موت سے کس کو رُستگاری ہے ۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے موت میں ذائقہ رکھا ہے، اب وہ کیسا ہے میٹھا یا کڑوا ؟ اس کا دار و مدار انسانی اعمال پر منحصر ہے۔
موت دیگر مخلوقات کی طرح خالقِ کائنات کے حکم سے وجود میں آئی ہے اور ہمیشہ انسانی نظروں سے اوجھل رہتی ہے، انسان اسے ڈھونڈتے ہوئے بھی نہیں پاسکتا، بل کہ اگر یوں کہا جائے تو بجا ہوگا کہ آنکھ اسے موت سے پہلے دیکھنے سے قاصر ہے، کوئی دیکھے بھی تو کیسے دیکھے، نہ ہی اس کا کوئی مکان ہے اور نہ ہی یہ مکین ہے اور نہ اس کا کوئی مخصوص راستہ ہے کہ انسان گھات لگا کر اسے پکڑ لے، یہ جس گھر کا رخ کرتی ہے کہرام مچا دیتی، رنج و الم کی چادر بچھا دیتی اور فضا سوگوار بنا دیتی ہے۔
موت حکم الٰہی کی ہمیشہ منتظر رہتی ہے، حکم ملنے پر پلک جھپکنے کی بھی دیر نہیں کرتی اور حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے ہدف کو دبوچ لیتی اور جس حالت میں اپنے ہدف کو پاتی ہے، لے کر بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوجاتی ہے۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ موت کا معاملہ زیادہ خطرناک ہے اور لوگ اس سے بہت غافل ہیں اول تو اپنے مشاغل کی وجہ سے اس کا تذکرہ ہی نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تب بھی چوں کہ دل دوسری طرف مشغول ہوتا ہے اس لیے محض زبانی تذکرہ مفید نہیں، بل کہ ضرورت اس کی ہے کہ سب طرف سے بالکل فارغ ہوکر موت کو اس طرح سوچے کہ گویا وہ سامنے ہے جس کی صورت یہ ہے کہ : اپنے عزیز واقارب اور جانے والے احباب کا حال سوچے کہ کیوں کر ان کو چارپائی پر لے جاکر مٹی کے نیچے دبا دیا۔ ان کی صورتوں کا، ان کے اعلیٰ مناصب کا خیال کرے اور یہ غور کرے کہ اب مٹی نے کس طرح ان کی صورتوں کو پلٹ دیا ہوگا، ان کے بدن کے ٹکڑے ہوگئے ہوں گے، کس طرح بچوں کو یتیم، بیوی کو بیوہ اور عزیز و اقارب کو روتا چھوڑ کر چل دیے، ان کا سامان اور کپڑے پڑے رہ گئے، یہی حشر ایک دن میرا بھی ہوگا۔
کس طرح وہ مجلسوں میں بیٹھ کر قہقہے لگاتے تھے آج خاموش پڑے ہیں، کس طرح دنیا کی لذتوں میں مشغول تھے آج مٹی میں ملے پڑے ہیں، کیسا موت کو بُھلا رکھا تھا آج اس کا شکار ہوگئے ۔ کس طرح جوانی کے نشے میں تھے آج کوئی پوچھنے والا نہیں، کیسے دنیا کے دھندوں میں ہر وقت مشغول رہتے تھے آج ہاتھ الگ پڑا ہے، پاؤں الگ ہے، زبان کو کیڑے چاٹ رہے ہیں، بدن میں کیڑے پڑگئے ہوں گے۔
کیسا کِھل کھلا کر ہنستے تھے آج دانت گرے پڑے ہوں گے۔ کیسی کیسی تدبیر یں سوچتے تھے، برسوں کے انتظام سوچتے تھے حالاں کہ موت سر پر تھی، مرنے کا دن قریب تھا، مگر انہیں معلوم نہیں تھا کہ آج رات کو میں نہیں رہوں گا اور آج یہی حال میرا ہے۔ آج میں اتنے انتظامات کررہا ہوں مگر کل کی خبر نہیں کہ کل کیا ہوگا۔
حضرت دانیال علیہ السلام ایک دن جنگل میں چلے جا رہے تھے ۔ آپ کو ایک گنبد نظر آیا، آواز آئی کہ اے دانیال! ادھر آ۔ دانیال علیہ السلام اس گنبد کے پاس گئے تو دیکھا بڑی عمدہ عمارت ہے اور عمارت کے بیچ ایک عالی شان تخت بچھا ہوا ہے، اس پر ایک بڑی لاش پڑی ہے، پھر آواز آئی کہ اے دانیال تخت کے اوپر آؤ۔
آپ اوپر تشریف لے گئے تو ایک لمبی چوڑی تلوار مردے کے پہلو میں رکھی ہوئی تھی۔ اس پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی کہ '' میں قوم عاد سے ایک بادشاہ ہوں، خدا نے تیرہ سو سال کی مجھے عمر عطا فرمائی، بارہ ہزار میں نے شادیاں کیں، آٹھ ہزار بیٹے ہوئے لاتعداد خزانے میرے پاس تھے اس قدر نعمتیں لے کر بھی میرے نفس نے خدا کا شکر ادا نہ کیا، بل کہ الٹا کفر کرنا شروع کر دیا اور خدائی کا دعوٰی کرنے لگا۔
خدا نے میری ہدایت کے لیے ایک پیغمبر بھیجا، ہر چند انہوں نے مجھے سمجھایا، مگر میں نے کچھ نہ سنا، انجام کار وہ پیغمبر مجھے بددعا دے کر چلے گئے، حق تعالیٰ نے مجھ پر اور میرے ملک پر قحط مسلط کر دیا، جب میرے ملک میں کچھ پیدا نہ ہوا، تب میں نے دوسرے ملکوں میں حکم بھیجا کہ ہر قسم کا غلہ اور میوہ میرے ملک میں بھیجا جائے، میرے حکم کے مطابق ہر قسم کا غلہ اور میوہ میرے ملک میں آنے لگا، جس وقت وہ غلہ یا میوہ میرے شہر کی سرحد میں داخل ہوتا فوراً مٹی بن جاتا اور وہ ساری محنت بے کار ہو جاتی اور کوئی دانہ مجھے نصیب نہ ہوتا۔
اسی طرح ساٹھ دن گزر گئے، میرے قلعے سے سب خدام اور میرے بیوی بچے بھاگ گئے، میں قلعے میں تنہا رہ گیا، سوائے فاقہ کے میری کوئی خوراک نہ تھی، ایک دن میں نہایت مجبور ہو کر فاقے کی تکلیف میں قلعے کے دروازے پر آیا، وہاں مجھے ایک شخص نظر آیا، جس کے ہاتھ میں کچھ غلّے کے دانے تھے جن کو وہ کھاتا چلا جاتا تھا، میں نے اس جانے والے سے کہا کہ ایک بڑا برتن بھرا ہوا موتیوں کا مجھ سے لے لے اور یہ اناج کے دانے مجھے دے دے، مگر اس نے نہ سنی اور جلدی سے ان دانوں کو کھا کر میرے سامنے سے چلا گیا، انجام یہ ہوا کہ اس فاقے کی تکلیف سے میں مرگیا، یہ میری سرگزشت ہے، جو شخص میرا حال سنے، وہ کبھی دنیا کے قریب نہ آئے۔
(بہ حوالہ: سیرۃ الصالحین)
اللہ تعالیٰ نے موت میں ذائقہ رکھا ہے ، اب وہ کیسا ہے، میٹھا یا کڑوا ؟ اس کا دار و مدار انسانی اعمال پر منحصر ہے، البتہ یہ ذائقہ چکھنے سے کوئی بھی کسی صورت میں بچ نہیں سکتا، ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہی ہے۔
حضرت حسنؓ فرماتے ہیں کہ حضور نے ایک مرتبہ موت کی سختی کے ذکر پر فرمایا کہ: اتنی تکلیف ہوتی ہے جیسے کہ تین سو جگہ تلوار کی کاٹ سے ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جب وصال ہوا تو حق تعالیٰ شانہ نے دریافت کیا کہ موت کو کیسا پایا ؟ انہوں نے عرض کیا کہ: میں اپنی جان کو ایسا دیکھ رہا تھا جیسے زندہ چڑیا کو اس طرح آگ پر بھونا جارہا ہو کہ نہ اس کی جان نکلتی ہو، نہ اڑنے کی صورت ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ ایسی حالت تھی جیسا کہ زندہ بکری کی کھال اتاری جارہی ہو۔
حضرت شداد بن اوس ؒ فرماتے ہیں کہ: موت دنیا و آخرت کی سب تکلیفوں سے سخت ہے، وہ قینچیوں سے کتر دینے سے زیادہ سخت ہے، وہ دیگ میں پکانے سے زیادہ سخت ہے ۔ اگر مردے قبر سے اٹھ کر مرنے کی تکلیف بتائیں تو کوئی شخص بھی دنیا میں لذت سے وقت نہیں گزار سکتا، میٹھی نیند اس کو نہیں آسکتی۔
(بہ حوالہ: موت کی یاد حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا)
حضرت سیدنا بلالؓ کم زور ہوگئے اور ان کے چہرے پر موت کے آثار نمایاں ہوئے تو ان کی بیوی نے کہا : ہائے میں لُٹ گئی۔ آپؓ نے فرمایا کہ یہ تو خوشی کا موقع ہے اب تک میں زندگی کی مصیبتوں میں مبتلا تھا اور تُو کیا جانے کہ موت کس قدر عمدہ اور آسائش والی شے کا نام ہے۔ اس وقت آپؓ کا چہرہ گلاب کی مانند دمک رہا تھا اور آنکھوں میں موجود نور اس کی گواہی دے رہا تھا۔
حضرت سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ کی بیوی بولی کہ آپؓ تنہا رخصت ہو کر مسافر بن رہے ہیں اور اپنے اہل و عیال سے دور ہو رہے ہیں ؟ آپؓ نے فرمایا کہ ایسا ہرگز نہیں بل کہ آج رات میری جان سفر کے بعد واپس لوٹ رہی ہے۔ بیوی بولی کہ یہ تو بڑے دکھ کا مقام ہے ؟ آپؓ نے فرمایا کہ نہیں بل کہ یہ تو خوشی نصیبی ہے۔ بیوی بولی کہ اب ہم آپؓ کا چہرہ کیسے دیکھ سکیں گے ؟
آپؓ نے فرمایا کہ اب میں بارگاہ الٰہی میں ہوں گا اور اس کا حلقہ ہر ایک کے ساتھ پیوستہ ہے۔ اگر تو اپنی نظر بند کرے اور پستی کی جانب نہ جائے تو اس حلقہ میں نورالٰہی اس طرح چمکتا ہے جس طرح انگوٹھی میں جڑا نگینہ۔ میں اب معارف اور اسرار کا خزانہ بن گیا ہوں اور اس جسم میں اسے سنبھالنے کی سکت نہیں ہے۔ میں جب گدا تھا تب میری روح اس جسم میں سما سکتی تھی اب جب کہ میں معارف کا شاہ بن گیا ہوں تو اس کے لیے وسیع جگہ کی ضرورت ہے اور انبیائے کرام علیہم السلام بھی اسی وجہ سے دنیا کو ترک کرکے آخرت کی جانب روانہ ہوئے۔ جو لوگ مردہ دل ہوتے ہیں ان کے لیے دنیا عزت کی جگہ ہے اور اہل دنیا کے لیے وسیع جب کہ اہل باطن کے لیے تنگ ہے۔
اگر دنیا تنگ نہیں ہے تو پھر یہاں کے رہنے والوں میں ہنگامہ آرائی کیسی ہے ؟ یہاں تنگی کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب انسان سوتا ہے اور وسعت کے باوجود یہ دنیا اسے تنگ محسوس ہوتی ہے۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح ظالموں کے چہرے بہ ظاہر خوش ہوتے ہیں لیکن ان کی روح تنگی کی وجہ سے آہ و بکا میں مشغول ہوتی ہے۔ اولیاء اللہ کی روح عالم بیداری میں اسی طرح آزاد ہوتی ہے جس طرح عوام الناس کی روح نیند کے وقت اور ان کی مثال اصحاب کہف سی ہے جو دنیاوی اعتبار سے تو نیند میں تھے اور اخروی اعتبار سے بیدار تھے۔
حضرت سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ زندگی کی حالت میں روح جسم میں ٹیڑھی رہتی ہے جس طرح بچہ ماں کے پیٹ میں ٹیڑھا ہوتا ہے۔ جس پر موت کی تکلیف ایسی ہی ہے جس طرح بچے کی پیدائش کے وقت ماں کو درد زہ کی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے۔ موت کے بعد روح پرواز کرتی ہے اور موت کی تکلیف جسم کو ہوتی ہے اور روح اس درد کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ اس دنیا میں ہر انسان دوسرے کے درد سے ناواقف ہے ماسوائے اہل اللہ کے جو کہ اللہ عزوجل کی رحمت سے ہر ایک کے احوال سے واقف ہوتے ہیں۔ ( حکایات رومی)
اللہ تعالیٰ ہمیں موت سے پہلے پہلے موت کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
موت حکم الٰہی کی ہمیشہ منتظر رہتی ہے، حکم ملنے پر پلک جھپکنے کی بھی دیر نہیں کرتی اور حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے ہدف کو دبوچ لیتی اور جس حالت میں اپنے ہدف کو پاتی ہے، لے کر بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوجاتی ہے۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ موت کا معاملہ زیادہ خطرناک ہے اور لوگ اس سے بہت غافل ہیں اول تو اپنے مشاغل کی وجہ سے اس کا تذکرہ ہی نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تب بھی چوں کہ دل دوسری طرف مشغول ہوتا ہے اس لیے محض زبانی تذکرہ مفید نہیں، بل کہ ضرورت اس کی ہے کہ سب طرف سے بالکل فارغ ہوکر موت کو اس طرح سوچے کہ گویا وہ سامنے ہے جس کی صورت یہ ہے کہ : اپنے عزیز واقارب اور جانے والے احباب کا حال سوچے کہ کیوں کر ان کو چارپائی پر لے جاکر مٹی کے نیچے دبا دیا۔ ان کی صورتوں کا، ان کے اعلیٰ مناصب کا خیال کرے اور یہ غور کرے کہ اب مٹی نے کس طرح ان کی صورتوں کو پلٹ دیا ہوگا، ان کے بدن کے ٹکڑے ہوگئے ہوں گے، کس طرح بچوں کو یتیم، بیوی کو بیوہ اور عزیز و اقارب کو روتا چھوڑ کر چل دیے، ان کا سامان اور کپڑے پڑے رہ گئے، یہی حشر ایک دن میرا بھی ہوگا۔
کس طرح وہ مجلسوں میں بیٹھ کر قہقہے لگاتے تھے آج خاموش پڑے ہیں، کس طرح دنیا کی لذتوں میں مشغول تھے آج مٹی میں ملے پڑے ہیں، کیسا موت کو بُھلا رکھا تھا آج اس کا شکار ہوگئے ۔ کس طرح جوانی کے نشے میں تھے آج کوئی پوچھنے والا نہیں، کیسے دنیا کے دھندوں میں ہر وقت مشغول رہتے تھے آج ہاتھ الگ پڑا ہے، پاؤں الگ ہے، زبان کو کیڑے چاٹ رہے ہیں، بدن میں کیڑے پڑگئے ہوں گے۔
کیسا کِھل کھلا کر ہنستے تھے آج دانت گرے پڑے ہوں گے۔ کیسی کیسی تدبیر یں سوچتے تھے، برسوں کے انتظام سوچتے تھے حالاں کہ موت سر پر تھی، مرنے کا دن قریب تھا، مگر انہیں معلوم نہیں تھا کہ آج رات کو میں نہیں رہوں گا اور آج یہی حال میرا ہے۔ آج میں اتنے انتظامات کررہا ہوں مگر کل کی خبر نہیں کہ کل کیا ہوگا۔
حضرت دانیال علیہ السلام ایک دن جنگل میں چلے جا رہے تھے ۔ آپ کو ایک گنبد نظر آیا، آواز آئی کہ اے دانیال! ادھر آ۔ دانیال علیہ السلام اس گنبد کے پاس گئے تو دیکھا بڑی عمدہ عمارت ہے اور عمارت کے بیچ ایک عالی شان تخت بچھا ہوا ہے، اس پر ایک بڑی لاش پڑی ہے، پھر آواز آئی کہ اے دانیال تخت کے اوپر آؤ۔
آپ اوپر تشریف لے گئے تو ایک لمبی چوڑی تلوار مردے کے پہلو میں رکھی ہوئی تھی۔ اس پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی کہ '' میں قوم عاد سے ایک بادشاہ ہوں، خدا نے تیرہ سو سال کی مجھے عمر عطا فرمائی، بارہ ہزار میں نے شادیاں کیں، آٹھ ہزار بیٹے ہوئے لاتعداد خزانے میرے پاس تھے اس قدر نعمتیں لے کر بھی میرے نفس نے خدا کا شکر ادا نہ کیا، بل کہ الٹا کفر کرنا شروع کر دیا اور خدائی کا دعوٰی کرنے لگا۔
خدا نے میری ہدایت کے لیے ایک پیغمبر بھیجا، ہر چند انہوں نے مجھے سمجھایا، مگر میں نے کچھ نہ سنا، انجام کار وہ پیغمبر مجھے بددعا دے کر چلے گئے، حق تعالیٰ نے مجھ پر اور میرے ملک پر قحط مسلط کر دیا، جب میرے ملک میں کچھ پیدا نہ ہوا، تب میں نے دوسرے ملکوں میں حکم بھیجا کہ ہر قسم کا غلہ اور میوہ میرے ملک میں بھیجا جائے، میرے حکم کے مطابق ہر قسم کا غلہ اور میوہ میرے ملک میں آنے لگا، جس وقت وہ غلہ یا میوہ میرے شہر کی سرحد میں داخل ہوتا فوراً مٹی بن جاتا اور وہ ساری محنت بے کار ہو جاتی اور کوئی دانہ مجھے نصیب نہ ہوتا۔
اسی طرح ساٹھ دن گزر گئے، میرے قلعے سے سب خدام اور میرے بیوی بچے بھاگ گئے، میں قلعے میں تنہا رہ گیا، سوائے فاقہ کے میری کوئی خوراک نہ تھی، ایک دن میں نہایت مجبور ہو کر فاقے کی تکلیف میں قلعے کے دروازے پر آیا، وہاں مجھے ایک شخص نظر آیا، جس کے ہاتھ میں کچھ غلّے کے دانے تھے جن کو وہ کھاتا چلا جاتا تھا، میں نے اس جانے والے سے کہا کہ ایک بڑا برتن بھرا ہوا موتیوں کا مجھ سے لے لے اور یہ اناج کے دانے مجھے دے دے، مگر اس نے نہ سنی اور جلدی سے ان دانوں کو کھا کر میرے سامنے سے چلا گیا، انجام یہ ہوا کہ اس فاقے کی تکلیف سے میں مرگیا، یہ میری سرگزشت ہے، جو شخص میرا حال سنے، وہ کبھی دنیا کے قریب نہ آئے۔
(بہ حوالہ: سیرۃ الصالحین)
اللہ تعالیٰ نے موت میں ذائقہ رکھا ہے ، اب وہ کیسا ہے، میٹھا یا کڑوا ؟ اس کا دار و مدار انسانی اعمال پر منحصر ہے، البتہ یہ ذائقہ چکھنے سے کوئی بھی کسی صورت میں بچ نہیں سکتا، ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہی ہے۔
حضرت حسنؓ فرماتے ہیں کہ حضور نے ایک مرتبہ موت کی سختی کے ذکر پر فرمایا کہ: اتنی تکلیف ہوتی ہے جیسے کہ تین سو جگہ تلوار کی کاٹ سے ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جب وصال ہوا تو حق تعالیٰ شانہ نے دریافت کیا کہ موت کو کیسا پایا ؟ انہوں نے عرض کیا کہ: میں اپنی جان کو ایسا دیکھ رہا تھا جیسے زندہ چڑیا کو اس طرح آگ پر بھونا جارہا ہو کہ نہ اس کی جان نکلتی ہو، نہ اڑنے کی صورت ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ ایسی حالت تھی جیسا کہ زندہ بکری کی کھال اتاری جارہی ہو۔
حضرت شداد بن اوس ؒ فرماتے ہیں کہ: موت دنیا و آخرت کی سب تکلیفوں سے سخت ہے، وہ قینچیوں سے کتر دینے سے زیادہ سخت ہے، وہ دیگ میں پکانے سے زیادہ سخت ہے ۔ اگر مردے قبر سے اٹھ کر مرنے کی تکلیف بتائیں تو کوئی شخص بھی دنیا میں لذت سے وقت نہیں گزار سکتا، میٹھی نیند اس کو نہیں آسکتی۔
(بہ حوالہ: موت کی یاد حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا)
حضرت سیدنا بلالؓ کم زور ہوگئے اور ان کے چہرے پر موت کے آثار نمایاں ہوئے تو ان کی بیوی نے کہا : ہائے میں لُٹ گئی۔ آپؓ نے فرمایا کہ یہ تو خوشی کا موقع ہے اب تک میں زندگی کی مصیبتوں میں مبتلا تھا اور تُو کیا جانے کہ موت کس قدر عمدہ اور آسائش والی شے کا نام ہے۔ اس وقت آپؓ کا چہرہ گلاب کی مانند دمک رہا تھا اور آنکھوں میں موجود نور اس کی گواہی دے رہا تھا۔
حضرت سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ کی بیوی بولی کہ آپؓ تنہا رخصت ہو کر مسافر بن رہے ہیں اور اپنے اہل و عیال سے دور ہو رہے ہیں ؟ آپؓ نے فرمایا کہ ایسا ہرگز نہیں بل کہ آج رات میری جان سفر کے بعد واپس لوٹ رہی ہے۔ بیوی بولی کہ یہ تو بڑے دکھ کا مقام ہے ؟ آپؓ نے فرمایا کہ نہیں بل کہ یہ تو خوشی نصیبی ہے۔ بیوی بولی کہ اب ہم آپؓ کا چہرہ کیسے دیکھ سکیں گے ؟
آپؓ نے فرمایا کہ اب میں بارگاہ الٰہی میں ہوں گا اور اس کا حلقہ ہر ایک کے ساتھ پیوستہ ہے۔ اگر تو اپنی نظر بند کرے اور پستی کی جانب نہ جائے تو اس حلقہ میں نورالٰہی اس طرح چمکتا ہے جس طرح انگوٹھی میں جڑا نگینہ۔ میں اب معارف اور اسرار کا خزانہ بن گیا ہوں اور اس جسم میں اسے سنبھالنے کی سکت نہیں ہے۔ میں جب گدا تھا تب میری روح اس جسم میں سما سکتی تھی اب جب کہ میں معارف کا شاہ بن گیا ہوں تو اس کے لیے وسیع جگہ کی ضرورت ہے اور انبیائے کرام علیہم السلام بھی اسی وجہ سے دنیا کو ترک کرکے آخرت کی جانب روانہ ہوئے۔ جو لوگ مردہ دل ہوتے ہیں ان کے لیے دنیا عزت کی جگہ ہے اور اہل دنیا کے لیے وسیع جب کہ اہل باطن کے لیے تنگ ہے۔
اگر دنیا تنگ نہیں ہے تو پھر یہاں کے رہنے والوں میں ہنگامہ آرائی کیسی ہے ؟ یہاں تنگی کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب انسان سوتا ہے اور وسعت کے باوجود یہ دنیا اسے تنگ محسوس ہوتی ہے۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح ظالموں کے چہرے بہ ظاہر خوش ہوتے ہیں لیکن ان کی روح تنگی کی وجہ سے آہ و بکا میں مشغول ہوتی ہے۔ اولیاء اللہ کی روح عالم بیداری میں اسی طرح آزاد ہوتی ہے جس طرح عوام الناس کی روح نیند کے وقت اور ان کی مثال اصحاب کہف سی ہے جو دنیاوی اعتبار سے تو نیند میں تھے اور اخروی اعتبار سے بیدار تھے۔
حضرت سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ زندگی کی حالت میں روح جسم میں ٹیڑھی رہتی ہے جس طرح بچہ ماں کے پیٹ میں ٹیڑھا ہوتا ہے۔ جس پر موت کی تکلیف ایسی ہی ہے جس طرح بچے کی پیدائش کے وقت ماں کو درد زہ کی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے۔ موت کے بعد روح پرواز کرتی ہے اور موت کی تکلیف جسم کو ہوتی ہے اور روح اس درد کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ اس دنیا میں ہر انسان دوسرے کے درد سے ناواقف ہے ماسوائے اہل اللہ کے جو کہ اللہ عزوجل کی رحمت سے ہر ایک کے احوال سے واقف ہوتے ہیں۔ ( حکایات رومی)
اللہ تعالیٰ ہمیں موت سے پہلے پہلے موت کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین