نابینا افراد کا مقدمہ
میرے سامنے ایسے قابل اور باصلاحیت نابینا افراد آتے ہیں جن کے کارنامے سن کر بینائی رکھنے والے بھی اش اش کر اٹھیں
ہمیں ان معذور افراد کا خیال رکھنا چاہیے۔
فوٹو: انٹرنیٹ
ﷲ پاک نے ہر انسان کو خوبصورت، ہنرمند اور کسی مقصد کے تحت پیدا کیا ہے۔ ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خوبی خامی ضرور ہوتی ہے مگر ہوتے سب برابر ہی ہیں۔ دنیا بھر میں 6 کروڑ سے زیادہ جسمانی طور پر معذور بستے ہیں۔ ایسے افراد کےلیے مغرب میں 1983 جبکہ پاکستان میں 1981 میں قانون سازی ہوئی، مگر بدقسمتی سے اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔
اگر ہم اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو ہمیں کئی ایسے لوگ ضرور دکھائی دیں گے جنہیں ہماری ضرورت ہے۔ میں ''ضرورت'' کی بات کررہا ہوں، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ معذور افراد کسی ہمدردی کے طلب گار ہیں۔ نہیں! ہر گز نہیں۔ اس وقت پاکستان میں 5 ملین افراد بصارت سے محروم ہیں۔ وہ جاہلیت کا دور تھا جب معذور یا نابینا افراد کے ساتھ جانوروں کا سلوک کیا جاتا تھا اور انہیں بیکار یا ناکارہ سمجھ کر دھتکار دیا جاتا تھا۔ انسانی معاشرے میں اُن کے حقوق کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ زمانہ قدیم میں یہ رواج تھا کہ جو بچہ معذور ہوتا، اسے فوراً ماردیا جاتا تھا۔ جب اسلام کا ظہور ہوا تو انسانی معراج کا تعین ہوا اور نور پھیلتا گیا۔ اسلام نے انسانیت کی فلاح و بہبود اور بہتری کی تعلیم ہی کو انسانیت کی تعمیر سے تعبیر کیا ہے۔
ہم میں سے اکثر یہ بات نہیں جانتے کہ نابینا افراد کو کن کن مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور وہ کیا سوچ رکھتے ہیں؟ وہ سفر کیسے کرتے ہیں؟ اسمارٹ فون کیسے استعمال کرتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ جس پر گزرتی ہے، وہی جان سکتا ہے۔ مگر سلام ہے اُن باہمت نابینا افراد کے حوصلے کی جو اپنی معذوری کو طاقت بنا کر آگے بڑھتے ہیں۔
میرے سامنے ایسے قابل اور صلاحیتوں سے بھرپور طلباء اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نابینا افراد آتے ہیں جن کے کارنامے سن کر ایک عام انسان اش اش کر اٹھے۔
کراچی میں آصف پٹیل نامی موٹر مکینک ہیں جو صرف آواز سن کر گاڑی کا مسئلہ بتا دیتے ہیں۔ اسی طرح میرے بہت قریبی دوست خالد انور ہیں جو جامعہ کراچی میں طالب علم ہیں؛ وہ ایک بہت اچھے Rapper اور گلوکار ہیں۔ اسی طرح ایک ننھی طالبہ عاصمہ ظہور ہیں جو آٹھویں کلاس میں زیر تعلیم ہیں اور کمال مہارت سے دستکاری کرتی ہیں۔
قاری سوچ رہے ہونگے کہ اچانک یہ موضوع؟ جی ہاں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حال ہی میں نابینا افراد کا ورلڈ کپ کرکٹ 2018 منعقد ہوا جس میں پاکستان نے میزبانی کے فرائض انجام دیئے۔ نابینا افراد کی 3 بنیادی کٹیگریز ہوتی ہیں: B2، B1 اور B3۔
B1 کٹیگری میں وہ افراد شامل ہیں جو مکمل طور پر بصارت سے محروم ہوتے ہیں۔
B2 کٹیگری میں شامل افراد 3 میٹر تک دیکھ سکتے ہیں۔
B3 جو 6 میٹر تک دیکھ سکتے ہیں۔
خیر یہ بات تو کیٹیگریز کی ہوگئی۔
شروع میں بھارت نے اپنے نابینا کرکٹ کھلاڑیوں کو پاکستان بھیجنے سے انکار کردیا تھا اور 5 پاکستانی کھلاڑیوں کے ویزوں میں رکاوٹ ڈالنے کی بھی کوشش کی مگر اس میں کامیاب نہ ہو پایا۔ ورلڈکپ میں پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف 563 رنز بناکر ورلڈ ریکارڈ بھی اپنے نام کیا، وہ بھی صرف 40 اوورز میں۔ کتنی بڑی بات ہے کہ ہماری ٹیم نے کتنا اچھا کھیلا۔ یہ الگ معاملہ ہے کہ ہم فائنل میں انڈیا سے ہار گئے لیکن ''گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں'' کیا ہوا اگر ہم ہار بھی گئے تو۔
افسوس اس بات کا نہیں کہ ہم ہار گئے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پورا ٹورنامنٹ شروع ہوا اور ختم بھی ہوگیا، مگر کوئی خاص میڈیا کوریج نہیں دی گئی۔ پورا میڈیا انٹرنیشنل کرکٹ کے پیچھے لگا رہا اور 5-0 کی شرمناک شکست کا ماتم کرتا رہا یا دوسری جانب پاکستان ہاکی بمقابلہ ورلڈ الیون پر زور رہا۔ اسی طرح 15 اکتوبر کو نابینا افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے جو مظلوم عورتوں کے عالمی دن کی نذر ہوجاتا ہے۔
آج سائنس اتنی ترقی کرچکی ہے کہ 80 فیصد نابینا افراد کا علاج ممکن ہے۔ گونگے بہروں کو کان کے آلے لگا کر انہیں ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ ایسے معذور افراد جو اپنے کسی عضو سے محروم ہیں، انہیں مصنوعی اعضاء لگا کر کام کرنے کے قابل بنایا جاسکتا ہے، پھر یہ معاشرے پر بوجھ نہیں رہیں گے۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ انہیں ناکارہ اور بوجھ سمجھنے کے بجائے کارآمد بنایا جائے۔ آج نابینا افراد نے دنیا کو باور کرادیا ہے کہ ہم کسی طرح بھی کسی سے کم نہیں۔
پیٹ ایکٹ انڈسٹریل ڈیزائننگ کا ماہر تھا۔ مارلارینی سن نے ایتھلیٹکس میں 1992ء پیرالمپکس (معذور افراد کے اولمپکس) میں چار گولڈ میڈل اور 1996ء پیرالمپکس میں سلور میڈل حاصل کیا۔ جان بریم لیٹ 30 سال کی عمر میں آنکھوں کی بینائی کھو بیٹھا، لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور مصوری کرنا شروع کردی، بالآخر اسے اپنے بہترین کام کی بدولت صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ چائنیز کرسٹن ہا نے بہترین شیف ہونے کا ایوارڈ حاصل کیا۔
یہ تمام لوگ بینائی سے محروم تھے لیکن انہوں نے اپنی معذوری کو اپنی صلاحیتوں پر حاوی نہیں ہونے دیا اور آج نارمل انسانوں کی طرح کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔
اس کے برعکس ہمارے معاشرے نے ان معذور انسانوں کو ایک قابل رحم مخلوق بنا کر رکھ دیا ہے اور وہ بھی صرف دوسروں سے صرف چند الفاظ سن کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ اگر معاشرہ ان کی ہمت بندھائے تو وہ بھی مغربی معاشروں کے معذور انسانوں کی طرح اپنی صلاحیتوں سے خود کو کارآمد انسان بنا سکتے ہیں، لیکن ہمارے معاشرے اور ذمہ داروں نے ان کو انسان سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔
کیا ہمارے حکمران، ذمہ دار ادارے اور مخیر حضرات ان کا مکمل علاج معالجہ کروا کر اور انہیں ہنرمند بنا کر اس معاشرے کا کارآمد شہری نہیں بنا سکتے کہ وہ نہ صرف خود اپنی محنت سے زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں بلکہ معاشرے اور ملک و قوم کی ترقی میں بھی اپنا بھر پور کردار ادا کر سکیں۔
حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ان کےلیے مخصوص سرکاری نوکریوں پر بھی پابندی نہ لگائے۔ بہت سے مخیر حضرات ہیں جو حکومت کی مدد کرسکتے ہیں۔ پرائیویٹ اداروں کو خصوصی ہدایت دی جائے کہ وہ معذور افراد کو ملازمتیں فراہم کریں جس کےلیے انہیں ہنرمند بنایا جاسکتا ہے۔
اس تمام گفتگو کا مقصد صرف یہ ہے کہ حالات کتنے بھی خراب کیوں نہ ہوں، ہمیں ان معذور افراد کا خیال رکھنا چاہیے۔ ان کےلیے تمام اضلاع میں سوشل ویلفیئر کے دفاتر بنائے جائیں، ٹریننگ سینٹرز بنائیں تاکہ یہ ہنرمند بن کر باعزت روزگار حاصل کرسکیں۔
یہ دیکھ کر دل کڑھتا ہے کہ جب معاشرے کے معذور افراد کو نظراندازکیا جاتا ہے۔ اﷲ نہ کرے کہ آپ کا کوئی قریبی یا آپ خود نابینا ہوجائیں، تو کیسا محسوس ہوگا؟ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کےلیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔