چینی کرنسی میں لین دین کی اجازت یو آن 30 فیصد مہنگا
ڈی ویلیو ایشن کی افواہوں پر اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی یومیہ طلب5 ملین ڈالر پر پہنچ گئی۔
چین کے تاجروں کو مقامی کرنسی میں لین دین کی اجازت کے نتیجے میں افغانستان ایران کے بعد اب چائنیز ٹریڈرز بھی مقامی مارکیٹ میں متحرک ہوگئے ہیں۔
منی مارکیٹ کے باخبر ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ غیرملکی تاجروں کی جانب سے اپنی مصنوعات خود درآمد کرکے مقامی مارکیٹ میں فروخت اور بعد ازاں اوپن مارکیٹ سے زرمبادلہ میں منتقل کرکے اپنے ممالک کو ترسیل سے اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر و دیگر غیرملکی کرنسیوں کی طلب بڑھ گئی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ مقامی مارکیٹ میں چائنیز کرنسی کی قدر 14 روپے کی مارکیٹ ویلیو سے 30فیصد بڑھ کر17 روپے کی سطح تک پہنچ گئی ہے۔
فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے بتایا کہ بدھ کو ایک اجلاس میں انہوں نے اسٹیٹ بینک حکام کوڈالر کی قدر میں نمایاں اضافے سے متعلق وجوہات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے یہ واضح کردیا ہے کہ چائنیز ٹریڈرز کی مقامی مارکیٹوں میں زیادہ متحرک ہونے اور ڈی ویلیوایشن کی پھیلتی ہوئی افواہوں کے نتیجے میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی یومیہ ڈیمانڈ بڑھ کر 5 ملین ڈالر کی سطح تک پہنچ گئی ہے۔ انہوں حکومت کو تجویز دی کہ وہ مقامی کرنسی میں لین دین کرنے والے افغانستان ایران اور چائنیز ٹریڈرز کی مانیٹرنگ کا میکنزم ترتیب دے تاکہ پاکستان کی معیشت اور روپیہ غیر مستحکم ہونے سے بچ سکے۔
ملک بوستان نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر112.70 روپے کی سطح پرپہنچنے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے بدھ کی شام فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان ودیگر ایکس چینج کمپنیوں کوطلب کیا تھا اور دوران اجلاس سینئر ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید عرفان علی شاہ اور ایگزیکٹیو ڈائریکٹر محمد علی ملک نے ڈالر کی قدر میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی وجوہات سے متعلق استفسار کیا جس پر انہیں بتایا گیا کہ چین میں 5 فروری تا 15 فروری کی سالانہ تعطیلات اوربینکوں کی بندش کی وجہ سے پاکستانی درآمدکنندگان اور تاجر 5 فروری سے قبل اپنی غیرملکی ادائیگیوں کے تصفیے کررہے ہیں جبکہ ممکنہ ڈی ویلیوایشن کی افواہوں میں بڑھتی ہوئی شدت کے پیش نظرعوام اپنے سرمائے کوڈالر میں منتقلی کارحجان بڑھ گیا ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنوری 2017 میں کمرشل بینکوں کے پبلک ڈالر اکاؤنٹس میں 4.8 ارب ڈالرتھے جوجنوری 2018 میں بڑھ کر 6.10 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔
فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر نے بتایا کہ ڈالرکی قدر میں اضافے کی ایک بڑی وجہ فارن کرنسی کی اسمگلنگ بھی ہے جس پرکراچی ایئرپورٹ پر اگرچہ قابو پا لیا گیا ہے لیکن پشاورکوئٹہ سمیت دیگر ایئرپورٹس اورسرحدوں سے یومیہ تقریباََ 10ملین ڈالراسمگل ہو کر باہر جا رہے ہیں جس پر قابو پانے کے لیے تجویز ہے کہ مرکزی بینک ایئرپورٹس یا سرحدوں پر اسمگل کی جانے والی فارن کرنسی کا 50 فیصد پکڑنے والی متعلقہ ایجنسی یا حکام کو بطور ری بیٹ دینے کی اسکیم کا اعلان کرے۔
ملک بوستان نے کہا کہ حکومت کی جانب اگر ان تجاویز کو عملی جامہ پہنایا گیا تو روپے کی قدر مستحکم ہوجائے گی اور مقامی ایکس چینج کمپنیوں کی مشترکہ لائحہ عمل کے تحت اگلے10 یوم میں ڈالر کی قدر گھٹ کر111.50 روپے کی سطح آجائے گی۔
منی مارکیٹ کے باخبر ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ غیرملکی تاجروں کی جانب سے اپنی مصنوعات خود درآمد کرکے مقامی مارکیٹ میں فروخت اور بعد ازاں اوپن مارکیٹ سے زرمبادلہ میں منتقل کرکے اپنے ممالک کو ترسیل سے اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر و دیگر غیرملکی کرنسیوں کی طلب بڑھ گئی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ مقامی مارکیٹ میں چائنیز کرنسی کی قدر 14 روپے کی مارکیٹ ویلیو سے 30فیصد بڑھ کر17 روپے کی سطح تک پہنچ گئی ہے۔
فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے بتایا کہ بدھ کو ایک اجلاس میں انہوں نے اسٹیٹ بینک حکام کوڈالر کی قدر میں نمایاں اضافے سے متعلق وجوہات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے یہ واضح کردیا ہے کہ چائنیز ٹریڈرز کی مقامی مارکیٹوں میں زیادہ متحرک ہونے اور ڈی ویلیوایشن کی پھیلتی ہوئی افواہوں کے نتیجے میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی یومیہ ڈیمانڈ بڑھ کر 5 ملین ڈالر کی سطح تک پہنچ گئی ہے۔ انہوں حکومت کو تجویز دی کہ وہ مقامی کرنسی میں لین دین کرنے والے افغانستان ایران اور چائنیز ٹریڈرز کی مانیٹرنگ کا میکنزم ترتیب دے تاکہ پاکستان کی معیشت اور روپیہ غیر مستحکم ہونے سے بچ سکے۔
ملک بوستان نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر112.70 روپے کی سطح پرپہنچنے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے بدھ کی شام فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان ودیگر ایکس چینج کمپنیوں کوطلب کیا تھا اور دوران اجلاس سینئر ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید عرفان علی شاہ اور ایگزیکٹیو ڈائریکٹر محمد علی ملک نے ڈالر کی قدر میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی وجوہات سے متعلق استفسار کیا جس پر انہیں بتایا گیا کہ چین میں 5 فروری تا 15 فروری کی سالانہ تعطیلات اوربینکوں کی بندش کی وجہ سے پاکستانی درآمدکنندگان اور تاجر 5 فروری سے قبل اپنی غیرملکی ادائیگیوں کے تصفیے کررہے ہیں جبکہ ممکنہ ڈی ویلیوایشن کی افواہوں میں بڑھتی ہوئی شدت کے پیش نظرعوام اپنے سرمائے کوڈالر میں منتقلی کارحجان بڑھ گیا ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنوری 2017 میں کمرشل بینکوں کے پبلک ڈالر اکاؤنٹس میں 4.8 ارب ڈالرتھے جوجنوری 2018 میں بڑھ کر 6.10 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔
فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر نے بتایا کہ ڈالرکی قدر میں اضافے کی ایک بڑی وجہ فارن کرنسی کی اسمگلنگ بھی ہے جس پرکراچی ایئرپورٹ پر اگرچہ قابو پا لیا گیا ہے لیکن پشاورکوئٹہ سمیت دیگر ایئرپورٹس اورسرحدوں سے یومیہ تقریباََ 10ملین ڈالراسمگل ہو کر باہر جا رہے ہیں جس پر قابو پانے کے لیے تجویز ہے کہ مرکزی بینک ایئرپورٹس یا سرحدوں پر اسمگل کی جانے والی فارن کرنسی کا 50 فیصد پکڑنے والی متعلقہ ایجنسی یا حکام کو بطور ری بیٹ دینے کی اسکیم کا اعلان کرے۔
ملک بوستان نے کہا کہ حکومت کی جانب اگر ان تجاویز کو عملی جامہ پہنایا گیا تو روپے کی قدر مستحکم ہوجائے گی اور مقامی ایکس چینج کمپنیوں کی مشترکہ لائحہ عمل کے تحت اگلے10 یوم میں ڈالر کی قدر گھٹ کر111.50 روپے کی سطح آجائے گی۔