی پر زور دے رہا ہے کہ وہ آپریشن شاخ زیتون کی مدت کا واضح تعین کرے گا، تاہم ترک صدر اردوان نے کہا کہ آپریشن اس وقت ہی ختم ہو گا جب اس کے اہداف حاصل ہوں گے''۔

انہوں نے امریکی حکام سے استفسار کیا: ''آپ کتنے عرصے سے افغانستان میں ہیں؟ کیا عراق میں آپ کا معاملہ ختم ہو گیا؟'' ترک صدر نے2001ء اور 2003ء کی امریکی فوجی مداخلتوں کا ذکر کرتے ہوئے امریکی دوغلا پن کو واضح کیا۔ اردوان نے واضح کیا کہ ان جنگوں میں کوئی ریاضی نہیں چلتی۔ تم ہم سے پوچھ کیسے سکتے ہو؟ ہم تب تک وہاں رہیں گے جب تک ہم چاہیں گے۔ البتہ وہاں مستقل طور پر ڈیرہ جمانے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم نے اسے کب چھوڑنا ہے''۔

اس سارے منظرنامے سے متعلق ایک اہم سوال یہ ہے کہ روس اس ترک آپریشن کو کس نظر سے دیکھ رہاہے؟ جیسے جیسے یہ آپریشن آگے بڑھ رہاہے، واضح ہورہاہے کہ ایسی مہم روس کی حمایت کے بغیر سرانجام نہیں دی جاسکتی۔ مثلاً ترک ہوائی فوج شامی فضاؤں میں جاکرآپریشن کررہی ہے، ظاہر ہے کہ اس کے لئے اس نے روس کو ضرور اعتماد میں لیاہوگا۔ اسی طرح ترکی کو ضمانت مطلوب تھی کہ اس آپریشن کے دوران بشارالاسد صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرے گا، یہ ضمانت روس ہی فراہم کرسکتاتھا۔ امریکی حمایت یافتہ کرد اور عرب جنگجوؤں پر مشتمل اتحادسیرین ڈیموکریٹک فورسز( ایس ڈی ایف) بھی جانتے ہیں کہ ترکی روس کی مشاورت کے بغیر آپریشن کرہی نہیں سکتا۔ نتیجتاً ایس ڈی ایف کے ترجمان نے روس کے رویے پر مایوسی کا اظہارکیا۔

اسے امید نہیں تھی کہ روس ترکی کو اس علاقے میں داخل ہونے اور آپریشن کرنے کی اجازت دے گا۔کمانڈر جنرل سپان ہیموکا کہناہے کہ روس نے کردوں سے بے وفائی کی ہے۔ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب روس اصولوں کی خلاف ورزی پرکردوں سے معافی مانگنے پر مجبور ہوگا۔

بعض ذرائع کا کہناہے کہ گزشتہ موسم گرما میں روسی وزیردفاع سرگئی شوگو اور ترک چیف آف سٹاف حلوثی اکر کے درمیان استنبول میں ہونے والی ملاقات میں آپریشن شاخِ زیتون کی بنیاد رکھی گئی، اسی ملاقات میں روس نے ترکی کو شامی فضا استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔ ایک ماہ پیشتر ترکی نے اس کرد علاقے کے قریب فوج جمع کرنا شروع کردی تھی، دوسری طرف روسی فوج نے عفرین کے علاقے سے انخلا کا اعلان کردیا۔اس سے صاف ظاہرہوتاہے کہ آپریشن شاخ زیتون کے ضمن میں ترکی اور روس ایک صفحہ پر کھڑے ہیں۔

کیا روس شام کے مسئلے سے اپنے آپ کو نکال رہاہے؟ اگلے ماہ روس میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں روسی صدر ولادی میر پوٹن ایک ایسے کامیاب رہنما کے طور پر کامیابی حاصل کرناچاہتے ہیں جو جنگ سے تباہ حال ملک میں امن کے قیام میں مراحل طے کرچکاہے، دوسری طرف وہ ترکی کے ساتھ مفاہمت پر بھی مجبور ہے کیونکہ 'ترکش سٹریم'( قدرتی گیس کی پائپ لائن کا منصوبہ کو بہرصورت بچھانا چاہتاہے۔ یہ روس سے شروع ہوگی اور بحراسود کے ترک پانیوں سے گزرتے ہوئے یورپ میں داخل ہوگی۔

اس منصوبے کو 2019ء تک مکمل ہوناہے۔ روس کے لئے یہ منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ 2015ء میں ترکی نے اس منصوبے پر کام روک دیا، روس نہیں چاہتا کہ ترکی دوبارہ اسے تعطل کا شکار کرے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر ترکی اس منصوبے کو 'بارگیننگ چپ' کے طور پر استعمال کررہا اور شام میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کررہاہے۔
Load Next Story