معاف کرنے کی فضیلت

جس سے غلطی صادر ہو وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور اُس کی معافی مانگے۔


جس شخص سے معافی مانگی جائے اُسے بھی چاہیے کہ وہ غلطی کی معافی مانگنے والے کو اللہ کی رضا کی خاطر معاف کردے۔ فوٹو : فائل

معاشرتی و اجتماعی زندگی میں ہر فرد کو ایک دوسرے کے ساتھ رہنے سہنے اور اپنی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے دوسروں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے، اس لیے بسا اوقات اس میں ایک دوسرے کے ساتھ اَن بن اور خفگی و رنجش کا ہوجانا ایک عام سی بات ہے، جس سے کوئی بھی عقل مند انسان انکار نہیں کرسکتا، لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ بات کا بتنگڑ بناکر اِس معمولی سی رنجش و خفگی کو ہوا دے کر خاندانی و قبائلی آگ کا الاؤ بھڑکا دیا جائے، اور زمانۂ جاہلیت کی یادیں تازہ کردی جائیں، بلکہ اِس کا سب سے اچھا اور بہترین حل یہ ہے کہ جس سے غلطی صادر ہوئی ہے وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور اُس کی معافی مانگے، اسی طرح جس شخص سے معافی مانگی جائے اُسے بھی چاہیے کہ وہ غلطی کی معافی مانگنے والے کو اللہ کی رضا کی خاطر معاف کردے۔ اِس سے معاشرے میں باہمی محبت و بھائی چارگی اور اتحاد و اتفاق کا ماحول پیدا ہوگا اور معاشرہ ایک درُست اور مثبت سمت کی جانب بہت تیزی کے ساتھ گام زن ہوجاتا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا، مفہوم : '' اور اُنہیں چاہیے کہ معافی اور درگزر سے کام لیں۔'' (سورۃ النور)

حضرت ابوالدرداء ؓفرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضورؐ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ آئے، اُنہوں نے اپنا کپڑا پکڑ رکھا تھا، جس سے اُن کے گھٹنے ننگے ہورہے تھے، اور اِس کا اُنہیں احساس نہیں تھا، اُنہیں دیکھ کر حضور نے فرمایا: '' تمہارے یہ ساتھی جھگڑ کر آرہے ہیں۔'' حضرت ابوبکرؓ نے آکر سلام کیا ، اور عرض کیا: ''میرے اور ابن الخطاب کے درمیان کچھ بات ہوگئی تھی، جلدی میں مَیں اُن کو نامناسب بات کہہ بیٹھا، لیکن پھر مجھے ندامت ہوئی، جس پر میں نے اُن سے معافی مانگی، لیکن اُنہوں نے معاف کرنے سے انکار کردیا، تو میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوگیا ہوں۔

حضورؐ نے فرمایا: '' اے ابوبکر! اللہ تمہیں معاف فرمائے!'' اِدھر کچھ دیر کے بعد حضرت عمرؓ کو ندامت ہوئی تو اُنہوں نے حضرت ابوبکر ؓکے گھر آکر پوچھا: '' یہاں ابوبکرؓ آئے ہیں؟'' گھر والوں نے کہا: نہیں! تو وہ بھی حضورؐ کی خدمت میں آگئے۔ اُنہیں دیکھ کر حضورؐ کا چہرہ بدلنے لگا، جس سے حضرت ابوبکرؓ ڈر گئے، اور اُنہوں نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر دو دفعہ عرض کیا: ''یا رسول اللہ ﷺ! اللہ کی قسم! قصور میرا زیادہ ہے۔'' پھر حضورؐ نے فرمایا: ''اللہ نے مجھے تم لوگوں کی طرف رسول بناکر بھیجا تھا، تو تم سب نے کہا تھا تم غلط کہتے ہو، لیکن اُس وقت ابوبکر ؓنے کہا تھا آپؐ ٹھیک کہتے ہیں، اُنہوں نے اپنے مال اور جان کے ساتھ میرے ساتھ غم خواری کی، پھر آپؐ نے دو دفعہ فرمایا: '' کیا تم میرے اِس ساتھی کو میری وجہ سے چھوڑ دو گے۔؟'' چناں چہ حضورؐ کے اِس فرمان کے بعد کسی نے حضرت ابوبکرؓ کو کوئی تکلیف نہ پہنچائی۔''

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں : '' حضورؐ کی زوجۂ محترمہ حضرت اُم حبیبہؓ نے مجھے انتقال کے وقت بلایا، میں اُن کے پاس گئی تو مجھ سے کہا: ''ہمارے درمیان کوئی بات ہوجایا کرتی تھی تو جو کچھ ہوا ہے اللہ تعالیٰ مجھے بھی معاف کرے اور آپ کو بھی۔'' میں نے کہا : ''اللہ تعالیٰ آپ کی ایسی ساری باتیں معاف فرمائے، اور اُن سے درگزر فرمائے، اور اُن باتوں کی سزا سے آپ کو محفوظ فرمائے!۔'' حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ''آپ نے مجھے خوش کیا، اللہ آپ کو خوش فرمائے!'' پھر حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے پیغام بھیج کر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور اُن سے بھی یہی کہا۔''

یہ ہیں اسلام کی وہ مبارک اور نورانی تعلیمات کہ جن کی برکت اور نورانیت کی وجہ سے ہمارا یہ انسانی معاشرہ باہمی رنجش و ناراضی اور خفگی و ناخوش گواری سے چھٹکارا حاصل کرکے اخوت و بھائی چارگی اور اتفاق و اتحاد کی زندگی بسر کرسکتا ہے، لیکن ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہمیں اِس نکتے پر آکر کھڑا ہونا ہوگا، اسلام کی اِن روشن اور مبارک تعلیمات کو سینے لگانا ہوگا، اور اُنہیں مذہب اور قدر کی نگاہ سے دیکھنا ہوگا، تب کہیں جاکر ہمارے اِس معاشرے اور ہماری اِس اجتماعی زندگی سے نفرت، حقارت اور دُشمنی کا خاتمہ ممکن ہوگا اور اخوت و بھائی چارگی اور اُلفت و محبت کا بول بالا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں