چڑیا گھر کو عالمی طرز پر بنانے کا منصوبہ تاخیر کا شکار
منصوبے کے تحت بنگال ٹائیگر، ایشیائی ہاتھی، زرافہ ، گینڈااوردیگر جانور اور پرندے بھی خریدے نہیں گئے۔
KARACHI:
حکومت کا کراچی چڑیا گھر کو عالمی طرز پر بنانے کا منصوبہ ڈیڑھ سال سے تاخیر کا شکار ہے جب کہ زولوجیکل ماہرین کی عدم موجودگی نے اس منصوبے پر عمل درآمد کوغیریقینی بنادیا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صوبائی محکمہ بلدیات کو کراچی چڑیا گھر عالمی طرز پر بنانے کیلیے تعمیر نو کا ٹاسک سونپا، منصوبہ میں کراچی چڑیا گھر کی مکمل طور پر تعمیر نو جس میں جانوروں کے لیے اوپن انکلوژر، برڈ ایواری، ریپٹل ہاؤس،جدید سہولتوں سے مزین جانوروں کا اسپتال ، جانوروں کی خریداری ، فرسٹ ایڈ سینٹر ، ایمرجنسی سینٹر، نباتاتی باغوں کی بیوٹیفکیشن اور شجرکاری، اندرونی سڑکوں کی تعمیر ومرمت ، اسٹاف کالونی کی تعمیر نو، پبلک ٹوائلٹس اور پارکنگ ایریا شامل ہے۔
بلدیہ عظمیٰ کے ذرائع نے بتایا کہ منصوبہ کا آغاز اکتوبر 2016ء کو جو چار فیز پر مشتمل تھا اور اسے گزشتہ سال 30اکتوبر تک مکمل کرنا تھا تاہم ابھی تک سندھ حکومت نے نہ تو جانوروں کے اوپن انکلوژر کا ماسٹر پلان تشکیل دیا ہے اور نہ ہی دیگر تعمیراتی کام انجام دیے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ سندھ حکومت نے کراچی چڑیا گھر کی تعمیر نو کیلیے ابتدائی مرحلے میں 30کروڑ روپے مختص کیے ہیں،جس میں سول ورکس اور جانوروں کی خریداری شامل ہے، ماسٹر پلان کی تشکیل کے بعد منصوبہ کی لاگت میں کئی گنا اضافہ متوقع ہے ،ابھی تک صرف چڑیا گھر کے اطراف کی چار دیواری کا 95 فیصد کام مکمل کیا گیا ہے، نئی باؤنڈری وال میں جانوروں کی شبیہ پر مبنی امپورٹڈ بلاکس نصب کیے جانے تھے وہ نصب نہیں کیے گئے ہیں ، پانی کی فراہمی کیلیے نئی پائپ لائنوں کی تنصیب کا کام جاری ہے۔
علاوہ ازیں بنگال ٹائیگر، ایشیائی ہاتھی، زرافہ ، گینڈا اور دیگر مختلف قسم کے جانور اور پرندے بھی خریدے جانے تھے وہ ابھی تک نہیں خریدے جاسکے ہیں، ذرائع نے بتایا کہ جانوروں کی خریداری بلدیہ عظمیٰ کراچی کریگی تاہم فنڈز سندھ حکومت فراہم کریگی۔
اس ضمن میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جانب سے ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے ، چڑیا گھر کی تعمیر نو صوبائی حکومت کی زیر نگرانی ہورہی ہے جبکہ بلدیہ عظمیٰ کراچی صرف تعاون اور سہولیات فراہم کرنے کی ذمے دار ہے،ذرائع نے کہا کہ صوبائی حکومت نے جس کنسلٹنٹ کمپنی کو ڈیزائین بنانے کا کام سونپا ہے،اسے ماضی میں زولوجیکل گارڈن بنانے کا کوئی تجربہ نہیں ،اس لیے ڈیڑھ سال کے عرصے میں کراچی چڑیا گھر کی تعمیر نو اور جانوروں کے اوپن انکلوژر کا ماسٹر پلان تشکیل نہیں دیا جاسکا ہے،صرف ابتدائی پلان بنایا گیا ہے جس میں کئی قسم کے سقم ہیں۔
کراچی زو کے متعلقہ افسران کے مطابق ابتدائی پلان میں جانوروں کی نفسیات اور رہن سہن کا خیال نہیں رکھا گیا ہے جس کے بغیر جانوروں کی بقاء اور افزائش نسل شدید متاثر ہوگی، پلان میں موجودہ اسپتال کی لوکیشن کو کراچی چڑیا گھر کے مغربی سائیڈ پر منتقل کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو انتہائی ناموزوں ہے، مغربی سائیڈسے ہوا کا رخ تمام چڑیا گھر کا احاطہ کرتا ہے، اگر اسپتال وہاں متنقل کردیا گیا تو اسپتال میں آنے والے بیمار جانوروں کے امراض وائرل ہوجائیں گے اور تمام جانوروں اس مرض کا شکار ہوجائیں گے۔
مجوزہ پلان میں پارکنگ کی تین بڑی سائیڈ دی گئی ہیں جس سے کراچی زو کا بڑا ایریا ختم ہورہا ہے اور اس وجہ سے مستقبل میں آنے والے جانوروں کیلیے جگہ نہیں بچے گی، اوپر چڑھنے والے جانوروں بندر، ریچھ وغیرہ کیلیے بھی اوپن انکلوژر اور نہر تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔
یہ جانور اوپن انکلوژر میں نہیں رکھے جاتے ہیں کیونکہ یہ باآسانی وہاں سے نکل جاتے ہیں جبکہ ریچھ پانی میں تیر کر باہر آجاتا ہے، اس قسم کے جانوروں کو بند پنجرے میں ہی رکھا جاتا ہے، مجوزہ پلان میں پرندوں کے پنجرے صرف دو رکھے گئے ہیں جبکہ ان کی تعداد زیادہ ہونی چاہیے البتہ برڈ ایواری منصوبہ میں شامل ہے جس کا پلان بہتر بنایا گیا ہے، primates بندر سے متعلق جانوروں کو دھوپ چاہیے ہوتی ہے ورنہ یہ بیمار پڑ جاتے ہیں تاہم مجوزہ پلان میں ان جانوروں کو جہاں رکھا جائے گا وہاں دھوپ کم پڑتی ہے، فش ایکوریم کا پلان غلط بنایا گیا ہے۔
مجوزہ پلان میں نئے فش ایکوریم کیلیے بڑے ٹینک دیے گئے ہیں، ایک ہی ٹینک میں بڑی تعداد میں مختلف قسم کی مچھلیوں کے رہنے سے ان کے پی ایچ لیول اور نمکیات(salinity ) متاثر ہوگی اور وہ بیمار پڑجائیں گی، انھوں نے کہا کہ شیروں کی موجودہ لوکیشن بھی تبدیل کرکے انھیں وہاں رکھا جانے کی تجویز ہے جہاں گرمی زیادہ پڑتی ہے جس سے شیر بیمار پڑسکتے ہیں۔
سینئر ڈائریکٹر کراچی زو منصور قاضی نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے کراچی زو کا چارج کچھ دن قبل سنبھالا ہے اس لیے ابھی وہ متعلقہ افسران سے بریفنگ اور دیگر تفصیل جمع کررہے ہیں،انھوں نے کراچی چڑیا گھر کی تعمیر نو کے حوالے سے کہا کہ متعلقہ کنسلٹنٹ کو ہدایت کی ہے کہ وہ پلان پر تفصیلی بریفنگ دیں اور کمپنی میں شامل زولوجیکل ماہرین سے ملاقات کرائیں۔
منصوبے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نیاز سومرو نے ایکسپریس کو بتایا کہ کنسلٹنٹ کی جانب سے ابھی ابتدائی رپورٹ جمع ہوئی ہے جس پر نظرثانی کیلیے وہ سندھ وائلڈ لائف،کراچی زو اور دیگر زولوجیکل ماہرین سے مشاورت کریں گے۔
نیاز سومرو نے کہا کہ کنسلٹنٹ کو ہدایت کردی گئی ہے کہ جلدازجلد ماسٹر پلان جمع کرائیں ،سندھ حکومت کراچی چڑیا گھر کو بین الاقوامی طرز پر تعمیر کرنے میں بہت سنجیدہ ہے، ماسٹر پلان کی تشکیل کے بعد صحیح لاگت کا اندازہ ہوگا جس کے بعد سندھ حکومت مزید فنڈز مختص کریگی،چڑیا گھرکی تعمیر نوکا منصوبہ سندھ حکومت کی زیر نگرانی ہورہا ہے تاہم جانوروں کی خریداری بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ذمے داری ہے،البتہ فنڈز سندھ حکومت فراہم کریگی۔
حکومت کا کراچی چڑیا گھر کو عالمی طرز پر بنانے کا منصوبہ ڈیڑھ سال سے تاخیر کا شکار ہے جب کہ زولوجیکل ماہرین کی عدم موجودگی نے اس منصوبے پر عمل درآمد کوغیریقینی بنادیا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صوبائی محکمہ بلدیات کو کراچی چڑیا گھر عالمی طرز پر بنانے کیلیے تعمیر نو کا ٹاسک سونپا، منصوبہ میں کراچی چڑیا گھر کی مکمل طور پر تعمیر نو جس میں جانوروں کے لیے اوپن انکلوژر، برڈ ایواری، ریپٹل ہاؤس،جدید سہولتوں سے مزین جانوروں کا اسپتال ، جانوروں کی خریداری ، فرسٹ ایڈ سینٹر ، ایمرجنسی سینٹر، نباتاتی باغوں کی بیوٹیفکیشن اور شجرکاری، اندرونی سڑکوں کی تعمیر ومرمت ، اسٹاف کالونی کی تعمیر نو، پبلک ٹوائلٹس اور پارکنگ ایریا شامل ہے۔
بلدیہ عظمیٰ کے ذرائع نے بتایا کہ منصوبہ کا آغاز اکتوبر 2016ء کو جو چار فیز پر مشتمل تھا اور اسے گزشتہ سال 30اکتوبر تک مکمل کرنا تھا تاہم ابھی تک سندھ حکومت نے نہ تو جانوروں کے اوپن انکلوژر کا ماسٹر پلان تشکیل دیا ہے اور نہ ہی دیگر تعمیراتی کام انجام دیے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ سندھ حکومت نے کراچی چڑیا گھر کی تعمیر نو کیلیے ابتدائی مرحلے میں 30کروڑ روپے مختص کیے ہیں،جس میں سول ورکس اور جانوروں کی خریداری شامل ہے، ماسٹر پلان کی تشکیل کے بعد منصوبہ کی لاگت میں کئی گنا اضافہ متوقع ہے ،ابھی تک صرف چڑیا گھر کے اطراف کی چار دیواری کا 95 فیصد کام مکمل کیا گیا ہے، نئی باؤنڈری وال میں جانوروں کی شبیہ پر مبنی امپورٹڈ بلاکس نصب کیے جانے تھے وہ نصب نہیں کیے گئے ہیں ، پانی کی فراہمی کیلیے نئی پائپ لائنوں کی تنصیب کا کام جاری ہے۔
علاوہ ازیں بنگال ٹائیگر، ایشیائی ہاتھی، زرافہ ، گینڈا اور دیگر مختلف قسم کے جانور اور پرندے بھی خریدے جانے تھے وہ ابھی تک نہیں خریدے جاسکے ہیں، ذرائع نے بتایا کہ جانوروں کی خریداری بلدیہ عظمیٰ کراچی کریگی تاہم فنڈز سندھ حکومت فراہم کریگی۔
اس ضمن میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جانب سے ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے ، چڑیا گھر کی تعمیر نو صوبائی حکومت کی زیر نگرانی ہورہی ہے جبکہ بلدیہ عظمیٰ کراچی صرف تعاون اور سہولیات فراہم کرنے کی ذمے دار ہے،ذرائع نے کہا کہ صوبائی حکومت نے جس کنسلٹنٹ کمپنی کو ڈیزائین بنانے کا کام سونپا ہے،اسے ماضی میں زولوجیکل گارڈن بنانے کا کوئی تجربہ نہیں ،اس لیے ڈیڑھ سال کے عرصے میں کراچی چڑیا گھر کی تعمیر نو اور جانوروں کے اوپن انکلوژر کا ماسٹر پلان تشکیل نہیں دیا جاسکا ہے،صرف ابتدائی پلان بنایا گیا ہے جس میں کئی قسم کے سقم ہیں۔
کراچی زو کے متعلقہ افسران کے مطابق ابتدائی پلان میں جانوروں کی نفسیات اور رہن سہن کا خیال نہیں رکھا گیا ہے جس کے بغیر جانوروں کی بقاء اور افزائش نسل شدید متاثر ہوگی، پلان میں موجودہ اسپتال کی لوکیشن کو کراچی چڑیا گھر کے مغربی سائیڈ پر منتقل کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو انتہائی ناموزوں ہے، مغربی سائیڈسے ہوا کا رخ تمام چڑیا گھر کا احاطہ کرتا ہے، اگر اسپتال وہاں متنقل کردیا گیا تو اسپتال میں آنے والے بیمار جانوروں کے امراض وائرل ہوجائیں گے اور تمام جانوروں اس مرض کا شکار ہوجائیں گے۔
مجوزہ پلان میں پارکنگ کی تین بڑی سائیڈ دی گئی ہیں جس سے کراچی زو کا بڑا ایریا ختم ہورہا ہے اور اس وجہ سے مستقبل میں آنے والے جانوروں کیلیے جگہ نہیں بچے گی، اوپر چڑھنے والے جانوروں بندر، ریچھ وغیرہ کیلیے بھی اوپن انکلوژر اور نہر تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔
یہ جانور اوپن انکلوژر میں نہیں رکھے جاتے ہیں کیونکہ یہ باآسانی وہاں سے نکل جاتے ہیں جبکہ ریچھ پانی میں تیر کر باہر آجاتا ہے، اس قسم کے جانوروں کو بند پنجرے میں ہی رکھا جاتا ہے، مجوزہ پلان میں پرندوں کے پنجرے صرف دو رکھے گئے ہیں جبکہ ان کی تعداد زیادہ ہونی چاہیے البتہ برڈ ایواری منصوبہ میں شامل ہے جس کا پلان بہتر بنایا گیا ہے، primates بندر سے متعلق جانوروں کو دھوپ چاہیے ہوتی ہے ورنہ یہ بیمار پڑ جاتے ہیں تاہم مجوزہ پلان میں ان جانوروں کو جہاں رکھا جائے گا وہاں دھوپ کم پڑتی ہے، فش ایکوریم کا پلان غلط بنایا گیا ہے۔
مجوزہ پلان میں نئے فش ایکوریم کیلیے بڑے ٹینک دیے گئے ہیں، ایک ہی ٹینک میں بڑی تعداد میں مختلف قسم کی مچھلیوں کے رہنے سے ان کے پی ایچ لیول اور نمکیات(salinity ) متاثر ہوگی اور وہ بیمار پڑجائیں گی، انھوں نے کہا کہ شیروں کی موجودہ لوکیشن بھی تبدیل کرکے انھیں وہاں رکھا جانے کی تجویز ہے جہاں گرمی زیادہ پڑتی ہے جس سے شیر بیمار پڑسکتے ہیں۔
سینئر ڈائریکٹر کراچی زو منصور قاضی نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے کراچی زو کا چارج کچھ دن قبل سنبھالا ہے اس لیے ابھی وہ متعلقہ افسران سے بریفنگ اور دیگر تفصیل جمع کررہے ہیں،انھوں نے کراچی چڑیا گھر کی تعمیر نو کے حوالے سے کہا کہ متعلقہ کنسلٹنٹ کو ہدایت کی ہے کہ وہ پلان پر تفصیلی بریفنگ دیں اور کمپنی میں شامل زولوجیکل ماہرین سے ملاقات کرائیں۔
منصوبے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نیاز سومرو نے ایکسپریس کو بتایا کہ کنسلٹنٹ کی جانب سے ابھی ابتدائی رپورٹ جمع ہوئی ہے جس پر نظرثانی کیلیے وہ سندھ وائلڈ لائف،کراچی زو اور دیگر زولوجیکل ماہرین سے مشاورت کریں گے۔
نیاز سومرو نے کہا کہ کنسلٹنٹ کو ہدایت کردی گئی ہے کہ جلدازجلد ماسٹر پلان جمع کرائیں ،سندھ حکومت کراچی چڑیا گھر کو بین الاقوامی طرز پر تعمیر کرنے میں بہت سنجیدہ ہے، ماسٹر پلان کی تشکیل کے بعد صحیح لاگت کا اندازہ ہوگا جس کے بعد سندھ حکومت مزید فنڈز مختص کریگی،چڑیا گھرکی تعمیر نوکا منصوبہ سندھ حکومت کی زیر نگرانی ہورہا ہے تاہم جانوروں کی خریداری بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ذمے داری ہے،البتہ فنڈز سندھ حکومت فراہم کریگی۔