جمہوریت پر جب بھی یلغار ہوئی عدلیہ نے آمروں کا ساتھ دیا نوازشریف

آج وزیراعظم کا عہدہ مفلوج ہوچکا ہے جب کہ اب عدل کی بحالی کی تحریک چلائی جائے گی، صدر مسلم لیگ (ن)

نظریہ ضرورت نےپاکستان کی جمہوریت کوناقابل تلافی نقصان پہنچایا،نوازشریف فوٹو: فائل

مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت پر جب بھی یلغار ہوئی ہماری عدلیہ کے ایک حصے نے آمروں کا ساتھ دیا۔

کراچی میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ 70 سال گزرگئے لیکن آج بھی ملک میں جمہوریت کامستقبل سوالیہ نشان بنا ہوا ہے، آج بھی سیاسی مطلع پوری طرح سے صاف نہیں ہوا، ہماری آب و ہوامیں گردوغبار آج بھی موجودہے، یہ وہ گردوغبار ہے جس نے جمہوریت کی منزل حاصل کرنے سے روکا۔ جمہوریت پر جب بھی یلغار ہوئی ہماری عدلیہ کے ایک حصے نے آمروں کا ساتھ دیا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : انتخابات سے دور رکھنے کی ترکیبیں

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ جمہوریت پر حملوں سے بھری ہوئی ہے، ماضی میں جمہوریت پر ایسے وار کیے گئے، جن کو آج تک بھگت رہے ہیں، جب بھی جمہوریت اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتی ہے کلہاڑی چلا دی جاتی ہے، وزیر اعظم کو من مرضی کا کھلونا بنانے کی روایت جاری ہے۔



نواز شریف نے کہا کہ نظریہ ضرورت نے پاکستان کی جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، 1999 میں جب ہماری حکومت کا خاتمہ ہوا تو ایک جج صاحب نے کہا کہ نواز شریف کا تختہ الٹ کر بہت اچھا کیا اور پھر پرویز مشرف کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ 3 سال تک پاکستان کے ساتھ جو مرضی سلوک کریں حالانکہ یہ اختیار ان کے پاس نہیں تھا۔

صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ سابق حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی لیکن اس پارلیمنٹ کے 4 ماہ رہ گئے ہیں تاہم غیر یقینی کے فضا برقرار ہے، بلوچستان اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ گزشتہ 70 برسوں میں 4 آمروں نے 30 برس اس ملک پر حکومت کی، جب بھی جمہوریت پر حملہ ہوا عدلیہ کے مخصوص طبقے نے نظریہ ضرورت کے تحت راستہ دیا۔




نوازشریف کا کہنا تھا کہ 2014 میں پہلی بار ایک آمر کو کٹہرے میں لایا گیا لیکن کیا یہ بات افسوسناک نہیں کہ منہ زور عدلیہ آمروں کے سامنے ڈھیر ہوجاتی ہے، سیاستدان کو تو پھانسی چڑھا دیا گیا لیکن کسی ڈکٹیٹر کو کچھ نہیں کہا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلیاں توڑنے کے باوجود جمہوریت کو ختم نہیں کیا جاسکا۔

کراچی میں ہی وکلا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سینیروکلا و سابق ججوں پر مشتمل کمیشن بنانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ عدل کے ایوانوں سے ہونے والی بھول قوموں کے لیے مہلک ثابت ہوتی ہیں لہذا کمیشن مولوی تمیزالدین سمیت پاناما کیس،عمران خان کیس، جہانگیرترین کیس کا جائزہ لے کر تاریخ درست کرے اور بتائے کیا میرے،عمران اور جہانگیرترین پرایک ہی معیار اپنایا گیا، یہ کمیشن عدالتی فیصلوں کوتو نہیں بدل سکتا لیکن عوام کوحقیقت کا پتا چل سکے گا۔



نوازشریف نے کہا کہ وکلا کے کردار کوعزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، میں نے بھی عدلیہ بحالی تحریک میں کردار ادا کیا تھا، عدلیہ تو بحال ہوگئی لیکن پاکستانی عوام کو انصاف نہیں مل سکا جب کہ انصاف جمہوری معاشرے کا حسن ہوتا ہے لیکن جب حقوق اورفرائض کا توازن بگڑجائے تو جرائم بڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج مقدمات کی بھاری تعداد مختلف عدالتوں میں ہے، نومبر2017 تک سپریم کورٹ میں 38ہزارسے زائد مقدمات زیر التواتھے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر نے کہا کہ پرویزمشرف نے آئین کا ستیاناس کردیا، آمرہمیشہ عدلیہ کوعزیزرہے ہیں اور انہیں ہر قسم کی رعایت دی گئی لیکن منتخب نمایندوں کو رعایت نہیں ملی، عدلیہ کا سیاستدانوں ، منتخب نمائندوں کے ساتھ اکثر سخت اور انصاف کے منافی رویہ رہا مگر اب عدل کی بحالی کی تحریک چلائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ آج وزیراعظم کا عہدہ مفلوج ہوچکا ہے، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا یہ اختیار بھی سلب کردیا ہے کہ وہ جوڈیشل کمیشن قائم کرسکیں جب کہ صوابدید کے لمبے ہاتھ انتظامیہ کے بعد اب پارلیمنٹ تک پہنچ چکے ہیں۔

نوازشریف نے کہا کہ عدلیہ کی عزت بجا ، کیا دوسروں کی عزت نفس نہیں ہوتی، عدلیہ اپنے مرتبے اور وقار کے ساتھ دوسروں کی عزت نفس کا بھی خیال رکھے، میرے لیے گاڈ فادراور سیسلین مافیا جیسے الفاظ استعمال کیے گئے جب کہ سپریم کورٹ کے جج نے کہا اڈیالہ جیل میں جگہ خالی ہے، وزیراعظم سے متعلق ایسا کہنا منصب کی توہین ہے۔

Load Next Story