اولاد کی تعلیم و تربیت
آج والدین جس طرح اپنی اولاد کی تربیت کریں گے، کل کو یہ بھی اپنے بچوں کی تربیت انہیں خطوط پر استوار کریں گے۔
اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کے خانگی تعلقات کا مقصد صرف عمل زوجیت کی تکمیل اور تسکین نفس نہیں رکھا، بل کہ اسلام کے نزدیک یہ ایک تمدنی فریضہ ہے جس سے نسلِ انسانی کی حفاظت مطلوب ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ عورت کا کام محض بچے پیدا کرنا نہ ہو، بل کہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی مناسب پرورش بھی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے عورت کے لیے کھیت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس طرح ایک کھیت کے دامن سے ایک خاص ترتیب اور عمل سے فصل تیار ہو کر نکلتی ہے، اسی طرح صنف نازک کے دامن سے بھی نسل انسانی کو مکمل طور پر تیار ہو کر نکلنا چاہیے۔ چناں چہ والدین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کا خاص خیال رکھیں اور ان کی ایسی تربیت کریں کہ وہ معاشرے کے معزز فرد بن سکیں۔
حضرت امام غزالیؒ نے بچوں کی اخلاقی تربیت کے قواعد کو ایک دستورالعمل کے طور پر مرتّب کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے:
تربیت کی اصل بنیاد چوں کہ بچپن میں پڑتی ہے، اس لیے اسی وقت سے اس کی دیکھ بھال رکھنی چاہیے۔ بچے میں سب سے پہلے غذا کی رغبت پیدا ہوتی ہے۔ اسے بتانا چاہیے کہ کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لیا کریں۔ دستر خوان پر جو کھانا سامنے اور قریب ہو اسی طرف ہاتھ بڑھائے۔ کھانے کی طرف یا کھانے والوں کی طرف نظر نہ جمائے۔ جلد جلد نہ کھائے۔ نوالا اچھی طرح چبائے، ہاتھ اور کپڑے کھانے میں آلودہ نہ کرے۔ کم کھائے اور معمولی کھانے پر اکتفا کرے اور دوسروں کو بھی کھلائے۔
سفید کپڑے پہننے کا شوق دلایا جائے اور اسے سمجھایا جائے کہ شوخ رنگ کے کپڑے یا ریشمی یا بھڑک دار کپڑے پہننا عورتوں کا کام ہے۔ جو لڑکے اس قسم کے کپڑوں کے عادی ہوں ان کی صحبت سے بچایا جائے۔ کاہلی اور آرام پرستی سے نفرت دلائی جائے۔ جب بچے سے کوئی پسندیدہ فعل ظہور میں آئے تو تعریف کرکے اس کا دل بڑھایا جائے اور اُسے انعام دیا جائے۔ اس کے خلاف کبھی کوئی بات ظاہر ہو تو چشم پوشی نہیں کرنا چاہیے تاکہ بُرے کاموں پر دلیر نہ ہوجائے۔ خصوصاً جب وہ خود اس کا کام کو چھپانا چاہتا ہو۔ اگر دوبارہ وہ فعل سرزد ہو تو تنہائی میں اسے سمجھانا چاہیے کہ یہ بہت بُری بات ہے، لیکن بار بار اس کو ملامت نہیں کرنی چاہیے ۔ اس سے بات کا اثر کم ہو جاتا ہے اور بچے میں ڈانٹ ڈپٹ سننے کی عادت پڑجاتی ہے ۔
اس بات کی سخت تاکید کرنی چاہیے کہ بچہ چھپ کر کوئی کام نہ کرے۔ کیوں کہ بچہ اسی کام کو چھپا کر کرتا ہے جس کو وہ بُرا سمجھتا ہے۔ اس لیے جب چھپا کر کام کرنے کی عادت چھوٹ جائے گی تو بچہ بہت سی بری عادتوں سے محفوظ رہے گا۔
مجلس میں تھوکنے، جماہی اور انگڑائی لینے، لوگوں کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھنے، پاؤں پر پاؤں رکھنے اور ٹھوڑی کے نیچے ہتھیلی رکھ کر بیٹھنے سے منع کرنا چاہیے۔
قسم کھانے سے بالکل روکنا چاہیے، گو سچی ہو۔ بات خود شروع نہ کرے، بل کہ پوچھے تو جواب دے۔ مخاطب کی بات کو توجہ اور غور سے سُنے۔ سکول یا مدرسے سے پڑھ کر نکلے تو اس کو موقع دیا جائے کہ کوئی کھیل کھیلے، کیوں کہ ہر وقت پڑھنے لکھنے میں مصروف رہنے سے دل بجھ جاتا ہے۔ ذہن کند ہو جاتا ہے اور طبیعت اچاٹ ہو جاتی ہے ۔
اعلی حضرت احمد رضا خاں حنفی قادری فاضل بریلویؒ نے ارشاد فرمایا : '' بچے کی زبان کھلتے ہی اللہ، اللہ پھر لا الہ الا اللہ پھر پورا کلمہ طیبہ سکھایا جائے۔ جب تمیز آئے تو قرآن مجید پڑھائے۔ استاد نیک، صالح، متقی، صحیح العقیدہ اور سن رسیدہ کے سپرد کر دے اور دختر کو نیک پارسا عورت سے پڑھوائے۔ بعد ختم قرآن مجید ہمیشہ تلاوت کی تاکید رکھے۔ عقائد اسلام و سنت سکھائے کہ لوح سادہ فطرت اسلامی و قبول حق پر مخلوق ہے۔ اس وقت کا بتایا پتھر کی لکیر ہوگا۔
حضور اقدس رحمت عالم ﷺ کی محبت و تعظیم ان کے دل میں ڈالے کہ اصل ایمان و عین ایمان ہے۔ حضور پُرنور ﷺ کے آل و اصحاب و اولیاء و علماء کی محبت و عظمت تعلیم کرے کہ اصل سنت و زیور ایمان، بل کہ باعثِ بقائے ایمان ہے۔ سات برس کی عمر سے نماز کی زبانی تاکید شروع کر دے۔ علم دین خصوصاً وضو، غسل، نماز، روزہ کے مسائل، توکل، قناعت، زہد، اخلاص، تواضع، امانت، صدق، عدل، حیا، سلامت صدر و لسان وغیرہا خوبیوں کے فضائل، حرص، طمع، حب دنیا، حب جاہ، ریا، تکبر، خیانت، کذب، ظلم، فحش، غیبت، حسد، کینہ وغیرہا برائیوں کے رذائل پڑھائے۔ پڑھانے سکھانے میں رفق اور نرمی ملحوظ رکھے۔ ہر موقع پر چشم نمائی تنبیہہ و تحدید کرے۔ مگر بار بار نہ کوسے کہ اس کا کوسنا ان کے لیے سبب اصلاح نہ ہوگا، بل کہ زیادہ فساد کا اندیشہ ہے۔
بُری صحبت میں نہ بیٹھنے دے۔ نہ ہرگز ہرگز کتب عشقیہ و غزلیات فسقیہ دیکھنے دے کہ نرم لکڑی جدھر جکائے جھک جاتی ہے۔ جب دس برس کا ہو تو نماز مار کر پڑھائے۔ خاص لڑکی کے حقوق سے ہے کہ اس کے پیدا ہونے پر افسردہ نہ ہو بل کہ نعمت الہٰیہ جانے۔ سینا پرونا، کاتنا، کھانا پکانا سکھائے، بیٹوں سے زیادہ دل جوئی اور خاطر داری رکھے کہ ان کا دل بہت تھوڑا ہوتا ہے۔ اور جو چیز دے پہلے انہیں دے کر بیٹوں کو دے۔
جہاں ناچ گانا ہو ہرگز نہ جانے دے۔ اگرچہ خاص اپنے بھائی کے یہاں ہو کہ گانا سخت سنگین جادو ہے اور ان نازک شیشوں کو تھوڑی ٹھیس بہت ہے، بل کہ بیگانوں میں جانے کی مطلقاً بندش کرے۔''
(بہ حوالہ: مشعلۃ الارشاد)
مذکورہ بالا اقوال سلف صالحین سے اولاد کی تعلیم و تربیت بارے ہمیں بہ خوبی علم ہوتا ہے کہ والدین کی کتنی بڑی ذمے داری ہے۔ کیوں کہ آج کے بچے کل کے بڑے ہیں۔ والدین جس طرح اپنی اولاد کی تربیت کریں گے کل کو یہ بھی اپنے بچوں کی تربیت انہیں خطوط پر استوار کریں گے۔ ہمارے معاشرے میں فتنہ و فساد، بے راہ روی، لڑکوں اور لڑکیوں کی حیا باختہ حرکتیں اور والدین کی نافرمانی اسی لیے پائی جاتی ہے کہ والدین اپنی اولاد کی تربیت اسلامی سانچے کے مطابق کرنے کے بہ جائے اغیار سے عادات و اطوار عاریتاً لیتے نظر آتے ہیں۔ ہمیں ہر معاملہ میں بہ حیثیت مسلمان قرآن حکیم اور تعلیمات نبویؐ سے ہی اصول و ضوابط اخذ کرکے اپنی اولاد کی تربیت کرنی چاہیے۔ تاکہ وہ ملک و ملت کے لیے ممد و معاون ثابت ہوں۔
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کریم ﷺ کے صدقے سے ہمیں تربیت اولاد کا فریضہ قرآن و سنت کے مطابق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
حضرت امام غزالیؒ نے بچوں کی اخلاقی تربیت کے قواعد کو ایک دستورالعمل کے طور پر مرتّب کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے:
تربیت کی اصل بنیاد چوں کہ بچپن میں پڑتی ہے، اس لیے اسی وقت سے اس کی دیکھ بھال رکھنی چاہیے۔ بچے میں سب سے پہلے غذا کی رغبت پیدا ہوتی ہے۔ اسے بتانا چاہیے کہ کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لیا کریں۔ دستر خوان پر جو کھانا سامنے اور قریب ہو اسی طرف ہاتھ بڑھائے۔ کھانے کی طرف یا کھانے والوں کی طرف نظر نہ جمائے۔ جلد جلد نہ کھائے۔ نوالا اچھی طرح چبائے، ہاتھ اور کپڑے کھانے میں آلودہ نہ کرے۔ کم کھائے اور معمولی کھانے پر اکتفا کرے اور دوسروں کو بھی کھلائے۔
سفید کپڑے پہننے کا شوق دلایا جائے اور اسے سمجھایا جائے کہ شوخ رنگ کے کپڑے یا ریشمی یا بھڑک دار کپڑے پہننا عورتوں کا کام ہے۔ جو لڑکے اس قسم کے کپڑوں کے عادی ہوں ان کی صحبت سے بچایا جائے۔ کاہلی اور آرام پرستی سے نفرت دلائی جائے۔ جب بچے سے کوئی پسندیدہ فعل ظہور میں آئے تو تعریف کرکے اس کا دل بڑھایا جائے اور اُسے انعام دیا جائے۔ اس کے خلاف کبھی کوئی بات ظاہر ہو تو چشم پوشی نہیں کرنا چاہیے تاکہ بُرے کاموں پر دلیر نہ ہوجائے۔ خصوصاً جب وہ خود اس کا کام کو چھپانا چاہتا ہو۔ اگر دوبارہ وہ فعل سرزد ہو تو تنہائی میں اسے سمجھانا چاہیے کہ یہ بہت بُری بات ہے، لیکن بار بار اس کو ملامت نہیں کرنی چاہیے ۔ اس سے بات کا اثر کم ہو جاتا ہے اور بچے میں ڈانٹ ڈپٹ سننے کی عادت پڑجاتی ہے ۔
اس بات کی سخت تاکید کرنی چاہیے کہ بچہ چھپ کر کوئی کام نہ کرے۔ کیوں کہ بچہ اسی کام کو چھپا کر کرتا ہے جس کو وہ بُرا سمجھتا ہے۔ اس لیے جب چھپا کر کام کرنے کی عادت چھوٹ جائے گی تو بچہ بہت سی بری عادتوں سے محفوظ رہے گا۔
مجلس میں تھوکنے، جماہی اور انگڑائی لینے، لوگوں کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھنے، پاؤں پر پاؤں رکھنے اور ٹھوڑی کے نیچے ہتھیلی رکھ کر بیٹھنے سے منع کرنا چاہیے۔
قسم کھانے سے بالکل روکنا چاہیے، گو سچی ہو۔ بات خود شروع نہ کرے، بل کہ پوچھے تو جواب دے۔ مخاطب کی بات کو توجہ اور غور سے سُنے۔ سکول یا مدرسے سے پڑھ کر نکلے تو اس کو موقع دیا جائے کہ کوئی کھیل کھیلے، کیوں کہ ہر وقت پڑھنے لکھنے میں مصروف رہنے سے دل بجھ جاتا ہے۔ ذہن کند ہو جاتا ہے اور طبیعت اچاٹ ہو جاتی ہے ۔
اعلی حضرت احمد رضا خاں حنفی قادری فاضل بریلویؒ نے ارشاد فرمایا : '' بچے کی زبان کھلتے ہی اللہ، اللہ پھر لا الہ الا اللہ پھر پورا کلمہ طیبہ سکھایا جائے۔ جب تمیز آئے تو قرآن مجید پڑھائے۔ استاد نیک، صالح، متقی، صحیح العقیدہ اور سن رسیدہ کے سپرد کر دے اور دختر کو نیک پارسا عورت سے پڑھوائے۔ بعد ختم قرآن مجید ہمیشہ تلاوت کی تاکید رکھے۔ عقائد اسلام و سنت سکھائے کہ لوح سادہ فطرت اسلامی و قبول حق پر مخلوق ہے۔ اس وقت کا بتایا پتھر کی لکیر ہوگا۔
حضور اقدس رحمت عالم ﷺ کی محبت و تعظیم ان کے دل میں ڈالے کہ اصل ایمان و عین ایمان ہے۔ حضور پُرنور ﷺ کے آل و اصحاب و اولیاء و علماء کی محبت و عظمت تعلیم کرے کہ اصل سنت و زیور ایمان، بل کہ باعثِ بقائے ایمان ہے۔ سات برس کی عمر سے نماز کی زبانی تاکید شروع کر دے۔ علم دین خصوصاً وضو، غسل، نماز، روزہ کے مسائل، توکل، قناعت، زہد، اخلاص، تواضع، امانت، صدق، عدل، حیا، سلامت صدر و لسان وغیرہا خوبیوں کے فضائل، حرص، طمع، حب دنیا، حب جاہ، ریا، تکبر، خیانت، کذب، ظلم، فحش، غیبت، حسد، کینہ وغیرہا برائیوں کے رذائل پڑھائے۔ پڑھانے سکھانے میں رفق اور نرمی ملحوظ رکھے۔ ہر موقع پر چشم نمائی تنبیہہ و تحدید کرے۔ مگر بار بار نہ کوسے کہ اس کا کوسنا ان کے لیے سبب اصلاح نہ ہوگا، بل کہ زیادہ فساد کا اندیشہ ہے۔
بُری صحبت میں نہ بیٹھنے دے۔ نہ ہرگز ہرگز کتب عشقیہ و غزلیات فسقیہ دیکھنے دے کہ نرم لکڑی جدھر جکائے جھک جاتی ہے۔ جب دس برس کا ہو تو نماز مار کر پڑھائے۔ خاص لڑکی کے حقوق سے ہے کہ اس کے پیدا ہونے پر افسردہ نہ ہو بل کہ نعمت الہٰیہ جانے۔ سینا پرونا، کاتنا، کھانا پکانا سکھائے، بیٹوں سے زیادہ دل جوئی اور خاطر داری رکھے کہ ان کا دل بہت تھوڑا ہوتا ہے۔ اور جو چیز دے پہلے انہیں دے کر بیٹوں کو دے۔
جہاں ناچ گانا ہو ہرگز نہ جانے دے۔ اگرچہ خاص اپنے بھائی کے یہاں ہو کہ گانا سخت سنگین جادو ہے اور ان نازک شیشوں کو تھوڑی ٹھیس بہت ہے، بل کہ بیگانوں میں جانے کی مطلقاً بندش کرے۔''
(بہ حوالہ: مشعلۃ الارشاد)
مذکورہ بالا اقوال سلف صالحین سے اولاد کی تعلیم و تربیت بارے ہمیں بہ خوبی علم ہوتا ہے کہ والدین کی کتنی بڑی ذمے داری ہے۔ کیوں کہ آج کے بچے کل کے بڑے ہیں۔ والدین جس طرح اپنی اولاد کی تربیت کریں گے کل کو یہ بھی اپنے بچوں کی تربیت انہیں خطوط پر استوار کریں گے۔ ہمارے معاشرے میں فتنہ و فساد، بے راہ روی، لڑکوں اور لڑکیوں کی حیا باختہ حرکتیں اور والدین کی نافرمانی اسی لیے پائی جاتی ہے کہ والدین اپنی اولاد کی تربیت اسلامی سانچے کے مطابق کرنے کے بہ جائے اغیار سے عادات و اطوار عاریتاً لیتے نظر آتے ہیں۔ ہمیں ہر معاملہ میں بہ حیثیت مسلمان قرآن حکیم اور تعلیمات نبویؐ سے ہی اصول و ضوابط اخذ کرکے اپنی اولاد کی تربیت کرنی چاہیے۔ تاکہ وہ ملک و ملت کے لیے ممد و معاون ثابت ہوں۔
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کریم ﷺ کے صدقے سے ہمیں تربیت اولاد کا فریضہ قرآن و سنت کے مطابق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین